انسان جہنم کا ایندھن کس طرح؟

فاطمہ طاہرہ

وفقہ اللہ
رکن
جب میں نے سورۃ البقرۃ کی آیت نمبر 24 پڑھی تب سے یہی سوچ رہی تھی کہ انسان جہنم کا ایندھن کس طرح ہو سکتا ہے۔ تب مجھے اس کا جواب ملا کہ
وہ اس طرح کہ مثال کے طور پر آپ کچھ لکھ رہے ہیں۔ کچھ غلط لکھ دیا۔ اب آپ کیا کریں گے۔ ظاہر ہے وہ صفحہ کوڑے میں ڈال دینگے۔ اور جو اچھا ہے اس کو باقی رہنے دیں گے۔ اسی طرح وہ انسان جنہوں نے اللہ کے قائم کردہ اصولوں پر زندگی بسر کی وہ جنت میں۔ باقی سارا کوڑا کرکٹ جلنے کے لیے آگ میں۔ کیونکہ اگر نہ جلایا گیا تو بہت گند مچائے گا۔
ویسے اگر ہم اپنی ساخت پر تھوڑا سا غور کریں تو ہم انسان ایک بہت اچھا ایندھن ہیں۔ وہ کس طرح؟ سب سے پہلے ہمارے جسم پر بالوں کی لیئر ہے۔ بال کیسے جلتے ہیں بہت جلدی آگ پکڑتے ہیں۔ اس سے نیچے ہماری سکن کے نیچے چربی کی تہہ ہوتی ہے۔ اور چربی تو بہت اچھا ایندھن ہوتی ہے۔ اس کے بعد ہماری ہڈیاں کیلشیم کی بنی ہوتی ہیں۔ جس کو چونا بھی کہا جاتا ہے۔ اور چونا سے اتنی حرارت پیدا ہوتی ہے کہ سو ڈگری تک اس کا درجہ حرارت جا سکتا ہے۔ اس کے بعد ہماری جسم میں آئرن ہوتا ہے جو کہ بہت اچھا ایندھن ہوتا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ فاسفورس بھی ہوتا ہے۔ فاسفورس ماچس کی تیلی پر بھی لگا ہوتا ہے۔ دیکھیں ناں جب ہم ایک وہ تیلی جلاتے ہیں تو کتنی جلدی آگ جلتی ہے۔ بس ہماری ساخت بالکل صحیح ایندھن بن سکتی ہے۔ بس یہ ہمارا فیصلہ ہے کہ کوڑا کرکٹ بننا ہےیا جس مقصد کے لیے ہماری تخلیق کی گئی ہے اسے پورا کرنا ہے۔
 
Top