تعارف امام ابو داؤد
نام و نسب:
نام، سلیمان، ابو داؤد کنیت اور نسب نامہ یہ ہے: سلیمان بن اشعث بن اسحاق بن بشیر بن شداد بن عمرو بن عمران الازدی السجستانی، امام ابو داؤد کے جد اعلی عمران تھے جن کے متعلق مؤرخین نے لکھا ہے کہ وہ جنگ صفین میں حضرت علی کرم ﷲ وجہہ کے ساتھ تھے اور اسی میں ان کی شہادت ہوئی۔
ولادت:
امام ابو داؤد 202 ہجری میں پیدا ہوۓ۔ قبیلہ ازد سے نسبی تعلق کی وجہ سے ازدی کہلاۓ۔
وطن:
امام کی نسبت سیستان کی طرف ہے۔ اکثر مؤرخین کے نزدیک یہ ہے کہ سیستان ہند کے پہلو میں سندھ اور ہرات کے درمیان کا ایک گاؤں ہے جو بزرگان چشتیہ کا مرکز ہے۔
اساتذہ و شیوخ:
حافظ ابن حجر امام داؤد کے اساتذہ کی تعداد کا ذکر کرتے ہوۓ لکھتے ہیں کہ: ''امام داؤد کے اساتذہ اور شیوخ کی تعداد تین سو کے قریب تھی۔
ان میں امام احمد بن حنبل، اسحاق بن راھویہ، ابو بکر بن شیبہ اور عثمان ابن ابی شیبہ جیسے مشہور فقہاء حدیث شامل ہیں۔ ان کے علاوہ دیگر شیوخ کے ناموں میں سے ربیع بن نافع، خلف بن ہشام بغدادی، سعید بن سلیمان بزار واسطی، سعید بن منصور، سلیمان بن حرب، سلیمان بن عبدالرحمان دمشقی، شجاع بن مخلد، صفوان بن صالح دمشقی، عبدﷲ بن رجاء بصری اور محمد وھب بن بقیہ وغیرہ شامل ہیں''۔
تلامذہ:
صحاح ستہ کے مؤلفین میں سے امام ترمذی اور امام نسائی آپ کے شاگرد تھے۔ امام احمد نے بھی آپ سے تلامذہ کیا۔ اس کے علاوہ اور بھی مشہور و معروف شخصیات نے آپ سے تلامذہ کیا۔ جن میں آپ کے بیٹے ابو بکر بن ابو داؤد، ابن الاعرابی، ابن داسہ وغیرہ شامل ہیں۔
امام ابو داؤد کی خصوصیات:
ابو حاتم کا بیان ہے کہ: ''وہ حفظ کے اعتبار سے دنیا کے اماموں کے امام تھے"۔
وفات:
امام ابو داؤد نے 16 شوال بروز جمعۃالمبارک 275 ہجری 73 سال کی عمر میں انتقال کیا۔
تالیفات:
امام ابو داؤد کو مشہور تالیفات مندرجہ ذیل ہیں:
نام و نسب:
نام، سلیمان، ابو داؤد کنیت اور نسب نامہ یہ ہے: سلیمان بن اشعث بن اسحاق بن بشیر بن شداد بن عمرو بن عمران الازدی السجستانی، امام ابو داؤد کے جد اعلی عمران تھے جن کے متعلق مؤرخین نے لکھا ہے کہ وہ جنگ صفین میں حضرت علی کرم ﷲ وجہہ کے ساتھ تھے اور اسی میں ان کی شہادت ہوئی۔
ولادت:
امام ابو داؤد 202 ہجری میں پیدا ہوۓ۔ قبیلہ ازد سے نسبی تعلق کی وجہ سے ازدی کہلاۓ۔
وطن:
امام کی نسبت سیستان کی طرف ہے۔ اکثر مؤرخین کے نزدیک یہ ہے کہ سیستان ہند کے پہلو میں سندھ اور ہرات کے درمیان کا ایک گاؤں ہے جو بزرگان چشتیہ کا مرکز ہے۔
اساتذہ و شیوخ:
حافظ ابن حجر امام داؤد کے اساتذہ کی تعداد کا ذکر کرتے ہوۓ لکھتے ہیں کہ: ''امام داؤد کے اساتذہ اور شیوخ کی تعداد تین سو کے قریب تھی۔
ان میں امام احمد بن حنبل، اسحاق بن راھویہ، ابو بکر بن شیبہ اور عثمان ابن ابی شیبہ جیسے مشہور فقہاء حدیث شامل ہیں۔ ان کے علاوہ دیگر شیوخ کے ناموں میں سے ربیع بن نافع، خلف بن ہشام بغدادی، سعید بن سلیمان بزار واسطی، سعید بن منصور، سلیمان بن حرب، سلیمان بن عبدالرحمان دمشقی، شجاع بن مخلد، صفوان بن صالح دمشقی، عبدﷲ بن رجاء بصری اور محمد وھب بن بقیہ وغیرہ شامل ہیں''۔
تلامذہ:
صحاح ستہ کے مؤلفین میں سے امام ترمذی اور امام نسائی آپ کے شاگرد تھے۔ امام احمد نے بھی آپ سے تلامذہ کیا۔ اس کے علاوہ اور بھی مشہور و معروف شخصیات نے آپ سے تلامذہ کیا۔ جن میں آپ کے بیٹے ابو بکر بن ابو داؤد، ابن الاعرابی، ابن داسہ وغیرہ شامل ہیں۔
امام ابو داؤد کی خصوصیات:
- حفظ و ضبط:
ابو حاتم کا بیان ہے کہ: ''وہ حفظ کے اعتبار سے دنیا کے اماموں کے امام تھے"۔
- جرح و تعدیل:
- علم حدیث میں کمال:
- فقہ و اجتہاد:
وفات:
امام ابو داؤد نے 16 شوال بروز جمعۃالمبارک 275 ہجری 73 سال کی عمر میں انتقال کیا۔
تالیفات:
امام ابو داؤد کو مشہور تالیفات مندرجہ ذیل ہیں:
- کتاب الرد علی اھل القدر
- کتاب المسائل
- مسند مالک
- کتاب المراسی
- کتاب السنن ( سنن ابو داؤد)