ظہار کا بیان

فاطمہ طاہرہ

وفقہ اللہ
رکن
ظہار​

تعریف:

لغوی معنی: یہ لفظ ظہر سے مشتق ہے جس کے لغوی معانی پیٹھ اور پشت کے ہیں۔

اصطلاحی معنی: اصطلاح شریعت میں ظہار کے معنی یہ ہیں کہ: کوئی شخص اپنی بیوی کو یوں کہہ دے: ”تو مجھ پر میری ماں یا بہن (یا کوئی اور محرم خاتون) جیسی ہے“ اس کا حکم یہ ہے کہ اس لفظ سے طلاق نہیں ہوتی، لیکن کفارہ ادا کیے بغیر بیوی کے پاس جانا حرام ہے۔ اور کفارہ یہ ہے کہ دو مہینے کے لگاتار روزے رکھے اور اگر اس کی طاقت نہیں رکھتا تو ساٹھ مسکینوں کو دو وقت کا کھانا کھلائے، تب اس کے لیے بیوی کے پاس جانا حلال ہوگا۔

ظہار کا میاں بیوی کے تعلقات پر اثر:

ظہار کا شرعی حکم یہ ہے کہ اصل نکاح باقی رہتا ہے مگر کفارہ ادا کیے بغیر تعلقات زن و شوہر قائم کرنا حرام ہے۔

ظہار کا کفارہ اسی صورت میں واجب ہے جب ظہار کرنے والا شخص اپنی بیوی سے مجامعت کا ارادہ رکھتا ہے۔ کفارہ یہ ہے کہ یا تو مرد ایک غلام آزاد کرے یا دو مہینے متواتر روزے رکھے یا ساٹھ مسکینوں کو کھانا کھلائے لیکن ضروری ہے کہ کفارہ مردوزن کے خلوت والے تعلق سے پہلے ادا کیا جائے۔

اسلام سے پہلے ظہار کو طلاق کے مترادف سمجھا جاتا تھا لیکن حضور اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اسے نرم کرکے کفارہ ادا کرنے کی وقتی پابندی میں تبدیل کر دیا۔

قرآن میں بیان:

قَدْ سَمِعَ اللَّهُ قَوْلَ الَّتِي تُجَادِلُكَ فِي زَوْجِهَا وَتَشْتَكِي إِلَى اللَّهِ وَاللَّهُ يَسْمَعُ تَحَاوُرَكُمَا إِنَّ اللَّهَ سَمِيعٌ بَصِيرٌ۝ الَّذِينَ يُظَاهِرُونَ مِنكُم مِّن نِّسَائِهِم مَّا هُنَّ أُمَّهَاتِهِمْ إِنْ أُمَّهَاتُهُمْ إِلَّا اللَّائِي وَلَدْنَهُمْ وَإِنَّهُمْ لَيَقُولُونَ مُنكَرًا مِّنَ الْقَوْلِ وَزُورًا وَإِنَّ اللَّهَ لَعَفُوٌّ غَفُورٌ۝

اللہ نے اس عورت کی بات سن لی جو آپ سے اپنے شوہر کے بارے میں تکرار اوراللہ کے آگے شکایت کر رہی تھی اوراللہ آپ دونوں میں گفتگو سن رہا تھا اللہ یقینا بڑا سننے والا دیکھنے والاہے۔ تم میں سے جو لوگ اپنی بیویوں سے ظہار کرتے ہیں (انہیں ماں کہہ دیتے ہیں )وہ ان کی مائیں نہیں ان کی مائیں تو صرف وہی ہے جنھوں نے انہیں جناہے۔ اور بلا شبہ یہ لوگ نا پسندیدہ باتیں کرتے ہیں اور جھوٹ بولتے ہیں اورا للہ یقینا بڑا در گذر کرنے والا مغفرت کرنے والاہے۔ (سورۃ المجادلۃ )

ظہار کی شرائط:

ظہار کی تین طرح کی شرائط ہیں:

بعض کا تعلق ظہار کرنے والے سے ہے۔ اس کی درج ذیل ہو شرائط ہیں: صاحب عقل ہو، کم عقل نہ ہو، بالغ ہو، مسلمان ہو، نیت کی ہو۔

جس کے ساتھ ظہار کیا جا رہا ہے، اس سے متعلق یہ شرائط ہیں: بیوی ہو، نکاح تمام وجوہ سے قائم ہو، لفظ ظہار بیوی کے بدن یا جسم کے کسی حصہ کی طرف منسوب ہو

جن الفاظ سے ظہار کی جا رہا ہے، ان سے متعلق یہ دو قسم کے ہیں ایک صریح۔ دوسرا کنایہ

صریح کا حکم: محارم کی پیٹھ ، پیٹ یا ران وغیرہ سے تشبیہ دی جیسے "تو مجھ پر میری ماں کی پیٹھ کی طرح ہے" یا کہا: " میں نے تجھ سے ظہار کیا" تو یہ صریح الفاظ ہیں، ان میں نیت کی ضرورت نہیں، نیت کچھ بھی ہو، ہر حالت میں ظہار ہے۔

کنایہ کا حکم: اور اگر ظہار میں لفظ کنایہ استعمال کیا تو اس میں نیت کی ضرورت ہوگی، مثلاً کہا انت علیّ کأمی أو مثل أمی یعنی تومجھ پرمیری ماں کی مثل ہے، تو اس میں نیت کی ضرورت ہوگی اگر ظھار کی نیت کرے تو ظھار مراد ہوگا، کرامت کی نیت کرے تو کرامت،(یعنی جس طرح میرے نزدیک میری ماں کی عظمت ہے ایسی ہی تیری عظمت ہے) طلاق کی نیت کرے تو طلاق اور یمین کی نیت کرے تو ایلا ہوگا۔اور کچھ نیت نہ ہو تو کچھ نہیں۔

ظہار کا حکم:

اس کا حکم یہ ہے کہ اگر ظہار کی نیت سے کی جائے تمام فقہا کے نزدیک اس لفظ سے طلاق نہیں ہوتی،لیکن کفارہ ادا کئے بغیر بیوی کے پاس جانا حرام ہے۔ یہ حرمت اس وقت تک باقی رہتی ہے جب تک شوہر کفارہ ادا نہ کر دے، کفارہ ہی اس حرمت کو رفع کر سکتا ہے۔

کفارہ کی ادائیگی سے قبل بیوی سے جماع کرنا حرام ہے اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:

وَالَّذِيْنَ يُظٰهِرُوْنَ مِنْ نِّسَآئِهِمْ ثُمَّ يَعُوْدُوْنَ لِمَا قَالُوْا فَتَحْرِيْرُ رَقَبَةٍ مِّنْ قَبْلِ اَنْ يَتَمَآسَّا ذٰلِکُمْ تُوْ عَظُوْنَ بِهِ وَاﷲُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ خَبِيْرٌ۝

ترجمہ : ،،اور وہ جو اپنی بیویوں سے ظہار کر بیٹھیں پھر جو کہا ہے اس سے پلٹنا چاہیں تو ان پر ایک گردن (غلام یا باندی ) کا آزاد کرنا لازم ہے قبل اس کے کہ وہ ایک دوسرے کو ہاتھ لگائیں، یہ ہے جو نصیحت تمہیں کی جاتی ہے، اور اللہ تمہارے کاموں سے خبردار ہے’’ (سورہ مجادلۃ آیت 3)

کفارہ کی ادائیگی سے قبل بیوی سے جنسی منافع اٹھانا بھی حرام ہے۔ کفارہ ادا کرنے سے قبل ہر طرح کا جنسی فائدہ اٹھانا حرام ہے۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے مِنْ قَبْلِ اَنْ يَتَمَاسَّا فرما کر کفارے کی ادائیگی کو مس کرنے سے قبل ضروری قرار دیا ہے اور مس کا اطلاق سب سے کم جس چیز پر ہوتا ہے وہ ہاتھ سے چھونا ہے۔ مس کا لفظ دونوں معنی جماع اور ہاتھ سے چھونے کو شامل ہے، تو معنی یہ ہوگا کہ کفارہ ادا کرنے سے پہلے عورت کو چھونا بھی جائز نہیں ہوگا۔

یہ امر متفق علیہ ہے کہ ظہار کرنے والا شخص عاقل و بالغ ہو اور بحالت ہوش و حواس ظہار کے الفاظ زبان سے ادا کرے۔ بچے اور مجنون کا ظہار معتبر نہیں ہے۔ نیز ایسے شخص کا ظہار بھی معتبر نہیں جو ان الفاظ کو ادا کرتے وقت اپنے ہوش و حواس میں نہ ہو، مثلاً سوتے میں بڑبڑائے، یا کسی نوعیت کی بیہوشی میں مبتلا ہو گیا ہو۔

ظہار کے حکم میں وہ تمام عورتیں داخل ہیں جو نسب، رضاعت، یا ازدواجی رشتہ کی بنا پر آدمی کے لیے ہمیشہ حرام ہیں، مگر وقتی طور پر جو عورتیں حرام ہوں اور کسی وقت حلال ہو سکتی ہوں وہ اس میں داخل نہیں ہیں۔ جیسے بیوی کی بہن، اس کی خالہ، اس کی پھوپھی، یا غیرعورت جو آدمی کے نکاح میں نہ ہو۔ ابدی محرمات میں سے کسی عورت کے کسی ایسے عضو کے ساتھ تشبیہ دینا جس پر نظر ڈالنا آدمی کے لیے حلال نہ ہو، ظہار ہو گا۔ البتہ بیوی کے ہاتھ، پاؤں، سر، بال، دانت وغیرہ کو محرم عورت سے، یا بیوی کو اس کے سر، ہاتھ، پاؤں جیسے اجزائے جسم سے تشبیہ دینا ظہار نہ ہو گا کیونکہ ماں بہن کے ان اعضاء پر نگاہ ڈالنا حرام نہیں ہے۔ اسی طرح یہ کہنا کہ تیرا ہاتھ میری ماں کے ہاتھ جیسا ہے، یا تیرا پاؤں میری ماں کے پاؤں جیسا ہے، ظہار نہیں ہے۔

عورت کو بلا نیت ظہار یہ کہنا کہ ارے میری ماں یا ارے میری بہن تو ظہار نہیں۔ فتاوی عالمگیری میں ہے کہ عورت کو ماں یا بیٹی یا بہن کہا تو ظہار نہیں ، مگر ایسا کہنا مکروہ ہے۔

خلاصہ کلام یہ کہ ظہار کے الفاظ سے طلاق واقع نہیں ہوتی لیکن کفارہ ادا کئے بغیر بیوی کے پاس جانا حرام ہے۔جیساکہ اوپر قرآن کریم کی آیات سے ثابت ہے۔ یہ حرمت اس وقت تک باقی رہتی ہے جب تک شوہر کفارہ ادا نہ کر دے، کفارہ ہی اس حرمت کو رفع کر سکتا ہے۔

ظہار کا کفارہ:

قرآن مجید نے ترتیب کے ساتھ تین چیزوں کا کفارہ ظہار کے زمرے میں ذکر کیا ان میں سے جس کی بھی قدرت رکھے وہ ادا کرے۔

غلام آزاد کرنا۔

60 ساٹھ دن کے لگاتار روزے رکھنا۔

60 ساٹھ مسکینوں کو کھانا کھلانا۔
 
Top