سفیر ِاسلام حضرت عبد اللہ بن حذافہ رضی اللہ عنہ

زنیرہ عقیل

منتظم اعلی۔ أیدہ اللہ
Staff member
منتظم اعلی
حضرت عبد اللہ بن حذافہ رضی اللہ عنہ وہ جلیل القدر صحابی ہیں جن کو رسول اللہ ﷺ نے شاہِ ایران کسریٰ کی طرف پیغام اسلام پہنچانے کے لیے سفیر بناکر بھیجا تھا۔ الاستیعاب میں مذکور ہے کہ آپ صحابۂ کرام میں مزاحیہ طبیعت کے مالک تھے۔ آپ غزوات میں حضور نبی اکرم ﷺ کے شانہ بشانہ رہتے تھے۔ یہاں تک کہ حجۃ الوداع میں بھی نبی اکرم ﷺ کے ہمراہ تھے۔ آپ کو ہجرتِ مدینہ کے ساتھ ہجرتِ حبشہ کا شرف بھی حاصل ہے۔ آپ بہت جرّی اور بہادر صحابی تھے۔ ایک مرتبہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے آپ کو ایک لشکر کے ساتھ روم کی طرف روانہ کیا ۔ رومی فوج نے آپ کو گرفتار کرکے روم کے بادشاہ کے پاس بھیج دیا۔ روم کے بادشاہ نے کہا کہ آپ نصرانیت اختیار کرلیں ہم آپ کو اقتدار میں شریک کرلیں گے۔ آپ رضی اللہ عنہ کے انکار پر بادشاہ نے پھانسی کا کم دے دیا۔ لیکن آپ نے رسول اللہ ﷺکی غلامی کا ایسا ثبوت دیا کہ آپ اپنی جان کے خوف سے بالکل بھی نہیں گھبرائے۔ شاہِ روم نے ایک دیگ لانے کا حکم دیا ۔ اس دیگ میں پانی ڈالا گیا اور اس کے نیچے آگ جلادی گئی۔ جب پانی کھولتا ہوا گرم ہوگیا تو اس میں ایک قیدی کو پکڑ کر ڈال دیا گیا جس سے اس کے جسم کا گوشت ہڈیوں سے الگ ہوگیا۔ شاہِ روم نے ایک مرتبہ پھر آپ کو کہاکہ نصرانیت قبول کرلو ورنہ تمہیں بھی دیگ میں ڈال دیا جائے گا۔ جب آپ کو دیگ میں ڈالنے کے لیے کارندے دیگ کی جانب چلنے لگے تو آپ کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔ شاہِ روم نے رونے وجہ پوچھی تو آپ نے جواب دیا کہ میری دلی تمنا ہے کہ میری سوجانیں ہوں اور ان تمام جانوں کو اللہ کی راہ میں اسی طرح کھولتے ہوئے پانی میں پھینک کر ختم کیا جائے۔ یہ بات سن کر شاہِ روم بہت حیران ہوا اور کہا کہ اگر تم میرے سر کو چوم لو تو میں تمہیں چھوڑدوں گا ۔ اس طرح آپ رضی اللہ عنہ کی وہاں سے جان بخشی ہوئی۔ (بیہقی) آپ رضی اللہ عنہ نے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے دورِ خلافت میں مصر میں وفات پائی۔
 
Top