زنا سے حمل ٹھہرنے کے بعد زانی سے نکاح کرنے کی صورت میں پیدا ہونے والا بچہ

زنیرہ عقیل

منتظم اعلی۔ أیدہ اللہ
Staff member
منتظم اعلی

سوال​

شادی سے پہلے زنا کرنے سے حمل ٹھہر جانے کے بعد زانی سے نکاح کرنے سے وہ اولاد جائز ہوگی یا نہیں؟

جواب
نکاح سے پہلے منکوحہ اجنبی کے حکم میں ہوتی ہے، اس سے اختلاط نا جائز ہوتا ہے، اور اس سے ہم بستری کرنا ’’زنا‘‘ کہلاتا ہے، اگر کسی نے ایسا کر لیا تو سخت گناہ کا کام کیا، اس پر خوب توبہ و استغفار کرنی چاہیے۔

باقی زنا کرنے کی وجہ سے حمل ٹھہرنے کے بعد زانی سے نکاح کرنے کی صورت میں اگر نکاح کے چھ مہینے بعد اس حمل سے بچہ پیدا ہو تو وہ بچہ ثابت النسب ہوگا، لیکن اگر نکاح کے بعد چھ ماہ گزرنے سے پہلے ہی بچہ پیدا ہوگیا تو پھر اس بچہ کا اس زانی سے نسب ثابت نہیں ہوگا اور وہ بچہ ولد الزنا ہی کہلائے گا۔ البتہ اس صورت میں اگر زانی اس بچے کے باپ ہونے کا اقرار کرلیتا ہے اور زنا کا ذکر نہیں کرتا تو بھی اس بچے کا نسب اس سے ثابت ہوجائے گا۔

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (3/ 49):

"لو نكحها الزاني حل له وطؤها اتفاقاً، والولد له ولزمه النفقة.

(قوله: والولد له) أي إن جاءت بعد النكاح لستة أشهر، مختارات النوازل، فلو لأقل من ستة أشهر من وقت النكاح لايثبت النسب، ولايرث منه إلا أن يقول: هذا الولد مني، ولايقول: من الزنى، خانية. والظاهر أن هذا من حيث القضاء، أما من حيث الديانة فلايجوز له أن يدعيه؛ لأن الشرع قطع نسبه منه، فلايحل له استلحاقه به، ولذا لو صرح بأنه من الزنى لايثبت قضاءً أيضاً، وإنما يثبت لو لم يصرح؛ لاحتمال كونه بعقد سابق أو بشبهة حملاً لحال المسلم على الصلاح، وكذا ثبوته مطلقاً إذا جاءت به لستة أشهر من النكاح؛ لاحتمال علوقه بعد العقد، وأن ما قبل العقد كان انتفاخاً لا حملاً، ويحتاط في إثبات النسب ما أمكن". فقط واللہ اعلم





فتوی نمبر : 144012201873
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن
 

احمدقاسمی

منتظم اعلی۔ أیدہ اللہ
Staff member
منتظم اعلی
کرائے کی کوکھ لے کر بچہ کی ولادت کرائی جائے تب بچہ کس کی طرف منسوب ہوگا؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟
 

محمدداؤدالرحمن علی

خادم
Staff member
منتظم اعلی
کرائے کی کوکھ لے کر بچہ کی ولادت کرائی جائے تب بچہ کس کی طرف منسوب ہوگا؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟
کرائے کی کوکھ حاصل کرنا علماء کے نزدیک حرام ہے
اور نسب کے لیے عورت کا مرد سے نکاح ہونا ضروری ہے۔
لہذا اس صورت میں بچہ یا بچی کا نسب مرد سے شرعا ثابت نہ ہوگا۔
 

محمدداؤدالرحمن علی

خادم
Staff member
منتظم اعلی
نسب کے لیے چوں کہ عورت کا مرد کے نکاح میں ہونا شرعاًضروری ہوتا ہے؛ لہذا مذکورہ طریقہ سے پیدا ہونے والے بچہ/بچی کا نسب اس مرد سے شرعاً ثابت نہیں ہوگا جس کا مادہ منویہ اجنبی خاتون کے رحم میں ڈالا گیا تھا، پس اگر وہ اجنبی خاتون پہلے سے کسی کے نکاح میں ہو تو اس طریقہ سے پیدا ہونے والے بچہ/ بچی کا نسب رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان: "الولد للفراش و للعاهر الحجر" (مشكوة ص ٢٨٧) کی وجہ سے اس عورت کے شوہر سے ثابت ہوگا جس کی کوکھ کرایہ پر لی گئی ہو، اور اگر اجنبی خاتون پہلے سے کسی کے نکاح میں نہ ہو تو اس صورت میں بھی اس بچہ/بچی کی اصل ماں وہی خاتون قرار دی جائے گی جس نے اس کو جنا ہوگا اور دیگر شرعی احکامات جیسے ثبوتِ نسب میراث سے محرم ہونا وغیرہ سب کا تعلق اسی خاتون سے ہوگا، ارشاد باری تعالی ہے: إنْ أُمَّهٰتُهُمْ إلّا الّٰئِي وَلَدْنَهُمْ. (المجادلة ٢) ترجمہ: ان کی مائیں تو وہی ہیں جنہوں نے ان کو جنا ہے.
 

زنیرہ عقیل

منتظم اعلی۔ أیدہ اللہ
Staff member
منتظم اعلی
کرائے کی کوکھ لے کر بچہ کی ولادت کرائی جائے تب بچہ کس کی طرف منسوب ہوگا؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟
یہاں پر تین جواز بنتے ہیں ناجائز ہونے کے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

پہلا جواز۔۔۔۔۔جس سے نکاح ہوا ہے ان کے علاوہ کسی اور خاتون کے رحم کو سیراب کرنا فطری طریقہ سے ہو یا غیر فطری طریقہ سے ہو ناجائز ہے

رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:
لا يحل لامرئ يؤمن بالله و اليوم الاخر ان يسقي ماء ه زرع غيره. (مشكوة ص ٢٩٠)
ترجمہ: جو شخص اللہ پر اور روزِ آخرت پر یقین رکھتا ہے اس کے لیے حلال نہیں ہے کہ اپنا پانی (مادہ منویہ) دوسرے کے کھیت (اجنبی خاتون) میں ڈالے.

اولاد کے حصول کا فطری شرعی طریقہ نکاح ہے۔

دوسرا جواز۔۔۔۔۔۔۔ شرم گاہ کی کمائی اسلام میں حرام ہے۔

شرم گاہ کے ذریعہ کمائی کرنے سے بھی منع فرمایا ہے اور ایسی کمائی کو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حرام قرار دیا ہے ارشاد ہے:
ان رسول الله صلي الله عليه وسلم نهي عن ثمن الكلب و كسب البغي و حلوان الكاهن. (مشكوة ص ٢٤١).

تیسرا جواز
۔۔۔۔۔۔تیسری وجہ اختلاط نسب ہے۔

زنا کے حرام ہونے کی بھی ایک اہم وجہ اختلاط نسب ہے اور شریعتِ مطہرہ نے حفاظتِ نسب کےلیے اور نسب کے اشتباہ سے بچنے کےلیے ایک مرد کی زوجیت سے نکلنے کے بعد دوسرے مرد سے نکاح سے پہلے عدت کا مرحلہ رکھا ہے اور عدت کی تکمیل سے پہلے دوسرا نکاح ناجائز قرار دیا ہے.
حجة الله البالغةمیں ہے:
منها: معرفة براءةرحمها من ماءه لئلا تختلط الانساب فان النسب احد ما يتشاح به و يطلبه العقلاء وهو من خواص نوع الانسان و مما امتاز به من سائر الحيوان.(٢/١٠٦)


ثبوتِ نسب کے لیے چوں کہ عورت کا مرد کے نکاح میں ہونا شرعاًضروری ہوتا ہے

اگر وہ اجنبی خاتون پہلے سے کسی کے نکاح میں ہو تو اس طریقہ سے پیدا ہونے والے بچے کا نسب رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان:
"الولد للفراش و للعاهر الحجر" (مشكوة ص ٢٨٧) کی وجہ سے اس عورت کے شوہر سے ثابت ہوگا جس کی کوکھ کرایہ پر لی گئی ہو، اور اگر اجنبی خاتون پہلے سے کسی کے نکاح میں نہ ہو تو اس صورت میں بھی اس بچےکی اصل ماں وہی خاتون قرار دی جائے گی

ارشاد باری تعالی ہے:
إنْ أُمَّهٰتُهُمْ إلّا الّٰئِي وَلَدْنَهُمْ. (المجادلة ٢)
ترجمہ: ان کی مائیں تو وہی ہیں جنہوں نے ان کو جنا ہے.
 
Top