قاتل کو مقتول کی میراث نہ ملے گئی

زنیرہ عقیل

منتظم اعلی۔ أیدہ اللہ
Staff member
منتظم اعلی
قاتل کو مقتول کی میراث نہ ملے گئی…
(اگر کوئی بندا اپنے اسیے رشتہ دار کو قتل کردے جس کا وہ شرعاً واث بنتا ہے تو اب اس قتل کی وجہ سے قاتل مقتول کی جائیداد سے محروم ہوجائے گا)۔

قتل سے مراد وہ قتل ہے جس کی وجہ سے فی نفسہ قصاص یا کفارہ واجب ہو اگرچہ کسی مانع کی وجہ سے قصاص وکفارہ ساقط ہوگیا ہو، جیسے اگر باپ نے بیٹے کو قتل کردیا تو باپ وارث نہ ہوگا… اگرچہ اس پر قصاص وکفارہ بھی نہیں… لہٰذا اگر بالغ وارث نے اپنے مورث کو طلماً مار ڈالا تو یہ وارث میراث سے بالکل محروم رہے گا۔

فائدہ: جس قتل میں قصاص یا کفارہ آتا ہے اس کی تین قسمیں ہیں۔

قتل عمد:

یہ ہے کہ ایسی چیز سے قصداً قتل کرے جو جارح ہونے کی وجہ سے اجزاء میں تفریق پیدا کرتی ہو مثلاً تلوار، چھرا، بانس کی تیز کھپانچ اور آگ وغیرہ اس قتل کا موجب قصاص، گناہ اور میراث سے محرومی ہے۔

شبہ عمد:
یہ ہے کہ ایسی چیز سے قصداً قتل کرے جو جارح نہ ہو خواہ کسی بڑی موٹی بھاری زور دار چیزسے مارا ہو جس کے مارنے سے عموماً آدمی مر جاتے ہیں جیسے موٹا لٹھ، بڑا پتھر وغیرہ یا کسی چھوٹی چیز کے مارنے سے مر جائے جس سے عموماً لوگ نہیں مرتے مثلاً پتلی چھڑی، چھوٹا پتھر وغیرہ… اس کا موجب دیت،کفارہ اور میراث سے محرومی ہے۔

قتل خطاء:
یہ ہے کہ سہواً قتل ہو جائے یعنی غلطی سے مارا جائے مثلاً ہرن کو گولی یا تیر مار رہا تھا نشانہ خطا کر گیا اور مورث پر لگا … یا بندوق درست کر رہا تھا بلا قصداً چل گئی اور مورث کو لگ گئی یا کوئی چاقو یا بڑی چیز اس کے ہاتھ سے چھوٹ کر مورث پر جا پڑی وہ اس کے صدمے سے مرگیا… اس کا موجب دیت، کفارہ اور میراث سے محرومی ہے۔

اگر نا بالغ یا مجنون نے اپنے مورث کو قتل کردیا تو میراث سے محروم نہ ہوگا کیو نکہ نا بالغ و مجنون کے اکثر افعال شرعاً مستو جب سزا وجزا نہیں ہیں۔

اسی طرح اگر ظلماً نہیں مارا بلکہ مورث ناحق اس پر حملہ کررہا تھا اس نے اپنے کو بچانے کے لیے اس پر وار کیا اور وہ مورث مرگیا تو یہ وارث میراث سے محروم نہ ہوگا یا مورت پر سزا میںکسی درجہ سے شرعاً قتل واجب ہو اور باد شاہ یا قاضی کے حکم سے وارث نے قتل کردیا تو بھی میراث سے محروم نہ ہوگا کیونکہ ان سب صورتوں میں قتل ظلماً نہیں ہے۔
 
Top