ایک *'پیر صاحب'* اپنی *'کرامت'* کا ذکر کر رہے تھے کہ میں صحرا میں جا رہا تھا چلتے چلتے دو دن گزر گئے تھے۔ بھوک لگتی تو ہاتھ بڑھا کر اڑتا ہوا کوئی پرندہ پکڑ لیتا اور سورج کی روشنی پر بھون کر کھاتا۔ خدا کر شکر ادا کر کے آگے چل پڑتا۔ تیسرے دن مجھے نماز کا خیال آیا تو پانی ختم ہو چکا تھا۔ میں نے ایک جھاڑی دیکھی اس کے پاس جا کر زمین سے مٹھی بھر ریت اٹھائی تو اس کے نیچے سے پانی کا چشمہ نکل آیا۔ میں پینے لگا تو خیال آیا کہ یہ جھاڑی پیاسی ہے پہلے اسے پانی پلاوں۔ چلو بھر پانی اس کی جڑ میں ڈالا تو وہ درخت بن گئی۔ اس کے سائے میں نماز ادا کرنے کا سوچا وضو کے لیے چلو میں پانی لیکر کلی کی تو جہاں جہاں پانی گرا گلاب کے پھول کھل گئے۔ چہرے پر پانی ڈالا تو پانی کے قطرے زمین پر گرنے کے بجائے ہر قطرہ ایک 'لال رنگ' کا طوطا بن کر درخت کی ٹہنی پر بیٹھ گیا اور میرے مریدوں کے لیے دعا کرنے لگا۔ مرید جو جھوم جھوم کر سن رہے تھے, ان میں سے ایک بولا: 'پیر صاحب لال رنگ کا طوطا۔۔۔'
پیر صاحب نے غضب ناک انداز میں اس کی طرف دیکھا, تو ساتھ بیٹھے بندے نے کہا:
"چپ کر اوئے, یہاں باقی کام بڑا سائنس کے اصول کے مطابق ہو رہا ہے جو تجھے طوطے پر شک ہے۔۔۔"
پیر صاحب نے غضب ناک انداز میں اس کی طرف دیکھا, تو ساتھ بیٹھے بندے نے کہا:
"چپ کر اوئے, یہاں باقی کام بڑا سائنس کے اصول کے مطابق ہو رہا ہے جو تجھے طوطے پر شک ہے۔۔۔"