انفاق فی سبیل اللّٰہ

زنیرہ عقیل

منتظم اعلی۔ أیدہ اللہ
Staff member
منتظم اعلی

انفاق فی سبیل اللہ کے اغراض و مقاصد​

غرض انفاق: حرص و بخل اور خود غرضی جیسے رذائل کے ازالہ میں بے حد نفع بخش ہے، جو چاہے اس نسخۂ کیمیاء کو آزماکر دیکھے!

انفاق فی سبیل اللہ چھ مختلف مقاصد کے لیے ضروری ہوا ہے، جن کی تفصیل درج ذیل ہے:

(۱)ضرورت مندوں کی حاجت روائی کے لئے​

جب کسی غریب آدمی کو کوئی بڑی حاجت پیش آتی ہے اور وہ زبان حال سے یا زبان قال سے اللہ تعالی کے سامنے گڑگڑاتا ہے تو اس کی وہ فریاد کرمِ خداوندی کے دروازے کو کھٹکھٹاتی ہے۔ چناچہ کبھی مصلحت خداوندی یہ ہوتی ہے کہ کسی سمجھ دار آدمی کے دل میں الہام کیا جاتا ہے کہ وہ اس کی حاجت روائی کرے۔ پس جب یہ الہام اس شخص پر چھا جاتا ہے یعنی اس کا دل اس غریب کی حاجت روائی کے لئے بے قرار ہو جاتا ہے اور وہ شخص اس الہام کے مطابق اس غریب کی ضرورت پوری کر دیتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس سے خوش ہوتے ہیں اور اس پر چہار جانب سے برکتیں نازل ہونا شروع ہوتی ہیں اور وہ شخص اللہ کی رحمتوں کا مورد بن جاتا ہے۔ شاہ صاحب رحمہ اللہ (شاہ ولی اللہ محدث دہلویؒ) کا ایک واقعہ ذکر کرتے ہیں کہ ایک مرتبہ ایک غریب آدمی نے مجھ سے اپنی کسی ضرورت سے مجبور ہو کر سوال کیا تو میں نے اپنے دل میں الہام ہوتا ہوا محسوس کیا کہ میں اس کی مدد کروں اور اس الہام میں مجھے دنیا و آخرت میں اجر جزیل کی خوشخبری بھی دی گئی ، چنانچہ میں نے اس کو دیا اور مجھ سے جو وعدہ کیا گیا تھا اس کا آنکھوں سے مشاہدہ کیا اور یہ سب باتیں

یعنی اس حاجت مند کا کرم ہے خداوندی کے دروازے کو کھٹکٹانا اور الہام خداوندی کا برانگیختہ ہونا ، اور اس کا میرے دل کو منتخب کرنا اور اجروثواب کا ظاہر ہونا۔ یہ سب باتیں میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھیں۔

(۲) رحمت خداوندی کے حصول کے لیے​

کبھی ایسا ہوتا ہے کہ کسی خاص مصرف میں خرچ کرنا رحمت خداوندی کو حاصل کرنے کا احتمال محل قرار پاتا ہے، اس وقت اسی محل میں خرچ کرنے سے رحمت خداوندی حاصل ہو سکتی ہے۔ مثلا کبھی کسی ملت کی شان دوبالا کرنے کا فیصلہ ہوتا ہے جو بھی شخص اس ملت کو بڑھانے کے لئے خرچ کرتا ہے وہ رحمت خداوندی کا مورد بنتا ہے اور اس وقت میں اس ملت کے معاملہ کو بڑھانا خرچ کرنے میں غزوہ تبوک کی طرح ہوتا ہے جس میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا تھا حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ انہوں نے اپنا سب کچھ پیش کر دیا تھا ، حضرت عمر رضی اللہ عنہ انہوں نے اپنا آدھا مال پیش کیا تھا اور حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے پہلی بار تین سو اونٹ، دوسری بار دو سو اونٹ اور تیسری بار تین سو اونٹ مع سامان، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خوش ہو کر فرمایا تھااگر عثمان آئندہ خرچ نہ بھی کریں تو کوئی حرج نہیں کیونکہ انہوں نے خرچ کرنے کا حق ادا کر دیا۔

جب قحط سالی کا زمانہ ہوتا ہے اور لوگ بھوک مری میں مبتلا ہوتے ہیں اور منشاء خداوندی ان لوگوں کو بچانا ہوتا ہے تو اس وقت لوگوں کو کھلانے سے رحمت خداوندی حاصل ہو سکتی ہے، دیگر مدات میں خرچ کرنے سے یہ بات حاصل نہیں ہوسکتی۔ غرض رحمت خداوندی کے حصول کی ان احتمالی جگہوں سے ، پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم ایک قاعدہ بناتے ہیں اور لوگوں کو بتاتے ہیں کہ جو کسی فقیر پر اتنا اتنا خرچ کرے گا یا ایسی ایسی حالت میں خرچ کرے گا ، تو اس کا یہ عمل نہایت مقبول ہو گا چناچہ مومنین یہ بات سنتے ہیں اور ان کا دل گواہی دیتا ہے کہ یہ وعدہ سچا ہے اس لیے وہ تعمیل حکم کرتے ہیں اور وہ اس وعدہ کو برحق پاتے ہیں جو ان سے کیا گیا ہے۔

(۳) حرص و بخل کے علاج کے لیے​

کبھی آدمی کی سمجھ میں یہ بات آتی ہے کہ مال کی محبت اور بخل نفسانی بیماریوں میں ایک خطرناک بیماری ہے اور تحصیل کمال کی راہ میں رکاوٹ ہے ، اس آدمی کو ان رذائل سے سخت اذیت پہنچتی ہے۔ اس بیماری کا علاج بس یہی ہے کہ آدمی اپنی محبوب ترین چیز راہ خدا میں خرچ کرنے کی مشق کرے۔ سورۃآل عمران آیت ۹۲ میں ہے کہ’’ تم ہرگز خیرِکامل حاصل نہیں کر سکتے تاوقتیکہ تم اپنی پیاری چیز راہ خدا میں خرچ کرو۔‘‘ انفاق رذائل نفس کا بہترین علاج ہے۔ ایسی صورت میں جب کہ آدمی میں یہ رذائلموجود ہوں اگر آدمی خرچ نہیں کرے گا ، تو یہ بیماریاںاس میں باقی رہ جائیں گی ، اور وہ آخرت میں گنجا سانپ بن کر متشکل ہوں گی ، جیسا کہ بخاری شریف کی روایت میں آیا ہے۔ اسی طرح اس کے ناطق و صامت اموال بھی ضرر ر سا ہوں گے۔ مسلم شریف کی روایت میں یہ مضمون آیا ہے کہ جس نے اونٹوں کی زکوٰۃ نہیں دی ہوگی ، اس کو ہموار چکنے میدان میں منہ کے بل لٹایا جائے گا اور اونٹ اس پر چل کر اس کو روند یں گے۔ (مشکوٰۃ حدیث نمبر 1773) سورہ توبہ آیت 34 35 میں ارشاد ہے: ’’جو لوگ سونا چاندی جمع کر کر رکھتے ہیں اور ان کو اللہ کی راہ میں خرچ نہیں کرتے تو آپ ان کو ایک بڑی دردناک سزا کی خبر سنا دیجئے ، جس دن اس کو دوزخ کی آگ میں تپایا جائے گا، پھر اس سے ان کی پیشانیوں اور ان کی کروٹوں اور ان کی پشتوں کو داغ دیا جائے گا ،کہا جائے گا یہ ہے وہ جس کو تم نے اپنے واسطے جمع کرکے رکھا تھا، سو اب اپنے جمع کرنے کا مزہ چکھو‘‘۔

(۴)بلاوں اور آفتوں کو ٹالنے کے لیے​

کبھی عالم مثال میں کسی کی موت کا فیصلہ ہو جاتا ہے یا اس پر کسی بلا کا اترنا طے ہو جاتا ہے ، ایسے وقت میں اگر وہ شخص مال کی بہت بڑی مقدار راہ خدا میں خرچ کرے اور وہ خود بھی اور دوسرے نیک بندے بھی اس کے حق میں گڑگڑا کر دعا مانگیں تو اس کی موت کا فیصلہ رک جاتا ہے اور اس کی بلا ٹل جاتی ہے ۔ ترمذی شریف کی روایت ہے کہ دعاء ہی قضائے الٰہی کو پھیرتی ہے، اور نیکی ہی عمر میں زیادتی کرتی ہے ، ۔ (مشکوۃ کتاب الدعوات حدیث نمبر 2233)

(۵) گناہوں سے حفاظت کے لیے​

کبھی انسان سے کوئی بُرا کام سرزد ہوجاتا ہے ، اور وہ اس پر نادم ہوتا ہے ، مگر پھر نفس غالب آ جاتا ہے اور دوبارہ وہی گناہ ہو جاتا ہے اور ایسا بار بار ہوتا ہے تو اس صورت میں گناہ سے بچنے کا بہترین علاج یہ ہے کہ آدمی گناہ کا اچھا خاصا مالی تاوان ادا کرے تاکہ آئندہ جب نفس گناہ کرنے کے لئے مجبور کرے تو وہ تاوان نگاہوں کے سامنے رہے اور اس کو گناہ سے روک دے۔ آدمی نفس کو سمجھائے کہ اگر تو نے یہ حرکت کی تو پھر تجھے تاوان ادا کرنا پڑے گا۔ اور انسان کی فطرت یہ ہے کہ وہ چمڑی تو دے سکتا ہے ، دمڑی نہیں دے سکتا، اس لئے نفس گناہ سے رک جائے گا۔ شریعت میں جو مختلف گناہوں کے کفارے متعین کئے گئے ہیں وہ اسی مقصد سے ہیں اور کفارات تو خیر ضروری جرمانے ہیں ان کو ادا کرنا ہی ہے۔ کچھ تاوان رضا کرانہ بھی متعین کئے گئے ہیں مثلا حالت حیض میں بیوی سے صحبت کرنے پر ایک دینار یا نصفدینار صدقہ کرنے کا حکم ترمذی شریف کی روایت میں آیا ہے وہ اسی باب سے ہے۔ غرض آدمی کسی بھی گناہ سے بچنا چاہے یا کسی بھی نیک عمل کی پابندی کرنا چاہے اور نفس مطاوعتنہ کرے تو اس کا علاج یہی مالی جرمانہ ہے مثلاً آدمی غیبت سے بچنا چاہتا ہے یا تہجد کی پابندی کرنا چاہے تو غیبت سرزد ہونے پر اور تہجد چھوٹنے پر ایکمعقول جرمانہ خود پر لازم کرے ،انشاء اللہغیبت سے بچ جائے گا اور تہجد پابندی سے ادا کرنے لگے گا۔

(۶) خاندان کی خبر گیری کرنے کے لیے​

کبھی حسن اخلاق کے تقاضے سے اور کبھی خاندان کے نظام کی حفاظت کے لیے مختلف طرح کے کام کرنے ضروری ہوتے ہیں، مثلا غریبوں کا مالی تعاون کرنا ، بھوکوں کو کھانا کھلانا، رشتہ داروں کا مالی تعاون کرنا اور آپس میں سلام کو رواج دینا اور مختلف طرح سے لوگوں کی غمخواری کرنا۔پس یہ سب کام شرعاً مامور بہ ہو جاتے ہیں اور سب صدقہ وخیرات شمار کیے جاتے ہیں۔ ترمذی شریف کی روایت میں ہے کہ’’ اپنے بھائی سے خندہ پیشانی سے ملنا صدقہ ہے اور نیک بات کا حکم دینا صدقہ ہے بری بات سے روکنا صدقہ ہے اوراپنے ڈول سے اپنے بھائی کے ڈول میں پانی ڈالنا صدقہ ہے۔‘‘ (مشکوۃ کتاب الزکوۃ باب 16 صدقہ حدیث نمبر 1911 )

انفاق (یعنی اللہ کی راہ میں خرچ کرنے) کی فضیلت اور امساک (یعنی خرچ کرنے سے رکنے) کی مذمت

اس باب میں دو باتوں کو بیان کرنا ضروری ہے:

(۱) اللہ تعالیٰ کے راستے میں خرچ کرنے کے فضائل و ترغیبات، تاکہ لوگ شوق ورغبت اور سخاوت سے خرچ کریں۔ کیونکہ انفاق کی روح فیاضی ہے۔ اور تہذیب نفس کا مقصد، جو انفاق کی پہلی اور بنیادی مصلحت ہے، وہ بھی سخاوت ہی سے حاصل ہوتا ہے۔

(۲) اللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ کرنے سے ہاتھ روک لینے کی قباحتیں بیان کی جائیں، اور دولت جمع کر کے رکھنے سے لوگوں کا دل ہٹایا جائے۔ اس لئے کہ آخرت میں نقصان پہنچنے کی اور اللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ نہ کرنے کی اصل وجہ انتہائی درجہ کا بخل ہے، اور وہ مال کی بے حد محبت کا نتیجہ ہے۔ اور بخل کا نقصان دنیا میں بھی پہنچتا ہے اور آخرت میں بھی۔

دنیا میں بخل کا نقصان

ایک حدیث مبارکہ ہے: ’’ہر صبح دو فرشتے اترتے ہیں ، ایک کہتا ہے، اے اللہ! خرچ کرنے والے کو بدل عطاء فرما، (دوسرا فرشتہ آمین کہتا ہے) اور دوسرا کہتا ہے، اے اللہ! مال خرچ نہ کرنے والے کا مال تلف فرما (پہلا فرشتہ اس پر آمین کہتا ہے، پھر دونوں فرشتے واپس آسمان پر چلے جاتے ہیں)۔‘‘ (مشکوٰۃ: حدیث نمبر ۱۸۶۰)

اس حدیث میں انفاق کی فضیلت اور امساک کی خرابی دونوں باتیں بیان کی گئی ہیں، یعنی جو اللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ کرتا ہے اس کو دنیا میں بھی اس کا عوض ملتا ہے، اور جو جمع کر کے رکھتا ہے اس کا مال جلد یا بدیر تلف ہو جاتا ہے۔

یہی مضمون درج ذیل حدیثوں میں بھی آیا ہے۔

حدیث مبارکہ ہے: ’’انتہائی درجہ کی بخیلی سے بچو، غایتِ حرص ہی نے تم سے پہلے والوں کو تباہ کیا ہے۔ اس نے ان کو ابھارا اور انہوں نے اپنوں ہی کا خون بہایا اور ناجائز چیزوں کو حلال کر لیا۔‘‘ (مشکوٰۃ: حدیث ۱۸۶۵)

حدیث مبارکہ ہے: ’’صدقہ اللہ تعالیٰ کے غصہ کو ٹھنڈا کرتا ہے، اور بری موت کو ہٹاتا ہے۔‘‘ (یعنی دنیا میں اللہ تعالیٰ عافیت سے رکھتے ہیں اور خاتمہ بالخیر ہوتا ہے) (مشکوٰۃ: حدیث ۱۹۰۸)

حدیث مبارکہ ہے، ارشاد فرمایا: ’’صدقہ غلطی (گناہ) کو بجھاتا ہے، جس طرح پانی آگ کو بجھاتا ہے۔‘‘ (مشکوٰۃ، کتاب الایمان: حدیث بروایت حضرت معاذؓ)

ارشاد فرمایا: ’’جو شخص حلال کمائی سے کھجور کے بقدر بھی صدقہ کرے، اور اللہ تعالیٰ حلال ہی کو قبول فرماتے ہیں، تو اللہ تعالیٰ اس صدقہ کو اپنے دائیں ہاتھ سے قبول فرماتے ہیں، اور اللہ کے دونوں ہاتھ دائیں ہیں، پھر اس صدقہ کو صدقہ کرنے والے کے لئے پالتے ہیں، جس طرح لوگ بچھڑے کو پالتے ہیں، یہاں تک کہ وہ صدقہ (پلتے پلتے ) پہاڑ کے برابر ہو جاتا ہے۔‘‘ (مشکوٰۃ: حدیث ۱۸۸۸)

ان چاروں احادیث مبارکہ میں دنیوی اور اخروی نفع و ضرر کا بیان ہے۔

پہلی حدیث مبارکہ کا راز یہ ہے کہ فرشتے مصلحینکے لئے دعائیں کرتے ہیں، اورمفسدین کے لئے بد دعائیں کرتے ہیں۔ اور جو شخص معاشرہ کو یا خود کو سنوارنے کی کوشش کرتا ہے اس پر اللہ تعالیٰ رحمت نازل فرماتے ہیں۔ اور جو زمین میں فساد پھیلاتا ہے اس کو پھٹکارتے ہیں۔ یہی دعائیں اور رحمتیں خرچ کرنے والے کی طرف متوجہ ہوتی ہیں اور بد دعائیں اور لعنتیں کنجوسی کرنے والے کی طرف ، پس سخی آدمی پنپتا ہے، اور سخی معاشرہ رونق پاتا ہے، اور حریص آدمی خود بھی تباہ ہوتا ہے اور معاشرہ کو بھی لے ڈوبٹتا ہے اور آخرت کا نفع و نقصان تو سامنے ہے۔

اور دوسری اور تیسری احادیث مبارکہ کا راز یہ ہے کہ یہی دعائیں اور رحمتیں غلطیوں اور گناہوں کی معافی کا سبب بنتی ہیں، اور اللہ کی ناراضگی خوشی سے بدل جاتی ہے۔ اور جب خطا کار خرچ نہیں کرتا تو ناراضگی میں اضافہ ہو جاتا ہے، اور ایک دن وہ تباہ ہو جاتا ہے۔

اور چوتھی حدیث مبارکہ میں جو فرمایا گیا ہے کہ: ’’اللہ تعالیٰ اس صدقہ کو قبول فرما تے ہیں‘‘ اس کا مطلب یہ ہے کہ صدقہ کی صورت، مثلاً کھجور صدقہ کی ہے تو اس کی صورت عالَم مثال میں صدقہ کرنے والے کی طرف منسوب ہو کر پائی جاتی ہے، یعنی کہا جاتا ہے کہ یہ کھجور فلاں شخص کا صدقہ ہے۔ جیسے کہا جاتا ہے کہ یہ فلاں کا صاحب زادہ ہے۔ اور وہاں عالَم مثال میں فرشتوں کی دعاؤں سے اور بندے پر رحمت خدا وندی سے، اس خیرات کی ظاہری صورت تکمیل پذیر ہوتی ہے، اور وہ کھجور پہاڑ کے برابر ہو جاتی ہے۔اور نسبت کی وجہ سے دنیا میں بھی خیرات کرنے والا برکتوں سے مالا مال ہوتا ہے، جیسے نسبت کی وجہ سے صاحب زادہ کا احترام کیا جاتا ہے، یہ دنیا میں اس صدقہ کا سود مند ہونا ہے۔
 
Top