حضرت معاذ بن ماعص شہید ؓ

زنیرہ عقیل

منتظم اعلی۔ أیدہ اللہ
Staff member
منتظم اعلی
آپ رضی اللہ عنہ بھی انصاری صحابی ہیں۔ قبیلہ بنی زریق سے تعلق رکھتے تھے۔ آپ رضی اللہ عنہ کے والد کے نام کی تعیین میں قدرے اختلاف ہے۔ چنانچہ ایک قول کے مطابق آپ رضی اللہ عنہ کے والد کا نام ’’معاص‘‘ ہے اور دوسرے قول کے مطابق ’’ناعص‘‘… لیکن مشہور قول کے مطابق آپ رضی اللہ عنہ کے والد کا نام ’’ماعص‘‘ ہے۔ علامہ ابن الاثیر جزریؒ اور حافظ ابن حجر عسقلانیؒ نے اسی کو ترجیح دی ہے۔ سلسلۂ نسب اس طرح ہے:

’’معاذ بن ماعص بن میسرہ بن خلدہ بن عامر بن زریق الزرقی الخزرجی الانصاری۔‘‘​

غزوۂ بدر اور غزوۂ احد کے جانبازوں میں سے ہیں اور بئر معونہ کے واقعے میں شہید ہوئے۔ غزوۂ بدر اور غزوۂ اُحد کے علاوہ آپ رضی اللہ عنہ کے مفاخر میں عینیہ بن حصن فزاری کا پیچھا اور تعاقب شامل ہے۔ عینیہ بن حصن کے تعاقب کے لیے آنحضرت ﷺ کے جانبازوں کا جو دستہ گیا تھا اس کے ایک سپاہی آپ رضی اللہ عنہ بھی تھے… وہ کیا واقعہ تھا؟؟… آئیے! بالتفصیل پڑھتے ہیں۔

’’ذی قرد‘‘ ایک چشمہ کا نام ہے جو بلاد غطفان کے قریب ہے۔ وہاں رسول اللہ ﷺ کی اونٹنیوں کی چراگاہ تھی۔ عینیہ بن حصن فزاری نے چالیس سواروں کی ہمراہی میں اس چراگاہ پر چھاپہ مارا اور آپ کی اونٹنیاں پکڑ کر لے گیا، حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ کے صاحب زادہ کو جو اونٹنیوں کی حفاظت پر متعین تھے قتل کر ڈالا اور ابوذر رضی اللہ عنہ کی بیوی کو پکڑ کر لے گئے۔

حضرت سلمہ بن اکوع رضی اللہ عنہ (جو اس وقت سیر کی غرض سے نکلے ہوئے تھے اس واقعہ کی) اطلاع ملتے ہی ان کے تعاقب میں روانہ ہوئے اور ایک ٹیلہ پر کھڑے ہوکر ’’یا صبا حاہ!‘‘ کے تین نعرے لگائے، جس سے تمام مدینہ گونج اٹھا۔ حضرت سلمہ بن اکوع رضی اللہ عنہ بڑے تیر انداز تھے (اور بہت تیز دوڑتے تھے)، انہوں نے پیچھا کرکے ان لوگوںکو پانی کے ایک چشمہ پر جا لیا۔ آپ رضی اللہ عنہ ان پر تیر برساتے جاتے تھے اور یہ شعر پڑھتے جاتے تھے۔

انا ابن الاکوع​

والیوم یوم الرضع​

’’میں اکوع کا بیٹا ہوں اور آج کے دن معلوم ہوجائے گا کہ کس نے شریف عورت کا دودھ پیا ہے اور کون کمینہ ہے۔‘‘

یہاں تک کہ تمام اونٹنیاں ان سے چھڑالیں اور تیس یمنی چادریں بھی ان سے چھین لیں۔ ان کے جانے کے بعد رسول اللہ ﷺ پانچ سو یا سات سو آدمی لے کر روانہ ہوئے اور تیزی سے مسافت طے کرکے وہاں پہنچے۔ اس سے پہلے آپ صلی اللہ علیہ و سلم اپنے چند سواروں کو مقدمۃ الجیش کے طور پر روانہ فرماچکے تھے۔ ان لوگوں نے پہلے پہنچ کر ان لٹیروں کا مقابلہ کیا، دو مشرک مارے گئے۔ ایک مسعدہ بن حکمہ، جس کو حضرت ابو قتادہ رضی اللہ عنہ نے قتل کیا اور دوسرا ابان بن عمر، جس کو حضرت عکاشہ بن محصن رضی اللہ عنہ نے قتل کیا اور مسلمانوں میں سے حضرت محرز بن نضلہ رضی اللہ عنہ جن کا لقب اخرم ہے، عبدالرحمن بن عینیہ کے ہاتھوں سے شہید ہوئے۔

حضرت سلمہ بن اکوع رضی اللہ عنہ نے جو ان کے تعاقب میں بہت آگے نکل گئے تھے واپس آکر آپ ﷺ کی خدمت میں عرض کیا:

’’یارسول اللہ! میں ان کو فلاں جگہ پیاسا چھوڑ آیا ہوں، اگر سو آدمی مجھ کو مل جائیں تو سب کو گرفتار کر لاؤں۔‘‘

آپ ﷺ نے فرمایا:

’’یا ابن الاکوع ملکت فاسج‘‘​

’’اے ابن اکوع! جب تو قابو پائے تو نرمی کر۔‘‘

بہرحال لٹیرے مشرکین شکست کھاکر بھاگ گئے۔ رسول اللہ ﷺ ایک روز وہیں مقیم رہے۔ صلوٰۃ الخوف پڑھی اور پھر مدینہ واپس ہوئے۔ (سیرۃ المصطفیٰ ﷺ بتغیر یسیر)

لیکن یہاں یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ آپ رضی اللہ عنہ کا مذکورہ واقعے میں شریک ہونا ابن مندہ رحمہ اللہ نے نقل کیا ہے۔ اور بئر معونہ میں آپ رضی اللہ عنہ کی شہادت کے راوی علامہ واقدی رحمہ اللہ ہیں۔ جبکہ علامہ موسیٰ بن عقبہ رحمہ اللہ نے اپنے مغازی میںآپ رضی اللہ عنہ کی شہادت جنگ موتہ میں بتائی ہے۔ لہٰذا اگر آپ رضی اللہ عنہ کا عینیہ والی کاروائی میں شریک ہونا مان لیا جائے تو پھر یہ بھی ماننا پڑے گا کہ آپ رضی اللہ عنہ کی شہادت موتہ میں ہوتی، بئرمعونہ میں نہیں۔ کیونکہ بئرمعونہ کا واقعہ ۴ ہجری کا ہے اور عینیہ بن حصن کا واقعہ ۶ ہجری میں پیش آیا۔ واللہ اعلم (الاصابہ)

رضی اللہ عنہ… رضی اللہ عنہ… رضی اللہ عنہ
 
Top