میثاق مدینہ کی اہم دفعات

فاطمہ طاہرہ

وفقہ اللہ
رکن
میثاق مدینہ کی اہم دفعات:

میثاق مدینہ میں 53 دفعات شامل تھیں۔

پہلے 23 دفعات یا جملے مہاجرین اور انصار کے متعلق ہیں۔ باقی حصہ یہودی قبائل کے حقوق و فرائض سے بحث کرتا ہے۔ ڈاکٹر محمد حمید اﷲ نے اپنی تحریر ''دنیا کا سب سے پہلا تحریری دستور'' میں ان دفعات کا ترجمہ بیان کیا ہے۔ دستور مملکت مدینہ بہ عہد نبوی صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم ذیل میں پیش کیا جاتا ہے۔

رحم کرنے والے اور مہربان خدا کے نام سے


  • یہ ایک حکم نامہ ہے نبی اور اﷲ کے رسول محمد صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کا قریش اور اہل یثرب میں سے ایمن اور اسلام لانے والوں اور ان لوگوں کے مابین جو ان کے تابع ہوں او ران کے ساتھ شامل ہو جائیں اور ان کے ہمراہ جنگ میں حصہ لیں۔
  • تمام لوگوں کے بالمقابل ان کی ایک علیحدہ سیاسی وحدت ہوگی۔
  • قریش سے ہجرت کر کے آنے والے اپنے محلے کے (ذمہ دار) ہوں گے اور اپنے خون بہا باہم مل کر دیا کریں گے اور اپنے ہاں کے قیدی کو خود فدیہ دے کر چھڑائیں گے تاکہ ایمان والوں کا باہمی برتاؤ نیکی اور انصاف کا ہو۔
  • اور بنی عوف اپنے محلے کے ذمہ دار ہوں گے اور حسب سابق اپنے خون بہا باہم مل کر دیا کریں گے اور ہر گروہ اپنے ہاں کے قیدی کو خود فدیہ دے کر چھڑائے گے تاکہ ایمان والوں کا باہمی برتاؤ نیکی اور انصاف کا ہو۔
  • اور بنی الحارث بن خزرج اپنے محلے کے ذمہ دار ہوں گے اور حسب سابق اپنے خون بہا باہم مل کر دیا کریں گے اور ہر گروہ اپنے ہاں کے قیدی کو خود فدیہ دے کر چھڑائے گے تاکہ ایمان والوں کا باہمی برتاؤ نیکی اور انصاف کا ہو۔
  • اور بنی ساعدہ اپنے محلے کے ذمہ دار ہوں گے اور حسب سابق اپنے خون بہا باہم مل کر دیا کریں گے اور ہر گروہ اپنے ہاں کے قیدی کو خود فدیہ دے کر چھڑائے گے تاکہ ایمان والوں کا باہمی برتاؤ نیکی اور انصاف کا ہو۔
  • اور بنی جشم اپنے محلے کے ذمہ دار ہوں گے اور حسب سابق اپنے خون بہا باہم مل کر دیا کریں گے اور ہر گروہ اپنے ہاں کے قیدی کو خود فدیہ دے کر چھڑائے گے تاکہ ایمان والوں کا باہمی برتاؤ نیکی اور انصاف کا ہو۔
  • اور بنی النجار اپنے محلے کے ذمہ دار ہوں گے اور حسب سابق اپنے خون بہا باہم مل کر دیا کریں گے اور ہر گروہ اپنے ہاں کے قیدی کو خود فدیہ دے کر چھڑائے گے تاکہ ایمان والوں کا باہمی برتاؤ نیکی اور انصاف کا ہو۔
  • اور بنی عمرو بن عوف اپنے محلے کے ذمہ دار ہوں گے اور حسب سابق اپنے خون بہا باہم مل کر دیا کریں گے اور ہر گروہ اپنے ہاں کے قیدی کو خود فدیہ دے کر چھڑائے گے تاکہ ایمان والوں کا باہمی برتاؤ نیکی اور انصاف کا ہو۔
  • اور بنی النبیت اپنے محلے کے ذمہ دار ہوں گے اور حسب سابق اپنے خون بہا باہم مل کر دیا کریں گے اور ہر گروہ اپنے ہاں کے قیدی کو خود فدیہ دے کر چھڑائے گے تاکہ ایمان والوں کا باہمی برتاؤ نیکی اور انصاف کا ہو۔
  • اور بنی الاوس اپنے محلے کے ذمہ دار ہوں گے اور حسب سابق اپنے خون بہا باہم مل کر دیا کریں گے اور ہر گروہ اپنے ہاں کے قیدی کو خود فدیہ دے کر چھڑائے گے تاکہ ایمان والوں کا باہمی برتاؤ نیکی اور انصاف کا ہو۔
  • اور ایمان والے کسی قرض کے بوجھ سے دبے ہوئے کو مدد دیے بغیر چھوڑ نہ دیں گے تاکہ ایمان والوں کا باہمی برتاؤ نیکی اور انصاف کا ہو۔
  • اور یہ کہ کوئی مومن کسی دوسرے مومن کے مولا سے خود معاہدہ برادری نہیں پیدا کرے گا۔
  • اور متقی ایمان والوں کے ہاتھ ہر اس شخص کے خلاف اٹھیں گے جو ان میں سر کشی کرے یا استحصال بالجبر کرنا چاہے یا گناہ یا تعدی کا ارتکاب کرے یا ایمان والوں میں فساد پھیلانا چاہے اور ان کے ہاتھ سب مل کر ایسے شخص کے خلاف اٹھیں گے خواہ وہ ان میں سے کسی کا بیٹا ہی کیوں نہ ہو۔
  • اور کوئی ایمان والا کسی ایمن والے کو کسی کافر کے بدلے قتل نہ کرے گا اور نہ کسی فرد کی کسی ایمان والے کے خلاف مدد کرے گا۔
  • اور خدا کا ذمہ ایک ہی ہے۔ ان کا ادنی ترین فرد بھی کسی کو پناہ دے کر سب پر پابندی عائد کر سکے گا اور ایما والے باہم بھائی بھائی ہیں لوگوں کے مقابل۔
  • اور یہ کہ یہودیوں میں سے جو ہماری اتباع کرے گا تو اسے مدد اور مساوات حاصل ہو گی۔ نہ ان پر ظلم کیا جائے اور نہ ان کے خلاف کسی کو مدد دی جائے گی۔
  • اور ایمان والوں کی صلح ایک ہی ہو گی۔ اﷲ کی راہ میں لڑائی ہو تو کوئی ایمان والا کسی دوسرے ایمان والے کو چھوڑ کر دشمن سے صلح نہیں کرے گا جب تک کہ یہ صلح ان سب کے لیے برابر اور یکساں نہ ہو۔
  • اور ان تمام ٹکڑیوں کو جو ہمارے ہمراہ جنگ کریں باہم نوبت بہ نوبت چھٹی دلائی جائے گی۔
  • اور ایمان والے باہم اس چیز کا انتقام لیں گے جو خدائی راہ میں ان کے خون کو پہنچے۔
  • اور بے شبہہ متقی ایمان والے سب سے اچھے اور سب سے سیدھے راستے پر ہیں۔
  • اور یہ کہ کوئی مشرک قریش کی جان اور مال کو کوئی پناہ نہ دے گا اور نہ اس سلسلے میں کسی مومن کے آڑے آئے گا۔
  • اور جو شخص کسی مومن کو عمدا قتل کرے اور ثبوت پیش ہو تو اس سے قصاص لیا جائے گا بجز اس کے کہ مقتول کا ولی خون بہا پر راضی ہو جائے اور تمام ایمان والے اس کی تعمیل کے لیے اٹھیں گے اور اس کے سوائے انہیں کوئی اور چیز جائز نہ ہو گی۔
  • اور کسی ایسے ایمان والے کے لیے جو اس دستور العمل کے مندرجات کا اقرار کر چکا اور خدا اور یوم آخرت پر ایمان لا چکا ہو، یہ بات جائز نہ ہو گی کہ کسی قاتل کو مدد یا پناہ دے۔ اور جو اسے مدد یا پناہ دے گا تو قیامت کے دن اس پر خدا کی لعنت اور غضب نازل ہوں گے اور اس سے کوئی رقم یا معاوضہ قبول نہ ہو گا۔
  • اور یہ کہ جب کبھی تم میں کسی چیز کے متعلق اختلاف ہو تو اسے خدا اور محمد صلی اﷲ علیہ و آلہ وسلم سے رجوع کیا جائے‏ گا۔
  • اور یہودی اس وقت تک مومنین کے ساتھ اخراجات برداشت کرتے رہیں گے جب تک وہ مل کر جنگ کرتے رہیں۔
  • اور بنی عوف کے یہودی، مومنین کے ساتھ، ایک سیاسی وحدت تسلیم کیے جاتے ہیں۔ یہودیوں کو ان کا دین اور مسلمانوں کو ان کا دین۔موالی ہوں کہ اصل۔ ہاں جو ظلم یا عہد شکنی کا ارتکاب کرے تو اس کی ذات یا گھرانے کے سوا کوئی مصیبت میں نہیں پڑے گا۔
  • اور بنی النجار کے یہودیوں کو بھی وہی حقوق ہوں گے جو بنی عوف کے یہودیوں کو۔
  • اور بنی الحارث کے یہودیوں کو بھی وہی حقوق ہوں گے جو بنی عوف کے یہودیوں کو۔
  • اور بنی ساعدہ کے یہودیوں کو بھی وہی حقوق ہوں گے جو بنی عوف کے یہودیوں کو۔
  • اور بنی جشم کے یہودیوں کو بھی وہی حقوق ہوں گے جو بنی عوف کے یہودیوں کو۔
  • اور بنی الاوس کے یہودیوں کو بھی وہی حقوق ہوں گے جو بنی عوف کے یہودیوں کو۔
  • اور بنی ثعلبہ کے یہودیوں کو بھی وہی حقوق ہوں گے جو بنی عوف کے یہودیوں کو۔ ہاں جو ظلم یا عہد شکنی کا ارتکاب کرے تو خود اس کی ذات یا گھرانے کے سوائے کوغی مصیبت میں نہیں پڑے گا۔
  • اور جفنہ جو ثعلبہ کی ایک شاخ ہے، اس بھی وہی حقوق حاصل ہوں گے جو اصل کو۔
  • اور بنی اشطیبہ کو بھی وہی حقوق ہوں گے جو بنی عوف کے یہودیوں کو۔ اور وفا شعاری ہو نہ کہ عہد شکنی۔
  • اور ثعلبہ کے مویلی کو بھی وہی حقوق حاصل ہوں گے جو اصل کو۔
  • اور یہودیوں کی ذیل شاخوں کو بھی وہی حقوق حاصل ہوں گے جو اصل کو۔
  • اور یہ کہ ان میں کوئی بھی محمد صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کی اجازت کے بغیے نہیں نکلے گا۔
  • اور کسی مار، زخم کا بدلہ لینے میں کوئي رکاوٹ نہیں ڈالی جائے گی اور جو خونریزی کرے تو اس کی ذات اور اس کا گھانہ ذمہ دار ہو گا ورنہ ظلم ہو گا۔ اور خدا اس کے ساتھ جو اس کی زیادہ سے زیادہ وف شارانہ تعمیل کرے۔
  • اور یہودیوں پر ان کے خرچے کا بار ہو گا اور مسلمانوں پر ان کے خرچے کا۔
  • اور جو کوئی اس دستور والوں سے جنگ کرے تو ان میں باہم امداد عمل میں آئے گی۔ اور ان میں باہم حسن مشورہ اور بہی خواہی ہو گی اور وفا شعاری ہوگی نہ کہ عہد شکنی۔
  • اور یہودی اس وقت تک مومنین کے ساتھ اخراجات برداشت کرتے رہیں گے جب تک وہ مل کر جنگ کرتے رہیں۔
  • اور یثرب کو جوف ( یعنی میدان جو پہاڑوں سے گھرا ہوا ہو) اس دستور والوں کے لیے ایک حرم ہوگا۔
  • پناہ گزیں سے وہی برتاؤ ہو گا جو اصل کے ساتھ۔ نہ اس کو ضرر پہنچایا جائے اور نہ خود وہ عہد شکنی کرے گا۔
  • اور کسی پناہ گاہ میں وہاں والوں کی اجازت کے بغیر کسی کو پناہ نہیں دی جائے گی۔
  • اور یہ کہ اس دستور والوں میں جو کوئی قتل یا جھگڑا رونما ہو جس سے فساد کا ذر ہو تو اسے خا وار خدا کے رسول محمد صلی اﷲ علیہ و آلہ وسلم اس رجوع کیا جائے گا۔ اور خدا اس شخص کے ساتھ ہے جو اس دستور کے مندرجات کی زیادہ سے زیادہ احتیاط اور زیادہ سے زیادہ وفا شعاری کے ساتھ تعمیل کرے۔
  • اور قریش کو کوئی پناہ نہیں دی جائے گی اور نہ اس کو جو انہیں مدد دے۔
  • اور ان ( یہودیوں اور مسلمانوں) مین باہم مدد دہی ہو گی اگر کوئی یثرب پر ٹوٹ پڑے۔
  • اور اگر ان مین کو کسی صلح میں مدعو کیا جائے تو وہ بھی صلح کریں گے اور اس میں شریک رہیں گے اور اگر وہ کسی ایسے ہی امر کے لیے بلائیں تو مومنین کا بھی فریضہ ہو گا کہ اس کے ساتھ ایسا ہی کریں بجز اس کے کہ کوئی دینی جنگ کرے۔
  • ہر گروہ کے حصف میں اسی رخ کی (مدافعت) آئے گی جو اس کے بالمقابل ہو۔
  • اور الاؤس کی یہودیوں کو، موالی ہوں کہ اصل، وہی حقوق حاصل ہوں گے جو اس دستور والوں کو اور وہ بھی اس دستور والوں کے ساتھ خالص وفا شعاری کا برتاؤ کریں گے۔ اور وفاشعاری ہوگی نہ عہد شکنی۔ جو جیسا کرے گا ویسا خود ہی بھرے گا۔ اور خدا اس کے اس شخص کے ساتھ ہے جو اس دستور کے مندرجات کی زیادہ سے زیادہ احتیاط اور زیادہ سے زیادہ وفا شعاری کے ساتھ تعمیل کرے۔
  • اور یہ کہ حکم نامہ کسی ظالم یا عہد شکن کے آڑے نہ آئے گا۔ اور جو جنگ کو نکلے تو بھی امن کا مستحق ہو گا اور جو مدینے میں بیٹھ رہے تو بھی امن کا مستحق ہو گا ورنہ ظلم اور عہد شکنی ہو گی۔ اور خدا اس کا نگہبان ہے جو وفا شعاری اور احتیاط کرے اور اﷲ کے رسول محمد صلی اﷲ علیہ و آلہ وسلم بھی جن پر خدا کی توجہ اور سلامتی ہو۔ (دنیا کا سب سے پہلا تحریری دستور)
 
Top