برصغیر میں خدمت حدیث

فاطمہ طاہرہ

وفقہ اللہ
رکن
ہندوستان علماء ومحدثین کی سرزمین ہے۔ ہر دور میں یہاں ایسی شخصیات موجود رہی ہیں، جس سے علم حدیث نے بھر پور شہرت حاصل کی۔ یہ شخصیات نہ صرف برصغیر بلکہ تمام عالم اسلام کے لیے باعث فخر رہی ہیں۔ ذیل میں ان شخصیات کا تعارف بیان کیا جاتا ہے۔

1) شاہ ولی ﷲ

مسلمانان برصغیر کے زوال کا دور شروع ہوا تو بہت سے لوگوں نے سنجیدگی کے ساتھ زوال کے اسباب پر غور کرنا شروع کیا ان لوگوں میں عہد مغلیہ کے مشہور عالم اور مصنف شاہ ولی ﷲ کا نام سب سے نمایاں ہے۔ مجدد الف ثانی اور ان کے ساتھیوں نے اصلاح کا جو کام شروع کیا تھا شاہ ولی ﷲ نے اس کام کی ترویج اور اشاعت میں بھر پور کردار ادا کیا۔ شاہ ولی ﷲ چونکہ ایک ایسے زمانے سے تعلق رکھتے تھے جب مسلمانوں کا زوال شروع ہو گیا تھا اس لیے انہوں نے مسلمانوں کے زوال کے اسباب پر بھی غور کیا اور اس کے علاج کے بھی طریقے بتائے۔

ابتدائی زندگی:

شاہ ولی ﷲ 1703ء میں پیدا ہوئے۔شاہ ولی ﷲ مجدد الف ثانی کے انتقال کے تقریباً 80 سال بعد دہلی میں پیدا ہوئے۔ 7 سال کی عمر میں قرآن حفظ کیا۔ جب آپ کی عمر چار سال تھی تب شہنشاہ اورنگزیب عالمگیر کا انتقال ہو گیا۔ بادشاہ کی وفات کے چند سال بعد ہی مغلوں کی عظیم الشان سلطنت کے ٹکڑے ٹکڑے ہونا شروع ہو گئے اور پورے ملک میں بد امنی پھیل گئی۔ اسلام دشمن اور دیگر شر پسند عناصر اس علاقے پر قبضہ کرنے کے خواب دیکھنے لگے۔

اس دور میں مسلمانوں کی نہ صرف سیاسی حالت خراب تھی بلکہ وہ اخلاقی پستی کا بھی شکار تھے۔ عیش و عشرت، آرام کی طلب، مال و دولت سے محبت، بے ایمانی، خود غرضی اور اسی قسم کی بیشتر برائیاں مسلمانوں میں عام ہو گئی تھیں۔ شاہ ولی ﷲ نے اپنی تصنیف و تالیف اور اصلاح کا کام اسی نازک زمانے میں شروع کیا۔ ان کی کوشش تھی کہ مسلمان آپس میں اتحاد پیدا کریں اور ایک مضبوط سلطنت قائم کریں اور دوسرا وہ ان اخلاقی پستیوں سے خود کو نکالیں اور اسلامی طرز زندگی اپنائیں۔

تصانیف:

شاہ ولی ﷲ کی بہت ساری تصانیف ہیں۔ ذیل میں چند کو بیان کیا جاتا ہے۔

  • قرآن پاک کا ترجمہ: شاہ ولی ﷲ کا ایک بڑا کارنامہ قرآن مجید کا فارسی ترجمہ ہے۔ قرآن چونکہ عربی میں ہے اس لیے بہت کم لوگ اس کو سمجھ سکتے تھے۔ شاہ ولی ﷲ نے قرآن مجید کا فارسی ترجمہ کرکے اس رکاوٹ کو دور کر دیا۔ اس طرح زیادہ سے زیادہ لوگ اسلام کی تعلیم سے واقف ہونے لگے۔
  • حجۃ ﷲ البالغہ: ''حجۃ ﷲ البالغہ'' شاہ ولی ﷲ محدث دہلوی کی مشہور و معروف تالیف ہے جس میں آپ نے نہایت لطیف انداز کے ساتھ احکام شرع کی حکمتوں اور مصلحتوں پر روشنی ڈالی ہے۔ یہ کتاب انسانوں کے لیے اخلاقیات، اجتماعی مسائل، اقتصادی مسائل کے حل اور انسانیت کی فلاح کے ایک تحفہ کی حیثیت رکھتا ہے۔ یہ کتاب بھی دنیا کی ان چند کتابوں میں سے ہے جو ہمیشہ قدر کی نگاہ سے دیکھی جائیں گی۔ اس کتاب میں شاہ ولی ﷲ نے اسلامی عقائد اور اسلامی تعلیمات کی وضاحت کی ہے اور دلیلیں دے کر اسلامی احکام اور عقائد کی صداقت ثابت کی ہے۔ اصل کتاب عربی میں ہے لیکن اس کا اردو میں بھی ترجمہ ہو گیا ہے۔
  • اربعین: یہ چالیس احادیث پر مشتمل ایک رسالہ ہے جس میں حضرت علی کرم ﷲ وجہہ سے روایت کردہ احادیث ہیں۔
  • وثیقیۃالآخرۃ: یہ امام نووی کی اربعین کی فارسی شرح ہے۔
  • الدر الثمین فی مبشرات النبی الامین: یہ رسالہ ایسی چالیس احادیث پر مشتمل ہے جو شاہ ولی ﷲ کے شیخ نے عالم خواب میں نبی پاک صلی ﷲ علیہ وسلم سے سنی تھیں۔
  • تراجم البخاری: یہ صحیح بخاری پر مختصر تبصرہ ہے۔
  • شرح تراجم ابواب بخاری: یہ رسالہ صحیح بخاری کے ابواب کی شرح ہے۔
  • مصفی شرح موطا: یہ کتاب امام مالک کی موطا کے شرح ہے۔ فارسی زبان میں ہے۔ دو جلدوں پر مشتمل ہے۔
  • آثار المحدیثین: یہ معروف اور مشہور محدیثین کا تذکرہ ہے۔
  • ازالۃ الخفاء عن خلافۃ الخلفاء اصل کتاب فارسی زبان میں ہے۔ شاہ ولی ﷲ محدث دہلوی کی اس تصنیف کا موضوع اسلامی ریاست اور اس کا نظام ہے۔ جس میں خلافت راشدہ سے لے کر عمومی اسلامی نظام پر بحث کی گئی ہے۔ یہ کتاب دو ہزار سے زائد صفحات پر مشتمل ہے۔ اس کتاب کا اردو ترجمہ مولانا عبدالشکور فاروقی مجددی نے کیا ہے۔ مولانا محمد بشیر سیالکوٹی مدیر دارالعلم اسلام آباد نے 2013 میں اس کتاب کا عربی زبان میں ترجمہ کیا۔
  • شاہ ولی ﷲ نے قرآن کے ترجمہ کے علاوہ اور بہت ساری کتابوں کے مصنف ہیں۔ یہ کتابیں علم تفسیر، حدیث،فقہ، تاریخ اور تصوف پر ہیں۔
شاہ صاحب کی اولاد اور ان کے کارنامے:

  • شاہ ولی ﷲ کے سب سے بڑے بیٹے کا نام شاہ عبدالعزیز تھا۔ آپ عربی اور فارسی کے انشا پرداز اور ماہر تھے۔ 60 سال تک دینی علوم اور احادیث کی تعلیم دیتے رہے۔ وہ ان افراد میں شامل ہیں جن کی وجہ سے برصغیر میں علم حدیث پھیلا۔
  • دوسرے صاحبزادے کا نام شاہ رفیع الدین تھا۔ ان کا سب سے بڑا کارنامہ اردو میں قرآن مجید کا پہلا ترجمہ ہے۔
  • تیسرے صاحبزادے شاہ عبد القادر دہلوی نے قرآن مجید کی اردو تفسیر لکھی جو "موضح القرآن" کے نام سے مشہور ہے۔ یہ تفسیر آج بھی انتہائی مقبول ہے۔
  • چوتھے صاحبزادے شاہ عبدالغنی تھے۔ ان کا شمار اپنے زمانے کے بڑے عالموں میں ہوتا تھا۔
  • شاہ ولی ﷲ کی اولاد میں شاہ اسماعیل شہید کا نام بھی بہت بلند ہے۔ وہ شاہ عبدالغنی کے بیٹے تھے۔ شاہ صاحب کے کام کو سب سے زیادہ ترقی شاہ اسماعیل نے ہی دی۔ انھوں نے کئی اہم کتابیں لکھیں جن میں "تقویۃ الایمان" سب سے زیادہ مقبول ہوئی۔
  • برصغیر کی عظیم شخصیت سید احمد بریلوی شہید، شاہ عبد العزیز کے شاگرد اور شاہ اسماعیل شہید کے ساتھی تھے۔
2) شاہ ولی ﷲ کے تلامذہ:

شاہ ولی ﷲ کے تلامذہ کی تعداد بہت زیادہ ہے۔ چند ایک حضرات کا اجمالی تذکرہ کیا جاتا ہے۔

1) قاضی ثنا ﷲ پانی پتی:

قاضی محمد ثناء ﷲ پانی پتی ہندستان کے شہر پانی پت کے محلہ قاضیاں میں پیدا ہوئے۔ آپکے والد کا نام قاضی محمد حبیب ﷲ عثمانی جو بلند مرتبہ عالم دین اور صوفی کامل تھے اور والدہ کا نام بادشاہ بیگم تھا ان کے والد (آپ کے نانا) شیخ محمد عابد سنامی کے خلیفہ تھے۔ آپ نے سات برس کی عمر میں قرآن پاک حفظ کیا۔ پھر علوم احادیث کی تحصیل میں مشغول رہے اس سلسلے میں دہلی گئے جہاں شاہ ولی ﷲ سے علم حدیث حاصل کیا 16یا 18 برس کی عمر میں تکمیل علوم کی۔

شاہ عبد العزیز محدث دہلوی نے آپ کو ''بیہقی وقت'' کا لقب دیا اور مرشد گرامی مرزا مظہر نے ''علم الہدی'' کے لقب سے نوازا۔ آپ کی بہت ساری تصانیف سے یہ ملک آپ کا مشکور ہوا۔ آپ نے تیس سے زائد کتابیں لکھیں۔ ان کے عنوانات علم تفسیر، حدیث، فقہ، کلام اور تصوف ہے۔ ان میں سے کچھ کتابوں کے نام مندرجہ ذیل ہیں:

  • تفسیر مظہری: قرآن کریم کی یہ تفسیر سات ضخیم جلدوں پر مشتمل ہے۔
  • وصیت نامہ
  • مالا بد منہ
  • ارشاد الطالبین
  • جواہر القرآن
  • حقیقت الاسلام
  • شہاب ثاقب
  • تذکرۃ الموتی والقبور
  • تذکرۃ المعاد
  • رسالہ در حرمت و اباحت سرود
  • رسالہ در مسئلہ سماع و وحدت الوجود
  • السیف المسلول
  • رسالہ حرمت متعہ
آپ نے وفات یکم رجب 1225ھ بمطابق 2 اگست 1810ء کو ہوئی۔

2) شاہ عبد العزیز محدث دہلوی:

شاہ عبد العزیز محدث دہلوی 25 رمضان المبارک 1159ھ بمطابق 10اکتوبر 1746ء بروز جمعہ کو دہلی میں پیدا ہوئے۔ آپ کا نام غلام حلیم ہے۔ شاہ عبد العزیز صاحب جب سترہ سال کے ہوئے تو آپ کے والد بزرگوار حضرت شاہ ولی ﷲ محدث دہلوی نے وفات پائی۔

شاہ عبد العزیز صاحب نے متعدد کتابیں لکھیں ہیں۔ جن میں مندرجہ ذیل کتابوں کا ذکر کیا جاتا ہے:

  • سر الشہادتین: یہ واقعہ کربلا پر تصنیف کی گئی ہے۔ یہ فارسی زبان میں ہے۔
  • تفسیر عزیزی: یہ آپ کی مشہور تفسیری تصنیف ہے۔ یہ تفسیر بھی فارسی زبان میں ہے۔
  • تحفۂ اثنا عشریہ: یہ فارسی زبان میں رد شیعیت میں بے مثال کتاب ہے۔
  • عجالہ نافعہ: یہ فن حدیث کے متعلق ایک اہم رسالہ ہے۔
  • بستان المحدثین: یہ محدثین کے حالات کا ایک مجموعہ ہے۔یہ بھی فارسی میں ہے۔
  • فتاوی عزیزی: یہ شاہ صاحب کے فتاویٰ کا مجموعہ ہے۔
3) شاہ اسحاق بن افضل فاروقی دہلوی

شاہ محمد اسحاق بن افضل فاروقی دہلوی شاہ ولی ﷲ دہلوی کے نواسے اور شاہ عبد العزیز دہلوی کے بھانجے تھے۔ شاہ عبد العزیز نے درس حدیث، اجازت و اسناد اور علوم دینیہ کی اشاعت کے سلسلے میں ان کو جانشیں مقرر کیا۔ شاہ عبد العزیز کی وفات کے بعد ان کی مسند درس پر بیٹھے اور حدیث کی تدریس و خدمت میں مصروف رہے۔ آپ نے دوشنبہ 27 رجب 1262ھ کو مکہ معظمہ میں وفات پائی۔

تلامذہ:

تراجم علمائے حدیث ہند کے مصنف نے ہندوستان کے مختلف حصوں سے تعلق رکھنے والے ایسے اکتالیس محدثین کے نام درج کیے ہیں جو شاہ اسحاق کے شاگرد تھے۔ ان میں کچھ کا تذکرہ اختصار کے ساتھ کیا جاتا ہے۔

1) مولانا مظہر نانوتوی:

حضرت مولانا محمدمظہر نانوتوی رحمتہ ﷲ بن حافظ لطف علی بن محمدحسن صدیقی حنفی نانوتوی فقہ و حدیث کے بلند پایا علما میں سے تھے۔ آپ 1823ء میں نانوتہ ضلع سہارن پور میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم و حفظ قرآن اپنے والد ماجد سے کیا۔ پھر تحصیل علم کے لیے دہلی کا سفر کیا۔ حدیث کی بعض اہم کتابیں شیخ حضر ت شاہ محمداسحاق دہلوی رحمتہ ﷲ سے پڑھیں۔ 1283ھ میں مولانا سعادت علی سہارنپوری نے ایک مدرسہ سہارنپور میں شروع کیا تو آپ کو اس کا پہلا صدر مدرس مقرر کیا گیا۔ آپ ہی کے نام پر اس مدرسہ کا نام ''مظاہر العلوم'' رکھا۔ آخر عمر تک آپ مدرسہ میں تدریسی خدمات انجام دیتے رہے۔ آپ کے ممتاز تلامذہ میں حضرت مولانا خلیل احمد صاحب سہارن پوری جیسے بلند پایا اکابر علما شامل ہیں۔ آپ نے 24 ذی الحجہ 1302ھ مطابق 1885ء کو اس جہان فانی سے رحلت فرمائی۔

2) احمد بن لطف ﷲ انصاری سہارنپوری:

مولانا احمد بن لطف ﷲ انصاری سہارنپوری دہلی میں شاہ اسحاق سے سند حاصل کرنے کے بعد حج کے مکہ مکرمہ گئے اور وہاں کے محدثین سے استفادہ کیا۔ واپس آنے کے بعد آپ نے اپنے شاگرد مولانا قاسم کے ساتھ مل کر دہلی میں مطبع احمدی قائم کیا اور حدیث کی مستند کتابیں طبع کر کے ہندوستان میں کئی سال تک قابل قدر خدمات سر انجام دیں۔

3) شاہ عبد الغنی مجدّدی:

شاہ عبد الغنی مجدّدی نے موطا امام مالک اپنے والد سے پڑھی۔ مشکوۃ المصابیح رفیع الدین کے صاحبزادے شاہ مخصوص ﷲ سے اور باقی کتب شاہ عبد العزیز سے پڑھیں۔ آپ نے سنن ابن ماجہ پر ایک حاشیہ لکھا جس کا نام ''انجاح الحاجۃ '' ہے۔ شاہ عبد الغنی مجدّدی کے شاگردوں کے تعداد بہت زیادہ ہے مگر ان میں سب سے زیادہ مشہور ایک دارالعلوم دیو بند کے بانی مولانا محمد قاسم نانوتوی اور دوسرے شیخ رشید احمد گنگوہی ہیں۔

4) مولانا قاسم بن اسد بن غلام شاہ نانوتوی:

مولانا قاسم بن اسد بن غلام شاہ نانوتوی تحریک دیوبند کے سرکردہ قائد اور دار العلوم دیوبند کے بانیوں میں سے ہیں۔ آپ کی پیدائش 1833ء میں بھارت کے شہر سہارنپور کے قریب واقع ایک گاؤں نانوتہ میں ہوئی۔ مولانا کی سب سے بڑی کامیابی اور زندگی کا روشن ترین پہلو ''تحریک قیام مدارس'' ہے۔ اس تحریک نے اس قدر شہرت حاصل کی کہ بہت کم ہی عرصے میں سیکڑوں مدارس کا قیام عمل میں آیا۔ مرادآباد، دیوبند اور رامپور کے مدارس اسی تحریک کا نتیجہ تھے۔ 1880ء میں 47 سال کی عمر میں انتقال کیا۔

5) میاں سید نذیر حسین بہاری دہلوی:

سید نذیر حسین دہلوی تحریک اہل حدیث کے نامور رہنما اور مصلح تھے۔ بھارت میں تحریک اہل حدیث کی تشریح میں ان کا کردار نمایاں نظر آتا ہے۔ شیخ الکُل کا خطاب حاصل ہے۔ تحریک اہل حدیث کے بانیان میں شمار کیے جاتے ہیں۔جماعت اہل حدیث کے ہزاروں شیوخ الحدیث آپ کے شاگرد ہیں۔ حدیث شریف پڑھانے میں آپ کو خاص ملکہ حاصل تھا یہی وجہ ہے کہ ہندوستان کے علاوہ حجاز، مکہ مکرمہ، مدینہ منورہ، یمن، نجد، شام، حبش، افریقا، تونس، الجزائر، کابل، غزنی، قندھار، سمرقند، بخارا، داغستان، ایشیائے کوچک، ایران، خراسان، ہرات، چین، سری لنکا و دیگر ممالک سے طلبہ حدیث شریف پڑھنے کے لیے آپ رحمتہ ﷲ کے پاس آتے تھے۔

6) مولانا اسماعیل شہید:

مولانا اسماعیل شہید شاہ ولی ﷲ کے پوتے اور حضرت شاہ عبد الغنی کے بیٹے تھے۔ ان کی تعلیم و تربیت ان کے چچا شاہ عبدالعزیز کے زیر سایہ ہوئی۔سید احمد بریلوی نے سکھوں کے خلاف جو جہاد کیا تھا شاہ اسماعیل اس میں اُن کے دست راست رہے اور بالاخر بالاکوٹ ضلع ہزارہ میں شہید ہوئے۔بالاکوٹ میں ہی سید احمد بریلوی کے ساتھ مدفون ہیں۔

آپ نے بہت سی کتابیں تفنیف کیں۔ جن میں مندرجہ ذیل کتابیں مشہور ہیں:

  • تقویۃ الایمان
  • اصول فقہ
  • منصب امامت
  • عبقات
  • مثنوی سلک نور
  • تنویر العینین فی اثبات رفع الیدین
4) فرنگی محل اور علم حدیث:

فرنگی محل لکھنؤ میں وکٹوریہ روڈ اور چوک کے درمیان میں واقع ہے۔ اس عظیم الشان یادگار عمارت کا فرنگی نام اس لیے پڑا کیونکہ اولین مالکین یورپ سے تعلق رکھتے تھے۔ اس میں علمی مرکز عالمگیر کے دور میں قائم ہوا۔ ملا قطب الدین اور ملا نظام الدین کے عہد سے لے کر مولانا عبد الحلیم کے عہد تک اس خانوادہ فضل و کمال کی عملی کوششوں کا محور منطق اور اصول کی کتابیں رہیں۔ اس طرح ایک طویل عرصہ تک ہندوستان کی یہ مشرقی درسگاہ علوم حدیث سے محروم رہی۔ یہاں کے مروجہ نصاب میں صرف مشکوۃ المصابیح شامل تھی اور یہی ایک کتاب حدیث میں پڑھائی جاتی تھی۔ یہاں کے بلند پایہ شیوخ کے نام مندرجہ ذیل ہیں:

  • ملا مبین
  • ملا حیدر
  • مولانا عبدالرزاق
  • مولانا عبدالرحیم
  • مولانا محمد نعیم صاحب
  • مولانا عبداحئی
  • مولانا عبدالباری
 
Top