عہد خلافت راشدہ میں سنت نبوی کی حفاظت

فاطمہ طاہرہ

وفقہ اللہ
رکن
حفاظت حدیث کی ذمہ داری سے صحابہ کرام اس منزل پر آ کر خاموش نہیں ہو گئے کہ ان کو صرف اپنے سینوں میں محفو ظ کر لیتے، ان کیلئے حدیث کے جملوں کی حفاظت محض تبرک کیلئے نہیں تھی، بلکہ قرآنی تعلیمات کی طرح ان کو بھی وہ وحی الہی کے درجے پر رکھتے تھے اور ان احادیث پر عمل ان کا دائمی شعار تھا۔

ہر شخص ان فرامین کے سانچے میں اپنے آپ کو ڈھالنے کی کوشش کرتا، ان کے لطیف احساسات سے لے کر طبعی خواہشات تک سب کے سب سنت مصطفوی کے پابند تھے۔ ان کی زندگیاں سنت رسول صلی ﷲ علیہ وسلم کے انھیں فرامین کی زندہ مثالیں تھی۔

عبادات میں تو رسول ﷲ صلی ﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کی اتباع کے بغیر ان کیلئے کوئی اور چارہ تھا ہی نہیں، لیکن انکی اتباع ہر اس کام میں مضمر ہوتی جو انکے رسول کی طرف کسی نہ کسی طرح منسوب ہوتا۔ ہر کام کرنا جو نبی پاک صلی ﷲ علیہ وسلم نے کیا ان کی زندگی کا لازمی جزو ہوتا۔

کتب احادیث کے مطالعہ سے یہ بات واضح طور پر ثابت ہوچکی ہے کہ حضور اقدس صلی ﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے حدیث پاک بیان کرتے وقت جس خاص ہیئت و وضع کو اختیار فرمایا ہوتا تھا تو راوی بھی اسی ادا سے حدیث روایت کرتا۔ مثلاً احادیث مسلسلہ میں وہ احادیث جن کے راوی بوقت روایت مصافحہ کرتے، تبسم فرماتے یا کسی دوسری ہیئت کا اظہار کرتے جو حضورسے ثابت ہوتی۔

ذیل میں خلافت راشدہ کے ادوار میں سنت نبوی صلی ﷲ علیہ وسلم کی حفاظت کا جائزہ لیا جاتا ہے۔

سنت نبوی صلی ﷲ علیہ والہ وسلم عہد صدیق اکبر میں:

دور رسالت میں ﷲ عزوجل کی کتاب، سنت نبوی اور اسلام کی اشاعت کا کام زور وشور سے جاری تھا۔ رسول ﷲ صلی ﷲ علیہ وسلم امت کے مرجع اعلی تھے۔ مگر نبی پاک صلی ﷲ علیہ وسلم کے وصال کے بعد امت کے پاس صرف دو چیزیں رہ گئیں۔ ایک ﷲ کی کتاب قرآن مجید اور دوسرا نبی پاک صلی ﷲ علیہ وسلم کی سنت۔ نبی پاک صلی ﷲ علیہ وسلم کا فرمان مبارک ہے:

ترکت فیکم امرین، لن تضلوا ما تمسکتم بھما، کتاب ﷲ و سنتی

میں تمھارے پاس دو چیزیں چھوڑ کر جا رہا ہوں جب تک تمھارا تعلق ان کے ساتھ رہے گا تم گمراہ نہیں ہو سکتے: ایک ﷲ کی کتاب اور دوسری میری سنت۔

رسول ﷲ صلی ﷲ علیہ وسلم کے وفات کے بعد جب آپ نے منسب خلافت سنبھالا تو مسلم امت ہر طرف سے مشکلات میں گھری ہوئی تھی۔ وہ اسلام دشمن طاقتیں جو رسول ﷲ صلی ﷲ علیہ وسلم کے زمانے میں روپوش ہو گئی تھی دفعتا نمودار ہو گئی۔ ایک طرف مسیلمئہ کذاب کا جھوٹی نبوت کا دعوی اور دوسری طرف مسلمانوں کی ایک معقول تعداد کا زکوۃ سے انکار ریاست کے مالی نظام کو درہم برہم کر رہا تھا۔

قرآن کریم کے بعد درجہ سنت نبوی‎ صلی ﷲ علیہ وسلم کا تھا۔ حضرت ابو بکر صدیق اس کی تدوین کی طرف توجہ تو دینا چاہتے تھے مگر ان کی عمر نے ساتھ نہ دیا۔ ابوبکر صدیق نے خلافت کی ذمہ داریاں سنبھالتے ہی دیکھا کہ صحابہ کرام حدیث کی روایت اور فہم میں متفاوت ہیں۔ ان صحابہ نے رسول ﷲ صلی ﷲ علیہ وسلم سے جو کچھ سنا تھا اور جو کچھ دیکھا تھا اسے اپنے پاس محفوظ کر لیا تھا لیکن روایات کی تطبیق اور استنباط کے ضمن میں اس وقت کوئی ایسا سلسلہ نہ تھا۔ زیادہ تر صحابہ راوی تھے اور ان احادیث کو اس طرح بیان کرتے جس طرح انھوں نے نبی پاک صلی ﷲ علیہ وسلم سے سنی تھیں۔ ان کو اس سے کوئی مطلب نہ تھا کہ کوئی حدیث ناسخ ہے یا منسوخ، عزیمت والی ہے یا رخصت والی۔ حضرت ابو بکر نے تدوین حدیث کے حوالے سے تین اصولی اقدامات کیے جن کا کتابوں میں تذکرہ ملتا ہے۔ ان کی تفصیل یہ ہے:

حضرت ابو بکر نے پانسو حدیثیں قلمبند کیں:

حضرت ابوبکر صدیق نے احادیث کا ایک مجموعہ یعنی صحیفہ مرتب کیا تھا، جس میں پانچ سو احادیث تھیں. اگرچہ یہ مجموعہ آپ نے ایک روایت کے مطابق جلا دیا تھا، غایت احتیاط کی وجہ سے.اور اس کی وجہ بھی خود بیان کی تھی فرمایا، مجھے یہ ڈر ہوا کہ کہیں میری موت آجائے اور اس مجموعہ میں بعض ایسی احادیث بھی ہو، جو میں نے ایسے شخص سے سنی ہو، جس پر میں نے اعتماد کرلیا ہو، مگر فی الحقیقت ایسا نہ ہو اور میں ﷲ ہاں اس کی روایت کا ذمہ دار ہو جاؤں.

بہرحال اس سے اتنا معلوم ہوگیا کہ آپ نے بھی پانچ سو احادیث کی تدوین کی تھی۔ جن میں سے کچھ آپ نے حضورصلی ﷲ علیہ والہ وسلم سے خود سنی تھیں اور کچھ دوسرے صحابہ سے لی تھیں. موجودہ احادیث کے مجموعے میں آپ کی کل مرویات ایک سو بیالیس ہے، جن کے بارے میں علی وجہ البصیرت کہا جا سکتا ہے کہ یہ صحیفے کا وہ حصہ ہوگا، جسے آپ نے خود حضورصلی ﷲ علیہ والہ وسلم سے سنا تھا کیونکہ مختلاطات کی وجہ سے تو صحیفہ کے جلانے کی روایت موجود ہے. لیکن علامہ ذہبی نے اس خیال کی تغلیط کی ہے۔ بایں ہمہ انہوں نے احادیث کے متعلق نہایت حزم و احتیاط سے کام لیا۔ صحابہ کرام کو جمع کر کے خاص طور سے فرمایا۔'' تم لوگ رسول ﷲ صلی ﷲ علیہ والہ وسلم سے ایسی احادیث روایت کرتے ہو جن میں تم خود ہی اختلاف رکھتے ہو، تمہارے بعد جو لوگ آئیں گے تو ان میں اور بھی سخت اختلاف واقع ہو گا۔ اس لیے رسول ﷲ صلی ﷲ علیہ والہ وسلم سے کوئی روایت نہ کرو اور جو کوئی تم سے سوال کرے تو کہہ دو کہ ہمارے اور تمہارے درمیان ﷲ کی کتاب ہے۔ اس کے حلال کو حلال سمجھو اور اس کے حرام کو حرام قرار دو''۔ (تذکرۃ الحفاظ جلد نمبر:1, صفحہ 3)

تحقیق حدیث کے لیے اصول شہادت کی بنیاد حضرت ابو بکر نے رکھی:

پس اصلی کام دین کے اس حصے کے متعلق وہی ''کج دار مریض''کے اصول کی نگرانی تھی۔ ایک طرف تو حضرت ابوبکر نے اس خطرے کے انسداد کے لئے کہ دین کے اس حصے میں عمومیت کا رنگ نہ پیدا ہو جائے جس کی عمومی اشاعت آنحضرت صلی ﷲ علیہ وسلم نہیں فرمائی تھی اپنے لکھے ہو‏ئے مجموعہ کو بھی ضائع بھی فرما دیا، لیکن اسی کے ساتھ آپ ان خبروں کی تحقیق و تنقید کے عام اصول کے سوا حضرت مغیرہ کے بیان کرنے پر جو فرمایا کہ هل معك غيرك (کیا تمہارے ساتھ اس خبر میں کوئی دوسرا آدمی بھی شریک ہے ) اگرچہ اس سے یہ نتیجہ نکالنا تو درست نہ ہوگا کر جیسے فصل خصومات کے لئے شہادت کا نصاب دو ہے، اسی طرح اس نوعیت کی حدیثوں پر اعتماد کرنے کے لئے کم از کم دو راویوں کا ہونا ضروری ہے کیونکہ دین کے اس حصہ پر اعتماد کرنے کے لئے اس کو قانونی شکل دے دی جائے تو یہ ثابت کرنا پڑے گا کہ آنحضرت صلی ﷲ علیہ وسلم اس نوعیت کی حدیثوں کی تبلیغ کم از کم دو آدمیوں کو ضرور فرماتے تھے۔

خود ابوبکر صدیق رضی الله تعالی عنہ متعدد روایتیں ایسی مروی ہیں جن کے وہ تنہا راوی ہیں خصوصا وراثت انبیاء والی روایت اور پیغمبر کے مدفون ہونے کی وہی ہوتی ہے جہاں ان کی وفات واقع ہو۔ ان دونوں حدیثوں کے وہ تنہا راوی ہیں۔ اور ایک ہی کیا آپ کے بعد کے خلفا اور دوسرے صحاب صرف ایک صحابی کے بیان پر بھروسہ کر کے حدیثوں کو مانتے رہے ہیں۔ اس کے متعلق واقعات کی اتنی کثرت ہے کہ ان کو ایک جگہ اگر جمع کیا جائے تو ایک مستقل کتاب ان سے تیار ہوسکتی ہے۔ ''الخطیب'' نے اپنی کتاب ''کفایہ'' میں لکھا ہے کہ ان روایتوں کو مستقل کتاب کی شکل میں انہوں نے جمع کر دیا ہے۔

حضرت عمر اور حدیث نبوی صلی ﷲ علیہ والہ وسلم :

حضرت عمرکے ہاں قبولیتِ حدیث کامعیار بھی بہت سخت تھا۔ایک بار آپؓ نے حضرت ابوموسیٰ اشعریؓ کو بلابھیجا۔ کافی دن گزر گئے توحضرت ابوموسیٰ اشعری سے جب حضرت عمر کی ملاقات ہوئی تو حضرت عمر نے پوچھا: میں آپ کو بلایا تھا تو آپ کیوں نہیں آئے۔حضرت ابوسیٰ اشعری نے کہاکہ میں آیاتھا، تین باردروازہ بجایا، آپ نہیں نکلے تو میں لوٹ آیا۔حضرت عمر نے وجہ پوچھی تو حضرت ابوموسیٰ اشعری نے اپنے اس عمل کے جواز میں حدیث نبوی پیش کر دی۔حضرت عمر اس حدیث کو اس وقت تک قبول کرنے سے انکار کر دیا جبکہ کوئی گواہ نہ ہوں۔ اس پر حضرت ابوموسیٰ اشعری کو دو گواہ لانے پڑے ۔

سیدنا عمر تعامل حدیث کے معاملے میں اپنی اولاد سے بھی رعایت نہیں کرتے تھے۔ایک بار لخت جگرنے کہاکہ مجھے تو کدو پسند نہیں ، اس پر حضرت عمر بیٹے سے ناراض ہوگئے کہ نبی کی پسندیدہ سبزی کے بارے میں بیٹے نے ایسی رائے کیوں دی۔ پھر تین دن کی مدت ختم ہونے سے پہلے خود ہی ناراضگی ختم کر دی کہ تین دن سے زائد ناراضگی سے ایک حدیث نبوی میں منع کیا گیا ہے۔

موطا امام مالک میں ہے کہ حضرت عمر رضی ﷲ عنہ کا بھی ایک صحیفہ تھا، جو آپ کی تلوار کے پرتلے میں محفوظ کیا ہوا تھا جب حضرت عمر بن عبدالعزیزؒ نے احادیث کی جمع و تدوین کا حکم دیا تو حضرت عمرؓ کا یہ صحیفہ ان کے خاندان سے ملا۔ اس میں صدقات و زکوٰۃ کے احکامات درج تھے۔ امام مالکؒ فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت عمرؓ کا یہ صحیفہ پڑھا تھا۔ (خلفائےراشدین ؓ اور کتابت حدیث) (موطا امام مالک، ص۱۰۹)

ورثہ کے متعلق ایک مقدمہ پیش ہوا تو حضرت عمر رضی ﷲ عنہ نے فرمایا: رسول ﷲ صلی ﷲ علیہ والہ وسلم نے فرمایا ہے:جو مال بیٹا یا باپ جمع کرے وہ اس کے عصبہ کے لئے ہے خواہ وہ کوئی ہو پھر حضرت عمر رضی ﷲ عنہ نے اس فیصلہ کو لکھ کر دے دیا اور اس پر بطورِ شہادت عبدالرحمن بن عوف، زید بن ثابت رضی ﷲ عنہما اور ایک اور آدمی کے دستخط کرائے۔ (ابوداوٗد)خلیفہ عبدالملک کے زمانہ میں مقدمہ پیش ہوا:تو عبدالملک نے حضرت عمر رضی ﷲ عنہ کی اس کتاب کے مطابق فیصلہ فرمایا۔ (ابوداؤد۔ کتاب الفرائض)

حدیث قرطاس اور منکرین حدیث:

منکرین حدیث حدیث قرطاس کے حوالے سے حضرت عمر رضی ﷲ عنہ پر یہ بہتان لگاتے ہیں کہ انہوں نے اس میں ایک جملہ کہا اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ وہ بھی منکرحدیث تھے ۔وہ حدیث یہ ہے ۔ ابن عباس فرماتے ہیں:'' یعنی جب رسول ﷲ صلی ﷲ علیہ وسلم کے مرض نے شدت اختیار کی تو آپ صلی ﷲ علیہ وسلم نے فرمایا ایک کاغذ لاؤ۔ میں تمہارے لیے ایک تحریر لکھ دوں۔" پھر تم ہرگز نہیں بھولو گے۔ (صحیح بخاری کتاب العلم)اس فرمان کے بعد ایک مکالمہ شروع ہوا جس کے بعض فقرے مختلف سندوں میں بیان ہوئے ہیں اور بعض بالکل محذوف ہیں، حضرت عمر نے حاضرین سے کہا: "ان رسول ﷲ صلی ﷲ علیہ والہ وسلم قد غلبہ الوجع " اس وقت رسول ﷲ صلی ﷲ علیہ وسلم کو تکلیف ہے"۔

یعنی بہتر ہے کہ اس وقت آپ کو تکلیف نہ دی جائے، پھر کہنے لگے:وعندکم القران " اور تمہارے پاس قرآن موجود ہے۔" (بخاری باب مرض النبی ﷺ)

ایک روایت کے مطابق حضرت عمر رضی ﷲ عنہ نے فرمایا " حسبنا کتاب ﷲ" ہمارے پاس ﷲ کی شریعت ہے، وہ ہمارے لیے کافی ہے۔

حضرت عمر نے کثرت روایت سے منع کیا:

منکرین حدیث ایک اور اشکال یہ بھی پیش کرتے ہیں کہ حضرت عمر کے زمانے تک پہنچتے پہنچتے جھوٹی حدیثیں اتنی بڑھ گئی تھیں کہ حضرت عمر کو روایت حدیث پر پابندی لگا دینی پڑی بلکہ اسے بالکل روک دینا پڑا۔حقیقت میں اس دعوی کی کوئی تاریخی سند موجود نہیں ۔ فی الواقع اس زمانے میں وضع حدیث کا کوئی فتنہ رونما نہیں ہوا تھا۔ تاریخ اس کے ذکر سے بالکل خالی ہے۔ حضرت عمر جس وجہ سے کثرت روایت کو پسند نہ کرتے تھے وہ دراصل یہ تھی کہ جنوبی حجاز کے مختصر خطے کے سوا اس وقت تک عرب میں قرآن مجید کی عام اشاعت نہ ہوئی تھی۔ عرب کا بیشتر حصہ نبی صلی ﷲ علیہ و سلم کی حیات طیبہ کے آخری حصے میں اسلام کے زیر نگیں آیا تھا اور عام باشندگان عرب کی تعلیم کا انتظام ابھی پوری طرح شروع بھی نہ ہوا تھا کہ حضورصلی ﷲ علیہ والہ وسلم کی وفات اور پھر خلافت صدیقی میں فتنۂ ارتداد کے رونما ہونے سے یہ کام درہم برہم ہو گیا تھا۔ حضرت عمر کا عہد وہ تھا جس میں مسلمانوں کو اطمینان کے ساتھ عوام کی تعلیم کے لیے کام کرنے کا موقع ملا۔ اس وقت یہ ضروری تھا کہ پہلے ساری قوم کو قرآن کے علم سے روشناس کرا دیا جائے اور ایسا کوئی کام نہ کیا جائے جس سے قرآن کے ساتھ کوئی دوسری چیز خلط ملط ہو جانے کا اندیشہ ہو۔ اگر صحابہ جو حضور صلی ﷲ علیہ والہ وسلم کی طرف سے لوگوں کو قرآن پہنچا رہے تھے، ساتھ ساتھ حضور صلی ﷲ علیہ والہ وسلم کی احادیث بھی بیان کرتے جاتے تو سخت خطرہ تھا کہ بدویوں کی ایک بڑی تعداد آیات قرآنی کو احادیث نبوی کے ساتھ گڈمڈ کر کے یاد کر لیتی۔ یہ وہی حکمت تھی جسکو دیکھتے ہوئے شروع میں حضور صلی ﷲ علیہ والہ وسلم نے بھی صحابہ کو کتابت حدیث سے منع فرمایا تھا۔ حضرت عمر رضی الله عنه نے تین کبار صحابہ کو کثرت روایت کے جرم میں قید کیا۔ وہ صحابہ یہ تھے

1۔ حضرت عبدالله بن مسعود رضی الله عنه

2۔ حضرت ابوالدرداء رضی الله عنه

3۔ حضرت ابوزر غفاری رضی الله عنه

احادیث میں ان صحابہ کی قید کے لیے حبس کا لفظ استعمال ہوا ہے۔ حضرت عمر کے دور میں کوئی قید خانہ تو تھی نہیں اس لیے ان اصحاب کو قید کرنے کا کوئی جواز نہیں ملتا۔ حضرت عمر نے ان تین صحابہ کو کثرت حدیث سے منع ضرور کیا تھا جس کی وجہ یہ تھی کہ کہیں لوگ قرآن کو چھوڑ کر کوئی اور کتاب نہ بنا لیں۔ اس کا یہ مطلب کوئی ہرگز نہیں لے سکتا کہ حضرت عمر کتابت حدیث کے مخالف تھے۔

حضرت عثمانؓ اور حدیث نبوی صلی ﷲ علیہ والہ وسلم :

حضرت عثمان کا سب سے بڑا کارنامہ تدوین قرآن ہے۔ حضرت عثمان رضی ﷲ عنہ کی مکتوبات میں کئ ایک احادیث کا تذکرہ موجود ہے۔ حضرت علی رضی ﷲ عنہ نے اپنے لڑکے محمد بن حنفیہ سے فرمایا: اس کتاب کو حضرت عثمان کے پاس لے جاؤ اور ان سے اس پر عمل کے لئے کہو۔ کیونکہ اس میں آپ صلی ﷲ علیہ والہ وسلم کے احکام مندرج ہیں۔حضرت عثمان رضی ﷲ عنہ نے فرمایا میں اس سے مستغنی ہوں یعنی میرے پاس یہ احکام موجود ہیں (صحیح بخاری کتاب الجہاد)۔ حضرت عثمان رضی ﷲ عنہ نے مقاعد میں لوگوں سے کہا: کیا میں تم کو رسول ﷲ صلی ﷲ علیہ والہ وسلم کا وضو نہ بتاؤں؟ پس انہوں نے وضو کیا اور ہر عضو کو تین تین مرتبہ دھویا۔ (صحیح مسلم)

اس حدیث سے معلوم ہوا کہ حضرت عثمان رضی ﷲ عنہ کو تبلیغ سنت کا کتنا جوش تھا کہ باوجود خلافت کا بوجھ سنبھالنے سے وضو تک کی سنتوں کی تعلیم دیتے تھے۔

حضرت علی کرم ﷲ وجہہ اور سنت نبوی صلی ﷲ علیہ والہ وسلم

حضرت علی رضی ﷲ عنہ کا صحیفہ مشہور و معروف ہے۔ آپ کا ارشاد ہے : میں نے قرآن کریم اور اس مسودے میں جو کچھ ہے ان کے علاوہ رسول ﷲ صلی ﷲ علیہ و آلہ وسلم سے اور کچھ نہیں لکھا۔ (صحیح بخاری، کتاب الجہاد اثم من عاھد ثم غدر، جلد 1, صفحہ 451)۔

اس میں قصاص، دیت، فدیہ، اسلامی مملکت، غیر مسلموں کے حقوق، وراثت کے خصوصی نوعیت کے کچھ مسائل، متفرق عمروں کے اونٹوں پر زکوٰۃ کے اصول اور شہر مدینہ کی تقدیس و حرمت کے کچھ احکامات درج تھے۔ یہ مسودہ رسالت ماب نبی اکرم صلی ﷲ علیہ وسلم کی حیات طیبہ ہی میں سیدنا علی رضی ﷲ عنہ نے تحریر فرمایا تھا۔ مؤرخ ابن سعد کا بیان ہے کہ حضرت علی رضی ﷲ عنہ مسجد میں کھڑے ہوئے اور ایک خطبہ ارشاد فرمایا پھر لوگوں سے پوچھا”کون ہے جو ہم سے ایک درہم کے بدلے علم حدیث خرید لے؟ “ابوخیثمہ کہتے ہیں کہ اس جملے سے مراد یہ تھی کہ ایک درہم کا کاغذ خرید کر ہماری بیان کردہ حدیثیں لکھ لے..چنانچہ حارث اعور کئ درہم کےکاغذ خرید لائے اور آپ کی روایت کردہ بہت سی احادیث تحریر کیں ۔ (تقیید العلم, صفحہ 90)۔

اس کتاب میں حضرت علی رضی ﷲ عنہ نے صدقات کے احکام بھی تحریر کئے تھے اور یہی وہ کتاب تھی جس کو انہوں نے حضرت عثمان رضی ﷲ عنہ کے پاس بھیجا تھا۔ اور یہ کہا تھا کہ اس میں آنحضرت صلی ﷲ علیہ والہ وسلم کے احکام ہیں۔ یہ آپ کے بیٹے محمدؒ بن حنیفہ کے پاس تھا۔ پھر امام جعفرؒ کے پاس آیا۔ اسی کی نقل آپ نے حارث کو لکھ کر دی تھی۔
 
Top