بیگم جنت کے بالا خانے میں

مولانانورالحسن انور

رکن مجلس العلماء
رکن مجلس العلماء
بیگم جنت کے بالا خانے میں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

جمعہ کا دن تھا۔ جامع مسجد کے خطیب کی سحر بیانی اپنی جوبن پر تھی۔ موضوع جنت اور حورِ عین تھا۔ لوگ پورے انہماک اور توجہ سے خطبہ سن رہے تھے۔ خطیب صاحب حورِ عین کا وہ نقشہ کھینچ رہے تھے کہ اک عجب سماں بندھ چکا تھا۔ لوگ دل ہی دل میں اعمالِ صالح کا تہیہ کر رہے تھے۔

خطیب نے خطیبانہ ردھم توڑتے ہوئے ایک ذرا سانس لیا۔ اس کی آنکھوں میں چمک عود کر آئی۔ کہنے لگا: اللہ اللہ کیا منظر ہوگا جب فرشتے بندہ مومن کو یاقوت و مرجان اطلس و کمخواب سے آراستہ و پیراستہ محل میں لے کر داخل ہوں گے۔ پھر اچانک اس کی نظر حورِ عین پہ پڑے گی جو تمام حشر سامانیوں کے ساتھ جلوہ افروز ہوگی۔

بندہ مومن اس کی طرف آگے بڑھے گا لیکن فرشتے روک لیں گے۔ اسے محل کے ایک اور حصے میں لے کر جائیں گے جہاں اس سے بھی خوبصورت حوریں اس کےاستقبال کو تیار بیٹھی ہوں گی۔ یہاں بھی اسے فرشتے روک لیں گے اور کہیں گے تیری حور خاص بالا خانے میں تیری منتظر ہے۔ وہ ہزار شوق سے بالا خانے میں داخل ہوگا۔ کیا دیکھتا ہے سامنے اس کی دنیاوی بیوی کھڑی ہوگی۔

یہ سننے کی دیر تھی کہ سامعین میں سے ایک آدمی اٹھا اور خطیب کے منہ پر چیخا: اچھے بھلے خطبے کا ستیاناس کر دیا۔ خدا کا خوف کر۔ دو ڈھائی گھنٹے بیٹھے کتنے شوق سے تجھے سن رہے تھے۔ کچھ تو ہمارا خیال کرتا۔ ہم لوگ بیگم سے بھاگ کر مسجد آتے ہیں اور تو نے جنت میں بھی اسے ہمارے گلے ڈال دیا۔ اگلے جمعہ اچھی طرح مطالعہ کرکے آئیو۔ شاید یہ روایت ضعیف ہو۔

منقول..
 
Top