سورة الانبیاء مفتی تقی عثمانی تفسیر آسان قرآن

زنیرہ عقیل

منتظم اعلی۔ أیدہ اللہ
Staff member
منتظم اعلی
شروع اللہ کے نام سے جو سب پر مہربان ہے، بہت مہربان ہے
تعارف
اس سورت کا بنیادی مقصد اسلام کے بنیادی عقائد یعنی توحید، رسالت اور آخرت کا اثبات ہے، اور ان عقائد کے خلاف کفار مکہ جو اعتراضات اٹھایا کرتے تھے، سورت میں ان کا جواب بھی دیا گیا ہے۔ آنحضرتﷺ کی نبوت پر ان لوگوں کا ایک اعتراض یہ تھا کہ ایک ہم جیسے انسان کو پیغمبر بنا کر کیوں بھیجا گیا ہے۔ اس کے جواب میں فرمایا گیا ہے کہ انسانوں کے پاس انسان ہی کو پیغمبر بنا کر بھیجنا مناسب تھا، اور اس ضمن میں بہت سے پچھلے پیغمبروں کا حوالہ دیا گیا ہے کہ وہ سب انسان ہی تھے، اور انہوں نے اپنی اپنی قوموں کو انہی عقائد کی تعلیم دی تھی جو حضرت محمد مصطفیٰﷺ کے عقائد ہیں۔ انبیائے کرام کے اسی حوالے کی بنا پر اس سورت کا نام سورة الانبیاء رکھا گیا ہے۔

آیت ۱ ۔ ۴

ترجمہ

لوگوں کے لیے ان کے حساب کا وقت قریب آ پہنچا ہے، اور وہ ہیں کہ غفلت کی حالت میں منہ پھیرے ہوئے ہیں۔
جب کبھی ان کے پروردگار کی طرف سے نصیحت کی کوئی نئی بات ان کے پاس آتی ہے تو وہ اسے مذاق بنا بنا کر اس حالت میں سنتے ہیں۔
کہ ان کے دل فضولیات میں منہمک ہوتے ہیں۔ اور یہ ظالم چپکے چپکے (ایک دوسرے سے) سرگوشی کرتے ہیں کہ یہ شخص (یعنی محمدﷺ تمہی جیسا ایک انسان نہیں تو اور کیا ہے؟ کیا پھر بھی تم سوجھتے بوجھتے جادو کی بات سننے جاؤ گے؟
پیغمبر نے (جواب میں) کہا کہ آسمان اور زمین میں جو کچھ کہا جاتا ہے، میرا پروردگار اس سب کو جانتا ہے۔ وہ ہر بات سنتا ہے، ہر چیز سے باخبر ہے۔ (۱)

تفسیر

۱۔ جو باتیں یہ کافر لوگ خفیہ طور پر کیا کرتے تھے، بعض اوقات آنحضرتﷺ وحی کے ذریعے ان سے باخبر ہو کر وہ باتیں بتا دیا کرتے تھے، اس بات کو وہ لوگ جادو کہہ دیا کرتے تھے، نبی کریمﷺ نے جواب میں فرمایا کہ یہ جادو نہیں ہے، بلکہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے آئی ہوئی وحی ہے جو زمین و آسمان میں کہی ہوئی ہر بات سے پوری طرح باخبر ہے۔

آیت ۵، ۶

ترجمہ

یہی نہیں بلکہ ان لوگوں نے یہ بھی کہا کہ یہ (قرآن) بے جوڑ خوابوں کا مجموعہ ہے، بلکہ یہ ان صاحب نے خود گھڑ لیا ہے، بلکہ یہ ایک شاعر ہیں۔ بھلا یہ ہمارے سامنے کوئی نشانی تو لے آئیں جیسے پچھلے پیغمبر (نشانیوں کے ساتھ) بھیجے گئے تھے۔
حالانکہ ان سے پہلے جس کسی بستی کو ہم نے ہلاک کیا، وہ ایمان نہیں لائی، اب کیا یہ لوگ لے آئیں گے؟ (۲)

تفسیر

۲۔ نشانی سے مراد معجزہ ہے۔ اگرچہ آنحضرتﷺ کے بہت سے معجزات ان کے سامنے آ چکے تھے، لیکن وہ نت نئے معجزوں کے مطالبات کرتے رہتے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں یہ فرمایا ہے کہ پچھلی قوموں نے بھی ایسے مطالبات کیے تھے لیکن جب ان کو ان کی فرمائش کے مطابق معجزات دکھائے گئے تب بھی وہ ایمان نہیں لائے جس کے نتیجے میں انہیں ہلاک کر دیا گیا۔ اللہ تعالیٰ کو معلوم ہے کہ یہ لوگ بھی اپنے فرمائشی معجزے دیکھنے کے بعد ایمان نہیں لائیں گے، اور اللہ تعالیٰ کی سنت یہ ہے کہ جب کوئی قوم اپنے فرمائشی معجزات دیکھ کر بھی ایمان نہ لائے تو اسے ہلاک کر دیا جاتا ہے اور ابھی اللہ تعالیٰ کو ان کی فوری ہلاکت منظور نہیں ہے۔

آیت ۷

ترجمہ

اور (اے پیغمبر) ہم نے تم سے پہلے کسی اور کو نہیں، آدمیوں ہی کو رسول بنا کر بھیجا تھا جن پر ہم وحی نازل کرتے تھے۔ لہذا (کافروں سے کہو کہ) اگر تمہیں خود علم نہیں ہے تو نصیحت کا علم رکھنے والوں سے پوچھ لو۔ (۳)

تفسیر

۳۔ نصیحت کا علم رکھنے والوں سے مراد اہل کتاب ہیں۔ یعنی اگر تمہیں خود پچھلے پیغمبروں کا علم نہیں ہے تو اہل کتاب سے پوچھ لو، وہ اس بات کی تصدیق کریں گے کہ تمام انبیائے کرام انسانوں ہی میں سے آئے ہیں۔

آیت ۸ ۔ ۱۰

ترجمہ

اور ہم نے ان (رسولوں) کو ایسے جسم بنا کر پیدا نہیں کر دیا تھا کہ وہ کھانا نہ کھاتے ہوں، اور نہ وہ ایسے تھے کہ ہمیشہ زندہ رہیں۔
پھر ہم نے ان سے جو وعدہ کیا تھا اسے سچا کر دکھایا کہ ان کو بھی بچا لیا، اور (ان کے علاوہ) جن کو ہم نے چاہا ان کو بھی، اور جو لوگ حد سے گزر چکے تھے، انہیں ہلاک کر دیا۔
(اب) ہم نے تمہارے پاس ایک ایسی کتاب اتاری ہے جس میں تمہارے لیے نصیحت ہے۔ (۴) کیا پھر بھی تم نہیں سمجھتے؟

تفسیر

۴۔ اس آیت کا ایک ترجمہ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ ہم نے تمہارے پاس ایک ایسی کتاب اتاری ہے جس میں تمہارے ہی ذکر خیر کا سامان ہے اس صورت میں مطلب یہ ہو گا کہ یہ کتاب عربی زبان میں نازل کی گئی ہے جس کے براہ راست کا مخاطب تم عرب لوگ ہو، اور یہ تمہارے لیے بہت بڑے اعزاز کی بات ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنا آخر کلام تم پر تمہاری زبان میں نازل فرمایا، اور اس سے رہتی دنیا تک دنیا کی ساری قوموں میں تمہارا ذکر خیر جاری رہے گا۔
 

زنیرہ عقیل

منتظم اعلی۔ أیدہ اللہ
Staff member
منتظم اعلی
آیت ۱۱۔ ۱۳

ترجمہ

اور ہم نے کتنی بستیوں کو پیس ڈالا جو ظالم تھیں اور ان کے بعد ہم نے دوسری نسلیں پیدا کیں۔
چنانچہ جب انہوں نے ہمارے عذاب کی آہٹ پائی تو وہ ایک دم وہاں سے بھاگنے لگے۔
(ان سے کہا گیا) بھاگو مت، اور واپس جاؤ، اپنے انہی مکانات اور اسی عیش و عشرت کے سامان کی طرف جس کے مزے تم لوٹ رہے تھے، شاید تم سے کچھ پوچھا جائے۔ (۵)

تفسیر

۵۔ یہ بات ان سے طنز کے طور پر کہی گئی۔ مطلب یہ ہے کہ جب تم اپنے عیش و عشرت میں منہمک تھے تو تمہارے نوکر چاکر تم سے پوچھا کرتے تھے کہ کیا حکم؟ اب ذرا اپنے گھروں میں واپس جا کر دیکھو، شاید تمہارے نوکر چا کر تم سے تمہارا حکم پوچھیں۔ حالانکہ واقعہ یہ ہے کہ اب نہ تمہیں اپنے گھروں کا کوئی نشان ملے گا، نہ عیش و عشرت کے سامان کا، اور نہ ان نوکروں کا جو تمہارے احکام کے منتظر رہا کرتے تھے۔

آیت ۱۴ ۔ ۱۶

ترجمہ

وہ کہنے لگے۔ ہائے ہماری کم بختی! سچی بات ہے کہ ہم لوگ ہی ظالم تھے۔
ان کی یہی پکار جا رہی رہی یہاں تک کہ ہم نے ان کو ایک کٹی ہوئی کھیتی، ایک بجھی ہوئی آگ بنا کر رکھ دیا۔
اور ہم نے آسمان، زمین اور جو کچھ ان کے درمیان ہے، اس کو اس لیے پیدا نہیں کیا کہ ہم کوئی کھیل کرنا چاہتے ہوں۔ (۶)

تفسیر

۶۔ جو لوگ دنیا کے بعد آخرت کی زندگی کا انکار کرتے ہیں، در حقیقت ان کے دعوے کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے یہ کائنات یونہی کسی مقصد کے بغیر ایک کھیل بنا کر پیدا کر دی ہے، اور جو کچھ اس دنیا میں ہو رہا ہے، اس کو کائی نتیجہ بعد میں ظاہر ہونے والا نہیں ہے، نہ کسی شخص کو اس کی نیکی کا کوئی صلہ ملے گا، اور نہ کسی ظالم اور بدکار کو اس کے گناہ کی سزا ملے گی۔ ظاہر ہے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف ایسی بات کی نسبت بہت بڑی گستاخی ہے۔

آیت ۱۷

ترجمہ

اگر ہمیں کوئی کھیل بنانا ہوتا تو ہم خود اپنے پاس سے بنا لیتے، اگر ہمیں ایسا کرنا ہی ہوتا۔ (۷)

تفسیر

۷۔ یعنی اول تو اللہ تعالیٰ کے بارے میں یہ تصور کرنا حماقت ہے کہ وہ کوئی کھیل کرنا چاہتا ہے، دوسرے اگر بفرض محال اسے کوئی دل لگی کرنی ہوتی تو اس کے لیے کائنات کا یہ سارا کارخانہ پیدا کرنے کی کیا ضرورت تھی، وہ اپنے پاس ہی سے کوئی مشغلہ بنا سکتا تھا۔

آیت ۱۸

ترجمہ

بلکہ ہم تو حق بات کو باطل پر کھینچ مارتے ہیں، جو اس کا سر توڑ ڈالتا ہے، اور وہ ایک دم مل یا میٹ ہو جاتا ہے۔ (۸) اور جو باتیں تم بنا رہے ہو، ان کی وجہ سے خرابی تمہاری ہی ہے۔

تفسیر

۸۔ یعنی کھیل دل لگی ہمارا کام نہیں ہے۔ ہم تو جو کام کرتے ہیں، وہ حق ہی حق ہوتا ہے۔ اور اس کے مقابلے میں باطل آتا ہے تو حق ہی کے ذریعے اس کا توڑ کیا جاتا ہے۔
 

زنیرہ عقیل

منتظم اعلی۔ أیدہ اللہ
Staff member
منتظم اعلی
آیت ۱۹ ۔ ۲۱

ترجمہ

اور آسمانوں اور زمین میں جو لوگ بھی ہیں، اللہ کے ہیں۔ اور جو (فرشتے) اللہ کے پاس ہیں، وہ نہ اس کی عبادت سے سرکشی کرتے ہیں، نہ تھکتے ہیں۔
وہ رات دن اس کی تسبیح کرتے رہتے ہیں، اور سست نہیں پڑتے۔
بھلا کیا ان لوگوں نے زمین میں سے ایسے خدا بنا رکھے ہیں جو نئی زندگی دیتے ہیں؟ (۹)

تفسیر

۹۔ اکثر مفسرین نے نئی زندگی دینے کا مطلب یہ بیان کیا ہے کہ جن دیوتاؤں کو انہوں نے خدا بنا رکھا ہے، کیا وہ اس بات پر قادر ہیں کہ مردوں کو نئی زندگی دے سکیں؟ اگرچہ مشرکین عرب مرنے کے بعد کی زندگی کے قائل نہیں تھے۔ لیکن جب کسی ذات کو خدا مان لیا تو اس کا منطقی تقاضا یہ ہونا چاہئے کہ اس ذات کو نئی زندگی دینے پر بھی قدرت حاصل ہو، تو کیا یہ لوگ بتوں کو ایسا قادر مانتے ہیں؟ لیکن بعض مفسرین نے یہاں نئی زندگی دینے کا مطلب یہ لیا ہے کہ ان لوگوں کا یہ عقیدہ ہے کہ دیوتا زمین کو نئی زندگی دیتے ہیں جس سے وہ سرسبز و شاداب ہو جاتی ہے، کیونکہ ان میں سے بعض کافروں کا یہ عقیدہ تھا کہ آسمان کا خدا کوئی اور ہے، اور زمین کا کوئی اور، اللہ تعالیٰ کی خدائی تو آسمان پر ہے، اور زمین کا سارا انتظام یہ دیوتا کرتے ہیں۔

آیت ۲۲

ترجمہ

اگر آسمان اور زمین میں اللہ کے سوا دوسرے خدا ہوتے تو دونوں درہم برہم ہو جاتے۔ (۱۰) لہذا عرش کا مالک اللہ ان باتوں سے بالکل پاک ہے جو یہ لوگ بنایا کرتے ہیں۔

تفسیر

۱۰۔ یہ توحید کی ایک عام فہم دلیل ہے۔ اور وہ یہ کہ اگر اس کائنات میں ایک سے زیادہ خدا ہوتے تو ہر خدا مستقل خدائی کا حامل ہوتا، اور کوئی کسی کا تابع نہ ہوتا۔ اس صورت میں ان کے فیصلوں کے درمیان اختلاف بھی ہو سکتا تھا۔ اب اگر ایک خدا نے ایک فیصلہ کیا، اور دوسرے خدا نے دوسرا فیصلہ تو یا تو ان میں سے ایک دوسرے کے آگے ہار مان لیتا، تو پھر وہ خدا ہی کیا ہوا جو کسی سے ہار مان لے، یا دونوں اپنے اپنے فیصلے کو نافذ کرنے کے لیے زور لگاتے تو متضاد فیصلوں کی تنفیذ سے آسمان اور زمین کا نظام درہم برہم ہو جاتا۔ اسی دلیل کی ایک دوسری تشریح یہ بھی کی جا سکتی ہے کہ جو لوگ آسمان اور زمین کے لیے الگ الگ خدا مانتے ہیں، ان کا یہ عقیدہ اس لیے بالکل باطل ہے کہ مشاہدے سے یہ بات ثابت ہے کہ یہ پوری کائنات ایک ہی مربوط نظام میں بندھی ہوئی ہے۔ چاند، سورج اور ستاروں سے لے کر دریاؤں، پہاڑوں اور زمین کی نباتات اور جمادات تک سب میں ایک ہم آہنگی پائی جاتی ہے جو اس بات کی واضح دلیل ہے کہ ان سب کو ایک ہی ارادے، ایک ہی مشیت اور ایک ہی منصوبہ بندی نے کام پر لگا رکھا ہے۔ اگر آسمان اور زمین کے خدا الگ الگ ہوتے تو کائنات میں اس ربط اور ہم آہنگی کا فقدان ہوتا، جس کے نتیجے میں یہ سارا نظام درہم برہم ہو جاتا۔

آیت ۲۳، ۲۴

ترجمہ

وہ جو کچھ کرتا ہے اس کا کسی کو جواب دہ نہیں ہے، اور ان سب کو جواب دہی کرنی ہو گی۔
بھلا کیا اسے چھوڑ کر انہوں نے دوسرے خدا بنا رکھے ہیں؟ (اے پیغمبر) ان سے کہو کہ لاؤ اپنی دلیل! یہ (قرآن) بھی موجود ہے جس میں میرے ساتھ والوں کے لیے نصیحت ہے، اور وہ (کتابیں) بھی موجود ہیں جن میں مجھ سے پہلے لوگوں کے لیے نصیحت تھی۔ (۱۱) لیکن واقعہ یہ ہے کہ ان میں سے اکثر لوگ حق بات کا یقین نہیں کرتے، اس لیے منہ موڑے ہوئے ہیں۔

تفسیر

۱۱۔ اللہ تعالیٰ کے ایک ہونے پر ایک عقلی دلیل تو پچھلی آیت میں بیان فرما دی گئی ہے جس کی تشریح اوپر کے حاشیے میں گذری۔ اب اس آیت میں نقلی دلیل بیان کی جا رہی ہے کہ تمام آسمانی کتابوں میں توحید کے عقیدے پر ہی زور دیا گیا ہے اس قرآن کریم کے علاوہ جتنی کتابیں پچھلی قوموں پر نازل کی گئیں، ان سب میں یہی عقیدہ بیان ہوا ہے۔

آیت ۲۵، ۲۶

ترجمہ

اور تم سے پہلے ہم نے کوئی ایسا رسول نہیں بھیجا جس پر ہم نے یہ وحی نازل نہ کی ہو کہ میرے سوا کوئی خدا نہیں ہے، لہذا میری عبادت کرو۔
یہ لوگ کہتے ہیں کہ خدائے رحمن (فرشتوں کی شکل میں) اولاد رکھتا ہے۔ (۱۲) سبحان اللہ! بلکہ (فرشتے تو اللہ کے) بندے ہیں جنہیں عزت بخشی گئی ہے۔

تفسیر

۱۲۔ اہل عرب فرشتوں کو اللہ تعالیٰ کی بیٹیاں کہا کرتے تھے۔

آیت ۲۷ ۔ ۳۰

ترجمہ

وہ اس سے آگے بڑھ کر کوئی بات نہیں کرتے، اور وہ اسی کے حکم پر عمل کرتے ہیں۔
وہ ان کی تمام اگلی پچھلی باتوں کو جانتا ہے اور وہ کسی کی سفارش نہیں کر سکتے، سوائے اس کے جس کے لیے اللہ کی مرضی ہو، اور وہ اس کے خوف سے سہمے رہتے ہیں۔
اور اگر ان میں سے کوئی (بالفرض) یہ کہے کہ اللہ کے علاوہ میں بھی معبود ہوں۔ تو اس کو ہم جہنم کی سزا دیں گے۔ ایسے ظالموں کو ہم ایسی ہی سزا دیتے ہیں۔
جن لوگوں نے کفر اپنا لیا ہے، کیا انہیں یہ معلوم نہیں ہے کہ سارے آسمان اور زمین بند تھے، پھر ہم نے انہیں کھول دیا۔ (۱۳) اور پانی سے ہر جاندار چیز پیدا کی ہے؟ (۱۴) کیا پھر بھی یہ ایمان نہیں لائیں گے؟

تفسیر

۱۳۔ اکثر مفسرین کی تفسیر کے مطابق اس آیت میں آسمان کے بند ہونے کا مطلب یہ ہے کہ اس بارش نہیں ہوتی تھی، اور زمین کے بند ہونے کا مطلب یہ ہے کہ اس سے کوئی پیداوار نہیں ہوتی تھی، اور ان دونوں کو کھولنے کا مطلب یہ ہے کہ آسمان سے پانی برسنے لگا، اور زمین سے سبزیاں اگنے لگیں، یہ تفسیر متعدد صحابہ اور تابعین سے منقول ہے۔ لیکن دوسرے بعض مفسرین نے اس کی یہ تفسیر بھی کی ہے کہ آسمان اور زمین دونوں ایک دوسرے کے ساتھ جڑے ہوئے اور یک جان تھے، اللہ تعالیٰ نے ان کو الگ الگ کیا۔
۱۴۔ اس آیت نے واضح کر دیا ہے کہ ہر جان دار چیز کی تخلیق میں پانی کا کوئی نہ کوئی دخل ضرور ہے
 

زنیرہ عقیل

منتظم اعلی۔ أیدہ اللہ
Staff member
منتظم اعلی
آیت ۳۱

ترجمہ

اور ہم نے زمین میں جمے ہوئے پہاڑ پیدا کیے ہیں تاکہ وہ انہیں لے کر ہلنے نہ پائے، (۱۵) اور اس میں ہم نے چوڑے چوڑے راستے بنائے ہیں، تاکہ وہ منزل تک پہنچ سکیں۔

تفسیر

۱۵۔ یہ حقیقت قرآن کریم نے کئی مقامات پر بیان فرمائی ہے کہ جب زمین کو بچھایا گیا تو وہ ہلتی تھی، اللہ تعالیٰ نے بڑے بڑے پہاڑ پیدا کر کے اس پر جمائے تو اس کو قرار حاصل ہوا۔ جدید سائنس نے بھی صدیوں کے بعد یہ پتہ لگایا ہے کہ بڑے بڑے بر اعظم اب بھی بہت سست رفتار سے سمندر کے پانی پر سرکتے رہتے ہیں، مگر اب ان کی رفتار اتنی دھیمی ہے کہ عام آنکھیں ان کا ادراک نہیں کر سکتیں۔

آیت ۳۲

ترجمہ

اور ہم نے آسمان کو ایک محفوظ چھت بنا دیا ہے، (۱۶) اور یہ لوگ ہیں کہ اس کی نشانیوں سے منہ موڑے ہوئے ہیں۔

تفسیر

۱۶۔ یعنی وہ گرنے اور ٹوٹنے پھوٹنے سے بھی محفوظ ہے، اور شیطانوں کی دست برد سے بھی۔

آیت ۳۳

ترجمہ

اور وہی (اللہ) ہے جس نے رات اور دن اور سورج اور چاند پیدا کیے، سب کسی نہ کسی مدار میں تیر رہے ہیں۔ (۱۷)

تفسیر

۱۷۔ قرآن کریم میں اصل لفظ ’’فلک‘‘ ہے جو عربی زبان میں گول دائرے کو کہتے ہیں۔ جس وقت یہ آیت نازل ہوئی، اس وقت فلکیات میں یہ بطلیموسی نظریہ دنیا پر چھایا ہوا تھا کہ چاند سورج اور دوسرے سیارے آسمانوں میں جڑے ہوئے ہیں، اور آسمان کی گردش کے ساتھ وہ سیارے بھی گردش کرتے ہیں۔ لیکن اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے جو الفاظ اختیار فرمائے، وہ اس بطلیموسی نظریے پر پوری طرح منطبق نہیں ہوتے، اس کے بجائے اس آیت کے مطابق ہر سیارے کا اپنا مدار ہے جس میں وہ ’’تیر رہا ہے‘‘۔ تیرنے کا لفظ بطور خاص قابل توجہ ہے، جو خلا میں تیرنے پر زیادہ صادق آتا ہے۔ سائنس اس حقیقت تک بھی بہت بعد میں پہنچی ہے کہ سیارے خلا میں تیر رہے ہیں۔

آیت ۳۴

ترجمہ

اور (اے پیغمبر) تم سے پہلے بھی ہمیشہ زندہ رہنا ہم نے کسی فرد بشر کے لیے طے نہیں کیا۔ (۱۸) چنانچہ اگر تمہارا انتقال ہو گیا تو کیا یہ لوگ ایسے ہیں جو ہمیشہ زندہ رہیں؟

تفسیر

۱۸۔ سورة طور۔ ۳۰ میں مذکور ہے کہ کفار مکہ آنحضرتﷺ کے بارے میں کہتے تھے کہ ہم ان کی موت کا انتظار کر رہے ہیں۔ اس سے ان کا مقصد یہ تھا کہ آپ کے انتقال کے موقع پر وہ خوشی منائیں گے۔ اس کے جواب میں یہ آیت نازل ہوئی کہ اول تو موت ہر شخص کو آنی ہے، اور کیا خود یہ خوشی منانے والے موت سے بچ جائیں گے۔

آیت ۳۵، ۳۶

ترجمہ

ہر جان دار کو موت کا مزہ چکھنا ہے۔ اور ہم تمہیں آزمانے کے لیے بری بھلی حالتوں میں مبتلا کرتے ہیں، اور تم سب ہمارے پاس ہی لوٹا کر لائے جاؤ گے۔
اور جن لوگوں نے کفر اپنا رکھا ہے، وہ جب تمہیں دیکھتے ہیں تو اس کے سوا ان کا کوئی کام نہیں ہوتا کہ وہ تمہارا مذاق بنانے لگتے ہیں (اور کہتے ہیں) کیا یہی صاحب ہیں جو تمہارے خداؤں کا ذکر کیا کرتے ہیں؟ (یعنی یہ کہتے ہیں کہ ان کی کوئی حقیقت نہیں) حالانکہ ان (کافروں) کی اپنی حالت یہ ہے کہ وہ خدائے رحمن ہی کا ذکر کرنے سے انکار کیے بیٹھے ہیں۔ (۱۹)

تفسیر

۱۹۔ یعنی آنحضرتﷺ تو بتوں کے بارے میں فرماتے ہیں کہ ان کی خدائی کی کوئی حقیقت نہیں، اس پر یہ لوگ عیب لگاتے ہیں کہ آپ ہمارے خداؤں کا برائی سے ذکر کر رہے ہیں، لیکن ان کا اپنا حال یہ ہے کہ جب آنحضرتﷺ اللہ تعالیٰ کا نام ’’رحمن‘‘ ذکر کرتے ہیں تو یہ اس کا انکار کرتے ہیں کہ رحمن کیا ہوتا ہے؟ دیکھئے سورة فرقان۔ ۶۰

آیت ۳۷

ترجمہ

انسان جلد بازی کی خصلت لے کر پیدا ہوا ہے۔ میں عنقریب تمہیں اپنی نشانیاں دکھلا دوں گا، لہذا تم مجھ سے جلدی مت مچاؤ (۲۰)

تفسیر

۲۰۔ جب آنحضرتﷺ دنیا یا آخرت میں اللہ تعالیٰ کے عذاب سے ڈراتے تھے تو یہ لوگ اس کا مذاق اڑاتے ہوئے کہتے تھے کہ وہ عذاب ابھی لے آؤ۔ ان آیتوں میں اس کا جواب دیا گیا ہے۔

آیت ۳۸ ۔ ۴۴

ترجمہ

اور یہ لوگ (مسلمانوں سے) کہتے ہیں کہ اگر تم سچے ہو تو آخر یہ (عذاب کی) دھمکی کب پوری ہو گی؟
کاش ان کافروں کو اس وقت کی کچھ خبر لگ جاتی جب یہ نہ اپنے چہروں سے آگ کو دوسر کر سکیں گے، اور نہ اپنی پشتوں سے، اور نہ ان کو کوئی مدد میسر آئے گی۔
بلکہ وہ (آگ) ان کے پاس ایک دم آ دھمکے گی، اور ان کے ہوش و حواس گم کر رکے رکھ دے گی، پھر نہ یہ اسے پیچھے ہٹا سکیں گے، اور نہ انہیں کوئی مہلت دی جائے گی۔
اور (اے پیغمبر) تم سے پہلے بھی پیغمبروں کا مذاق اڑایا گیا تھا، پھر ان کا مذاق بنانے والوں کو اسی چیز نے آ گھیرا جس کا وہ مذاق اڑایا کرتے تھے۔
کہہ دو کہ کون ہے جو رات میں اور دن میں خدائے رحمن (کے عذاب سے) سے تمہارا بچاؤ کرے؟ مگر وہ ہیں کہ اپنے پروردگار کے ذکر سے منہ موڑے ہوئے ہیں۔
بھلا کیا ان کے پاس ہمارے سوا کوئی ایسے خدا ہیں جو ان کی حفاظت کرتے ہوں؟ وہ تو خود اپنی مدد نہیں کر سکتے اور نہ ہمارے مقابلے میں کوئی ان کا ساتھ دے سکتا ہے۔
بلکہ معاملہ یہ ہے کہ ہم نے ان کو اور ان کے آباء و اجداد کو سامان عیش عطا کیا، یہاں تک کہ (اسی حالت میں) ان پر ایک عمر گزر گئی۔ (۲۱) بھلا کیا انہیں یہ نظر نہیں آتا کہ ہم زمین کو اس کے مختلف کناروں سے گھٹاتے چلے آ رہے ہیں۔ (۲۲) پھر کیا وہ غالب آ جائیں گے؟

تفسیر

۲۱۔ یعنی ہم نے انہیں اور ان کے باپ دادوں کو عیش و عشرت کا جو سامان دے دیا تھا، اس سے وہ لمبے عرصے تک مزے اڑاتے رہے، اور یہ سمجھ بیٹھے کہ یہ ان کا حق ہے، اور وہ جو کچھ کر رہے ہیں، ٹھیک کر رہے ہیں۔ اس غرور میں مبتلا ہو کر وہ حق کے انکار پر آمادہ ہو گئے۔
۲۲۔ یہ وہی بات ہے جو سورة رعد آیت ۴۱ میں بھی گذری ہے۔ مطلب یہ ہے کہ جزیرہ عرب کے مختلف اطراف سے شرک اور مشرکین کا اثر و رسوخ گھٹتا چلا جا رہا ہے، اور اسلام اور مسلمانوں کے اثرات بڑھ رہے ہیں۔
 

زنیرہ عقیل

منتظم اعلی۔ أیدہ اللہ
Staff member
منتظم اعلی
آیت ۴۵

ترجمہ

کہہ دو کہ میں تو تمہیں وحی کے ذریعے ڈراتا ہوں، لیکن بہرے لوگ ایسے ہیں کہ جب انہیں ڈرایا جاتا ہے تو وہ کوئی پکار نہیں سنتے۔
اور اگر تمہارے پروردگار کے عذاب کا ایک جھونکا بھی انہیں چھو جائے تو یہ کہہ اٹھیں گے کہ ہائے ہماری کم بختی! واقعی ہم لوگ ظالم تھے۔
اور ہم قیامت کے دن ایسی ترازوئیں لا رکھیں گے جو سراپا انصاف ہوں گی، (۲۳) چنانچہ کسی پر کوئی ظلم نہیں ہو گا۔ اور اگر کوئی عمل رائی کے دانے کے برابر بھی ہو گا، تو ہم اسے سامنے لے آئیں گے، اور حساب لینے کے لیے ہم کافی ہیں۔

تفسیر

۲۳۔ اس آیت نے واضح فرمایا ہے کہ قیامت کے دن صرف یہی نہیں کہ تمام لوگوں سے انصاف ہو گا، بلکہ اس بات کا بھی اہتمام کیا جائے گا کہ انصاف سب لوگوں کو آنکھوں سے نظر آئے، اس غرض کے لئے اللہ تعالیٰ ایسی ترازویں برسر عام نصب فرمائیں گے جن میں انسانوں کے اعمال کو تولا جائے گا اور اعمال کے وزن کے حساب سے انسانوں کے انجام کا فیصلہ ہو گا، انسان جو عمل بھی کرتا ہے اس دنیا میں اگرچہ ان کا نہ کوئی جسم نظر آتا ہے اور نہ ان میں کسی وزن کا احساس ہوتا ہے، لیکن آخرت میں اللہ تعالیٰ ان کا وزن کرنے کی ایسی صورت پیدا فرمائیں گے جن سے ان اعمال کی حقیقت واضح ہو جائے، اگر انسان سردی گرمی جیسی چیزوں کو تولنے کے لئے نئے نئے آلات ایجاد کر سکتا ہے تو ظاہر ہے کہ اللہ تعالیٰ اس بات پر بھی قادر ہے کہ وہ ان اعمال کو تولنے کا عملی مظاہرہ فرما دیں۔

آیت ۴۸ ۔ ۵۵

ترجمہ

اور ہم نے موسیٰ اور ہارون کو حق و باطل کا ایک معیار (ہدایت کی) ایک روشنی اور ان متقی لوگوں کے لیے نصیحت کا سامان عطا کیا تھا۔
جو دیکھتے بغیر اپنے پروردگار سے ڈریں، اور جن کو قیامت کی گھڑی کا خوف لگا ہوا ہو۔
اور اب یہ (قرآن) برکتوں والا پیغام نصیحت ہے جو ہم نے نازل کیا ہے۔ کیا پھر بھی تم اسے ماننے سے انکار کرتے ہو؟
اور اس سے پہلے ہم نے ابراہیم کو وہ سمجھ بوجھ عطا کی تھی جو ان کے لائق تھی اور ہم انہیں خوب جانتے تھے۔
وہ وقت یاد کرو جب انہوں نے اپنے باپ اور اپنی قوم سے کہا تھا کہ یہ کیا مورتیں ہیں جن کے آگے تم دھرنا دیے بیٹھے ہو؟
وہ بولے کہ ہم نے اپنے باپ دادوں کو ان کی عبادت کرتے ہوئے پایا ہے۔
ابراہیم نے کہا۔ حقیقت یہ ہے کہ تم بھی اور تمہارے باپ دادے بھی کھلی گمراہی میں مبتلا رہے ہو۔
انہوں نے کہا۔ کیا تم ہم سے سچ مچ کی بات کر رہے ہو، یا دل لگی کر رہے ہو؟ (۲۴)

تفسیر

۲۴۔ انہیں چونکہ توقع نہیں تھی کہ کوئی ان کے بتوں کے بارے میں ایسی بات کہہ سکتا ہے، اس لیے شروع میں انہیں یہ شک ہوا کہ شاید حضرت ابراہیمؑ سنجیدگی سے نہیں، بلکہ مذاق کے طور پر یہ بات کہہ رہے ہیں۔

آیت ۵۶ ۔ ۵۸

ترجمہ

ابراہیم نے کہا۔ نہیں، بلکہ تمہارا پروردگار وہ ہے جو تمام آسمانوں اور زمین کا مالک ہے، جس نے یہ ساری چیزیں پیدا کی ہیں، اور لوگو میں اس بات پر گواہی دیتا ہوں۔
اور اللہ کی قسم! جب تم پیٹھ پھیر کر چلے جاؤ گے تو میں تمہارے بتوں کے ساتھ ایک (ایسا) کام کروں گا (جس سے ان کی حقیقت کھل جائے گی)
چنانچہ ابراہیم نے ان کے بڑے بت کے سوا سارے بتوں کو ٹکڑے ٹکڑے کر دیا، تاکہ وہ لوگ ان کی طرف رجوع کریں۔ (۲۵)

تفسیر

۲۵۔ جیسا کہ سورة صافات: ۸۸ میں آنے والا ہے وہ کوئی جشن کا دن تھا جس میں ساری قوم شہر چھوڑ کر کہیں جایا کرتی تھی۔ حضرت ابراہیمؑ نے ان کے ساتھ جانے سے معذرت کر لی تھی۔ اور جب سارے لوگ چلے گئے تو بت خانے میں جا کر سارے بتوں کو توڑ ڈالا، صرف ایک بڑے بت کو چھوڑ دیا اور بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ اپنی کلہاڑی بھی اس کی گردن میں لٹکا کر چھوڑ دی۔ اس عمل سے ان کا مقصد یہ تھا کہ وہ لوگ اپنی آنکھوں سے ان بتوں کی بے بسی کا منظر دیکھ سکیں۔ اور یہ سوچیں کہ جو بت خود اپنا دفاع نہیں کر سکتے، وہ دوسروں کی کیا مدد کریں گے۔ بڑے بت کو چھوڑنے کی مصلحت اس سوال و جواب سے واضح ہو گی جو آیت نمبر ۶۳ میں آگے آ رہا ہے۔

آیت ۵۹ ۔ ۶۳

ترجمہ

وہ کہنے لگے کہ ہمارے خداؤں کے ساتھ یہ حرکت کس نے کی ہے؟ وہ کوئی بڑا ہی ظالم تھا۔
کچھ لوگوں نے کہا۔ ہم نے ایک نوجوان کو سنا ہے کہ وہ ان بتوں کے بارے میں باتیں بنایا کرتا ہے، اسے ابراہیم کہتے ہیں۔
انہوں نے کہا۔ تو پھر اس کو سب لوگوں کے سامنے لے کر آؤ، تاکہ سب گواہ بن جائیں۔
(پھر جب ابراہیم کو لایا گیا تو) وہ بولے۔ ابراہیم! کیا ہمارے خداؤں کے ساتھ یہ حرکت تم ہی نے کی ہے؟
ابراہیم نے کہا۔ نہیں، بلکہ یہ حرکت ان کے اس بڑے سردار نے کی ہے، اب انہی بتوں سے پوچھ لو، اگر یہ بولتے ہوں۔ (۲۶)

تفسیر

۲۶۔ یہ در حقیقت ان کے عقیدے پر ایک طنز تھا، وہ لوگ چونکہ بتوں کو بڑے اختیارات کا مالک سمجھتے تھے، اور بڑا بت بنانے کا مقصد یہی تھا کہ یہ چھوٹے چھوٹے خداؤں کے لیے سردار کی حیثیت رکھتا ہے، اس لیے اس طنز سے حضرت ابراہیمؑ کا مقصد یہ تھا کہ جب تم اس بڑے بت کو بتوں کا سردار سمجھتے ہو اور سردار اپنے ماتحتوں کا محافظ ہوا کرتا ہے، اس لیے اگر کسی اور شخص نے چھوٹے بتوں کو توڑا ہوتا تو تمہارے اعتقاد کے مطابق یہ سردار اسے ایسا کرنے نہ دیتا، لہذا یہ احتمال تو ہو ہی نہیں سکتا کہ کوئی اور شخص بتوں کی یہ گت بنائے، اور ان کا یہ سردار چپ چاپ دیکھتا رہے، اب تمہارے اعتقاد کے مطابق ایک ہی احتمال رہ جاتا ہے کہ خود یہ سردار ہی ان سے ناراض ہو گیا ہو، اور اسی نے ان کو توڑ پھوڑ ڈالا ہو۔ چونکہ یہ واضح طور پر ایک طنز تھا، اس لیے اس میں غلط بیان کا کوئی پہلو نہیں ہے۔ دوسری طرف یہ چھوٹے بت بھی ان کے عقیدے کے مطابق چھوٹے ہونے کے باوجود خدا ہی تھے، اس لیے حضرت ابراہیمؑ نے فرمایا کہ ان میں اتنی طاقت تو ہونی چاہئے کہ جو واقعہ ان کے ساتھ پیش آیا ہے، کم از کم وہ تمہیں بتا سکیں، اس لیے انہی سے پوچھ کر دیکھ لو کہ کیا قصہ ہوا تھا۔

آیت ۶۴، ۶۵

ترجمہ

اس پر وہ لوگ اپنے دل میں کچھ سوچنے لگے، اور (اپنے آپ سے) کہنے لگے کہ سچی بات تو یہی ہے کہ تم خود ظالم ہو۔
پھر انہوں نے اپنے سر جھکا لیے، اور کہا۔ تمہیں تو معلوم ہی ہے کہ یہ بولتے نہیں ہیں۔ (۲۷)

تفسیر

۲۷۔ حضرت ابراہیمؑ نے بتوں کی حقیقت بتانے کے لیے جو طریقہ اختیار فرمایا، اس نے انہیں کم از کم اپنے دل میں سوچنے پر مجبور کر دیا، اور ان کے دل نے گواہی دی کہ قصور در اصل ہمارا ہی ہے۔ لیکن مدتوں سے جمے ہوئے عقیدے کو چھوڑنے کی جرات نہ ہوئی، لاجواب ہو کر سر تو جھکا دیا، لیکن کہا یہ کہ یہ بات تو تم بھی جانتے ہو، اور ہم بھی پہلے سے جانتے ہیں کہ یہ بت بولتے نہیں ہیں۔

آیت ۶۶ ۔ ۶۹

ترجمہ

ابراہیم نے کہا۔ بھلا بتاؤ کہ کیا تم اللہ کو چھوڑ کر ایسی چیزوں کی عبادت کر رہے ہو جو تمہیں نہ کچھ فائدہ پہنچاتی ہیں نہ نقصان؟
تف ہے تم پر بھی، اور ان پر بھی جن کی تم اللہ کو چھوڑ کر عبادت کرے ہو۔ بھلا کیا تمہیں اتنی سمجھ نہیں؟
وہ (ایک دوسرے سے) کہنے لگے۔ آگ میں جلا ڈالو اس شخص کو، اور اپنے خداؤں کی مدد کرو، اگر تم میں کچھ کرنے کا دم خم ہے۔
(چنانچہ انہوں نے ابراہیم کو آگ میں ڈال دیا اور) ہم نے کہا۔ اے آگ! ٹھنڈی ہو جا، اور ابراہیم کے لیے سلامتی بن جا۔ (۲۸)

تفسیر

۲۸۔ اللہ تعالیٰ نے اپنی قدرت کا یہ معجزہ دکھایا کہ آگ حضرت ابراہیمؑ کے لیے ٹھنڈک اور سلامتی کا سبب بن گئی۔ جو لوگ معجزات کو ماننے سے انکار کرتے ہیں، ان کا موقف در حقیقت اللہ تعالیٰ کی قدرت کاملہ پر شک کرنے کے مرادف ہے۔ حالانکہ اگر اللہ تعالیٰ پر ایمان ہے تو یہ ماننا پڑے گا کہ آگ میں جلانے کی خاصیت اسی نے پیدا فرمائی ہے، اگر وہ اپنے ایک جلیل القدر پیغمبر کو دشمنوں کے ظلم سے بچانے کے لیے اس کی یہ خاصیت ختم کر دے تو اس میں تعجب کی کیا بات ہے؟
 

زنیرہ عقیل

منتظم اعلی۔ أیدہ اللہ
Staff member
منتظم اعلی
آیت ۷۰، ۷۱

ترجمہ

ان لوگوں نے ابراہیم کے لیے برائی کا منصوبہ بنایا تھا، مگر نتیجہ یہ ہوا کہ ہم نے انہی کو بری طرح ناکام کر دیا۔
اور ہم انہیں اور لوط کو بچا کر اس سرزمین کی طرف لے گئے جس میں ہم نے دنیا جہان کے لوگوں کے لیے برکتیں رکھی ہیں۔ (۲۹)

تفسیر

۲۹۔ لوطؑ حضرت ابراہیمؑ کے بھتیجے تھے، اور سورة عنکبوت آیت ۲۹ سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کی قوم میں سے تنہا وہی ان پر ایمان لائے تھے۔ تاریخی روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ جب انہیں آگ میں ڈالنے کی سازش ناکام ہو گئی تو نمرود نے مرعوب ہو کر ان سے تعرض نہیں کیا۔ اور وہ اللہ تعالیٰ کے حکم سے اپنے بھتیجے کو لے کر عراق سے شام کے علاقے میں تشریف لے گئے۔ قرآن کریم نے کئی مقامات پر شام اور فلسطین کے علاقے کو برکتوں والا علاقہ قرار دیا ہے۔

آیت ۷۲ ۔ ۷۴

ترجمہ

اور ہم نے ان کو انعام کے طور پر اسحاق اور یعقوب عطا کیے، اور ان میں سے ہر ایک کو ہم نے نیک بنایا۔
اور ان سب کو ہم نے پیشوا بنایا جو ہمارے حکم سے لوگوں کی رہنمائی کرتے تھے، اور ہم نے وحی کے ذریعے انہیں نیکیاں کرنے، نماز قائم کرنے اور زکوٰۃ ادا کرنے کی تاکید کی تھی، اور وہ ہمارے عبادت گزار تھے۔
اور لوط کو ہم نے حکمت اور علم عطا کیا، اور انہیں اس بستی سے نجات دی جو گندے کام کرتی تھی۔ (۳۰) حقیقت میں وہ بہت برائی والی نافرمانی قوم تھی۔

تفسیر

۳۰۔ بستی سے مراد '' سدوم '' اور اس کے ملحقات ہیں۔ (تفسیرعثمانی)
یوں تو یہ قوم بہت سے گندے کاموں میں مبتلا تھی، لیکن ان کی جس گھناؤنی حرکت کا قرآن کریم نے خاص طو رپر ذکر کیا ہے وہ ہم جنس پرستی یعنی مردوں کا مردوں سے جنسی لذت حاصل کرنا ہے، اس کا مفصل تذکرہ سورة ہود (۱۱۔ ۷۷، ۸۳) میں گزر چکا ہے۔

آیت ۷۵، ۷۸

ترجمہ

اور لوط کو ہم نے اپنی رحمت میں داخل کر لیا، وہ یقیناً نیک لوگوں میں سے تھے۔
اور نوح کو بھی (ہم نے حکمت اور علم عطا کیا) وہ وقت یاد کرو جب اس واقعے سے پہلے انہوں نے ہمیں پکارا تو ہم نے ان کی دعا قبول کی، اور ان کو اور ان کے ساتھیوں کو بڑی بھاری مصیبت سے بچا لیا۔
اور جس قوم نے ہماری نشانیوں کو جھٹلایا تھا، اس کے مقابلے میں ان کی مدد کی۔ حقیقت یہ ہے کہ وہ بہت برے لوگ تھے، اس لیے ہم نے ان سب کو غرق کر دیا۔
اور داود اور سلیمان (کو بھی ہم نے حکمت اور علم عطا کیا تھا) جب وہ دونوں ایک کھیت کے جھگڑے کا فیصلہ کر رہے تھے، کیونکہ کچھ لوگوں کی بکریاں رات کے وقت اس کھیت میں جا گھسی تھیں۔ (۳۱) اور ان لوگوں کے بارے میں جو فیصلہ ہوا اسے ہم خود دیکھ رہے تھے۔

تفسیر

۳۱۔ واقعہ یہ ہوا تھا کہ ایک شخص کی بکریوں نے رات کے وقت دوسرے کے کھیت میں گھس کر ساری فصل تباہ کر دی تھی۔ کھیت والا مقدمہ لے کر حضرت داودؑ کے پاس آیا۔ حضرت داودؑ نے فیصلہ یہ فرمایا کہ بکریوں کے مالک کا فرض تھا کہ وہ رات کے وقت بکریوں کو باندھ کر رکھتا، اور چونکہ اس کی غلطی سے کھیت والے کا نقصان ہوا اس لیے بکری والا اپنی اتنی بکریاں کھیت والے کو دے جو قیمت میں تباہ ہونے والی فصل کے برابر ہوں۔ یہ فیصلہ عین شریعت کے مطابق تھا، لیکن جب یہ لوگ باہر نکلنے لگے تو دروازے پر حضرت سلیمانؑ نے ان سے پوچھا کہ میرے والد نے کیا فیصلہ کیا ہے؟ انہوں نے بتا دیا تو حضرت سلیمانؑ نے فرمایا کہ میرے ذہن میں ایک اور صورت آ رہی ہے جس میں دونوں کا فائدہ ہے۔ حضرت داودؑ نے ان کی یہ بات سن لی تو انہیں بلا کر پوچھا کہ وہ کیا صورت ہے؟ حضرت سلیمانؑ نے فرمایا کہ بکری والا کچھ عرصے کے لیے اپنی بکریاں کھیت والے کو دیدے جن کے دودھ وغیرہ سے کھیت والا فائدہ اٹھاتا رہے اور کھیت والا اپنا کھیت بکری والے کے حوالے کر دے کہ وہ اس میں کھیتی اگائے، اور جب فصل اتنی ہی ہو جائے جتنی بکریوں کے نقصان پہچانے سے پہلے تھی تو اس وقت بکریوں والا کھیت والے کو کھیت واپس کر دے، اور کھیت والا اسے بکریاں واپس کر دے۔ یہ ایک مصالحت کی صورت تھی جس میں دونوں کا فائدہ تھا، اس لیے حضرت داودؑ نے اسے پسند فرمایا، اور دونوں فریق بھی اس پر راضی ہو گئے۔

آیت ۷۹

ترجمہ

چنانچہ اس فیصلے کی سمجھ ہم نے سلیمان کو دے دی، اور (ویسے) ہم نے دونوں ہی کو حکمت اور علم عطا کیا تھا۔ (۳۲) اور ہم نے داود کے ساتھ پہاڑوں کو تابع دار بنا دیا تھا کہ وہ پرندوں کو ساتھ لے کر تسبیح کریں۔ (۳۳) اور یہ سارے کام کرنے والے ہم تھے۔

تفسیر

۳۲۔ چونکہ حضرت داودؑ کا فیصلہ اصل قانون کے مطابق تھا۔ اور حضرت سلیمانؑ کی تجویز باہمی رضامندی سے ایک صلح کی صورت تھی، اس لیے الہ تعالیٰ نے دونوں کے بارے میں یہ فرمایا کہ ہم نے علم اور حکمت دونوں کو عطا کی تھی، لیکن مصالحت کی جو صورت حضرت سلیمانؑ نے تجویز کی اس کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اس کی سمجھ انہیں ہم نے عطا فرمائی تھی۔ اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ مقدمے کے دوران قانونی فیصلہ حاصل کرنے سے بہتر ہے کہ فریقین آپس کی رضا مندی سے مصالحت کی
۳۳۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت داودؑ کو بہت دلکش آواز عطا فرمائی تھی، اور معجزے کے طور پر یہ خصوصیت بخش تھی کہ جب وہ اللہ تعالیٰ کا ذکر کرتے تو پہاڑ بھی آپ کے ساتھ ذکر اور تسبیح میں شریک ہوتے تھے، اور اڑتے ہوئے پرندے بھی رک جاتے، اور وہ بھی ذکر کرنے لگتے تھے۔

آیت ۸۰

ترجمہ

اور ہم نے انہیں تمہارے فائدے کے لیے ایک جنگی لباس (یعنی زرہ) بنانے کی صنعت سکھائی تاکہ وہ تمہیں لڑائی میں ایک دوسرے کی زد سے بچائیں۔ (۳۴) اب بتاؤ کہ کیا تم شکر گزار ہو؟

تفسیر

۳۴۔ سورة سبا ۱۰ میں ہے کہ اللہ تعالیٰ نے لوہے کو انک ہاتھ میں نرم کر دیا تھا اور وہ اسے جس طرح چاہتے موڑ لیتے تھے، اور لوہے کی زرہ اس طرح بناتے تھے کہ اس کے تمام خانے نہایت متوازن ہوتے تھے۔ علمائے کرام نے اس آیت کے تحت فرمایا ہے کہ اس میں ہر اس صنعت کے قابل تعریف ہونے کی طرف اشارہ ہے جو انسانوں کے لیے فائدہ مند ہو۔
 

زنیرہ عقیل

منتظم اعلی۔ أیدہ اللہ
Staff member
منتظم اعلی
آیت ۸۱

ترجمہ

اور ہم نے تیز چلتی ہوئی ہوا کو سلیمان کے تابع کر دیا تھا جو ان کے حکم سے اس سرزمین کی طرف چلتی تھی جس میں ہم نے برکتیں رکھی ہیں۔ (۳۵) اور ہمیں ہر ہر بات کا پورا پورا علم ہے۔

تفسیر

۳۵۔ حضرت داودؑ کے لیے اللہ تعالیٰ نے لوہے جیسی سخت چیز کو نرم کر دیا تھا، اور حضرت سلیمانؑ کے لیے ہوا جیسی لطیف چیز کو۔ چنانچہ وہ اپنے تخت پر بیٹھ کر ہوا کو حکم دیتے تو وہ انہیں ان کی مرضی کے مطابق جہاں چاہتے لے جاتی تھی، اور سورة سبا۔ ۱۲ میں مذکور ہے کہ وہ ایک مہینے کا فاصلہ صبح کے سفر میں، اور ایک مہینے کا فاصلہ شام کے سفر میں طے کر لیا کرتے تھے اور برکتوں والی سرزمین سے مراد شام یا فلسطین کا علاقہ ہے، اور مطلب یہ ہے کہ جب وہ کہیں دور چلے جاتے تو وہ ہوا انہیں تیز رفتاری کے ساتھ واپس اپنے شہر میں لے آتی تھی جو فلسطین میں واقع تھا۔

آیت ۸۲

ترجمہ

اور کچھ ایسے شریر جنات بھی ہم نے ان کے تابع کر دییے تھے جو ان کی خاطر پانی میں غوطے لگاتے تھے۔ (۳۶) اور اس کے سوا اور بھی کام کرتے تھے۔ اور ان سب کی دیکھ بھال کرنے والے ہم تھے۔

تفسیر

۳۶۔ شریر جنات سے مراد وہ جنات ہیں جو ایمان نہیں لائے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے انہیں حضرت سلیمانؑ کے تابع کر دیا تھا، اور وہ ان کے حکم سے دریا میں غوطے لگا کر موتی نکالتے اور حضرت سلیمانؑ کو لا کر دیتے تھے۔ اور اس کے سوا اور کام بھی کرتے تھے جن کی کچھ تفصیل انشاء اللہ سورة سبا ۱۳ میں آئے گی۔

آیت ۸۳

ترجمہ

اور ایوب کو دیکھو! جب انہوں نے اپنے پروردگار کو پکارا کہ مجھے یہ تکلیف لگ گئی ہے، اور تو سارے رحم کرنے والوں سے بڑھ کر رحم کرنے والا ہے۔ (۳۷)

تفسیر

۳۷۔ حضرت ایوبؑ کے بارے میں قرآن کریم نے اتنا بتایا ہے کہ انہیں کوئی سخت بیماری لا حق ہو گئی تھی لیکن انہوں نے صبر و ضبط سے کام لیا، اور اللہ تعالیٰ کو پکارتے رہے، یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے ان کو شفا عطا فرمائی، وہ بیماری کیا تھی؟ اس کی تشریح قرآن کریم نے بیان کرنے کی ضرورت نہیں سمجھی، اسلیے اس کی تفصیل میں جانے کی ضرورت نہیں سمجھی، اس لیے اس کی تفصیل میں جانے کی ضرورت نہیں ہے، اور جو روایتیں اس سلسلے میں مشہور ہیں، وہ عام طور سے مستند نہیں ہیں۔

آیت ۸۴

ترجمہ

پھر ہم نے ان کی دعا قبول کی، اور انہیں جو تکلیف لاحق تھی، اسے دور کر دیا اور ان کو ان کے گھر والے بھی دیے، اور ان کے ساتھ اتنے ہی لوگ اور بھی (۳۸) تاکہ ہماری طرف سے رحمت کا مظاہرہ ہو، اور عبادت کرنے والوں کو ایک یادگار سبق ملے۔

تفسیر

۳۸۔ بیماری کے دوران ان کی با وفا بیوی کے سوا گھر کے بیشتر افراد حضرت ایوبؑ کا ساتھ چھوڑ گئے تھے پھر جب انہیں صحت حاصل ہوئی تو ان کی اولاد اور پوتے پوتیوں کی تعداد ان لوگوں سے دگنی ہو گئی جو بیماری کے دوران ان کا ساتھ چھوڑ گئے تھے۔

آیت ۸۵

ترجمہ

اور اسماعیل اور ادریس اور ذوالکفل کو دیکھو! یہ سب صبر کرنے والوں میں سے تھے۔ (۳۹)

تفسیر

۳۹۔ حضرت اسماعیل اور حضرت ادریسؑ کا ذکر تو پہلے سورة مریم میں گزر چکا ہے، حضرت ذوالکفل کا قرآن کریم میں صرف نام آیا ہے ان کا کوئی واقعہ قرآن کریم نے بیان نہیں فرمایا، بعض مفسرین کا خیال ہے کہ یہ بھی کوئی پیغمبر تھے، اور بعض حضرات نے فرمایا کہ یہ حضرت یسعؑ کے خلیفہ تھے، اور نبی تو نہیں تھے، لیکن بڑے اونچے درجے کے ولی تھے، واللہ اعلم۔

آیت ۸۶، ۸۷

ترجمہ

اور ان کو ہم نے اپنی رحمت میں داخل کر لیا تھا، یقیناً ان کا شمار نیک لوگوں میں ہے۔
اور مچھلی والے (پیغمبر یعنی یونسؑ) کو دیکھو! جب وہ خفا ہو کر چل کھڑے ہوئے تھے اور یہ سمجھتے تھے کہ ہم ان کی کوئی پکڑ نہیں کریں گے۔ پھر انہوں نے اندھیریوں میں سے آواز لگائی کہ (یا اللہ!) تیرے سوا کوئی معبود نہیں، تو ہر عیب سے پاک ہے، بیشک میں قصور وار ہوں۔ (۴۰)

تفسیر

۴۰۔ حضرت یونسؑ کا واقعہ پیچھے سورة یونس۔ ۹۷ میں گذر چکا ہے کہ وہ اللہ کا حکم آنے سے پہلے وہ اپنی بستی کو چھوڑ گئے تھے، اللہ تعالیٰ کو یہ بات پسند نہ آئی، اور اس کی وجہ سے ان پر یہ آزمائش آئی کہ جس کشتی میں وہ سوار ہوئے تھے۔ انہیں اس میں سے دریا میں اتار دیا گیا۔ اور ایک مچھلی انہیں نگل گئی، جس کے پیٹ میں وہ تین دن رہے، اس آیت میں اندھیریوں سے مراد مچھلی کو حکم دیا کہ وہ انہیں ایک کنارے پر لا کر پھینک دے، اور اس طرح انہیں اس گھٹن سے نجات ملی، واقعے کی مزید تفصیل انشاء اللہ سورة صافات: ۱۳۹ تا ۱۴۸ میں گذر چکی ہے۔

آیت ۸۸، ۸۹

ترجمہ

اس پر ہم نے ان کی دعا قبول کی، اور انہیں گھٹن سے نجات عطا کی۔ اور اسی طرح ہم ایمان رکھنے والوں کو نجات دیتے ہیں۔
اور زکریا کو دیکھو! جب انہوں نے اپنے پروردگار کو پکارا تھا کہ یا رب! مجھے اکیلا نہ چھوڑئیے، اور آپ سب سے بہتر وارث ہیں۔ (۴۱)

تفسیر

۴۱۔ یعنی ان کی بانجھ تھیں، اللہ تعالیٰ نے ان میں اولاد کی صلاحیت پیدا فرما دی

آیت ۹۰

ترجمہ

چنانچہ ہم نے ان کی دعا قبول کی، اور ان کو یحیٰ (جیسا بیٹا) عطا کیا، اور ان کی خاطر ان کی بیوی کو اچھا کر دیا، (۴۲) یقیناً یہ لوگ بھلائی کے کاموں میں تیزی دکھاتے تھے، اور ہمیں شوق اور رعب کے عالم میں پکارا کرتے تھے، اور ان کے دل ہمارے آگے جھکے ہوئے تھے۔

تفسیر

۴۲۔ حضرت زکریاؑ کی کوئی اولاد نہیں تھی، انہوں نے اللہ تعالیٰ سے بیٹے کے لئے دعا کی تو انہیں حضرت یحییٰؑ جیسا بیٹا عطا فرمایا گیا، اس واقعے کی تفصیل سورة آل عمران (۳۔ ۳۷ تا ۴۰) میں گزر چکی ہے۔ (

آیت ۹۱

ترجمہ

اور اس خاتون کو دیکھو جس نے اپنی عصمت کی حفاظت کی تھی، پھر ہم نے اس کے اندر اپنی روح پھونکی، اور انہیں اور ان کے بیٹے کو دنیا جہان کے لوگوں کے لیے ایک نشانی بنا دیا۔ (۴۳)

تفسیر

۴۳۔ مراد حضرت مریمؑ ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے ان کے بیٹے حضرت عیسیٰؑ کو بغیر باپ کے پیدا کر کے انہیں اپنی قدرت کاملہ کی ایک عظیم نشانی بنا دیا تھا۔
 

زنیرہ عقیل

منتظم اعلی۔ أیدہ اللہ
Staff member
منتظم اعلی
آیت ۹۲ ۔ ۹۵

ترجمہ

(لوگو) یقین رکھو کہ یہ (دین جس کی یہ تمام انبیاء دعوت دیتے رہے ہیں) تمہارا دین ہے جو ایک ہی دین ہے، اور میں تمہارا پروردگار ہوں۔ لہذا تم میری عبادت کرو۔
اور لوگوں نے اپنے دین کو آپس میں ٹکڑے ٹکڑے کر کے بانٹ لیا، (مگر) سب ہمارے پاس لوٹ کر آنے والے ہیں۔
پھر جو مومن بن کر نیک عمل کرے گا تو اس کی کوشش کی ناقدری نہیں ہو گی، اور ہم اس کوشش کو لکھے جاتے ہیں۔
اور جس کسی بستی (کے لوگوں) کو ہم نے ہلاک کیا ہے، اس کے لیے نا ممکن ہے کہ وہ پلٹ کر (دنیا میں) آ جائیں۔ (۴۴)

تفسیر

۴۴۔ کافر لوگ یہ کہا کرتے تھے کہ اگر مرنے کے بعد دوبارہ زندگی آنے والی ہے تو جو کافر پہلے مر چکے ہیں انہیں زندہ کر کے ابھی ان کا حساب کیوں نہیں لے لیا جاتا؟ یہ آیت اس کا جواب دے رہی ہے کہ حساب و کتاب اور جزا و سزا کے لئے اللہ تعالیٰ نے ایک وقت مقرر کر رکھا ہے اس سے پہلے کسی کا زندہ ہو کر اس دنیا میں آ جانا ممکن نہیں ہے۔

آیت ۹۶

ترجمہ

یہاں تک کہ جب یاجوج اور ماجوج کو کھول دیا جائے گا، اور وہ ہر بلندی سے پھسلتے نظر آئیں گے۔ (۴۵)

تفسیر

۴۵۔ مطلب یہ ہے کہ لوگوں کو دوبارہ زندہ کرنا اس وقت ہو گا جب قیامت آئے گی، اور اس کی ایک علامت یہ ہو گی کہ یاجوج اور ماجوج کے وحشی قبیلے بہت بڑی تعداد میں دنیا پر حملہ آور ہوں گے اور ایسا محسوس ہو گا کہ وہ ہر بلند جگہ سے پھسلتے ہوئے آ رہے ہیں۔

آیت ۹۷، ۹۸

ترجمہ

اور سچا وعدہ پورا ہونے کا وقت قریب آ جائے گا تو اچانک حالت یہ ہو گی کہ جن لوگوں نے کفر اپنا لیا تھا ان کی آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ جائیں گی (اور وہ کہیں گے کہ) ہائے ہماری کم بختی! ہم اس چیز سے بالکل ہی غفلت میں تھے، بلکہ ہم نے بڑے ستم ڈھائے تھے۔
(اے شرک کرنے والو!) یقین رکھو کہ تم اور جن کی تم اللہ کو چھوڑ کر عبادت کرتے ہو، وہ سب جہنم کا ایندھن ہیں۔ (۴۶) تمہیں اسی جہنم میں جا اترنا ہے۔

تفسیر

۴۶۔ پتھر کے جن بتوں کی یہ مشرکین عبادت کرتے تھے ان کو بھی سزا کے طور پر نہیں بلکہ اس لئے جہنم میں ڈالا جائے گا تاکہ اس بات کا عملی مظاہرہ کیا جائے کہ جن بتوں کو تم خدا سمجھتے تھے وہ آخر کار کتنے بے بس ثابت ہوئے۔

آیت ۹۹ ۔ ۱۰۵

ترجمہ

اگر یہ واقعی خدا ہوتے تو اس (جہنم) میں نہ جاتے۔ اور سب کے سب اس میں ہمیشہ رہیں گے۔
وہاں ان کی چیخیں نکلیں گی، اور وہاں وہ کچھ سن نہیں سکیں گے۔
(البتہ) جن لوگوں کے لیے ہماری طرف سے بھلائی پہلے سے لکھی جا چکی ہے، (یعنی نیک مومن) ان کو اس جہنم سے دور رکھا جائے گا۔
وہ اس کی سرسراہٹ بھی نہیں سنیں گے، اور وہ ہمیشہ ہمیشہ اپنی من پسند چیزوں کے درمیان رہیں گے۔
ان کو وہ (قیامت کی) سب سے بڑی پریشانی غمگین نہیں کرے گی، اور فرشتے ان کا (یہ کہہ کر) استقبال کریں گے (کہ) یہ تمہارا وہ دن ہے جس کا تم سے وعدہ کیا جاتا تھا۔
اس دن (کا دھیان رکھو) جب ہم آسمان کو اس طرح لپیٹ دیں گے جیسے کاغذوں کے طومار میں تحریریں لپیٹ دی جاتی ہیں۔ جس طرح ہم نے پہلے بار تخلیق کی ابتدا کی تھی، اسی طرح ہم اسے دوبارہ پیدا کر دیں گے۔ یہ ایک وعدہ ہے جسے پورا کرنے کا ہم نے ذمہ لیا ہے۔ ہمیں یقیناً یہ کام کرنا ہے۔
اور ہم نے زبور میں نصیحت کے بعد یہ لکھ دیا تھا کہ زمین کے وارث میرے نیک بندے ہوں گے۔ (۴۷)

تفسیر

۴۷۔ یعنی آخرت میں ساری زمین پر کسی کافر کا کوئی حصہ نہیں ہو گا، بلکہ وہ اللہ تعالیٰ کے نیک بندوں ہی کو ملے گی۔

آیت ۱۰۶ ۔ ۱۱۲

ترجمہ

بیشک اس (قرآن) میں عبادت گزار لوگوں کے لیے کافی پیغام ہے۔
اور (اے پیغمبر) ہم نے تمہیں سارے جہانوں کے لیے رحمت ہی رحمت بنا کر بھیجا ہے۔
کہہ دو کہ مجھ پر تو یہی وحی آتی ہے کہ تمہارا خدا بس ایک ہی خدا ہے۔ تو کیا تم اطاعت قبول کرتے ہو؟
پھر بھی اگر یہ لوگ منہ موڑیں تو کہہ دو کہ میں نے تمہیں علی الاعلان خبردار کر دیا ہے۔ اور مجھے یہ معلوم نہیں ہے کہ جس (سزا) کا تم سے وعدہ کیا جا رہا ہے، وہ قریب ہے یا دور۔
بیشک اللہ تعالیٰ وہ باتیں بھی جانتا ہے جو بلند آواز سے کہی جاتی ہیں، اور وہ باتیں بھی جانتا ہے جو تم چھپاتے ہو۔
اور میں نہیں جانتا شاید (سزا میں) یہ (تاخیر) تمہارے لیے ایک آزمائش ہے اور کسی خاص وقت تک کے لیے مزے کرنے کا موقع دینا ہے۔
( آخرکار) پیغمبر نے کہا کہ اے میرے پروردگار! حق کا فیصلہ کر دیجیے، اور ہمارا پروردگار بڑی رحمت والا ہے، اور جو باتیں تم بناتے ہو، ان کے مقابلے میں اسی کی مدد درکار ہے۔
٭٭٭
 
Top