اہل بیت امیر معاویہؓ کی نظرمیں

زنیرہ عقیل

منتظم اعلی۔ أیدہ اللہ
Staff member
منتظم اعلی
حضرت امیر معاویہؓ کے دل میںبھی اہل ِبیت کے حوالہ سے یہی صالح جذبات تھے، ان کا رویہ بھی حضرات اہل ِ بیت سےہمدردانہ اور مشفقانہ تھا ، وہ جس طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عزت کرتے تھے اسی طرح آپ کے اہل ِ خاندان کی عزت و توقیر کرتےتھے ، اہل بیت سے حضرت امیر معاویہ کو خصوصی تعلق تھا ، اسی لئے عین جنگ کے موقع پر قیصر روم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کے علاقے پر قبضہ کرنے کا خطرناک منصوبہ بنایا، اُس کا خیال تھا کہ مسلمان آپس میں دست بہ گریباں ہیں اور مجھے اس سے اچھا موقع پھر کبھی میسر نہیں آئے گا، اس نے سوچا کہ اس وقت حضرت علی رضی اللہ عنہ اندرونی طور پر سخت خلفشار میں ہیں ان کی حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ سے جنگ چل رہی ہے، میرے اس اقدام سے حضرت سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ بھی خوش ہوں گے،جب حضرت علی رضی اللہ عنہ کو قیصر روم کے خطرناک اور ناپاک عزائم کی اطلاع ملی تو بے حدفکرمند ہوئے، کیونکہ بیک وقت دو محاذوں پر جنگ لڑنا مشکل تھا،لیکن جب قیصرِ روم کے اس ناپاک ارادے کا علم حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کو ہوا تو وہ اسی وقت رعب و جلال سےبھرا ہو ا ایک خط قیصر روم کے نام تحریر فرمایاجس میں قیصر ِروم کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایاکہ: ائے لعنتی انسان ! مجھے اپنے اللہ کی قسم ہے اگر تو اپنے ارادے سے باز نہ آیا اور اپنے شہروں کی طرف واپس پلٹ نہ گیا تو کان کھول کر سن !پھر میں اور میرے چچا زاد بھائی(حضرت علیؓ) تیرے خلاف صلح کرلیں گے،پھر تجھے تیرے ملک سے نکال دیں گے اور زمین باوجود وسعت کے تجھ پر تنگ کردیں گے

(البدایہ و النہایہ،۸؍۱۱۹)

خط کیا تھا؟ ایک مؤثر ہتھیار تھا، جس میں شمشیرکی تیزی اور بادل کی گھن گھرج تھی، جسے پڑھ کر قیصر روم کے اوسان خطا ہوگئے، قیصر روم پر ایسی دہشت اور ایسا رعب طاری ہوا کہ ا س کے قدم جہا ں تھے وہیں رک گئے،اگر حضرت امیر معاویہؓ کو حضرت علی ؓ سے دلی بغض ہوتا اور ان کو اپنا دشمن سمجھتے تو قیصر ِ روم کےحلیف بن کر حضرت علیؓ کے خلاف محاذ کھول دیتے؛ لیکن تاریخ شاہد ہے کہ حضرت امیر معاویہؓ ایسا نہ کیا ؛ کیو نکہ ان کے دل میں دامادِ رسول ؐ کی عزت تھی ، ان کو اپنا بھائی سمجھتے تھے، اسی لئے جب حضرت علی ؓ کی شہادت ہوئی تو حضرت معاویہؓ کو بہت افسوس ہوا اور بہت غمگین ہوئے ، حضرت امیر معاویہؓکو جب کبھی حضرت علی ؓکی یاد آتی تو آنکھوں سے آنسو جاری ہوجاتے ، حضرت ضرار بن ضمرہ کنانیؓ بیان کرتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں حضرت معاویہؓکی خدمت میں گیا تو حضرت معاویہ نے ان سے فرمایا کہ میرے سامنے حضرت علیؓکے اوصاف بیان کیجیے، توحضرت ضرارؓنے کہا اے امیر المومنین !آپ مجھےمعذور سمجھے، اس پر حضرت معاویہؓنے کہا کہ میںتمہارا کوئی عذر قبول نہیں کروں گا،علیؓ کے اوصاف جمیلہ ہم سے بیان کرنے ہی ہوں گے، حضرت ضرارؓ نے کہا کہ اگر ان کے اوصاف کو بیان کرنا ضروری ہی ہے تو سنئے کہ حضرت علیؓ اونچے مقصد والے ، بڑی عزت والے اور بڑے طاقتور تھے، فیصلہ کن بات کہتے اور عدل و انصاف والافیصلہ کرتے تھے، آپ کے ہر پہلو سے علم پھوٹتا تھا،( یعنی آپ کے اقوال و افعال اور حرکات و سکنات سے لوگوں کو علمی فائدہ ہوتا تھا) اور ہر طرف سے دانائی ظاہر ہوتی تھی، دنیا اور دنیا کی رونق سے ان کو وحشت تھی، رات اور رات کے اندھیرے سے ان کا دل بڑا مانوس تھا،( یعنی رات کی عبادت میں ان کا دل بہت لگتا تھا) اللہ کی قسم!وہ بہت زیادہ رونے والے اور بہت زیادہ فکرمند رہنے والے تھے، اپنی ہتھیلیوں کو الٹتے پلٹتے اور اپنے نفس کو خطاب فرماتے ،سادہ اور مختصر لباس اورسادہ کھانا پسند تھا، اللہ کی قسم! وہ ہمارے ساتھ ایک عام آدمی کی طرح رہتے؛ جب ہم ان کے پاس جاتے تو ہمیں اپنے قریب بیٹھا لیتے اور جب ہم ان سے کچھ پوچھتے تو ضرور جواب دیتے، اگرچہ وہ ہم سے بہت گھل مل کر رہتے تھے؛ لیکن اس کے باوجود ان کی ہیبت کی وجہ سے ہم ان سے بات نہیں کرتے تھے؛ جب آپ تبسم فرماتے تو آپ کے دانت پروئے ہوئے موتیوں کی طرح نظر آتے، دینداروں کی قدر کرتے ،مسکینوں سے محبت رکھتے، کوئی طاقتور غلط دعوے میں کامیابی کی آپ سے توقع نہ رکھ سکتا، اور کوئی کمزور آپ کےانصاف سے نا امید نہ ہوتا، اور میں اللہ کو گواہ بنا کر کہتا ہوں کہ! میں نے ان کو ایک دفعہ ایسے وقت میں کھڑے ہوئے دیکھا کہ جب رات کی تاریکی چھا چکی تھی، اور ستارے ڈوب چکے تھے، اور آپ اپنی محراب میں اپنی ڈاڑھی پکڑے ہوئے ،جھکے ہوئے تھے ،اور اس آدمی کی طرح تلملا رہے تھے جسے کسی بچھونے کاٹ لیا ہو، اور غمگین آدمی کی طرح رو رہے تھے، اور ان کی صدا گویا اب بھی میرے کانوں میں گونج رہی ہے کہ باربار ر'' یاربنا یا ربنا '' فرمارہے تھے، اور اللہ کے سامنے گڑ گڑا تے، پھر دنیا کو مخاطب ہوکر فرماتے کہ اے دنیا! تو مجھے دھوکا دینا چاہتی ہے، میری طرف جھانک رہی ہے، مجھ سے دور ہو جا، مجھ سے دور ہو جا، کسی اور کو جاکر دھوکا دے، میں نے تجھے تین طلاق دی ہے؛ کیونکہ تیری عمر بہت تھوڑی ہے، اور تیری مجلس بہت گھٹیا ہے، تیری وجہ سے آدمی آسانی سے خطرے میں مبتلا ہو جاتا ہے، ہائے ہائے( میں کیا کروں) زادِ سفر تھوڑا ہے، اور سفر لمبا ہے، ہر راستہ وحشت ناک ہے، یہ سن کر حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کی آنکھوں سے آنسو جاری ہوگئے وہ اپنے آنسوؤں کو روک نہ سکے، اور اپنی آستین سے ان کو پوچھنے لگے، اورمجلس میں موجود لوگ ہچکیاں لے کر اتنا رونے لگے کہ گویاکہ گلے پھٹ گئے، اس پر حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا: بے شک بے شک ابوالحسن (یعنی حضرت علی) ایسے ہی تھے اللہ ان پر رحمت نازل فرمائے

(حیاۃ الصحابہ ، ۱؍۵۸)

اللہ تبارک و تعالی سے دعا ہےکہ ہمیں حق بات سمجھنے اور اس پر عمل کرنے کی توفیق نصیب فرمائے اور کج روی اور کج فکری سے ہماری حفاظت فرمائے۔
 
Top