شہید وفا

زنیرہ عقیل

منتظم اعلی۔ أیدہ اللہ
Staff member
منتظم اعلی
ایک صحابی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو گرفتار کیا گیا ، اذیتیں دی گئیں، مگر ان کے دل سے حب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو کم نہ کرسکے۔ اس محبت وعقیدت سے سرشار کا کیا کہیے جس کے بارے تاریخ کہتی ہے کہ خبیب بن عدی کے قتل میں مشرکین نے بڑا اہتمام کیا، حرم سے باہر تنعیم میں ایک درخت پر سولی کا پھنداا لٹکایا گیا، آدمی جمع کیے گئے، مرد، عورت، بوڑھے، بچے، امیر، غریب، غرض ساری خلقت تماشائی تھی، جب لوگ عقبہ کے گھر سے ان کو لینے کے لیے آئے تو فرمایا: ذراٹھہرجاؤ ،دورکعت نماز پڑھ لوں، زیادہ پڑھوں گا تو کہوگے کہ موت سے گھبرا کر بہانہ ڈھونڈھ رہا ہے، نماز سے فارغ ہو کر مقتل کی طرف روانہ ہوئے، راستہ میں یہ دعا زبان پر تھی۔ پھر یہ شعر پڑھتے ہوئے ایک بڑے درخت کے نیچے پہنچے:

ترجمہ: یہ جو کچھ ہو رہا ہے خدا کی محبت میں، اگر وہ چاہے تو ان کٹے ٹکڑوں پر برکت نازل کرے گااگر مسلمان رہ کر میں مارا جاؤں تو مجھے غم نہیں کہ کس پہلو پر خدا کی راہ میں ، میں پچھاڑا جاتا ہوں۔

عقبہ بن حارث اور مبیرہ عبدری نے گلے میں پھندا ڈالا، چند منٹ کے بعد سراقدس دار پر تھا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو اس واقعہ کی خبر وحی کے ذریعے سے ہوئی تو فرمایا: اے خبیب! تجھ پر سلام۔ آں حضور نے عمرو بن امیہ ضمری کو اس شہید وفا کی لاش کا پتہ لگانے کے لیے مکہ بھیجا، عمر ورات کو سولی کے پاس ڈرتے ڈرتے گئے، درخت پر چڑھ کر رسی کاٹی، جسد ِ اطہر زمین پر گرا، چاہا کہ اتر کر اٹھالیں ، لیکن یہ جسم زمین کے لیے نہ تھا، فرشتوں نے اٹھا کر اس مقام پر پہنچایا، جہاں شہیدان وفا راہ خدا کی روحیں رہتی ہیں! عمر وبن امیہ کو سخت حیرت ہوئی، بولے کہ کیا انہیں زمین تو نہیں نگل گئی۔ قتل کرتے وقت مشرکین نے قبلہ رخ نہیں رکھا تھا؟ لیکن جو چہرہ قبلہ کی طرف پھر چکا تھاوہ کسی دوسری طرف کیوں کر پھر سکتا تھا،مشرکیننے بار بار پھیرنے کی کوشش کی، مگر ناکامی ہوئی، خبیب نے جو دعاکی تھی، اس کا اثر ایک سال کے اندر ظاہر ہو گیا، جو لوگ ان کے قتل میں شریک تھے، نہایت بے کسی کی حالت میں مارے گئے۔
 
Top