جہاد کے بارے میں قرآنی دلائل

زنیرہ عقیل

منتظم اعلی۔ أیدہ اللہ
Staff member
منتظم اعلی
قرآن پاک کی جن آیات سے جہاد کی فرضیت ثابت ہوتی ہے وہ یہ ہیں۔

(۱) سورۃ البقرۃ، آیت ۱۹۰

ترجمہ: ’’اور ان لوگوں سے اللہ کے راستے میں جنگ کرو جو تم سے جنگ کرتے ہیں اور زیادتی نہ کرو، یقین جانو کہ اللہ زیادتی کرنے والے کو پسند نہیں کرتا۔ ‘‘

علامہ ابن کثیرؒ اس آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں:

’’انما ھو تھییج و اغراء بالاعداء الذین ھمتھم قتال الاسلام و اھلِہ ای کما یقاتلونکم فاقتلوھم انتم‘‘

اس آیت میں ’’الذین یقاتلونکم‘‘ (جو تم سے لڑتے ہیں ان سے لڑو) فرما کر مسلمانوں کو جذبہ اور غیرت دلائی گئی ہے کہ تمہارے دشمن تو اسلام اور مسلمانوں کے خلاف لڑنے کے لئے کھڑے ہو گئے تو پھر تم اسلام اور مسلمانوں کے حق میں کیوں نہیں لڑتے یعنی جس طرح وہ تم سے لڑتے ہیں تم بھی ان سے لڑو۔

(۲) سورۃ البقرہ، آیت ۲۱۶

ترجمہ: ’’تم پر دشمنوں سے جنگ کرنا فرض کیا گیا اور وہ تم پر گراں ہے اور یہ عین ممکن ہے کہ تم ایک چیز کو برا سمجھو حالانکہ وہ تمہارے حق میں بہتر ہو اور یہ بھی ممکن ہے کہ تم ایک چیز کو پسند کرو حالانکہ وہ تمہارے حق میں بری ہو اور اصل حقیقت تو اللہ جانتا ہے تم نہیں جانتے۔‘‘

مستند مفسرین حضرات نے اس آیت کی تفسیر میں جو کچھ ارشاد فرمایا ہے اس میں سے کچھ اقوال اور حوالے ملاحظہ فرمائیے:

۱… ’’کتب علیکم القتال‘‘تم پر قتال فی سبیل اللہ فرض کیا گیا ہے۔ ای قتال الکفار و ھو فرض عین ان دخلوا بلادنا و فرض کفایۃ ان کانوا ببلادہم، یعنی کافروں سے لڑنا یہ فرض عین ہے اگر وہ کافر ہمارے شہروں میں داخل ہو جائیں اور فرض کفایہ ہے اگر وہ اپنے شہروں میں ہوں۔ (روح المعانی)

۲… وھذا ایجاب من اللہ تعالیٰ للجھاد علی المسلمین ان یکفوا شر الأعداء عن حوزۃ الاسلام۔ و قال الزہریؒ: الجہاد واجب علی کل احد غزا او قعد فالقاعد علیہ اذا استعین ان یعین و اذا استغیث ان یغیث و اذا استنفر ان ینفر و ان لم یحتج الیہ قعد و قلت و لھٰذا ثبت فی الصحیح من مات و لم یغز و لم یحدث بہ نفسہ بالغزو مات میتۃ جاھلیۃ۔

یعنی اس آیت میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے مسلمانوں پرجہاد فرض کیا جا رہا ہے کہ وہ دین اسلام سے دشمنوں کے شر کو دور کریں۔ اور امام زہریؒ فرماتے ہیں: جہاد ہر ایک مسلمان پر فرض ہے خواہ وہ لڑائی میں مصروف ہو یا گھر بیٹھا ہو۔ گھر بیٹھنے والے پر اس طرح فرض ہے کہ جب اسے جہاد میں تعاون کے لیے بلایا جائے تو وہ تعاون کرے، جب اس سے مدد کی فریاد کی جائے تو فوراً مدد کو پہنچے، اور جب مسلمانوں کا خلیفہ یا امیر اسے جہاد میں نکلنے کے لیے کہے تو فوراً نکل کھڑا ہو، اور اگر اس کی ضرورت نہ ہو تو گھر بیٹھا رہے۔ میں کہتا ہوں: اسی لئے حدیث صحیح میں آیا ہے کہ (رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:) جو شخص اس حال میں مرا کہ نہ تو اس نے اللہ تعالیٰ کے راستے میں لڑائی کی اور نہ اس کے دل میں اس کا شوق ابھرا تو وہ جاہلیت کی موت مرے گا۔ (تفسیر ابن کثیر)

۳… فقال قوم انھا تقتضی وجوب القتال علی الکل، و عن مکحول انہ کان یحلف عند البیت ’’باللہ ان الغزو واجب۔‘‘​

یعنی ایک جماعت کا کہنا ہے کہ یہ آیت سب مسلمانوں پر جہاد کی فرضیت ثابت کرتی ہے۔ مکحولؒ کے بارے میں آتا ہے کہ وہ کعبۃ اللہ کے پاس اللہ تعالیٰ کی قسم کھا کر فرمایا کرتے تھے کہ جہاد فرض ہے۔ (التفسیر الکبیر)

۴… (کتب) فرض (علیکم القتال) للکفار۔ ’’کُتِبَ‘‘ یعنی تم پر فرض کیا گیا ہے ’’القتال للکفار‘‘ کافروں سے قتال کرنا (تفسیر جلالین)

۵… ھذا ھو فرض الجہاد بین سبحانہ ان ھذا مما امتحنوا بہ و جعل وصلۃ الی الجنۃ والمراد بالقتال قتال الاعداء من الکفار۔

یعنی یہ ہے وہ فریضۂ جہاد جسے اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے اس آیت میں بیان فرمایا ہے اور یہی وہ چیز ہے جس سے مسلمانوں کے ایمان کا امتحان لیا گیا اور اس جہاد کو جنت تک پہنچنے کا ذریعہ قرار دیا گیا۔ اور ’’القتال‘‘ سے مراد کافر دشمنوں سے جنگ کرنا ہے۔ (القرطبی)

(۳) سورۃ البقرۃ، آیت ۲۴۴

ترجمہ: ’’اللہ کے راستے میں جنگ کرو، اور یقین رکھو کہ اللہ خوب سننے والا اور خوب جاننے والا ہے۔‘‘

علامہ قرطبی رحمہ اللہ اس آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں۔

’’ھٰذا خطاب لامۃ محمد ﷺ بالقتال فی سبیل اللہ فی قول الجمہور و ھو الذی ینویٰ بہ ان تکون کلمۃ اللہ ھی العلیا۔‘‘

جہور علماء کے نزدیک اس آیت میں امت محمد ﷺ کو قتال فی سبیل اللہ کا حکم دیا جا رہا ہے، وہ قتال جو اعلائے کلمۃ اللہ کی نیت سے کیا جائے۔ (القرطبی)

(۴) سورۃ البقرہ، آیت ۲۵۱

ترجمہ: ’’پھر اللہ تعالیٰ کے حکم سے مؤمنوں نے جالوت کے لشکر کو شکست دی اور داؤد نے جالوت کو مار ڈالا اور اللہ تعالیٰ نے سلطنت اور حکمت داؤد کو دی اور جو چاہا اس کو سکھایا، اور اگر اللہ تعالیٰ کا بعض کو بعض کے ذریعے سے دفع کرا دینا نہ ہوتا تو زمین فساد سے پُر ہو جاتی لیکن اللہ تعالیٰ جہان والوں پر مہربان ہے۔‘‘

اس آیت مبارکہ سے بھی حضرات علمائے کرام نے جہاد کی فرضیت کو ثابت کیا ہے، کیونکہ زمین کو فساد سے بچانا فرض ہے اور فساد سے حفاظت کا جو ذریعہ اور آلہ ہے وہ ’’جہاد‘‘ ہے… تو جہاد بھی فرض ٹھہرا۔

(۵) سورۃ التوبۃ، آیت ۵

ترجمہ: ’’جب حرمت والے مہینے گزر جائیں تو ان مشرکین کو (جنہوں نے تمہارے ساتھ بدعہدی کی) جہاں بھی پاؤ قتل کر ڈالو، اور انہیں پکڑو، انہیں گھیرو، اور انہیں پکڑنے کے لئے ہر گھات کی جگہ تاک لگا کر بیٹھو، ہاں! اگر وہ توبہ کرلیں اور نماز قائم کرلیں اور زکوٰۃ اداء کریں تو ان کا راستہ چھوڑ دو، یقیناً اللہ بہت بخشنے والا، بڑا مہربان ہے۔‘‘

اس آیت کی تفسیر میں امام رازیؒ لکھتے ہیں:

’’اولھا: قولہ فاقتلوھم حیث وجدتموھم و ذٰلک امر بقتلھم علی الاطلاق فی ای وقت و ای مکان۔‘‘

اللہ تعالیٰ کا فرمان ’’فاقتلوھم حیث وجدتموھم‘‘ یہ مشرکوں کو مطلقاً قتل کرنے کا حکم ہے ، کسی بھی وقت میں اور کسی بھی مقام پر۔ (تفسیر کبیر)

(۶) سورۃ التوبہ، آیت ۲۹

ترجمہ: ’’وہ اہل کتاب جو نہ اللہ پر ایمان رکھتے ہیں، نہ یومِ آخرت پر اور جو اللہ اور اس کی حرام کی ہوئی چیزوں کو حرام نہیں سمجھتے، اور نہ دین حق کو اپنا دین مانتے ہیں، ان سے جنگ کرو یہاں تک کہ وہ خوار ہوکر اپنے ہاتھ سے جزیہ اداء کریں۔‘‘

اس آیت کے تحت امام ابن کثیرؒ لکھتے ہیں:

’’وھٰذہ الآیۃ الکریمۃ اول الامر بقتال اھل الکتاب بعد ما تمھدت امور المشرکین و دخل الناس فی دین اللہ افواجا و استقامت جزیرۃ العرب، امر اللہ رسولہ بقتال اھل الکتا بین الیھود و النصاری۔‘‘

یعنی یہ آیت اہل کتاب کے خلاف (عمومی) جہادکے پہلے حکم کے طور پر نازل ہوئی اس کے بعد کہ مشرکین کا معاملہ کافی حد تک نمٹ چکا تھا اور لوگ فوج در فوج مسلمان ہو رہے تھے اور جزیرۂ عرب راہِ راست پر آچکا تھا، تو اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کو یہود و نصاریٰ اہل کتاب کے خلاف جہاد کا حکم دیا۔ (تفسیر ابن کثیر)

(۷) سورۃ التوبہ، آیت ۳۶

ترجمہ: ’’حقیقت یہ ہے کہ اللہ کے نزدیک مہینوں کی تعداد ۱۲مہینے ہے، جو اللہ کی کتاب کے مطابق اس دن سے نافذ چلی آ رہی ہے جس دن سے اللہ نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا تھا، ان بارہ مہینوں میں سے چار حرمت والے ہیں، یہی دین کا سیدھا سادھا تقاضا ہے، لہٰذا ان مہینوں کے بارے میں اپنی جانوں پر ظلم نہ کرو، اور تم سب مل کر مشرکوں سے اسی طرح لڑو جیسے وہ تم سے لڑتے ہیں اور یقین رکھو کہ اللہ متقی لوگوں کے ساتھ ہے۔‘‘

’’وقاتلوا المشرکین کافۃ‘‘ تمام کافروں سے جنگ کرو جیسا کہ وہ تم سے جنگ کرتے ہیں۔ (انورالبیان)​

’’فمعنیٰ (و قاتلوا المشرکین کافۃ) لایتخلف احد منکم عن قتالھم او لاتترکوا قتال واحد منھم۔‘‘​

یعنی ’’وقاتلوالمشرکین کافۃ‘‘کا مطلب یہ ہے کہ تم مسلمانوں میں سے کوئی ان کے ساتھ قتال سے پیچھے نہ رہے، یا مطلب یہ ہے کہ ان میں سے کسی ایک کے ساتھ بھی قتال نہ چھوڑو۔ (یعنی تم سب ان سب سے لڑو) (روح المعانی)

امام قرطبیؒ بھی یہی معنیٰ کرتے ہیں۔

’’(وقاتلوا) امر بالقتال و (کافۃ) معناہ جمیعا و ھو مصدر فی موضع الحال ای محیطین بھم و مجتمعین۔‘‘ (قرطبی)​

اور آگے لکھتے ہیں:

’’و انما معنی ھذہ الآیۃ الحض علی قتالھم و التحرب علیہم و جمع الکلمۃ‘‘​

یعنی مقصد اس آیت کا مسلمانوں کو کافروں کے خلاف قتال پر ابھارنا اور متحد ہو کر کافروں کے خلاف جہاد کرنے کی ترغیب دینا۔ (القرطبی)

اور (کما یقاتلونکم کافۃ) کا معنیٰ ان الفاظ میں بیان فرماتے ہیں:​

’’فبحسب قتالھم و اجتماعہم لنا یکون فرض اجتماعنا لھم‘‘​

پس وہ کافر جس قدر ہم سے لڑیں گے اور جس قدر ہمارے خلاف جمع ہونگے اسی قدر ہم پر بھی ان کے خلاف جمع ہو کر لڑنا فرض ہوگا، واللہ اعلم۔ (قرطبی)
 

زنیرہ عقیل

منتظم اعلی۔ أیدہ اللہ
Staff member
منتظم اعلی

(۸، ۹) سورۃ التوبہ: آیت ۳۸، ۳۹​

ترجمہ: ’’اے ایمان والو! تمہیں کیا ہوا جب تمہیں کہا جاتا ہے کہ اللہ کی راہ میں کوچ کرو تو زمین پر گرے جاتے ہو، کیا تم آخرت کو چھوڑ کر دنیا کی زندگی پر خوش ہو گئے ہو؟ دنیا کی زندگی کا فائدہ تو آخرت کے مقابلے میں بہت ہی کم ہے۔ اگر تم نہ نکلو گے تو اللہ تعالیٰ تمہیں درناک عذاب میں مبتلا کرے گا اور تمہاری جگہ اور لوگ پیدا کرے گا اور تم اسے کوئی نقصان نہیں پہنچا سکو گے اور اللہ تعالیٰ ہر چیز پر قادر ہے۔‘‘

امام قرطبی رحمہ اللہ لکھتے ہیں۔

’’فوجب بمقتضاھا النفیر للجھاد و الخروج الی الکفار لمقاتلتھم علیٰ ان تکون کلمۃ اللہ ھی العلیا۔‘‘​

یعنی اس آیت میں سخت تنبیہ اور مؤکد وعید ہے جہاد چھوڑنے پر… اور اس آیت سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ کفار کے خلاف جہاد کے لئے نکلنا تاکہ اللہ تعالیٰ کا کلمہ بلند ہوجائے یہ واجب ہے۔ (القرطبی)

امام رازیؒ لکھتے ہیں:

’’قال القاضی: ھذہ الاٰیۃ دالۃ علٰی وجوب الجہاد سواء کان مع الرسول او لا معہ۔‘‘​

یہ آیت جہاد کے فرض ہونے پر دلالت کرتی ہے، خواہ رسول ساتھ ہوں یا نہ ہوں۔ (تفسیر کبیر)

(۱۰) سورۃ التوبہ: آیت ۴۱​

ترجمہ: ’’جہاد کے لئے نکل کھڑے ہو چاہے تم ہلکے ہو یا بوجھل، اور اپنے مال و جان سے اللہ کے راستے میں جہاد کرو۔ اگر تم سمجھ رکھتے ہو تو یہی تمہارے حق میںبہتر ہے۔‘‘

حضرات صحابہ کرام رضوان علیہم اجمعین جو کہ امت میں سب سے زیادہ قرآن پاک کو سمجھنے والے تھے وہ اس آیت مبارکہ سے جہاد کی فرضیت سمجھا اور سمجھایا کرتے تھے، صرف دو واقعات ملاحظہ فرمائیں۔

۱… حضرت انس رضی اللہ عنہ سے ر وایت ہے کہ حضرت ابوطلحہ رضی اللہ عنہ نے سورۃ توبہ کی تلاوت فرمائی، جب اس آیت پر پہنچے ’’اِنْفِرُوا خِفَافاً وَّ ثقالاً‘‘ تو فرمانے لگے:

’’اے میرے بیٹو! میرا سامانِ جہاد تیار کرو، میرا سامانِ جہاد تیار کرو۔‘‘

ان کے بیٹوں نے عرض کیا:

’’اللہ آپ پر رحم فرمائے، آپ نے رسول اللہ ﷺ کے ساتھ مل کر آخری دم تک جہاد کیا اور حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے ساتھ مل کر ان کے آخری دم تک جہاد کیا اور اسی طرح حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے ساتھ مل کر بھی جہاد کیا، اب ہم آپ کی طرف سے جہاد کریں گے (آپ آرام فرمائیں)‘‘

فرمایا:

’’نہیں، بس میرا سامان تیار کرو۔‘‘

پھر سمندر کے جہاد میں شریک ہوئے اور اسی جہاد میں انتقال فرمایا۔ آپ کے رفقاء کو آپ کی تدفین کے لئے کوئی جزیرہ نہیں مل رہا تھا، بالآخر سات دن بعد ملا تو اس میں ان کی تدفین ہوئی۔ سات دن گزرنے کے باوجود جسم میں کوئی فرق نہیں آیاتھا۔ رضی اللہ عنہ

۲… امام طبریؒ نے سند کے ساتھ بیان کیا ہے کہ ایک صاحب نے حضرت مقداد رضی اللہ عنہ کو حمص (کے علاقہ) میں صراف کے صندوق پر بیٹھے دیکھا، موٹاپے کی وجہ سے ان کا جسم اس پر پورا نہیں آ رہا تھا اور آپ جہاد میں جانے کی تیاری میں تھے۔ اس وقت ان کی خدمت میں عرض کیا گیا کہ اللہ پاک نے آپ کو معذور قرار دیا ہے تو فرمانے لگے کہ منافقوں کے حالات کھول کھول کربیان کرنے والی سورۃ نازل ہو چکی ہے ’’اِنْفِرُوا خِفَافاً وَّ ثقالاً‘‘۔ (القرطبی)

(۱۱) سورۃ الحج: آیت ۴۰​

ترجمہ: ’’یہ وہ لوگ ہیں جنہیں صرف اتنی بات پر اپنے گھروں سے نکالا گیا ہے کہ انہوں نے یہ کہا تھا کہ ہمارا پروردگار اللہ ہے اور اگر اللہ لوگوں کے ایک گروہ کے شر کو دوسروں کے ذریعے دفع نہ کرتا رہتا تو خانقاہیں اور کلیسا اور عبادت گاہیں اور مسجدیں جن میں اللہ کا کثرت سے ذکر کیا جاتا ہے سب مسمار کر دی جاتیں اور اللہ ضرور ان لوگوں کی مدد کرے گا جو اللہ کے دین کی مددکریں، بلاشبہ اللہ بڑی قدرت والا اور بڑے اقتدار والا ہے۔‘‘

اس آیت کے تحت امام قرطبیؒ لکھتے ہیں:

’’اگر اللہ تعالیٰ اپنے انبیاء علیہم السلام اور ایمان والوں کو جہاد کا حکم نہ فرماتا تو اہل شرک غالب آ جاتے اور ان عبادت گاہوں کو تباہ کر دیتے جو اہل توحید نے قائم کی تھیں، مگر اللہ تعالیٰ نے اہل شرک کو اس کام سے روک دیا اس طرح کہ اس نے جہاد کو فرض فرما دیا، تاکہ اہل توحید باآسانی عبادت کر سکیں۔ پس جہاد کا حکم پہلی امتوں میں بھی تھا اور اسی کے ذریعے سے تمام سچی شریعتوں کا فائدہ عام ہوا (کیونکہ جہاد رکاوٹوں کو دور کرتا ہے) اور عبادت گاہیں مضبوط رہیں۔

’’لولا ماشرعہ اللہ تعالیٰ للانبیاء و المؤمنین من قتل الاعداء لاستولی اھل الشرک و عطلوا مابیّنتہ ارباب الدیانات من مواضع العبادات و لکنہ دفع بأن اوجب القتال لیتفرغ اھل الدین للعبادۃ، فالجھاد امر متقدم فی الامم و بہ صلحت الشرائع و اجتمعت المتعبدات۔‘‘ (القرطبی)

(۱۲) سورۃ محمد ﷺ: آیت ۴​

ترجمہ: ’’اور جب ان لوگوں سے تمہارا مقابلہ ہو جنہوں نے کفر اختیار کر رکھا ہے، تو گردنیں مارو، یہاں تک کہ جب تم ان کی طاقت کچل چکے ہو تو مضبوطی سے گرفتار کرلو، پھر چاہے احسان کر کے چھوڑ دو، یا فدیہ لے کر، یہاں تک کہ جنگ اپنے ہتھیار پھینک کر ختم ہوجائے۔ تمہیں تو یہی حکم ہے، اور اگر اللہ چاہتا تو خود ان سے انتقام لے لیتا لیکن تمہیں یہ حکم اس لیے دیا تاکہ تمہارا ایک دوسرے کے ذریعے امتحان لے۔‘‘

امام قرطبیؒ لکھتے ہیں:

’’لما میّز بین الفریقین امر بجھاد الکفار‘‘​

یعنی جب اللہ تعالیٰ نے دونوں فریقوں (مسلمانوں اور کافروں) کے درمیان فرق بیان فرما دیا تو ایمان والوں کو کافروں سے لڑنے کا حکم دیا۔‘‘ (القرطبی)

یعنی اس آیت میں یہ حکم ہے کہ مسلمان کافروں سے جہاد کریں۔ اس مسئلے کی مزید وضاحت امام رازیؒ نے فرمائی ہے۔ ملاحظہ کیجیے امام رازیؒ کے کلام کا خلاصہ۔

’’ارشاد فرمایا گیا کہ ان کی گردنیں مارو، اس سے معلوم ہوا کہ مومن صرف اپنا دفاع کرنے والا نہیں بلکہ کافروں کو ختم کرنے والا ہے، کیونکہ اگر صرف حملہ آور سے اپنا دفاع کرنا مقصود ہوتا تو گردنوں پر مارنے کا حکم نہ دیا جاتا جوکہ مکمل ختم کرنے کا حکم ہے۔ پس اللہ تعالیٰ کے کلام کا مقصد یہی ہے کہ کافروں کو زمین سے ختم کردو اور ان کے وجود سے زمین کو پاک کردو کیونکہ یہ زمین تمہارے لئے مسجد ہے اور مشرکین نجس ہیں، پس مسجد کو نجاست سے پاک کیاجاتا ہے۔‘‘ (نقلاً از: فتح الجواد/ ج۳/ ص ۳۳۷)
 
Top