سورة الحج مفتی تقی عثمانی تفسیر آسان قرآن

زنیرہ عقیل

منتظم اعلی۔ أیدہ اللہ
Staff member
منتظم اعلی
شروع اللہ کے نام سے جو سب پر مہربان ہے، بہت مہربان ہے
تعارف
اس سورت کا کچھ حصہ مدنی ہے، اور کچھ مکی۔ مطلب یہ ہے کہ اس سورت کا نزول مکہ مکرمہ میں ہجرت سے پہلے شروع ہو چکا تھا، اور تکمیل ہجرت کے بعد مدینہ منورہ میں ہوئی۔ اسی سورت میں یہ بتایا گیا ہے کہ حج کی عبادت حضرت ابراہیمؑ کے زمانے میں کس طرح شروع ہوئی، اور اس کے بنیادی ارکان کیا ہیں؟ اسی وجہ سے اس کا نام سورة حج ہے۔ مکہ مکرمہ میں مشرکین نے مسلمانوں کو طرح طرح کے ظلم کا نشانہ بنایا تھا، وہاں مسلمانوں کو صبر کی تلقین کی جاتی تھی، لیکن مدینہ منورہ آنے کے بعد اسی سورت میں پہلی بار مسلمانوں کو کفار کے ظلم و ستم کے مقابلے میں جہاد کی اجازت دی گئی، اور فرمایا گیا کہ جن کافروں نے مسلمانوں پر ظلم کر کے انہیں اپنا وطن اور گھر بار چھوڑنے پر مجبور کیا ہے، اب مسلمان ان کے خلاف تلوار اٹھا سکتے ہیں۔ اس طرح جہاد کو ایک عبادت قرار دے کر یہ خوشخبری دی گئی ہے کہ نہ صرف اس کا ثواب آخرت میں ملے گا، بلکہ دنیا میں بھی مسلمانوں کو انشاء اللہ فتح نصیب ہو گی۔ اس کے علاوہ اسلام کے بنیادی عقائد بھی بیان کیے گئے ہیں۔ چنانچہ سورت کا آغاز آخرت کے بیان سے ہوا ہے جس میں قیامت کا ہولناک منظر بڑے موثر انداز میں پیش کیا گیا ہے۔

آیت ۱ ۔ ۵

ترجمہ

اے لوگو! اپنے پروردگار (کے غضب) سے ڈرو۔ یقین جانو کہ قیامت کا بھونچال بڑی زبردست چیز ہے۔
جس دن وہ تمہیں نظر آ جائے گا اس دن ہر دودھ پلانے والی اس بچے (تک) کو بھول بیٹھے گی، جس کو اس نے دودھ پلایا اور ہر حمل والی اپنا حمل گرا بیٹھے گی، اور لوگ تمہیں یوں نظر آئیں گے کہ وہ نشے میں بدحواس ہیں، حالانکہ وہ نشے میں نہیں ہوں گے، بلکہ اللہ کا عذاب بڑا سخت ہو گا۔
اور لوگوں میں کچھ ایسے ہیں جو اللہ کے بارے میں بے جانے بوجھے جھگڑے کرتے ہیں، اور اس سرکش شیطان کے پیچھے چل کھڑے ہوتے ہیں۔
جس کے مقدر میں یہ لکھ دیا گیا ہے کہ جو کوئی اسے دوست بنائے گا تو وہ اس کو گمراہ کرے گا، اور اسے بھڑکتی دوزخ کے عذاب کی طرف لے جائے گا۔
اے لوگو! اگر تمہیں دوبارہ زندہ ہونے کے بارے میں کچھ شک ہے تو (ذرا سوچو کہ) ہم نے تمہیں مٹی سے پیدا کیا۔ (۱) پھر نطفے سے، پھر ایک جمے ہوئے خون سے، پھر ایک گوشت کے لوتھڑے سے جو (کبھی) پورا بن جاتا ہے، اور (کبھی) پورا نہیں بنتا (۲) تاکہ ہم تمہارے لیے (تمہاری) حقیقت کھول کر بتا دیں، اور ہم (تمہیں) ماؤں کے پیٹ میں جب تک چاہتے ہیں، ایک متعین مدت تک ٹھہرائے رکھتے ہیں، پھر تمہیں ایک بچے کی شکل میں باہر لاتے ہیں، پھر (تمہیں پالتے ہیں) تاکہ تم اپنی بھر پور عمر تک پہنچ جاؤ، اور تم میں سے بعض وہ ہیں جو (پہلے ہی) دنیا سے اٹھا لیے جاتے ہیں اور تمہی میں سے بعض وہ ہوتے ہیں جن کو بدترین عمر (یعنی انتہائی بڑھاپے) تک لوٹا دیا جاتا ہے، یہاں تک کہ وہ سب کچھ جاننے کے بعد بھی کچھ نہیں جانتے۔ (۳) اور تم دیکھتے ہو کہ زمین مرجھائی ہوئی پڑی ہے، پھر جب ہم اس پر پانی برساتے ہیں تو وہ حرکت میں آتی ہے، اس میں بڑھوتری ہوتی ہے، اور وہ ہر قسم کی خوشنما چیزیں اگاتی ہے۔ (۴)

تفسیر

۱۔ جو لوگ مرنے کے بعد دوبارہ زندہ ہونے کو نا ممکن یا مشکل سمجھتے ہیں، ان سے کہا جا رہا ہے کہ خود اپنی تخلیق پر غور کرو کہ اللہ تعالیٰ نے کس حیرت انگیز طریقے پر کتنے مرحلوں سے گذار کر تمہیں پیدا فرمایا تھا۔ تمہارا کوئی وجود نہیں تھا، اللہ تعالیٰ نے تمہیں وجود بخشا، تم میں جان نہیں تھی، اللہ تعالیٰ نے تم میں جان ڈالی۔ جس ذات نے اس حیرت انگیز طریقے سے تمہیں اسوقت پیدا کیا جب تم کچھ بھی نہیں تھے تو کیا وہ تمہیں مردہ لاش بننے کے بعد دوبارہ زندگی نہیں دے سکتا؟
۲۔ یعنی بعض اوقات تو اس گوشت کے لوتھڑے سے ماں کے پیٹ میں بچے کے اعضاء پورے بن جاتے ہیں اور بعض اوقات پورے نہیں بنتے۔ پھر بعض اوقات اسی نامکمل حالت میں عورت کو اسقاط ہو جاتا ہے اور بعض اوقات بچہ ناقص اعضاء کے ساتھ پیدا ہوتا ہے۔
۳۔ یعنی زیادہ بڑھاپے کی حالت میں انسان بچپن کی سی ناسمجھی کی طرف لوٹ جاتا ہے اور جوانی میں اس نے کتنا علم حاصل کیا ہو، اس بڑھاپے میں وہ سب یا اکثر حصہ بھول جاتا ہے۔
۴۔ یہ دوبارہ زندگی دینے کی دوسری دلیل ہے، اور وہ یہ کہ زمین جب خشک ہوتی ہے تو اس میں زندگی کے آثار ختم ہو جاتے ہیں، پھر اللہ تعالیٰ بارش برسا کر اس میں زندگی کی نئی لہر دوڑا دیتا ہے، اور اسی بے جان زمین سے پودے اگنے لگتے ہیں۔ جو خدا اس پر قادر ہے، کیا وہ تمہیں دوبارہ زندگی دینے پر قادر نہیں؟

آیت ۶

ترجمہ

یہ سب کچھ اس وجہ سے ہے کہ اللہ ہی کا وجود برحق ہے، (۵) اور وہی بے جانوں میں جان ڈالتا ہے، اور وہ ہر چیز پر مکمل قدرت رکھتا ہے۔

تفسیر

۵۔ مطلب یہ ہے کہ تمہاری اپنی تخلیق ہو یا زمین سے پودے اگانے کا معاملہ، ان ساری باتوں کی اصل علت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ ہی کا وجود ایسا ہے جو کسی کا محتاج نہیں اور باقی ساری چیزیں اسی کی قدرت سے وجود میں آتی ہیں۔ لہذا وہ مردوں کو زندہ کرنے کی بھی پوری قدرت رکھتا ہے۔

آیت ۷

ترجمہ

اور اس لیے کہ قیامت کی گھڑی آنے والی ہے، جس میں کوئی شک نہیں ہے، اور اس لیے کہ اللہ ان سب لوگوں کو دوبارہ زندہ کرے گا جو قبروں میں ہیں۔ (۶)

تفسیر

۶۔ انسان کی جس پیدائش کا ذکر اوپر کیا گیا ہے، وہ ایک طرف تو اللہ تعالیٰ کی قدرت کاملہ کی دلیل ہے جس سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ وہ لوگوں کے مرنے کے بعد انہیں دوبارہ زندہ کر سکتا ہے، اور دوسری طرف اسی سے یہ بات بھی ثابت ہوتی ہے کہ جن لوگوں کو دنیا میں پیدا کیا گیا ہے، ان کی پیدائش ہی اس بات کا تقاضا کرتی ہے کہ انہیں ایک اور زندگی دی جائے، کیونکہ اگر دوسری زندگی نہ ہو تو دنیا میں نیکی کرنے والے اور بدی کرنے والے، ظالم اور مظلوم سب برابر ہو جائیں گے، اور اللہ تعالیٰ ایسی نا انصافی کے لیے انسانوں کو پیدا نہیں کر سکتا کہ جو چاہے دوسروں پر ظلم کرتا رہے، یا گناہوں کا طومار لگا دے، اور اسے اپنے عمل کی کوئی سزا نہ ملے، اور اسی طرح دنیا میں کوئی شخص کتنی پاکباز زندگی گذارے، اس کو کوئی انعام نہ ملے، لہذا اللہ تعالیٰ کی حکمت کا یہ لازمی تقاضا ہے کہ جب انسانوں کو دنیا میں پیدا کیا ہے تو آخرت میں انہیں دوسری زندگی دے کر انہیں انعام یا سزا ضرور دے۔
 

زنیرہ عقیل

منتظم اعلی۔ أیدہ اللہ
Staff member
منتظم اعلی
آیت ۸ ۔ ۱۱

ترجمہ

اور لوگوں میں کچھ ایسے ہیں جو اللہ کے بارے میں جھگڑے کرتے ہیں، حالانکہ ان کے پاس نہ کوئی علم ہے نہ ہدایت، اور نہ کوئی روشنی دینے والی کتاب۔
وہ تکبر سے اپنا پہلو اکڑائے ہوئے ہیں، تاکہ دوسروں کو بھی اللہ کے راستے سے گمراہ کریں، ایسے ہی شخص کے لیے دنیا میں رسوائی ہے، اور قیامت کے دن ہم اسے جلتی ہوئی آگ کا مزہ چکھائیں گے۔
(کہ) یہ سب کچھ تیرے اس کرتوت کا بدلہ ہے جو تو نے اپنے ہاتھوں سے آگے بھیجا تھا، اور یہ بات طے ہے کہ اللہ بندوں پر ظلم ڈھانے والا نہیں ہے۔
اور لوگوں میں وہ شخص بھی ہے جو ایک کنارے پر رہ کر اللہ کی عبادت کرتا ہے۔ چنانچہ اگر اسے (دنیا میں) کوئی فائدہ پہنچ گیا تو وہ اس سے مطمئن ہو جاتا ہے اور اگر اسے کوئی آزمائش پیش آ گئی تو وہ منہ موڑ کر (پھر کفر کی طرف) چل دیتا ہے۔ (۷) ایسے شخص نے دنیا بھی کھوئی، اور آخرت بھی۔ یہی تو کھلا ہوا گھاٹا ہے۔

تفسیر

۷۔ آنحضرتﷺ کے مدینہ منورہ تشریف لانے کے بعد کئی واقعات ایسے پیش آئے کہ کچھ لوگ اس لالچ میں اسلام لائے کہ اسلام کی وجہ سے انہیں دنیا میں کچھ فوائد حاصل ہوں گے، لیکن جب ان کی توقع پوری نہیں ہوئی، بلکہ کوئی آزمائش آ گئی تو دوبارہ کفر کی طرف لوٹ گئے، یہ آیت ان کی طرف اشارہ کر رہی ہے کہ یہ لوگ حق کو حق ہونے کی وجہ سے قبول نہیں کرتے، بلکہ دنیا کے مفادات کی خاطر قبول کرتے ہیں، اور ان کی مثال اس شخص کی سی ہے جو کسی جنگ میں اس نیت سے ایک کنارے کھڑا ہو گیا ہو کہ دونوں لشکروں میں سے جس کا پلہ بھاری نظر آئے گا اس کے ساتھ ہو جاؤں گا، تاکہ کچھ مفادات حاصل کر سکوں، سبق یہ دیا گیا ہے کہ اسلام پر عمل اس لالچ میں نہ کرو کہ اس دنیا ہی میں تمہیں کوئی فائدہ مل جائے گا، بلکہ اس لئے کرو کہ وہ برحق ہے، اور اللہ تعالیٰ کی بندگی کا تقاضا یہی ہے، جہاں تک دنیا کے مفادات کا تعلق ہے وہ اللہ تعالیٰ کی حکیمانہ مشیت ہے کہ کس کو کیا دیا جائے، چنانچہ اسلام لانے کے بعد دنیوی فوائد حاصل ہو سکتے ہیں جن پر اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرنا چاہئے اور کوئی آزمائش بھی آ سکتی ہے جس میں صبر و تحمل سے کام لینا چاہئے اور اللہ تعالیٰ سے دعا کرنی چاہئے کہ مصیبت دور فرما کر آزمائش سے نکال دے۔

آیت ۱۲، ۱۳

ترجمہ

وہ اللہ کو چھوڑ کر ان کی عبادت کرتا ہے جو نہ اسے نقصان پہنچا سکتے ہیں، نہ کوئی فائدہ دے سکتے ہیں۔ یہی تو پرلے درجے کی گمراہی ہے۔
یہ ایسے (جھوٹے خدا) کو پکارتے ہیں جس کا نقصان اس کے فائدے سے زیادہ قریب ہے۔ (۸) ایسا مددگار بھی کتنا برا ہے، اور ایسا ساتھی بھی کتنا برا۔ (۹)

تفسیر

۸۔ اصل میں ان جھوٹے خداؤں میں خود تو نہ کوئی فائدہ پہچانے کی طاقت ہے، نہ نقصان پہچانے کی۔ البتہ یہ نقصان پہنچنے کا سبب بن سکتے ہیں، اور وہ اس طرح کہ جو شخص انہیں اللہ تعالیٰ کی خدائی میں شرک مانے گا، وہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے سزا کا مستحق ہو گا۔
۹۔ جس کا نقصان فائدے سے زیادہ ہو، وہ نہ مددگار بنانے کے لائق ہے اور نہ ساتھی بنانے کے لائق۔ لہذا ان بتوں سے امیدیں لگانا حماقت کے سوا کچھ نہیں

آیت ۱۴، ۱۵

ترجمہ

جو لوگ ایمان لائے ہیں، اور انہوں نے نیک عمل کیے ہیں، اللہ یقیناً ان کو ایسے باغات میں داخل کرے گا جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی، یقیناً اللہ ہر وہ کام کرتا ہے جس کا ارادہ کر لیتا ہے۔
جو شخص یہ سمجھتا تھا کہ اللہ دنیا اور آخرت میں اس (پیغمبر) کی مدد نہیں کرے گا تو وہ آسمان تک ایک رسی تان کر رابطہ کاٹ ڈالے، پھر دیکھے کہ کیا اس کی یہ تدبیر اس کی جھنجلاہٹ دور کر سکتی ہے؟ (۱۰)

تفسیر

۱۰۔ رسی تان کر رابطہ کاٹ ڈالنے کے ایک معنی تو عربی محاورے کے مطابق پھانسی دے کر گلا گھونٹنے کے ہوتے ہیں۔ اگر یہاں یہ معنی لیے جائیں، جیسا کہ حضرت عبداللہ بن عباسؓ سے منقول ہیں، تو اس صورت میں آسمان سے مراد اوپر کی سمت یعنی چھت ہو گی، اور آیت کا مطلب یہ ہو گا کہ ایسا شخص جس کا خیال یہ تھا کہ آنحضرتﷺ کو کسی قسم کی کامیابی حاصل نہیں ہو گی، اس کا یہ خیال نہ پورا ہوا ہے، نہ ہو گا۔ اس پر اگر اسے غصہ اور جھنجھلاہٹ ہے تو وہ چھت کی طرف ایک رسی تان کر اپنے آپ کو پھانسی دے، اور اپنا گلا گھونٹ لے۔
اور آسمان تک رسی تان کر رابطہ کاٹ لینے کی ایک دوسری تشریح حضرت جابر بن زید سے منقول ہے، اور وہ یہ کہ آنحضرتﷺ کو جو کامیابیاں حاصل ہو رہی ہیں، ان کا سر چشمہ وہ وحی ہے جو آپ پر آسمان سے نازل ہوتی ہے۔ اب اگر کسی شخص کو ان کامیابیوں پر غم و غصہ ہے، اور وہ ان کامیابیوں کا راستہ روکنا چاہتا ہے تو اس کا ایک ہی طریقہ ہو سکتا ہے کہ وہ کوئی رسی تان کر آسمان تک جائے، اور وہاں سے آنحضرتﷺ کا وہ رابطہ کاٹ دے جس کے ذریعے آپ پر وحی آ رہی ہے، اور کامیابیاں حاصل ہو رہی ہیں۔ ظاہر ہے کہ یہ بات کسی کے بس میں نہیں ہے، اس لیے آیت کا مطلب یہ ہے کہ ایسے شخص کو مایوسی کے سوا کچھ حاصل نہیں ہو سکتا (روح المعانی)

آیت ۱۶ ۔ ۱۸

ترجمہ

اور ہم نے اس (قرآن) کو کھلی کھلی نشانیوں کی صورت میں اسی طرح اتارا ہے، اور اللہ جس کو چاہتا ہے، ہدایت دیتا ہے۔
بلاشبہ مومن ہوں یا یہودی، صابی ہوں یا نصرانی اور مجوسی، یا وہ جنہوں نے شرک اختیار کیا ہے، اللہ قیامت کے دن ان سب کے درمیان فیصلہ کرے گا۔ یقیناً اللہ ہر چیز کا گواہ ہے۔
کیا تم نے نہیں دیکھا کہ اللہ کے آگے وہ سب سجدہ کرتے ہیں جو آسمانوں میں ہیں اور وہ سب جو زمین میں ہیں۔ (۱۱) نیز سورج اور چاند، اور ستارے اور پہاڑ، اور درخت اور جانور، اور بہت سے انسان بھی۔ اور بہت سے ایسے بھی ہیں جن پر عذاب طے ہو چکا ہے۔ اور جسے اللہ ذلیل کر دے، کوئی نہیں ہے جو اسے عزت دے سکے۔ یقیناً اللہ وہی کرتا ہے جو چاہتا ہے۔

تفسیر

۱۱۔ ان مخلوقات کے سجدہ کرنے کا مطلب یہ ہے کہ یہ سب چیزیں اللہ تعالیٰ کی تابع فرمان ہیں، اور ہر چیز اس کے ہر حکم کے آگے سر جھکائے ہوئے ہے، نیز اس سے عبادت کا سجدہ بھی مراد ہو سکتا ہے، کیونکہ اتنی سمجھ کائنات کی ہر چیز میں موجود ہے کہ اسے اللہ تعالیٰ نے پیدا کیا ہے، اور اسی کی عبادت کرنی چاہئے، البتہ ہر چیز کے سجدے کی صورت مختلف ہے، اس پوری کائنات میں انسان ہی ایسی مخلوق ہے جس کے تمام افراد عبادت کا سجدہ نہیں کرتے، بلکہ بہت سے کرتے ہیں بعض نہیں کرتے اس لئے انسانوں کا ذکر کرتے ہوئے یہ فرمایا گیا ہے کہ بہت سے انسان بھی۔ یاد رہے کہ یہ سجدہ کی آیت ہے، جو شخص اصل عربی میں یہ آیت تلاوت کرے یا سنے اس پر سجدہ واجب ہے۔
 

زنیرہ عقیل

منتظم اعلی۔ أیدہ اللہ
Staff member
منتظم اعلی
آیت ۱۹ ۔ ۲۵

ترجمہ

یہ (مومن اور کافر) دو فریق ہیں جنہوں نے اپنے پروردگار کے بارے میں ایک دوسرے سے جھگڑا کیا ہے۔ اب (اس کا فیصلہ اس طرح ہو گا کہ) جن لوگوں نے کفر اپنا یا ہے، ان کے لیے آگ کے کپڑے تراشتے جائیں گے، ان کے سروں کے اوپر سے کھولتا ہوا پانی چھوڑا جائے گا۔
جس سے ان کے پیٹ کے اندر کی چیزیں اور کھالیں گل جائیں گی۔
اور ان کے لیے لوہے کے ہتھوڑے ہوں گے۔
جب کبھی تکلیف سے تنگ آ کر وہ اس سے نکلنا چاہیں گے تو انہیں پھر اسی میں لوٹا دیا جائے گا، کہ چکھو جلتی آگ کا مزہ۔
(دوسری طرف) جو لوگ ایمان لائے ہیں اور جنہوں نے نیک کام کیے ہیں، اللہ ان کو ایسی جنتوں میں داخل کرے گا جن کے نیچے سے نہریں بہتی ہوں گی، جہاں انہیں سونے کے کنگنوں اور موتیوں سے سجایا جائے گا، اور جہاں ان کا لباس ریشم ہو گا۔
اور (وجہ یہ ہے کہ) ان لوگوں کی رسائی پاکیزہ بات (یعنی کلمہ توحید) تک ہو گئی تھی، اور وہ اس خدا کے راستے تک پہنچ گئے تھے جو ہر تعریف کا مستحق ہے۔
بیشک وہ لوگ (سزا کے لائق ہیں) جنہوں نے کفر اپنا لیا ہے اور جو دوسروں کو اللہ کے راستے سے اور اس مسجد حرام سے روکتے ہیں جسے ہم نے لوگوں کے لیے ایسا بنایا ہے کہ اس میں وہاں کے باشندے اور باہر سے آنے والے سب برابر ہیں۔ (۱۲) اور جو کوئی شخص اس میں ظلم کر کے ٹیڑھی راہ نکالے گا، (۱۳) ہم اسے دردناک عذاب کا مزہ چکھائیں گے۔

تفسیر

۱۲۔ مسجد حرام اور اس کے آس پاس کے وہ مقامات جن میں حج کے افعال ادا ہوتے ہیں، مثلاً صفا اور مروہ کے درمیان سعی کی جگہ، منی، عرفات اور مزدلفہ کسی شخص کی ذات ملکیت نہیں ہیں، بلکہ وہ دنیا بھر کے مسلمانوں کے لیے وقف عام ہیں، اور ان کو عبادت کے لیے استعمال کرنے میں مقامی باشندے اور باہر سے آنے والے سب برابر ہیں۔
۱۳۔ ٹیڑھی راہ نکالنے سے مراد کفر و شرک حرم کے احکام کی خلاف ورزی، بلکہ ہر قسم کا گناہ ہے۔ حرم میں جس طرح ہر نیکی کا ثواب بڑھ جاتا ہے، اسی طرح بعض صحابہ کرام سے منقول ہے کہ یہاں گناہوں کا وبال بھی دوسری جگہوں کے مقابلے میں زیادہ ہے۔

آیت ۲۶

ترجمہ

اور یاد کرو وہ وقت جب ہم نے ابراہیم کو اس گھر (یعنی خانہ کعبہ) کی جگہ بتا دی تھی۔ (۱۴) (اور یہ ہدایت دی تھی کہ) میرے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرانا، اور میرے گھر کو ان لوگوں کے لیے پاک رکھنا جو (یہاں) طواف کریں، اور عبادت کے لیے کھڑے ہوں، اور رکوع سجدے بجا لائیں۔

تفسیر

۱۴۔ جیسا کہ سورة بقرہ آیت ۱۲۷ میں گذر چکا ہے، بیت اللہ حضرت ابراہیمؑ سے پہلے تعمیر ہو کر منہدم ہو گیا تھا، اللہ تعالیٰ نے انہیں وہ جگہ بتائی جہاں بیت اللہ کو دوبارہ تعمیر کرنا منظور تھا۔

آیت ۲۷، ۲۸

ترجمہ

اور لوگوں میں حج کا اعلان کر دو، کہ وہ تمہارے پاس پیدل آئیں، اور دور دراز کے راستوں سے سفر کرنے والی ان اونٹنیوں پر سوار ہو کر آئیں جو (لمبے سفر سے) دبلی ہو گئی ہوں۔
تاکہ وہ ان فوائد کو آنکھوں سے دیکھیں جو ان کے لیے رکھے گئے ہیں، اور متعین دنوں میں ان چوپایوں پر اللہ کا نام لیں جو اللہ نے انہیں عطا کیے ہیں۔ (۱۵) چنانچہ (مسلمانو) ان جانورو میں سے خود بھی کھاؤ اور تنگ دست محتاج کو بھی کھلاؤ۔

تفسیر

۱۵۔ حج کے کاموں میں ایک اہم کام جانوروں کی قربانی ہے کہ ان پر اللہ تعالیٰ کا نام لے کر انہیں ذبح کیا جائے۔ یہ اس کی طرف اشارہ ہے۔

آیت ۲۹

ترجمہ

پھر (حج کرنے والے) لوگوں کو چاہیے کہ وہ اپنا میل کچیل دور کریں، اور اپنی منتیں پوری کریں، اور اس بیت عتیق کا طواف کریں۔ (۱۶)

تفسیر

۱۶۔ حج کے دوران انسان احرام میں ہوتا ہے تو اس کے لیے بال کاٹنا اور ناخن تراشنا جائز نہیں رہتا۔ یہ پابندیاں اس وقت ختم ہوتی ہیں جب وہ حج کی قربانی سے فارغ ہو جائے۔ چنانچہ یہاں میل کچیل دور کرنے کا مطلب یہ ہے کہ حج کرنے والے قربانی کے بعد جسم کے بال اور ناخن کاٹ سکتے ہیں۔ اور منتیں پوری کرنے کا مطلب یہ ہے کہ واجب قربانی کے علاوہ بہت سے حضرات یہ منتیں مان لیا کرتے تھے کہ حج کے موقع پر ہم اپنی طرف سے بھی قربانی کریں گے۔ اس کے بعد بیت اللہ شریف کے جس طواف کا ذکر ہے، اس سے مراد طواف زیارت ہے۔ یہ طواف عام طور پر قربانی اور سر منڈانے کے بعد کیا جاتا ہے اور حج کا اہم رکن ہے۔ بیت اللہ کو یہاں بیت عتیق کہا گیا ہے۔ اس کے ایک معنی تو قدیم کے ہیں۔ یعنی یہ اس معنی میں قدیم ترین گھر ہے کہ دنیا میں سب سے پہلا گھر ہے جو عبادت کے لیے تعمیر کیا گیا۔ اور اس کے ایک معنی ’’آزاد‘‘ کے بھی ہیں۔ اور ایک حدیث میں آنحضرتﷺ نے اسے آزاد کہنے کی وجہ یہ بتائی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اسے ظالموں کے قبضہ کر لینے سے آزاد رکھا ہے۔

آیت ۳۰

ترجمہ

یہ ساری باتیں یاد رکھو، اور جو شخص ان چیزوں کی تعظیم کرے گا جن کو اللہ نے حرمت دی ہے تو اس کے حق میں یہ عمل اس کے پروردگار کے نزدیک بہت بہتر ہے۔ سارے مویشی تمہارے لیے حلال کر دیے گئے ہیں، سوائے ان جانوروں کے جن کی تفصیل تمہیں پڑھ کر سنا دی گئی ہے۔ (۱۷) لہذا بتوں کی گندگی اور جھوٹی بات سے اس طرح بچ کر رہو۔

تفسیر

۱۷۔ جانوروں کی قربانی کا ذکر آیا تو مشرکین عرب کی اس جاہلانہ رسم کی بھی تردید کر دی گئی جس کی رو سے انہوں نے بتوں کے نام پر بہت سے جانوروں کو حرام قرار دے رکھا تھا (تفصیل کے لیے دیکھئے سورة انعام: آیت ۱۳۷ تا آیت ۱۴۴) چنانچہ یہ بتا دیا گیا کہ یہ سب چوپائے تمہارے لیے حلال ہیں، سوائے ان چیزوں کے جنہیں قرآن کریم نے سورة مائدہ: ۳ میں حرام قرار دیا ہے۔ پھر اسی کے ساتھ جس بنیاد پر مشرکین ان جانوروں کو حرام قرار دیتے تھے، یعنی بتوں کو اللہ تعالیٰ کا شریک ماننا اور ان کے نام پر جانوروں کو چھوڑ دینا، اس بنیاد کو بھی یہ فرما کر ختم کر دیا گیا ہے کہ بتوں کی گندگی سے اور جھوٹی باتوں سے بچو۔
 

زنیرہ عقیل

منتظم اعلی۔ أیدہ اللہ
Staff member
منتظم اعلی
آیت ۳۱

ترجمہ

کہ تم یکسوئی کے ساتھ اللہ کی طرف رخ کیے ہوئے ہو، اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ مانتے ہو۔ اور جو شخص اللہ کے ساتھ کسی کو شریک ٹھہرائے تو گویا وہ آسمان سے گر پڑا۔ پھر یا تو پرندے اسے اچک لے جائیں، یا ہوا اسے کہیں دور دراز کی جگہ لا پھینکے۔ (۱۸)

تفسیر

۱۸۔ اس تمثیل کا مطلب یہ ہے کہ ایمان کی مثال آسمان کی سی ہے۔ جو شخص شرک کا ارتکاب کرتا ہے، وہ ایمان کے بلند مقام سے نیچے گر پڑتا ہے۔ پھر پرندوں کے اچک لے جانے کا مطلب یہ ہے کہ اس کی خواہشات اسے راہ راست سے بھٹکا کر ادھر ادھر لیے پھرتی ہیں، اور ہوا کے دور دراز پھینک دینے سے اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ شیطان اسے مزید گمراہی میں مبتلا کر دیتا ہے۔ خلاصہ یہ کہ ایسا شخص ایمان کے بلند مقام سے نیچے گر کر اپنی نفسانی خواہشات اور شیاطین کا غلام بن بیٹھتا ہے جو اسے گمراہی کی انتہا تک پہنچا دیتے ہیں۔

آیت ۳۲

ترجمہ

یہ ساری باتیں یاد رکھو، اور جو شخص اللہ کے شعائر کی تعظیم کرے، تو یہ بات دلوں کے تقویٰ سے حاصل ہوتی ہے۔ (۱۹)

تفسیر

۱۹۔ شعائر کے معنی ہیں وہ علامتیں جن کو دیکھ کر کوئی دوسری چیز یاد آئے۔ اللہ تعالیٰ نے جو عبادتیں واجب قرار دی ہیں، اور خاص طور پر جن مقامات پر حج کی عبادت مقرر فرمائی ہے، وہ سب اللہ تعالیٰ کے شعائر میں داخل ہیں، اور ان کی تعظیم ایمان کا تقاضا ہے۔

آیت ۳۳

ترجمہ

تمہیں ایک معین وقت تک ان (جانوروں سے) فوائد حاصل کرنے کا حق ہے۔ (۲۰) پھر ان کے حلال ہونے کی منزل اسی قدیم گھر (یعنی خانہ کعبہ) کے آس پاس ہے۔

تفسیر

۲۰۔ یعنی جب تک تم نے ان جانوروں کو حج کی قربانی کے لیے خاص نہ کر لیا ہو، اس وقت تک تم ان سے ہر طرح کے فوائد حاصل کر سکتے ہو، ان پر سواری کرنا بھی جائز ہے، ان کا دودھ پینا بھی ان کے جسم سے اون حاصل کرنا بھی، لیکن جب انہیں حج کے لیے خاص کر لیا گیا تو پھر ان میں سے کوئی کام جائز نہیں رہتا۔ اس کے بعد تو انہیں بیت اللہ کے آس پاس یعنی حدود حرم میں ذبح کر کے حلال کرنا ہی واجب ہے۔ اور حج کے لیے خاص کرنے کی مختلف علامتیں ہیں جن کی تفصیل فقہ کی کتابوں میں مذکور ہے۔

آیت ۳۴ ۔ ۳۶

ترجمہ

اور ہم نے ہر امت کے لیے قربانی اس غرض کے لیے مقرر کی ہے کہ وہ ان مویشیوں پر اللہ کا نام لیں جو اللہ نے انہیں عطا فرمائے ہیں۔ لہذا تمہارا خدا بس ایک ہی خدا ہے، چنانچہ تم اسی کی فرمانبرداری کرو، اور خوش خبری سنا دو ان لوگوں کو جن کے دل اللہ کے آگے جھکے ہوئے ہیں۔
جن کا حال یہ ہے کہ جب ان کے سامنے اللہ کا ذکر کیا جاتا ہے تو ان کے دلوں پر رعب طاری ہو جاتا ہے، اور جو اپنے اوپر پڑنے والی ہر مصیبت پر صبر کرنے والے ہیں، اور نماز قائم کرنے والے ہیں، اور جو رزق ہم نے انہیں دیا ہے، اس میں سے (اللہ کے راستے میں) خرچ کرتے ہیں۔
اور قربانی کے اونٹ اور گائے کو ہم نے تمہارے لیے اللہ کے شعائر میں شامل کیا ہے، تمہارے لیے ان میں بھلائی ہے۔ چنانچہ جب وہ ایک قطار میں کھڑے ہوں، ان پر اللہ کا نام لو، پھر جب (ذبح ہو کر) ان کے پہلو زمین پر گر جائیں تو ان (کے گوشت) میں سے خود بھی کھاؤ، اور ان محتاجوں کو بھی کھلاؤ جو صبر سے بیٹھے ہوں، اور ان کو بھی جو اپنی حاجت ظاہر کریں۔ (۲۱) اور ان جانوروں کو ہم نے اسی طرح تابع بنا دیا ہے تاکہ تم شکر گزار بنو۔

تفسیر

۲۱۔ یہاں قرآن کریم نے دو لفظ استعمال فرمائے ہیں، ایک قانع، جس کا مطلب ہے وہ شخص جو حاجت مند تو ہے لیکن اپنی حاجت کسی کے سامنے ظاہر نہیں کرتا، بلکہ صبر کیے بیٹھا ہے اور دوسرا معتر، جس کا مطلب وہ شخص ہے جو اپنی حاجت اپنے کسی قول یا فعل سے ظاہر کر دے۔

آیت ۳۷، ۳۸

ترجمہ

اللہ کو نہ ان کا گوشت پہنچتا ہے نہ ان کا خون، لیکن اس کے پاس تمہارا تقویٰ پہنچتا ہے، اس نے یہ جانور اسی طرح تمہارے تابع بنا دیے ہیں تاکہ تم اس بات پر اللہ کی تکبیر کرو کہ اس نے تمہیں ہدایت عطا فرمائی، اور جو لوگ خوش اسلوبی سے نیک عمل کرتے ہیں، انہیں خوشخبری سنا دو۔
بیشک اللہ ان لوگوں کا دفاع کرے گا جو ایمان لے آئے ہیں، (۲۲) یقین جانو کہ اللہ کسی دغا باز ناشکرے کو پسند نہیں کرتا۔

تفسیر

۲۲۔ مکہ مکرمہ میں کافروں کی طرف سے مسلمانوں پر جو ظلم توڑے جا رہے تھے، شروع میں قرآن کریم ہی نے انہیں بار بار صبر سے کام لینے کا حکم دیا تھا، اب اس آیت میں یہ تسلی دی جا رہی ہے کہ مسلمانوں کے لئے یہ صبر آزما مرحلہ اب ختم ہونے والا ہے اور وقت آ گیا ہے کہ ان ظالموں کے ظلم کا جواب دیا جائے، چنانچہ اگلی آیت میں مسلمانوں کو جہاد کی اجازت دی گئی ہے، لیکن اس سے پہلے یہ خوشخبری دے دی گئی ہے کہ اللہ تعالیٰ خود مسلمانوں کا دفاع کرے گا اس لئے وہ اب بے خوف ہو کر لڑیں اور وجہ یہ ہے کہ جن لوگوں سے لڑائی ہونی ہے وہ دغا باز اور ناشکرے لوگ ہیں، جنہیں اللہ تعالیٰ پسند نہیں کرتا، اس لئے وہ ان کے خلاف مسلمانوں ہی کی مدد کرے گا۔

آیت ۳۹

ترجمہ

جن لوگوں سے جنگ کی جا رہی ہے، انہیں اجازت دی جاتی ہے (کہ وہ اپنے دفاع میں لڑیں) کیونکہ ان پر ظلم کیا گیا ہے، (۲۳) اور یقین رکھو کہ اللہ ان کو فتح دلانے پر پوری طرح قادر ہے۔

تفسیر

۲۳۔ مکہ مکرمہ میں تئیس سال تک صبر و ضبط کی تلقین کے بعد یہ پہلی آیت ہے جس میں مسلمانوں کو کافروں کے خلاف تلوار اٹھانے کی اجازت دی گئی، اس سے پہلے مسلمانوں کو کفار کے ظلم و ستم کا کوئی جواب دینے کی اجازت نہیں تھی، بلکہ ہر زیادتی پر صبر کرنے کا حکم دیا گیا تھا۔

آیت ۴۰

ترجمہ

یہ وہ لوگ ہیں جنہیں صرف اتنی بات پر اپنے گھروں سے ناحق نکالا گیا ہے کہ انہوں نے یہ کہا تھا کہ ہمارا پروردگار اللہ ہے۔ اور اگر اللہ لوگوں کے ایک گروہ (کے شر) کو دوسرے کے ذریعے دفع نہ کرتارہتا تو خانقاہیں اور کلیسا اور عبادت گا ہیں اور مسجدیں جن میں اللہ کا کثرت سے ذکر کیا جاتا ہے، سب مسمار کر دی جاتیں۔ (۲۴) اور اللہ ضرور ان لوگوں کی مدد کرے گا جو اس (کے دین) کی مدد کریں گے۔ بلاشبہ اللہ بڑی قوت والا، بڑے اقتدار والا ہے۔

تفسیر

۲۴۔ اس آیت میں جہاد کی حکمت بیان فرمائی گئی ہے اور وہ یہ کہ جتنے انبیاء کرامؑ دنیا میں آئے ہیں، اپنے اپنے وقت میں انہوں نے صرف اللہ تعالیٰ کی عبادت کی تعلیم دی، اور اس کے لئے عبادت گا ہیں بنائیں، حضرت عیسیٰؑ کی شریعت میں اس کام کے لئے خانقاہیں اور کلیسا بنائے گئے جنہیں عربی میں صومعہ اور بیعہ کہا جاتا ہے، حضرت موسیٰؑ کے پیرووں نے جو عبادت گا ہیں بنائیں ان کو صلوات کہا گیا ہے اور مسلمانوں کی عبادت گاہوں کو مسجد کہا جاتا ہے، جو لوگ ان آسمانی مذاہب کے مخالف تھے وہ ان عبادت گاہوں کو مٹانے کے درپے رہے، اگر ان کے خلاف جہاد کی اجازت نہ ہوتی تو وہ ان عبادت گاہوں کو مسمار کر ڈالتے۔
 

زنیرہ عقیل

منتظم اعلی۔ أیدہ اللہ
Staff member
منتظم اعلی
آیت ۴۱

ترجمہ

یہ ایسے لوگ ہیں کہ اگر ہم انہیں زمین میں اقتدار بخشیں تو وہ نماز قائم کریں، اور زکوٰۃ ادا کریں، اور لوگوں کو نیکی کی تاکید کریں، اور برائی سے روکیں، (۲۵) اور تمام کاموں کا انجام اللہ ہی کے قبضے میں ہے۔

تفسیر

۲۵۔ مسلمانوں کو مدینہ منورہ میں حکومت قائم کرنے اور کافروں کے خلاف لڑائی میں ان کی مدد کرنے کا مقصد اس آیت میں یہ بیان کیا گیا ہے کہ یہ لوگ زمین میں اقتدار حاصل کرنے کے بعد اپنی جان اور مال سے اللہ تعالیٰ کی عبادت خود بھی کریں گے، اور دوسروں کو بھی نیکی کی تلقین اور برائی سے روکنے کا فریضہ انجام دیں گے۔ اس طرح یہ آیت ایک اسلامی ریاست کے بنیادی اغراض و مقاصد بیان فرما رہی ہے۔

آیت ۴۲ ۔ ۴۷

ترجمہ

اور (اے پیغمبر) اگر یہ لوگ تمہیں جھٹلاتے ہیں تو ان سے پہلے نوح کی قوم، اور عاد و ثمود کی قومیں بھی (اپنے اپنے پیغمبروں کو) جھٹلا چکی ہیں۔
نیز ابراہیم کی قوم اور لوط کی قوم۔
اور مدین کے لوگ بھی، اور موسیٰ کو بھی جھٹلایا گیا تھا، چنانچہ ان کافروں کو میں نے کچھ ڈھیل دی، پھر انہیں پکڑ میں لے لیا، اب دیکھ لو کہ میری پکڑ کیسی تھی۔
غرض کتنی بستیاں تھیں جن کو ہم نے اس وقت ہلاک کیا جب وہ ظلم کر رہی تھیں، چنانچہ وہ اپنی چھتوں کے بل گری پڑی ہیں، اور کتنے ہی کنویں جو اب بیکار ہوئے پڑے ہیں، اور کتنے پکے بنے ہوئے محل (جو کھنڈر بن چکے ہیں)۔
تو کیا یہ لوگ زمین میں چلے پھرے نہیں ہیں جس سے انہیں وہ دل حاصل ہوتے جو انہیں سمجھ دے سکتے، یا ایسے کان حاصل ہوتے جن سے وہ سن سکتے؟ حقیقت یہ ہے کہ آنکھیں اندھی نہیں ہوتیں، بلکہ وہ دل اندھے ہو جاتے ہیں جو سینوں کے اندر ہیں۔
اور یہ لوگ تم سے عذاب جلدی لانے کا مطالبہ کرتے ہیں، حالانکہ اللہ اپنے وعدے کی ہرگز خلاف ورزی نہیں کرے گا، اور یقین جانو کہ تمہارے رب کے یہاں کا ایک دن تمہاری گنتی کے مطابق ایک ہزار سال کی طرح کا ہوتا ہے۔ (۲۶)

تفسیر

۲۶۔ اللہ تعالیٰ کے نزدیک ایک دن کے ایک ہزار سال کے برابر ہونے کا کیا مطلب ہے؟ اس کی صحیح تشریح تو اللہ تعالیٰ ہی کو معلوم ہے، اور حضرت عبداللہ بن عباسؓ نے اسے متشابہات میں بھی شمار کیا ہے، لیکن اس آیت کو سمجھنے کے لیے اتنی تشریح کافی ہے کہ کفار کے سامنے جب یہ کہا جاتا تھا کہ ان کے کفر کے نتیجے میں ان پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے دنیا یا آخرت میں عذاب آئے گا تو وہ اس کا مذاق اڑاتے تھے، اور کہتے تھے کہ اتنے دن گذر گئے، لیکن کوئی عذاب نہیں آیا، اگر واقعی عذاب آنا ہے تو ابھی کیوں نہیں آ جاتا؟ اس کے جواب میں فرمایا جا رہا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جو وعدہ کر رکھا ہے وہ تو ضرور پورا ہو گا۔ رہا اس کا وقت، تو وہ اللہ تعالیٰ کی اپنی حکمت کے مطابق متعین ہو گا، اور تم جو سمجھ رہے ہو کہ اس کے آنے میں بہت دیر ہو گئی ہے تو در حقیقت تم جس مدت کو ایک ہزار سال سمجھتے ہو، وہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک ایک دن کے برابر ہے۔ اس آیت کی کچھ مزید تفصیل انشاء اللہ سورة معارج۔ ۴ میں آئے گی۔

آیت ۴۸ ۔ ۵۲

ترجمہ

اور کتنی ہی بستیاں ایسی تھیں جنہیں میں نے مہلت دی تھی، اور وہ ظلم کرتی رہیں، پھر میں نے انہیں پکڑ میں لے لیا، اور سب کو آخر کار میرے پاس ہی لوٹنا ہو گا۔
(اے پیغمبر) کہہ دو کہ اے لوگو! میں تو تمہیں وضاحت کے ساتھ خبردار کرنے والا ہوں۔
پھر جو لوگ ایمان لے آئے، اور نیک عمل کرنے لگے، تو ان کے لیے مغفرت ہے، اور با عزت رزق ہے۔
اور جن لوگوں نے ہماری نشانیوں کو نیچا دکھانے کے لیے دوڑ دھوپ کی ہے، تو وہ دوزخ کے باسی ہیں۔
اور (اے پیغمبر) تم سے پہلے ہم نے جب بھی کوئی رسول یا نبی بھیجا تو اس کے ساتھ یہ واقعہ ضرور ہوا کہ جب اس نے (اللہ کا کلام) پڑھا تو شیطان نے اس کے پڑھنے کے ساتھ ہی (کفار کے دلوں میں) کوئی رکاوٹ ڈال دی، پھر جو رکاوٹ شیطان ڈالتا ہے، اللہ اسے دور کر دیتا ہے، پھر اپنی آیتوں کو زیادہ مضبوط کر دیتا ہے، (۲۷) اور اللہ بڑے علم کا، بڑی حکمت کا مالک ہے۔

تفسیر

۲۷۔ آنحضرتﷺ کو تسلی دی جا رہی ہے کہ آپ کے مخالفین کی طرف سے جن شکوک و شبہات کا اظہار ہو رہا ہے یہ کوئی نئی بات نہیں ہے، بلکہ پچھلے انبیاء کرام کے ساتھ بھی ایسا ہوا ہے کہ جب وہ لوگوں کو اللہ تعالیٰ کا کلام پڑھ کر سناتے تو شیطان کافروں کے دل میں شکوک و شبہات پیدا کر دیتا جس کی بنا پر وہ لوگ ایمان نہیں لاتے تھے، لیکن چونکہ یہ شکوک و شبہات اصل میں بے بنیاد ہوتے ہیں اس لئے اللہ تعالیٰ ان کا کوئی اثر مخلص مسلمانوں پر باقی نہیں رہنے دیتا، بلکہ انہیں نیست و نابود کر دیتا ہے۔

آیت ۵۳ ۔ ۶۰

ترجمہ

یہ (شیطان نے رکاوٹ اس لیے ڈالی) تاکہ جو رکاوٹ شیطان نے ڈالی تھی، اللہ اسے ان لوگوں کے لیے فتنہ بنا دے جن کے دلوں میں روگ ہے، اور جن کے دل سخت ہیں۔ اور یقین جانو کہ یہ ظالم لوگ مخالفت میں بہت دور چلے گئے ہیں۔
اور (اس رکاوٹ کو اللہ تعالیٰ نے اس لیے دور کیا) تاکہ جن لوگوں کو علم عطا ہوا ہے، وہ جان لیں کہ یہی (کلام) برحق ہے جو تمہارے پروردگار کی طرف سے آیا ہے، پھر وہ اس پر ایمان لائیں، اور ان کے دل اس کے آگے جھک جائیں، اور یقین رکھو کہ اللہ ایمان والوں کو سیدھے راستے کی ہدایت دینے والا ہے۔
اور جن لوگوں نے کفر اپنا لیا ہے وہ اس (کلام) کی طرف سے برابر شک ہی میں پڑے رہیں گے، یہاں تک کہ ان پر اچانک قیامت آ جائے، یا ایسے دن کا عذاب ان تک آ پہنچے جو (ان کے لیے) کسی بھلائی کو جنم دینے کی صلاحیت سے خالی ہو گا۔
بادشاہی اس دن اللہ کی ہو گی، وہ ان کے درمیان فیصلہ کرے گا، چنانچہ جو لوگ ایمان لائے ہیں، اور انہوں نے نیک عمل کیے ہیں، وہ نعمتوں کے باغات میں ہوں گے۔
اور جن لوگوں نے کفر اپنا لیا ہے، اور ہماری آیتوں کو جھٹلایا ہے، تو ایسے لوگوں کے لیے ذلت والا عذاب ہو گا۔
اور جن لوگوں نے اللہ کے راستے میں ہجرت کی، پھر قتل کر دیے گئے یا ان کا انتقال ہو گیا تو اللہ انہیں ضرور اچھا رزق دے گا، اور یقین رکھو کہ اللہ ہی بہترین رزق دینے والا ہے۔
وہ انہیں ضرور ایسی جگہ پہنچائے گا جس سے وہ خوش ہو جائیں گے، اور اللہ یقیناً ہر بات جاننے والا، بڑا بردبار ہے۔
یہ بات طے ہے اور (آگے یہ بھی سن لو کہ) جس شخص نے کسی کو بدلے میں اتنی ہی تکلیف پہنچائی جتنی اس کو پہنچائی گئی تھی، اس کے بعد پھر اس سے زیادتی کی گئی، تو اللہ اس کی ضرور مدد کرے گا۔ (۲۸) یقین رکھو کہ اللہ بہت معاف کرنے والا، بہت بخشنے والا ہے۔

تفسیر

۲۸۔ اوپر آیت ۳۹ میں مسلمانوں کو ان کافروں سے لڑنے کی اجازت دی گئی تھی، جنہوں نے ان پر ظلم ڈھائے تھے، حالانکہ اس سے پہلے ان کے ظلم کے جواب میں صبر اور درگزر کے احکام دئیے جاتے رہے تھے، اب یہاں صرف جنگ ہی کے معاملے میں نہیں بلکہ ہر قسم کے ظلم کا بدلہ لینے کی اجازت دی جا رہی ہے، بشرطیکہ وہ اتنا ہو جتنا ظلم ہوا، اور بتایا جا رہا ہے کہ اگرچہ درگزر کا معاملہ زیادہ افضل ہے، لیکن برابر کا بدلہ لینا بھی جائز ہے، اور اس پر بھی اللہ تعالیٰ کی طرف سے مدد کا و عدہ ہے، بلکہ یہاں اور آگے بڑھ کر یہ فرمایا گیا ہے کہ اگر برابر کا بدلہ لینے کے بعد ظالم دوبارہ زیادتی کرے تو اس پر بھی اللہ تعالیٰ مدد فرمائیں گے۔
 

زنیرہ عقیل

منتظم اعلی۔ أیدہ اللہ
Staff member
منتظم اعلی
آیت ۶۱

ترجمہ

یہ اس لیے کہ اللہ (کی قدرت اتنی بڑی ہے کہ وہ) رات کو دن میں داخل کر دیتا اور دن کو رات میں داخل کر دیتا ہے۔ (۲۹) اور اس لیے کہ اللہ ہر بات سنتا، ہر چیز دیکھتا ہے۔

تفسیر

۲۹۔ یعنی ایک موسم میں جو دن کا وقت تھا، دوسرے موسم میں اللہ تعالیٰ نے اسے رات بنا دیا، اور ایک موسم میں جو رات کا وقت تھا، اسے دوسرے موسم میں دن بنا دیا۔ چاند سورج کی گردش کا یہ نظام اللہ تعالیٰ نے اپنی حکمت سے اس طرح بنایا ہے کہ اس میں ذرہ برابر فرق نہیں آتا۔ اللہ تعالیٰ کی قدرت کے بیشمار مظاہر میں سے یہاں خاص طور پر اس کو شاید اس لیے ذکر کیا گیا ہو کہ یہاں مظلوم کی مدد فرمانے کا ذکر ہے، اور جس طرح رات دن کے اوقات بدلتے رہتے ہیں، اسی طرح جو کبھی مظلوم تھا، اللہ تعالیٰ اس کی مدد کر کے اسے فتح دلا دیتے ہیں، اور جو ظالم اور بالا دست تھا، اسے نیچا دکھا دیتے ہیں۔

آیت ۶۲ ۔ ۶۷

ترجمہ

یہ اس لیے کہ اللہ ہی حق ہے اور یہ لوگ اسے چھوڑ کر جن چیزوں کی عبادت کرتے ہیں، وہ سب باطل ہیں اور اللہ ہی وہ ہے جس کی شان بھی اونچی ہے، رتبہ بھی بڑا۔
کیا تم نے نہیں دیکھا کہ اللہ نے آسمان سے پانی اتارا، جس سے زمین سرسبز ہو جاتی ہے؟ حقیقت یہ ہے کہ اللہ بڑا مہربان، ہر بات سے باخبر ہے۔
جو کچھ آسمانوں میں ہے، اور جو کچھ زمین میں ہے، سب اسی کا ہے۔ اور یقین رکھو کہ اللہ ہی وہ ذات ہے جو سب سے بے نیاز ہے، بذات خود قابل تعریف۔
کیا تم نے نہیں دیکھا کہ اللہ نے زمین کی ساری چیزیں تمہارے کام میں لگا رکھی ہیں، اور وہ کشتیاں بھی جو اس کے حکم سے سمندر میں چلتی ہیں؟ اور اس نے آسمان کو اس طرح تھام رکھا ہے کہ وہ اس کی اجازت کے بغیر زمین پر نہیں گر سکتا۔ حقیقت یہ ہے کہ اللہ لوگوں کے ساتھ شفقت کا برتاؤ کرنے والا، بڑا مہربان ہے۔
اور وہی ہے جس نے تمہیں زندگی دی، پھر وہ تمہیں موت دے گا، پھر تمہیں زندہ کرے گا۔ واقعی انسان بڑا ناشکرا ہے۔
ہم نے ہر امت کے لوگوں کے لیے عبادت کا ایک طریقہ مقرر کیا ہے، جس کے مطابق وہ عبادت کرتے ہیں۔ (۳۰) لہذا (اے پیغمبر) لوگوں کو تم سے اس معاملے میں جھگڑا نہیں کرنا چاہیے اور تم اپنے پروردگار کی طرف دعوت دیتے رہو۔ تم یقیناً سیدھے راستے پر ہو۔

تفسیر

۳۰۔ بعض لوگ اس بات پر اعتراض کرتے تھے کہ آنحضرتﷺ نے جو احکام دئیے ہیں، ان میں سے کچھ ان احکام سے مختلف ہیں جو پچھلے انبیائے کرام کی امتوں کو دئیے گئے تھے اس آیت میں اس اعتراض کا جواب دیا گیا ہے یعنی مختلف انبیائے کرام کی شریعتوں میں اللہ نے عبادت کے مختلف طریقے مقرر فرمائے تھے اور ہر دور کے مناسب شریعت کے مختلف احکام دئیے تھے۔ لہذا اگر آنحضرتﷺ کی شریعت کے کچھ احکام پچھلی شریعتوں سے الگ ہیں تو اس میں نہ کوئی اعتراض کی بات ہے، اور نہ بحث مباحثے کا کوئی موقع۔

آیت ۶۸ ۔ ۷۱

ترجمہ

اور اگر وہ تم سے جھگڑیں تو کہہ دو کہ جو کچھ تم کر رہے ہو، اللہ اسے خوب جانتا ہے۔
اللہ قیامت کے دن تمہارے درمیان ان باتوں کا فیصلہ کرے گا جن میں تم اختلاف کیا کرتے تھے۔
کیا تم نہیں جانتے کہ آسمان اور زمین کی تمام چیزیں اللہ کے علم میں ہیں؟ یہ سب باتیں ایک کتاب میں محفوظ ہیں۔ بیشک یہ سارے کام اللہ کے لیے بہت آسان ہیں۔
اور یہ لوگ اللہ کو چھوڑ کر ان چیزوں کی عبادت کرتے ہیں جن (کے معبود ہونے) کی اللہ نے کوئی دلیل نازل نہیں کی، اور خود ان لوگوں کو بھی اس کے بارے میں کوئی علم حاصل نہیں۔ (۳۱) اور ان ظالموں کا (آخرت میں) کوئی مددگار نہیں ہو گا۔

تفسیر

۳۱۔ یعنی ان کے پاس کوئی دلیل نہیں ہے جس سے یہ علم حاصل ہو سکے کہ یہ بت واقعی خدائی کا درجہ رکھتے ہیں۔

آیت ۷۲

ترجمہ

اور جب ان کو ہماری آیتیں اپنی پوری وضاحتوں کے ساتھ پڑھ کر سنائی جاتی ہیں، تو تم ان کافروں کے چہروں پر ناگواری کے اثرات صاف پہچان لیتے ہو، ایسا لگتا ہے کہ یہ ان لوگوں پر حملہ کر دیں گے جو انہیں ہماری آیتیں پڑھ کر سنا رہے ہیں۔ کہہ دو کہ لوگو! کیا میں تمہیں ایسی چیز بتلا دوں جو اس سے زیادہ ناگوار ہے؟ (۳۲) آگ! اللہ نے کافروں سے اس کا وعدہ کر رکھا ہے اور وہ بہت برا ٹھکانا ہے۔

تفسیر

۳۲۔ مطلب یہ ہے کہ ابھی تو تم ان آیتوں ہی کو ناگوار سمجھ رہے ہو، آخرت میں جب آگ سامنے آئے گی تو پتہ چلے گا کہ اصل ناگوار چیز کیا تھی

آیت ۷۳ ۔ ۷۵

ترجمہ

لوگو! ایک مثال بیان کی جا رہی ہے اب اسے کان لگا کر سنو! تم لوگ اللہ کو چھوڑ کر جن جن کو دعا کے لیے پکارتے ہو وہ ایک مکھی بھی پیدا نہیں کر سکتے، چاہے اس کام کے لیے سب کے سب اکٹھے ہو جائیں، اور اگر مکھی ان سے کوئی چیز چھین کر لے جائے تو وہ اس سے چھڑا بھی نہیں سکتے۔ ایسا دعا مانگنے والا بھی بودا اور جس سے دعا مانگی جا رہی ہے وہ بھی۔
ان لوگوں نے اللہ کی ٹھیک ٹھیک قدر ہی نہیں پہچانی۔ حقیقت یہ ہے کہ اللہ قوت کا بھی مالک ہے، اقتدار کا بھی مالک۔
اللہ فرشتوں میں سے بھی اپنا پیغام پہچانے والے منتخب کرتا ہے اور انسانوں میں سے بھی۔ (۳۳) یقیناً اللہ ہر بات سنتا ہر چیز دیکھتا ہے۔

تفسیر

۳۳۔ کونسے فرشتے پیغمبروں کے پاس وحی کا پیغام لے کر جائیں، اور کن انسانوں کو پیغمبری کے مقام پر سرفراز کیا جائے، ان سب باتوں کا تعین اللہ تعالیٰ ہی کرتے ہیں۔
 

زنیرہ عقیل

منتظم اعلی۔ أیدہ اللہ
Staff member
منتظم اعلی
آیت ۷۶، ۷۷

ترجمہ

وہ ان کے آگے اور پیچھے کی ساری باتوں کو جانتا ہے، اور اللہ ہی پر تمام معاملات کا دارومدار ہے۔
اے ایمان والو! رکوع کرو، اور سجدہ کرو، اور اپنے پروردگار کی بندگی کرو، اور بھلائی کے کام کرو، تاکہ تمہیں فلاح حاصل ہو۔ (۳۴)

تفسیر

۳۴۔ شافعی مذہب میں یہاں سجدہ ہے۔

آیت ۷۸

ترجمہ

اور اللہ کے راستے میں جہاد کرو، جیسا کہ جہاد کا حق ہے۔ (۳۵) اس نے تمہیں (اپنے دین کے لیے) منتخب کر لیا ہے، اور تم پر دین کے معاملے میں کوئی تنگی نہیں رکھی۔ اپنے باپ ابراہیم کے دین کو مضبوطی سے تھام لو، اس نے پہلے بھی تمہارا نام مسلم رکھا تھا، اور اس (قرآن) میں بھی، تاکہ یہ رسول تمہارے لیے گواہ بنیں، اور تم دوسرے لوگوں کے لیے گواہ بنو۔ (۳۶) لہذا نماز قائم کرو، اور زکوٰۃ ادا کرو، اور اللہ کو مضبوطی سے تھامے رکھو، وہ تمہارا رکھوالا ہے، دیکھو، کتنا اچھا رکھوالا، اور کتنا اچھا مددگار۔

تفسیر

۳۵۔ جہاد کے لفظی معنی جد و جہد اور کوشش کے ہیں، اور یہ لفظ دین کے راستے میں ہر کوشش کو شامل ہے۔ اس میں مسلح جد و جہد یعنی اللہ کے راستے میں جنگ کرنا بھی داخل ہے، پر امن جد و جہد بھی، اور انسان اپنی اصلاح کے لیے جو محنت کرے، وہ بھی۔
۳۶۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ اپنی امت کے مومنوں کے حق میں گواہی دیں گے کہ یہ لوگ ایمان لے آئے یہ مضمون سورة بقرہ: ۱۴۷ میں گذر چکا ہے وہاں اس کی تشریح دیکھ لی جائے۔
٭٭٭
 
Top