معارف زکوٰۃ .... مجدد ملت حکیم الاسلام حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمہ اللہ

زنیرہ عقیل

منتظم اعلی۔ أیدہ اللہ
Staff member
منتظم اعلی

مقدار ومدت زکوٰۃ کی تعیین میں حکمت​

زکوٰۃ کی مصلحت معلوم ہو جانے کے بعد اب دو چیزوں کی تعیین ضروری ہے۔

(۱) مقدار زکوٰۃ کی تعیین​

زکوٰۃ کی مقدار متعین ہونا ضروری ہے۔ کیونکہ اگر زکوٰۃ کی مقدار متعین نہیں ہو گی تو زکوٰۃ دینے والے کم سے کم دینا چاہیں گے اور عاملین (زکوٰۃ وصول کرنے والے) زیادہ سے زیادہ لینا چاہیں گے تو لامحالہ اس سے اختلاف ہو گا۔

اور اسی طرح یہ بھی ضروری ہے کہ زکوٰۃ کی مقدار نہ تو بہت تھوڑی ہو اور نہ بہت زیادہ۔ کیونکہ اگر زکوٰۃ کی مقدار بہت تھوڑی ہوئی تو اس کی نہ تو کوئی اہمیت ہو گی اور نہ وہ بخل سے نجات دلانے میں کارگر ہو گی اور نہ ہی اس سے غریبوں کی کامل حاجت روائی ہو گی۔ اور اگر وہ بہت زیادہ ہوئی تو اس کی ادائیگی دشوار ہو گی۔ (چنانچہ اسی مصلحت کی وجہ سے زکوٰۃ کی مقدار چالیسواں حصہ مقرر کی گئی۔)

(۲) وقت زکوٰۃ کی تعیین​

دوسری چیز جس کا ہونا ضروری ہے وہ ہے وصولیٔ زکوٰۃ کی مدت کا متعین ہونا اور اس مدت کا نہ انتہائی مختصر ہونا اور نہ انتہائی طویل۔ کیونکہ اگر وہ مدت قلیل ہو گی تو بار بار آئے گی اور لوگوں کے لئے ادائیگی دشوار ہو جائے گی۔ اور اگر وہ مدت بہت طویل ہوئی تو اس سے بخل کی رذیل عادت کو زائل کرنے میں کوئی خاطر خواہ کامیابی نہ ہوگی اور غریبوں کے گھر خوشحالی بھی طویل انتظار کے بعد آئے گی۔

چنانچہ اس مصلحت سے ہم آہنگی کے لئے زکوٰۃ کی مدت ’’ایک سال‘‘ مقرر کی گئی ہے۔ کیونکہ لوگ اس مدت کے عادی ہیں۔ تمام انصاف پرور بادشاہ سال بھر میں لگان وغیرہ وصول کرتے ہیں۔ اس مدت کے عرب و عجم خوگر سب ہیں۔ اور اس مدت کے بارے میں لوگ اپنے دلوں میں کوئی تنگی بھی محسوس نہیں کرتے۔ اس لئے زکوٰۃ کے لئے ایک سال کا وقت ہی مناسب ہے، لوگ اس کو آسانی سے قبول کر لیں گے اور اس میں لوگوں پر مہربانی بھی ہوگی۔

زکوٰۃ، عشر، خمس اور صدقۃ الفطر کی تعیین کی مصلحتیں​

زکوٰۃ، عشر، خمس اور صدقۃ الفطر کی تعیین شریعت نے گزشتہ انصاف پرور بادشاہوں کے محاصل کے طریقوں کو پیش نظر رکھ کر کی ہے۔ کیونکہ معتدل ممالک کے تمام نیک سیرت بادشاہ عموماً چار مدات کے زمرے میں عوام سے اموال وصول کیا کرتے تھے۔ وہ چار مدات ایسی تھیںکہ ان کی ادائیگی لوگوں پر مشکل نہیں ہوتی تھی اور وہ خندہ پیشانی سے ان کو ادا کرتے تھے۔ وہ چار مدات یہ ہیں۔

پہلی مد

’’اموال نامیہ‘‘ کے زوائد سے کچھ وصول کیا جائے۔

’’اموال نامیہ‘‘ ان اموال کو کہتے ہیں جن میں محسوس بڑھوتری یعنی اضافہ ہوتا ہے۔ اور یہ تین طرح کے اموال ہیں۔

(۱) وہ مویشی جو نسل حاصل کرنے کے لیے پالے جاتے ہیں اور وہ مباح چارہ کھا کر پلتے ہیں، (یعنی انہیں گھر سے نہیں کھلانا پڑتا، بلکہ وہ جنگلوں وغیرہ میں چر کر گذارہ کرتے ہیں۔)

(۲) ’’کھیتیاں‘‘ یعنی زمین اور باغات کی پیداوار۔

(۳) اموال تجارت۔

ان تین طرح کے اموال نامیہ سے گذشتہ بادشاہ لگان وصول کیا کرتے تھے۔ شریعت نے بھی انہی اموال میں زکوٰۃ و عشر کو واجب کیا۔ ان اموال میں سے زکوٰۃ و عشر وصول کیے جانے کی دو وجوہات ہیں۔

پہلی وجہ:

یہ اموال مدافعت یعنی حفاظت کے محتاج ہیں۔ کیونکہ جانور چرنے کے لیے بستی سے باہر آتے جاتے ہیں۔ کھیتیوں اور باغات کو بھی حفاظت کی ضرورت ہوتی ہے۔ اموال تجارت ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل ہوتے ہیں، اس دوران ان کی حفاظت ضروری ہوتی ہے، نیز گھروں اور دکانوں میں بھی وہ حفاظت کے محتاج ہوتے ہیں۔ ان تمام چیزوں کو تحفظ فراہم کرنا حکومت کی ذمہ داری ہوتی ہے۔ اور فقہ کا ضابطہ ہے:

’’الغرم بالغنم۔‘‘​

’’نفع کے بدلے میں تاوان ہے۔‘‘

[قواعدالفقہ۔ قاعدہ:۱۹۵،شرح القوا عد الفقہیہ۔ قاعدہ: ۸۶]

یعنی جب کسی چیز سے نفع اٹھایا ہے تو اس کا عوض لازم ہے۔ اسی لیے انصاف پرور بادشاہ عوام الناس کو ان کے ان تینوں اموال پر تحفظ فراہم کرنے کے عوض میں ان اموال سے کچھ نہ کچھ وصول کیا کرتے تھے۔ شریعت اسلامیہ نے بھی مواشی اور اموال تجارت میں زکوٰۃ مقرر کی، اور غلہ اور پھلوں وغیرہ میں عشر لازم کیا۔

دوسری وجہ

اموال نامیہ میںزکوٰۃ و عشر لازم کرنے کی دوسری وجہ یہ ہے کہ ان اموال میں نُماء حقیقی ہے۔ یعنی ہر وقت ان میں اضافہ ہوتا ہوا نظر آتا ہے۔ چنانچہ مویشی بچے جنتے ہیں، کھیتیاں پکتی کٹتی ہیں اور ڈھیر لگ جاتا ہے، پھل اترتے ہیں اور تجارت نفع دیتی ہے۔ اس لئے اگر ان اموال کے زوائد اور بڑھوتری میں سے کچھ لیا جائے گا تو لوگوں پر کچھ وزن نہیں پڑے گا۔

دوسری مد

سرمایہ داروں سے اور دولت مندوں سے کچھ لیا جائے۔

ان کے اموال میں سے لئے جانے کی بھی دو وجوہات ہیں۔

پہلی وجہ

یہ اموال بھی چوروں، ڈکیتوں سے حفاظت کے محتاج ہیں، جو حکومت کرتی ہے۔ اس لیے مذکورہ بالا ضابطے کے تحت اس کا عوض لیا جاتا ہے۔

دوسری وجہ

دولت مندوں کے ذمے اور بھی خرچے ہوتے ہیں، یعنی وہ طرح طرح سے خرچ کرتے رہتے ہیں۔ اس لئے اگر ان کے ان خرچوں میں زکوٰۃ بھی شامل کر لی جائے گی تو ان پر کچھ بار نہ ہوگا۔

تیسری مد

’’سراسر نفع بخش اموال‘‘ میں سے کچھ لیا جائے۔

وہ اموال یہ ہیں:

(۱) اسلام سے قریب زمانہ کے جاہلیت کے دفینے۔

(۲) قدیم زمانہ کی مدفون قیمتی چیزیں۔

(۳) عند الاحناف قدرتی کانیں۔

(۴) اموال غنیمت۔

یہ سب اموال ’’سراسر نفع بخش‘‘ ہیں۔ بغیر کسی خاص مشقت کے لوگ ان کو حاصل کرتے ہیں۔ اور ان میں نقصان کا کوئی پہلو نہیں ہوتا۔ گویا یہ اموال مال مفت ہیں، اس لئے اگر ان میں سے پانچواں حصہ بھی لے لیا جائے تو لوگوں پر کوئی بوجھ نہیں پڑے گا۔ اس لئے شریعت نے ان اموال میں ’’خمس‘‘ واجب کیا ہے۔

چوتھی مد

نفری ٹیکس

گذشتہ حکومتیں ہر باروزگار آدمی پر ایک ٹیکس لگایا کرتی تھیں۔ کیونکہ لوگوں میں اکثر یت کمانے والے والوں کی ہوتی ہے اس لئے اگر ان سے مال کی معمولی مقدار لے لی جائے تو ان پر کوئی بوجھ نہیں پڑتا اور مال کی معقول مقدار بھی جمع ہوجاتی ہے۔ شریعت نے اس ’’ٹیکس‘‘ کی جگہ ’’صدقۃالفطر‘‘ مقرر کیا ہے۔ جس سے غرباء کی اعانت ہوتی ہے۔
 
Top