فرقے

فاطمہ طاہرہ

وفقہ اللہ
رکن
اس کتاب میں ان فرقوں کوسنی اور شیعہ دو فرقوں میں منقسم کیا جائے گا۔

شیعہ فرقے​



شیعہ کے 4 فرقے ہیں:

  • نصیریہ : اس کے 17 فرقے ہیں: سبائیہ، کاملیہ، بیانیہ، مغیریہ، منصوریہ، خطابیہ، غرابیہ، شریفیہ، ہشامیہ، یونسیہ، مفضلیہ، زراریہ، اصحاب اسحاق بن غالب، ہشمیہ، مفوضہ، کیسانیہ، سلمیہ۔
  • اسماعیلیہ : اس کے17 فرقے ہیں: صباحیہ،اسماعیلیۂ خالصہ ، اسماعیلیۂ مبارکیہ ، ناصریہ ، فاطمیان ، دروزیہ ، نزاریہ ، مستعلویہ ، مجیدیہ ، آمریہ ، بہرہ ، داودیہ ، سلیمانیہ ، آغاخانیہ ، برقعیہ ، قرامطہ، بابکیہ۔
  • زیدیہ : اس کے9 فرقے ہیں: جارودیہ، جریریہ، بتریہ نعیمیہ، یعقوبیہ، ناصریہ، ہادویہ، عقبیہ، قاسمیہ ۔
  • امامیہ : اس میں 17 فرقے ہیں: کاملیہ، محمدیہ، باقریہ، ناؤوسیہ، شمیطیہ، عما ریہ، اسماعیلیہ، موسویہ، مبارکیہ، واقفیہ، قطعیہ، ہشامیہ، زراریہ، یونسیہ، شیطانیہ، صوفیہ امامیہ نوربخشیہ۔
نصیریہ فرقہ:

باطنی فرقہ کی ایک جماعت ہے۔ فرانسیسیوں نے انہیں علویین کا نام دیا ہے۔ یہ فرقہ اصل میں ایک شخص سے منسوب ہے جسے محمد بن نصیر کہا جاتا تھا یہ ”بنی نمیر“ کے غلاموں اور اس امام حسن عسکری کے گرد جمع ہونے والوں میں سے ایک تھا۔

جب 260ھ میں امام حسن عسکری کی وفات ہوئی تو آپ کے بیٹے کے حوالے سے اختلاف پیدا ہوا۔ تو محمد بن نصیر نے ایک حیلہ کیا، چنانچہ اس نے حسن عسکری کے شیعوں کے لیے دعویٰ کرتے ہوئے کہا: یقیناً جس کا ایک لڑکا محمد تھا امامت اس کی طرف منتقل ہو گئی ہے اور اپنے والد کے گھر میں روپوش ہو گیا ہے اور وہی مہدی منتظر ہے عنقریب واپس آئے گا اور زمین کو اس طرح عدل و انصاف سے بھر دے گا جس طرح کہ وہ ظلم سے بھری ہوگی۔

پھر اس محمد بن نصیر نے دعویٰ کیا کہ وہ خود ہی مہدی منتظر کا دروازہ ہے لیکن امام حسن عسکری کے بعض پیروکاروں نے محمد بن نصیر کے اس قول کی کہ وہ مہدی منتظر کا دروازہ ہے، تصدیق نہ کی اگرچہ انہوں نے اپنے مذہب کو باقی رکھنے کا حیلہ کرتے ہوئے امام مہدی کے وجود پر موافقت کی۔ پھر ایک گروہ نے مہدی کے طور پر ایک ایسے آدمی کا انتخاب کیا جوامام حسن عسکری کے دروازے پر تیل بیچتا تھا اور اس کے بارے میں دعویٰ کیا کہ یہی مہدی کا دروازہ ہے۔ اس کے بعد محمد بن نصیر ان کے پاس سے بھاگ گیا اور فرقہ نصیریہ کی بنیاد رکھی۔

اس فرقے کے 17 ذیلی فرقے ہیں ان میں شامل ہیں:

  • سبائیہ: اس فرقے کا قیام 35 سے 40 ہجری تک عمل میں آیا اور اسے کوفہ میں متعارف کرایا گیا تھا ۔ یہ فرقہ علی ابن ابی طالب کی الوہیت پر یقین رکھتا ہے۔
تاریخ طبری کے مطابق ، سبائیہ فرقہ عثمانی حکومت کے اختتام پر عبد اﷲ ابن سبا کے ذریعہ قائم کردہ ایک فرقہ ہے ۔ اس فرقے کا نام اس کے بانی عبد اﷲ ابن سبا کے نام سے لیا گیا ہے۔ بعض ذرائع میں عبد اﷲ ابن سبا ہی نے عمار یاسر کو عثمان کی مخالفت کرنے پر اور ساتھ ہی مصریوں کو عثمان کے خلاف بغاوت پر اکسایا۔ عبداﷲ ابن سبا ایک یہودی جاسوس تھا جو مسلمان فوجی چھاؤنیوں میں جاتا انھیں بھڑکاتا اور موضوع احادیث گھڑتا۔

  • کاملیہ: یہ ابو کامل کے پیروکار ہیں ان کے مطابق جو علی بن ابی طالب کی بیعت نہ کرنے والوں کو کافر گردانتے ہیں۔
  • بیانیہ: یہ فرقہ بیان بن سمان تمیمی مھدی کے ساتھہ منسوب ہے۔ بیان بن سمان بھی ان 8 لوگوں میں شامل ہے جن پر امام جعفر صادق نے لعنت فرمائی ہے۔ یہ کہتا تھا قرآن کی آیت ،وھذا بیان للناس ، میں جو لفظ بیان استعمال ہوا ہے وہ میں ہوں یہ مغیرہ بن سعید عجلی کا یار خاص تھا اور اسی کے ساتھہ واصل جھنم ہوا اس کے تمام عقاید مغیرہ والے تھے۔
  • مغیریہ: مغیرہ بن سعيد عجلی فرقہ مغیریہ کا بانی ہے، جو غلاة روافض کا ایک گروہ تھا۔ یہ شخص خالد بن عبد اﷲ قسری والی کوفہ کا آزاد کردہ غلام اور بڑا غالی رافضی تھا۔ حضرت امام محمد باقر کی رحلت کے بعد پہلے امامت کا اور پھر نبوت کا دعوی کرنے لگا۔مغیرہ کا دعوی تھا کہ میں اسم اعظم جانتا ہوں اور اس کی مدد سے مردوں کو زندہ کر سکتا ہوں۔ کہا کرتا تھا کہ اگر میں قوم عاد ، ثمود اور ان کے درمیانی عہد کے آدمیوں کو زندہ کرنا چاہوں تو کر سکتا ہوں۔ یہ شخص مقابر میں جا کر بعض ساحرانہ کلمات پڑتا تھا تو ٹڈیوں کی وضع کے چھوٹے چھوٹے جانور قبروں پر اڑتے دکھائی دینے لگتے تھے۔ مغیرہ کہتا تھا کہ معبود حقیقی نور کا ایک پیکر انسانی صورت پر ہے۔ الف اس کے دونوں قدموں کی مانند ہے۔ عین اس کی دونوں آنکھوں کے مشابہ ہے۔ کہتا تھا کہ اﷲ کے سر پر نورتاج رکھا ہے۔ جب اﷲ تعالی نے دنیا کی آفرینیش کا قصد کیا تو اپنے اسم اعظم سے معاً اس اسم نے پرواز کی اور تاج کی شکل اختیار کر کے اس کے فرق مبارک پر آ گیا۔ چنانچہ کہتا تھا کہ یہ آیت سبح اسم ربك الأعلے میں اسم اعلی سے یہی تاج مراد ہے اور کہتا تھا کہ جب رب العزت نے کائنات عالم کو پیدا کرنا چاہا تو اعمال عباد کو اپنی انگلیوں سے لکھا جب رب الارباب نے اپنے بندوں کے ذنوب و معاصی پر غضبناک ہوا تو اس کا جسم عرق آلود ہو گیا جس سے دو دریا بہے نکلے۔ ایک شیریں ہے۔ پھر خدائے قدوس نے دریائے شیریں کی طرف نظر کی تو اس کی شکل و صورت دریا میں منعکس ہوئی۔ حق تعالی نے اپنے پر تو اعمال کا کچھ حصہ لے کر اس سے سورج اور چاند بنائے اور باقی ماندہ عکس کو فنا کر دیا۔ تاکہ اس کا کوئی شریک باقی نہ رہے۔ پر دریائی شیریں میں سے شیعہ پیدا کیے اور دریائے تلخ سے کفار (یعنی غیر شیعہ ) کی تخلیق فرمائی۔ (کتاب الخطاط مقریزی جلد 4 صفحہ 176) پھر اس نے اپنی امانت آسمانوں، زمین اور پہاڑوں کے سامنے پیش کی۔ لیکن انہوں نے اس امانت کو اٹھانے سے انکار کیا۔ یہ امانت کیا تھی ؟ اس بات کا عہد تھا کہ وہ سب حضرت علی بن ابی طالب کی خلافت میں مزاحم نہ ہوں گے۔ انسان نے اس امانت کو اٹھا لیا۔ چنانچہ عمر بن خطاب نے ابوبکر صدیق سے کہا کہ وہ اس بار امانت کو اٹھا کر علی کو اس سے روک دیں اور عمر نے اس شرط پر معاونت کا وعدہ کیا کہ وہ اپنے بعد انہیں خلیفہ بنائیں گے۔ ابو بکر نے اس بات کو اٹھا لیا اور ان دونوں نے غلبہ پا کر علی کو اس سے روک دیا۔ یہ شخص تمام صحابہ کرام رضوان الله علم اجمعین کی باستثناء ان حضرات کے جنھوں نے حضرت علی کی رفاقت اختیار کی۔ (معاذ الله) تکفیر کرتا تھا۔ (الفرق بين الفرق صفحہ 229تا231) مغیرہ کا عقیدہ تھا کہ حضرت علی، حسن، حسین کے بعد امامت جناب محمد بن عبد اﷲ بن حسن مثنی بن امام حسن مجتبی بن امیر المومنین علی کرم اﷲ وجہ کی طرف منتقل ہو گئی جو نفس ذکیہ کے لقب سے مشہور تھے۔ اس شخص کا استدلال اس حدیث نبوی سے تھا جس میں پیغمبر علیہ الصلوة والسلام نے حضرت مهدی علیہ السلام کے متعلق فرمایا ہے کہ ان کا اور ان کے والد کا نام میرے اور والد کے نام کے موافق ہو گا۔ جب خالد بن عبد الله قسری کو جو خلیفہ ہشام بن عبدالملک کی طرف سے عراق کا امیر تھا معلوم ہوا کہ مغیره مدعی نبوت ہے اور اس نے طرح طرح کی شناختیں جاری کر رکھی ہیں۔ تو اس نے 119ھ میں اس کی گرفتاری کا حکم دیا۔ اس کے چھ مرید بھی پکڑے گئے۔ خالد نے مغیرہ سے دریافت کیا کہ تمہیں نبوت کا دعوی ہے؟ اس نے اثبات میں جواب دیا۔ پھر اس کے مریدوں سے پوچھا کہ کیا تم اس کو نبی یقین کرتے ہو؟ انہوں نے بھی اس کا اقرار کیا۔ خالد نے مغیرہ کو ارتداد کی وہ بڑی سے بڑی سزا دینی چائی جو اس کے خیال میں سما سکی۔ خالد نے مغیرہ کو سرکنڈوں کے گھٹوں کے ساتھ باندھا اور تیل چھڑک کر اس کو زندہ جلا کر جہنم واصل کر دیا۔
  • منصوریہ: ابو منصور عجلی کا پیروکار اور اسی کے نام سے مشہور ہے، ان کا ابو منصور نے محمد باقر کے بارے میں غلو کیا کرتا اور علی بن ابی طالب کو خدا کا درجہ دیتا اور ان کو وقت کا امام قرار دیا۔ یہ شیعہ امامیہ کے فرقوں میں بھی شامل ہے۔
  • خطابیہ: یہ فرقہ محمد بن مقلاص اسدی کوفی بزاز المعروف ابوالخطاب کے ساتھ منسوب ہے یہ شخص پارچہ فروش تھا امام جعفر صادق کے اصحاب میں شمار ہوتا تھا بعد میں منحرف ہو گیا۔ جعلی احادیث بناتا اور امام جعفر صادق سے منصوب کرتا تھا ۔
  • غرابیہ: شیعہ کا ایک غالی فرقہ ہے۔ یہ سابق الذکر فرقہ کی طرح حضرت علی کی الوہیت کے قائل نہیں تھے۔ مگر حضرت علی کو تقریباً آنحضور سے افضل قرار دیتے تھے۔ یہ اس زعم باطل کا شکار تھے کہ نبی دراصل حضرت علی تھے۔ مگر جبریل غلطی سے محمد ﷺ پر نازل ہوگیا۔ ان کو غرابیہ (غراب کوّے کو کہتے ہیں )ان کے اس قول کی وجہ سے کہاجاتا ہے کہ حضرت علی رضی اﷲ عنہ نبی کریم ﷺ کے اس طرح مشابہ ہیں جیسے ایک کوّ ا دوسرے کوّے کا ہم شکل ہوتاہے۔ (معاذ اﷲ)
  • شریفیہ: یہ فرقہ ختم ہو چکا ہے۔
  • ہشامیہ: ہشام بن سالم جوالیقی علاف کے پیروکار تھے اور شیعہ فرقوں میں شمار ہوتے تھے ہشام بشربن مروان کا آزاد کردہ غلام تھا۔ ہشام بن سالم جوالیقی جعفی، امام جعفر صادقؑ اور امام موسی کاظمؑ کے اصحاب میں سے ہیں۔ علم کلام میں ان کی مہارت فقہ سے زیادہ تھی۔ امام جعفر صادقؑ بعض کلامی مسائل جیسے توحید میں ان کی طرف رجوع کرنے کا حکم دیتے تھے۔ انہوں نے ان دونوں اماموں سے روایات بھی نقل کی ہیں۔ علماء و ماہرین علم رجال انہیں ثقہ تسلیم کرتے ہیں۔ ان کا نام شیعہ حدیثی کتب میں 663 روایات کے سلسلہ سند میں ذکر ہوا ہے۔ امام جعفر صادقؑ کی شہادت کے بعد ہشام نے امام کاظمؑ کی امامت کی ترویج کے سلسلہ میں اپنا کردار ادا کیا۔ وہ صاحب تالیف بھی ہیں ان کی مشہور ترین کتاب معراج کے بارے میں ہے۔ اہل سنت نے مسئلہ توحید کے سلسلہ میں بعض مخصوص نظریات کی نسبت ان کی طرف دی ہے۔ فقہ میں ان کی پیروی کرنے والوں کو ہشامیہ کہتے ہیں
  • یونسیہ: ابو محمد یونس بن عبدالرحمن مولی علی بن یقطین بن موسی مولی بنی اسد کے پیروکار تھے۔ اور قطعیہ میں سے ہی شمار ہوتے تھے۔ یونس بن عبدالرحمن اصحاب جعفر صادق و موسی کاظم میں سے تھا اور تشبیہ خدا و عرش الہی کے بارے افراط کرتا تھا۔
  • مفضلیہ: انہیں موسویہ بھی کہا جاتا ہے۔ موسائیہ جو امام موسی بن جعفر تک کی امامت کو مانتے ہیں اور ان کو آخری امام سمجھتے ہیں اور ان کی رجعت (دوبارہ زندہ ہونے) کے منتظر ہیں۔
  • زراریہ: تمیمیہ از غلاۃ و مشبہہ معروف راوی زرارہَ بن اعین تمیمی کے پیروکار تھے جو علم ،قدرت ،سمع ،حیات اور بصر جیسی صفات ثبوتیہ کو اﷲ تعالٰی کے لیے حادث اور مخلوق جانتے تھے۔ باب امامت میں ان کا نظریہ وہی واقفیہ جیسا تھا۔
  • اصحاب اسحاق بن غالب: یہ حضرت علی میں اﷲ کے حلول کے قائل ہیں۔
  • ہاشمیہ: ”ابو ہاشم عبد اﷲ “ کے ماننے والے جو محمد حنفیہ کے بعد ان کے فرزند ”عبد اﷲ“ کی امامت کے معتقد ہوئے۔ ہاشمیہ فرقہ بھی ابو ہاشم کی وفات کے بعد مختلف فرقوں میں جیسے :”مختاریّہ“ ”حارثیّہ“”روندیّہ“”بیانیّہ“ وغیرہ میں تقسیم ہو گیا۔
  • مفوضہ: یہ لوگ اس بات کے قائل تھے کے خدا نے رسول خدا صلی اﷲ علیہ و آلہ و سلم کو خلقت کی ذمہ داری سونۃ دی ہے۔ امام حسن عسکری(علیہ السلام) نے اس فرقہ کے بارے میں جو بیان کیا ہے اس کے مطابق حضرت امام حسن عسکری کے زمانۂ حیات میں بعض ایسے لوگ بھی تھے جو مفوضہ کہلاتے تھے۔ مفوضہ ایسا گروہ ہے جو کہتا ہے کہ خداوند متعال نے حضرت محمد صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کو خلق فرمایا اور پھر دنیا کی خلقت حضرت کو سونپ دی۔ اس عقیدے کی بنیاد پر دنیا اور دنیا میں موجود ہر چیز کے خالق حضرت رسول اکرم صلی اﷲ علیہ و آلہ وسلم ہیں۔ بعض نے کہا ہے کہ دنیا اور اس میں موجود ہر چیز کی خلقت حضرت امیر المؤمنین حضرت علی کے حوالےکردی گئی۔
  • کیسانیہ: کیسانیہ اہل تشیع کے ایک ایسے فرقہ کا نام ہے جو پہلی صدی ہجری کے پچاس سال بعد شیعوں کے درمیان پیدا ہوا اور تقریباً ایک صدی تک چلتا رہا پھر بالکل ختم ہو گیا۔ لیکن اس کے بہت سے عقائد و نظریات کو باقی فرقوں نے اپنا لیا۔ یہ گروہ ”محمد ابن حنفیہ “(حضرت علی کے بیٹے) کی امامت کا عقیدہ رکھتا تھا اور انہیں امیر المومنین، امام حسن اور امام حسین کے بعد چوتھا امام گمان کرتا تھا۔
  • سلمیہ: یہ شام کے شہر سلمیہ سے تعلق رکھتا تھا۔
اسماعیلیہ فرقے​

امام جعفر صادق کے بعد ان کے بیٹے اسماعیل یا پوتے محمد بن اسماعیل کی امامت پر عقیدہ رکھنے والے فرقے اسماعیلیہ فرقے کہلاتے ہیں۔ ان کے بقول تاریخ میں مذکور ہےکہ چھٹے امام جعفر صادق نے اپنے بڑے بیٹے اسماعیل بن جعفر کو اپنا جانشین مقرر کیا تھا نہ کہ امام موسی کاظم کو۔ ان کو اسماعیلی بھی کہتے ہیں۔
ان میں موجود ذیلی فرقے درج ذیل ہیں:
  • صباحیہ: حسن بن صالح کو امام ماننے والوں کو صباحیہ کہا جاتا ہے۔
  • اسماعیلیۂ خالصہ: یہ وہ لوگ ہیں، جن کا دعویٰ ہے کہ چونکہ اسمعیل کی امامت والد کی طرف سے ثابت ہے اور امام حق کے سوا کـچھ نہیں کہا کرتا، پس ثابت ہوتا ہے کہ اسمعیل نہیں مرے بلکہ زندہ اور قائم ہیں۔
  • اسماعیلیۂ مبارکیہ: یہ وہ لوگ ہیں جن کا خیال ہے کہ امام جعفر صادق نے اسمعیل کے انتقال کے بعد ان کے بیٹے یعنی اپنے پوتے محمد کو امامت کا عہدہ سونپ دیا ہے۔ کیونکہ بھائی (اسمعیل) کی امامت بھائی (امام موسی کاظم) کو منتقل نہیں ہوتی اور امامت کی یہ منتقلی صرف امام حسن اور امام حسین تک محدود تھی۔ یہ فرقہ اپنے مؤسس "مبارک" کے نام سے بھی مشہور ہے۔ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ مبارک ''محمد بن اسمعیل'' کا لقب ہے اور بعض کہتے ہیں کہ یہ اسمعیل ہی کا لقب ہے۔محمد جواد مشکور نے لکھا ہے کہ "اس گروہ کو مبارکیہ بھی کہا جاتا ہے، کیونکہ اسمعیل کا غلام مبارک اس جماعت کی قیادت کرتا تھا اور اسمعیل کی امامت کی بات آگے بڑھاتا تھا۔
  • ناصریہ: اسماعیلی شاعر اور دانشور حمید الدین ناصر خسرو قبادیانی اس گروہ کے داعی کے ماننے والے تھے یہ لوگ ماوراء النہر، خراسان اور طبرستان میں زندگی بسر کرتے تھے۔ (بیان الادیان، ص 166; تبصرة العوام ص 425)
  • فاطمیان: سلطنت فاطمیہ یا خلافت فاطمیہ خلافت عباسیہ کے خاتمے کے بعد 297ھ میں شمالی افریقہ کے شہر قیروان میں قائم ہوئی۔ اس سلطنت کا بانی عبیداﷲ مہدی چونکہ محمد صلی اﷲ علیہ و آلہ وسلم کی صاحبزادی حضرت فاطمۃ الزہرۃ کی اولاد میں سے تھا۔ (بعض محققین کو اس سے اختلاف ہے) اس لیے اسے سلطنت فاطمیہ کہا جاتا ہے۔ عبید اﷲ تاریخ میں مہدی کے لقب سے مشہور ہے۔ فاطمین حضرت فاطمہ کی نسل سے ہیں کہ نہیں اس بارے میں مورخین میں اختلاف ہے۔
  • دروزیہ: ان کانام کلمہ ”دروزی“، اس گروہ کے موسس کے نام سے لیا گیا ہے، اس گروہ کا موسس حمزة بن علی دروزی تھا جو فاطمی خلیفہ الحاکم بامراﷲ کو خدا کی روح سمجھتا تھا۔ اس وقت یہ لوگ لبنان اور شام میں مقیم ہیں اور ان کی تعداد دو لاکھ سے زیادہ ہے اور یہ اپنے آپ کو موحد کہتے ہیں۔
  • نزاریہ: انہیں حشیشیہ بھی کہا جاتا ہے۔ نزاری جو کہ حسن صباح سے مربوط ہیں اور اب شام (مصیصہ علاقہ) میں، عمان میں اور ایران کے بعض علاقوں (محلات کے پہاڑی علاقوں) میں اور شمالی افغانستان میں موجود ہیں، آج کے بدخشان (افغانستان کے شمال مشرق ) میں تمام لوگ نزاریان سے تعلق رکھتے ہیں، بیسویں صدی کی چوتھی دہائی تک تاجکستان کے مشرق کے تمام لوگ اور پامیر(جو کہ آج پہاڑی علاقہ بدخشان کے خود مختار علاقہ کے نام سے پکارا جاتا ہے ) کے تمام لوگ نزاری تھے۔
  • مستعلویہ: ”مستعلویہ“ اسماعیلیوں کا ایک گروہ ”مستنصر فاطمی“ کے بیٹے ”مستعلی“ کی امامت کا قائل ہے۔
  • مجیدیہ: سن 526 ہجری میں مقتول خلیفہ بنام "آمر" کے ایک چچا زاد بھائی بنام (عبدالمجید) الملقب بہ (الحافظ) تخت خلافت پر بیٹھا۔ سنہ 567 میں فاطمیون کے زوال تک آنے والے فاطمی خلفاء عبدالمجید حافظ کی اولاد میں سے تھے۔ اس سلسلے کی امامت کو مصر اور شام میں کافی فروغ ملا جبکہ فاطمیہ کے آخری خلفاء کو یمن میں عدن کے چند امراء اور صنعا کے چند حکام کے سوا کسی نے تسلیم نہیں کیا۔ موجودہ اسماعیلیوں کے درمیان اس فرقے کا نام و نشان تک نہیں رہا۔
  • آمریہ یا طیبیہ: سن 524 میں مستعلی کے جانشین "آمر" کے انتقال کے ساتھ ہی اسماعیلی دعوت میں مزید تقسیمات معرض وجود میں آئیں۔ آمر کا بیٹا "طیب" آٹھ ماہ کی عمر میں ان کا جانشین مقرر ہوا۔ لیکن حکومت کی باگ ڈور اس کے چچا زاد عبدالمجید ملقب بہ حافظ کے ہاتھ میں چلی گئی۔ جو لوگ طیب کی خلافت کے معتقد تھے، وہ طیبیہ کے نام سے مشہور ہوئے۔ طیبیہ دعوت کو ابتداء میں مصر و شام کے مستعلویوں کی قلیل تعداد نے قبول کیا، لیکن یمن کے اسماعیلیہ میں اس کو وسیع پذیرائی ملی۔ یمنی میں صلیحی باضابطہ طور پر طیب کے دعوے کی حقانیت کے قائل ہوئے۔ ابراہیم حامدی، جو سنہ 557 تک صنعا کے یام نامی غیر اسماعیلی فرقے کے امراء کے درمیان سرگرم عمل تھا، طیبی فرقے کا مؤسس اور بانی تھا۔ رفتہ رفتہ طیبی جماعت مصر اور شام میں ناپید ہوگئی، لیکن یہ جماعت آج تک یمن اور ہندوستان (اور شاید پاکستان) میں زندہ اور فعال ہے۔
  • بہرہ: يہ فرقہ اسماعيلى مستعلي فرقہ سے تعلق ركھتا ہے جو كہ امام مستعلى اور اس كے بعد الآمر اور اس كے بعد اس كے بيٹے طيب كى امامت كے قائل ہيں۔ اسى ليے انہيں الطيبۃ بھى كہا جاتا ہے۔ يہ برصغير پاک و ہند اور يمن كے اسماعيلى فرقے سے تعلق ركھنے والے افراد ہيں۔ انہوں نے سياست ترک كر كے تجارت اختيار كى اور ہندوستان پہنچے اور ہندوؤں سے مسلمان ہونے والے افراد سے ميل جول كے بعد يہ بہرہ كے نام سے معروف ہوئے ہيں۔ اور بہرہ قديم ہندى زبان كا لفظ ہے جس كا معنى تاجر ہے۔
  • داودیہ: جن طیبی بوہریوں نے داؤد بن برہان الدین کی جانشینی قبول کرلی، وہ داؤدیہ کہلائے۔ ان کا سربراہ بمبئی میں ہوتا ہے اور ان کا مرکز "سورت" میں واقع ہے۔ ان کی مشہور زیارتگاہیں احمد آباد، سورت، جام نگر، مانڈوی، اجین اور برہانپور میں ہیں۔ موجودہ زمانے میں داؤدی بوہریوں کی نصف آبادی گجرات میں اور باقی ماندہ بمبئی اور ہندوستان کے مرکزی علاقوں میں سکونت پذیر ہیں۔ پاکستان، یمن اور مشرق بعید میں بھی داؤدیوں کے منتشر گروپ بسیرا کئے ہوئے ہیں۔
  • سلیمانیہ: جن بوہریوں نے "سلیمان بن حسن ہندی" کی جانشینی کو تسلیم کیا، وہ سلیمانیہ کہلائے۔ وہ شمالی یمن کے علاقوں حراز اور ملک سعودی عرب سے ملے ہوئے سرحدی علاقوں نیز سعودی عرب کے جنوبی سرحدی علاقوں میں سکونت پذیر ہیں۔ ان کی چھوٹی چھوٹی جماعتیں ہندوستان کے علاقوں بمبئی، بڑودھا اور احمد آباد میں پائی جاتی ہے اور یمن، ہندوستان اور پاکستان کے باہر ان کی موجودگی زیادہ محسوس نہیں کی جاتی۔
  • آغاخانیہ: یہ نزاریہ کے باقی بچے ہوئے افراد ہیں اور چونکہ ان کے امام کا نام آغا خان تھا اس لئے ان کو آغا خانی کہاجاتا ہے۔ نزاریہ ،آج کے آقا خان کریم کو امام علی علیہ السلام کے بعد اڑتالیسواں امام سمجھتے ہیں۔
  • قرامطہ: بعض گروہ ”حمدان قرامط “کی پیروی کرتے تھے اس لئے ان کو ”قرامطہ “ کہا جاتا تھا۔ اسماعیلیہ اور غلات کے فرقوں میں سے ایک فرقہ ہے جو حمدان میں مقیم ہیں۔ اور یہ محمد بن اسماعیل کی امامت کے قائل ہیں اور ان کا عقیدہ ہے کہ وہ زندہ ہیں اور وہ ان کے قیام کے منتظر ہیں۔ یہ فرقہ کہتا ہے کہ غدیر خم کے بعد رسو ل اﷲ صلی اﷲ علیہ و آلہ وسلم کی نبوت سلب ہو کر حضرت علی علیہ السلام کو مل گئی ہے۔
  • بابکیہ: یہ فرقہ قرامطہ کے نام سے زیادہ مشہور ہے۔ اس کی تفصیل اوپر بیان کر دی گئی ہے۔
  • برقعیہ: اسماعیلی فرقہ میں محمد بن علی برقعی کے ماننے والوں کو برقعیہ کہا جاتا ہے۔ محمد بن علی برقعی نے255 ہجری میں اہواز میں قیام کیا اور اپنے آپ کو علویوں سے منسوب کیا جب کہ وہ خود علوی نہیں تھا۔ بعد میں یہ خوزستان، بصرہ اور اہواز پر والی ہوگیا۔ عباسی خلیفہ معتضد نے ایک لشکر بھیجا اور اس کو سکشت دی۔ آخر کار ۲۶۰ ہجری میں اس کو اسیر کرکے بغداد لے گئے۔ معتضد نے اس کو قتل کرکے سولی پر لٹکا دیا۔ (غلام حلیم صاحب دہلوی، تحفة اثنی عشریہ، ص 9، چاپ سنگی 1896)
زیدیہ فرقے​

اس فرقے کے امام، امام زید بن زین العابدین ہیں۔ زیدیہ، معروف شیعہ فرقہ ہے جن کا عقیدہ ہے کہ "حضرت علی، امام حسن اور امام حسین اور "زید بن علی" کے بعد امامت کا عہدہ ہر اس فاطمی کے لئے ہے جو لوگوں کو اپنی طرف بلائے اور ظاہری طور پر عادل، عالم اور شجاع ہو اور لوگ اس کے ساتھ جہاد کے لئے تلوار اٹھانے کی شرط پر بیعت کریں"۔ (مفید، اوائل المقالات، ص‏39 )
یہ فرقہ دوسری صدی ہجری کے ابتدائی برسوں (آٹھویں صدی عیسوی) میں تشیع کے پیکر سے جدا ہوا اور دوسرے شیعیان اہل بیت کے مقابلے میں آ کھڑا ہوا۔ (صابری، تاریخ فرق اسلامی جلد2، ص63)
دوسرے شیعہ فرقوں کی نسبت اہل سنت سے زيادہ قریب ہیں۔ آج یمن کی تقریبا 45 فیصد آبادی کا تعلق زیدیہ فرقے سے تعلق رکھتی ہے۔
اس کے درج ذیل ذیلی فرقے ہیں:
  • جارودیہ: جارودیہ یا سرحوبیہ ابو الجارود زیاد بن ابی زیاد کے پیروکار ہیں۔ زیدیہ فرقوں میں سب سے پہلا فرقہ ہے۔ امامیہ کے ساتھ ان کا نقطۂ اشتراک یہ ہے کہ وہ بھی رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ و آلہ وسلم کے واسطے سے امام علی کے بحیثیت امام تعین پر تصریح کرتے ہیں۔ جارودیہ کے پیروکار ابوبکر اور عمر کو فسق کی نسبت دیتے ہیں اور زیادہ تر صحابہ کی تکفیر کے قائل ہیں۔ جارودیہ کے ساتھ امامیہ کا اہم اختلاف یہ ہے کہ امام علی، امام حسن اور امام حسین کے بعد، امامت کو شورائی سمجھتے ہیں۔ جارودیہ ائمہ کے سلسلہ میں کسی حد تک غلو سے دوچار ہیں۔ وہ ائمہ کی رجعت کے قائل ہیں۔ (صابری، تاریخ فرق اسلامی، ج2، ص97-95۔)
  • جریریہ: انہیں سلیمانیہ بھی کہا جاتا ہے۔ سلیمانیہ، سلیمان بن جریر رقی زیدی کے پیروکار ہیں۔ سلیمان بداء اور تقیہ کے خلاف تھا۔ اس جماعت کا عقیدہ تھا کہ "گو کہ امامت کے لئے امام علی دوسروں سے افضل و برتر ہیں لیکن ابوبکر اور عمر کی خلافت اجتہادی خطا کے نتیجے میں معرض وجود میں آئی ہے اور قابل قبول ہے۔ اس کے باوجود وہ حضرت عثمان کو کافر اور فاسق سمجھتے تھے۔ نیز وہ ام المومنین عائشہ، طلحہ اور زبیر کو کافر سمجھتے ہیں۔
  • بتریہ: انہیں صالحیہ بھی کہا جاتا ہے۔ یہ لوگ حسن بن صالح بن حی ہمدانی اور ابو اسماعیل کثیر بن اسمٰعیل بن نافع نواء الملقب بہ "کثیر النواء و الابتر" کے پیروکار ہیں۔ صالحیہ کا عقیدہ ہے کہ امامت شورائی ہے۔ ان کا عقیدہ ہے کہ فاضل (افضل) کے باوجود مفضول کی امامت جائز ہے بشرطیکہ فاضل اس کی امامت پر راضی ہو۔ اس فرقے نے عثمان کے ایمان یا کفر کے موضوع میں توقف کیا اور کوئی رائے قائم نہ کی۔ وہ امر بالمعروف کے قائل اور تقیہ کے مخالف تھے۔ صالحیہ فقہی احکام میں اہل سنت سے قریب تر ہیں۔ (طوسی، اختیار معرفة الرجال، ص236، نمبر شمار:429 )
  • نعیمیہ: یہ نعیم بن یمان کے پیروکار ہیں۔
  • یعقوبیہ: یعقوب بن علی (یا عدی) کوفی کے پیروکار یعقوبیہ کہلاتے ہیں۔
  • ناصریہ: یہ ناصر اطروش کے پیروکار ہیں۔ ناصر کبیر (230۔304 ھ) تیسری صدی ہجری میں طبرستان کے تیسرے علوی حاکم اور امام زین العابدین کی اولاد میں سے ہے۔ ان کا اصلی نام حسن بن علی اور لقب ناصر اطروش و ناصر للحق تھا۔
  • ہادویہ: یحیی بن حسین بن قاسم الهادی الی الحق کے پیروکار ہیں۔
  • عقبیہ: عبداﷲ بن محمد عقبی کے پیروکار عقبیہ کہلاتے ہیں۔
  • قاسمیہ: قاسم رسی کے پیروکار ہیں۔
امامیہ فرقے​

امامیہ وہ تمام فرقے جو محمد صلی اﷲ علیہ و آلہ وسلم کے بعد علی بن ابی طالب کی امامت بلافصل کے قائل ہیں اور امام علی کے بعد ان کی اولاد کی امامت کو مانتے ہیں۔ بارہ ائمہ معصومین علیہم السلام کے ماننے والے کم از کم پندرہ 17 مشہور فرقے امامیہ کہلاتے ہیں۔
  • کاملیہ: ابو کامل کے پیروکار جو علی بن ابی طالب کی بیعت نہ کرنے والوں کو کافر گردانتے ہیں ۔
  • محمدیہ: اس فرقہ کے پیروکار حسن بن علی کی اولاد میں سے کسی محمد نامی شخص کے ظہور کے انتظار میں ہیں۔
  • باقریہ: امامت کو علی بن ابی طالب سے محمد باقر تک منحصر سمجھتے ہیں اور محمد باقر کو آخری امام اور مہدی موعود سمجھتے ہیں۔
  • ناؤوسیہ: بصرہ کے رہائشی ناؤوس نامی شخص کے پیروکار جو امامت کو جعفر صادق تک مانتا تھا اور اس کا عقیدہ ہے کہ ابھی جعفر صادق زندہ ہیں اور کبھی ظہور فرمائیں گے اور اس کی رائے ہے کہ علی بن ابی طالب امت اسلام کی سب سے اعلی ترین شخصیت ہیں اور جو کوئی بھی علی بن ابی طالب کو دوسروں سے افضل نہ جانے کافر ہے۔
  • شمیطیہ: خوارج کے ثعالبہ فرقوں میں سے ایک ہے اور یہ شیبان بن سلمہ حروری سدوسی خارجی کے پیروکار ہیں جو خوارج کا سرکردہ شخص تھا اور ابومسلم کے ساتھ خروج کیا۔ پہلے اس کے دشمنوں کے مقابلہ میں اس کا ساتھ دیا لیکن پھر اس سے اپنا عہد توڑ دیا۔
  • عما ریہ: فطحیہ کے فرقوں میں سے بھی ایک ہے۔ عمار بن موسی ساباطی کے پیروکار ہیں اور یہ شیعہ فرقوں میں سے شمار ہوتا ہے کیونکہ یہ امامت کو امام جعفر صادق تک مانتے ہیں اور ان کے بقول ان کے بعد ان کے اہم ترین بیٹے عبداﷲ افطح کو امام مانتے ہیں۔
  • اسماعیلیہ: امام جعفر صادق کے بعد ان کے بیٹے اسماعیل یا پوتے محمد بن اسماعیل کی امامت پر عقیدہ رکھنے والے تفرقے کا عمومی نام ہے۔ اور مختلف علاقوں میں مختلف ناموں (باطنیہ، تعلیمیہ، سبعیہ، حشیشیہ، ملاحدہ اورقرامطہ وغیرہ) سے پکارے جاتے ہیں۔ ان کے بقول تاریخ میں مذکور ہے، چھٹے امام جعفر صادق نے اپنے بڑے بیٹے اسماعیل بن جعفر کو اپنا جانشین مقرر کیا تھا۔ ان کو اسماعیلی بھی کہتے ہیں۔
  • موسویہ: یا موسائیہ جو امام موسی بن جعفر تک کی امامت کو مانتے ہیں اور ان کو آخری امام سمجھتے ہیں اور ان کی رجعت (دوبارہ زندہ ہونے) کے منتظر ہیں۔
  • مبارکیہ: مبارکہ امامت کو محمد بن اسماعیل کی اولاد میں مانتے ہیں اور وہی دعوی کرتے ہیں جو باطنیہ محمد بن اسماعیل کے بارے میں کرتے ہیں۔
  • واقفیہ: حضرت امام موسی بن جعفر کو آخری امام سمجھتے ہوئے ان کی امامت پر رک جانے والے واقفیہ کہلاتے ہیں۔
  • قطعیہ: ایسا فرقہ جو امام موسی بن جعفر کی وفات پر قطع و یقین رکھتے ہیں۔ واقفیہ کے برخلاف قطعیہ امام علی بن موسی رضا کی امامت اور ان کے بعد ان کے بعد والے اماموں کو مانتے ہیں اسی بنا پر قطعیہ وہی شیعہ اثنا عشریہ ہیں۔ اس زمانے کے اہل تشیع کو قطعیہ کہا جاتا تھا۔
  • ہشامیہ: یا جوالیقہ ہشام بن سالم جوالیقی علاف کے پیروکار تھے اور شیعہ فرقوں میں شمار ہوتے تھے ہشام بشربن مروان کا آزاد کردہ غلام تھا۔
  • زراریہ: یا تمیمیہ از غلاۃ و مشبہہ معروف راوی زرارہَ بن اعین تمیمی کے پیروکار تھے جو علم، قدرت، سمع، حیات اور بصر جیسی صفات ثبوتیہ کو اﷲ تعالٰی کے لیے حادث اور مخلوق جانتے تھے، ہاں باب امامت میں ان کا نظریہ وہی واقفیہ جیسا تھا۔
  • یونسیہ: ابو محمد یونس بن عبدالرحمن مولی علی بن یقطین بن موسی مولی بنی اسد کے پیروکار تھے۔ اور قطعیہ میں سے ہی شمار ہوتے تھے۔ یونس بن عبدالرحمن اصحاب جعفر صادق و موسی کاظم میں سے تھا اور تشبیہ خدا و عرش الہی کے بارے افراط کرتا تھا۔
  • شیطانیہ: یہ ابوجعفر محمد بن نعمان احول معروف بہ مؤمن الطاق کے مخالفین تھے جو ان کو شیطان الطاق کا لقب دیتے تھے شیطانیہ گمان کرتے ہیں کہ پروردگار عالم اپنی ذات میں جاہل نہیں ہے لیکن اشیاء کا عالم ہے و اشیاء کی تقدیر و ارادہ فرماتا ہے اور ان کی تقدیر وارادہ کرنے سے پہلے ان کا علم نہیں رکھتا تھا۔
  • صوفیہ امامیہ نوربخشیہ: یہ فرقہ قرن ہشتم کے صوفی و فقیہ بزرگ سید محمد نوربخش سے منسوب فرقہ ہے۔ جن کا دعویِ ہے کہ تصوف کے تمام طریقوں میں صرف وہ طریقہ درست ہے جس پر اول علی علیہ السلام اور آخر مہدی علیہ السلام نے عمل کیا ہو۔ یہ فرقہ تصوف کے ایک سلسلہ سلسلہ الذہب سے منسلک ہے جو حضرت معروف کرخی سے حضرت امام علی رضا علیہ السلام سے جا ملتا ہے ۔ چہاردہ ائمہ کو معصوم اور امام حقیقی اور سلسلہ الذہب کے بزرگان دین کو ان کا نائب گردانتا ہے۔
اہل سنت والجما‏عت کے فرقے:
ان کے 7 فرقے ہیں:
  • داؤدی : یہ ایک ہی فرقہ تھا۔
  • حنفیہ : اس کے 5 فرقے ہیں: معتزلہ، بخاری، کرامی، مرجئی، جبری۔ان میں معتزلہ کے ذیلی 20 فرقے ہیں: واصلیہ، عمرویہ، ہذیلیہ، نظامیہ، اسواریہ، اسکافیہ، جعفريہ، بشریہ، مزواریہ، ہشامیہ، صالحیہ، حابطیہ، حدبیبہ، معمریہ، شامیہ، خیاطیہ، کعبیہ، جبائیہ، جاحظیہ۔ مرجئی فرقے کے11 ذیلی فرقے ہیں: جہمیہ، صالحیہ، شمریہ، یونسیہ، یونانیہ، نجاریہ، غیلانیہ، معاذیہ، شبیبیہ، مریسیہ، کرامیہ۔
  • مالکی : اس كے بھی 5 فرقے ہیں: خارجی، معتزلہ، مشبہہ، سالمی، اشعری۔ ان میں خارجیوں کے24 فرقے ہیں: محکمہ، بہیسیہ، ازارقہ، نجدات، اباضیہ، یزیدیہ، شمراخیہ، خلفیہ، حارثیہ، رابعیہ، صلیتہ، ثعالبہ، معبدیہ، کوزیہ، شیبانیہ، کنزیہ، مکرمیہ، اخنسیہ، حمزیہ، شیعیبیہ، حازمیہ، طرافیہ، معلومیہ، مجہولیہ۔
  • شافعی : اس كے 6 فرقے ہیں: مشبہہ، سلفی، خارجی، معتزلی، اشعری، یزیدی۔
  • حنبلی : یہ 1 ہی فرقہ ہے۔
  • صوفی : ان كے10 فرقے ہیں: اتحادی، سلوکیہ، نوریہ، نظریہ، شمراخیہ، سماعیہ، باطنیہ، شارکیہ، وحدتیہ، واصلییہ۔
  • اشا‏عرہ: ان کے14 فرقے ہیں: جہمیہ، صفاتیہ، وہابیہ، مجسمہ، حشویہ، کرامیہ، مرجئیہ، عبیدیہ، غسانیہ، ثوبانیہ، تومیہ، صالحیہ، نجاریہ، وعیدیہ۔
یہ سب اہلسنت کے فرقے ہیں۔

داؤدی فرقہ​

یہ فرقہ اب ختم ہو چکا ہے۔ اس کے متعلق کم و بیش ہی کسی کو معلوم ہو گا۔

حنفیہ فرقہ​

حنفی اہل سنت کے چار فقہی مذاہب میں سے ایک ہے۔ یہ ابو حنیفہ النعمان بن ثابت (م 150ھ) کے نام پر ہے۔ جن کا شمار تابعین یا تبع تابعین میں ہوتا ہے۔ ان کے شرعی نظریات ان کے دو شاگردوں ابو یوسف اور محمد الشیبانی نے محفوظ کیے تھے۔ اہل سنت میں حنفی فقہ کے پیروکار سب سے زیادہ تعداد میں ہیں۔ اس وقت بھی پاکستان، بھارت، افغانستان، چینی ترکستان، وسطی ایشیا اور ترکی وغیرہ میں مسلمانوں کی غالب اکثریت حنفی فقہ پر کاربند ہے۔
اس کے درج ذیل ذیلی فرقے ہیں:
  • معتزلہ: معتزلہ ایک عقلیت پسند فرقہ ہے جس کا بانی ایک ایرانی نژاد واصل بن عطا الغزال شاگرد خواجہ حسن بصری تھا۔ اس کے نزدیک قرآن مخلوق ہے۔ توحید عقلاً معلوم ہو سکتی ہے۔ گناہ کبیرہ کا مرتکب کافر ہے وغیرہ وغیرہ۔ مامون الرشید کے عہد میں یہ سرکاری مذہب بن گیا تھا۔ امت مسلمہ میں پانچ بڑے فرقے ہوئے ہیں ان میں سے ایک معتزلہ بھی ہے۔ معتزلہ کے مذہب کی بنیاد عقل پر ہے کہ ان لوگوں نے عقل کو نقل پر ترجیح دی ہے۔ عقل کے خلاف قطعیات میں تاویلات کرتے ہیں اور ظنیات کا انکار کردیتے ہیں۔ اﷲ تعالیٰ کے افعال کو بندوں کے افعال پر قیاس کرتے ہیں۔ بندوں کے افعال کے اچھے اور برے ہونے کی بنیاد پر اﷲ تعالیٰ کے افعال پر اچھے اور برے کا حکم لگاتے ہیں۔ خلق اور کسب میں کوئی فرق نہیں کر پاتے۔
اس کے مزید 20 فرقے ہیں:
  • واصلیہ: اصحاب واصل بن عطاء کو واصلیہ کہا جاتا ہے۔ یہ فرقہ اپنے آپ کو واصل بالله سمجھتا ہے اور اس کا نظریہ ہے کہ احکام شرع تکمیل نفس و تہذیب اخلاق کا ذریعہ ہیں اور جب نفس حق سے متصل ہو جاتا ہے تو پھر اسے تکمیل و تہذیب کی احتیاج نہیں رہتی۔ لہذا واصلین کے لیے عبادت و اعمال بےکار ہو جاتے ہے۔ لہذا وہ جو چاہیں کریں ان پر حرف گیری نہیں کی جا سکتی۔
  • ہذیلیہ: فرقہ ہذیلیہ ابوہزیل کے شاگرد کہتے ہیں کہ خدا سنتا و دیکھتا ہے اوراس کا کلام کچھ محدث اورکچھ غیر مخلوق ہے۔ اس میں قدرت غیر متناہی نہیں۔ جب لوگ بہشت میں جائینگے تو ان میں طاقت چلنے پھرنے کی نہ ہوگی اور خدا میں بھی طاقت حرکت دینے کی نہ ہوگی۔
  • نظامیہ: علامہ نظام کے مرید ہیں کہتے ہیں کہ انسان نام صرف روح کا ہے۔ اسی سبب سے حضرت محمد صلی اﷲ علیہ و آلہ وسلم کو کسی نے نہیں دیکھا صرف جسم کودیکھا ہے۔ جو کوئی عمداً نماز ترک کرے اس پر اعادہ واجب نہیں جانتے اوراجماع امت کے قائل نہیں ہیں۔ ان کا پیر کہتا تھا کہ کفرو ایمان عبادت اورگناہ حضرت محمد صلی اﷲ علیہ و آلہ وسلم اور شیطان کے کام برابر ہیں۔ عمر وعلی اور حجاج ظالم کی خصلت برابر ہے۔ اور کہ قرآن اپنی عبارت میں معجزہ نہیں ہے اور بچوں کو اﷲ تعالی دوزخ میں ڈالنے کی طاقت نہیں رکھتا اور یہ کہ سانپ، بچھو، چمگادڑ اور سور بھی بہشت میں جائینگے۔
  • اسواریہ: ان کا کہنا ہےکہ اﷲ تعالیٰ کو جس چیز کے معصوم ہونے کاعلم ہے یا جس کی معصومیت کی اس نے خبر دی ہے اس پر وہ (اﷲ تعالیٰ) قدرت نہیں رکھتا۔
  • اسکافیہ: ابوجعفر اسکاف کے پیروکار ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اﷲ تعالیٰ مجنونوں یا بچوں پر توظلم کرسکتا ہے مگرعقلمندوں پرظلم کرنے کی طاقت نہیں رکھتا۔ ابو جعفر محمد ابن عبد اﷲ السکفی (متوفی 240 ہجری / 854 عیسوی) بغداد کے معتزلی مکتب فکر کا ایک عالم دین تھا جو تینوں خلفاء پر امام علی کی برتری پر یقین رکھتا تھا ۔
  • جعفريہ: اس کی تفصیل بیان کی جا چکی ہے۔
  • بشریہ: اس کی تفصیل بیان کی جا چکی ہے۔
  • ہشامیہ: یہ سب کہتے ہیں کہ خدا جسم ہے اس کی صورت انسان کی ہے اورحرکت کرتاہے گوشت وخون بھی رکھتا ہے۔
  • صالحیہ: یہ کہتے ہیں کہ جاننا ایمان ہے نہ جاننا کفر ہے اور خدا کی ذات میں تثلیث کو ماننا کفر نہیں ہے اور عبادت صرف ایمان سے ہے۔
  • حابطیہ: ایک فرقے کا نام ہے۔اس فرقے کے بانی احمد بن حائط ہے۔ اس فرقے کا عقیدہ ہے کہ خدا دو ہیں۔ ایک قدیم خدا جس نے انسان کو پیدا کیا اور دوسرا بعد میں پیدا ہوا تھا۔ وہ مسیح ہے۔ قیامت کے دن دوسرا خدا ہی فیصلہ کرے گا۔
  • معمریہ: فرقہ معمر معمر کے مرید کہتے ہیں موت وزندگی رنگ وبدبو ومزہ خدا نے نہیں جسم نے پیدا کی ہے اور قرآن بھی جسم نے بنایا ہے نہ خدا نے اور خدا ہمیشہ سے نہیں ہے تھوڑے عرصہ سے ہوگیا ہے۔
  • خیاطیہ: ابوالحسین عبدالرحیم خیاط، رئیس معتزلہ بغداد جعفر بن حرب اور جعفر بن مبشر کے شاگرد اور ابوالقاسم بلخی، صاحب کتاب الانتصار کے استاد ہیں۔ فرقہ خیاطیہ انہی سے منسوب ہے ۔
  • کعبیہ: فرقہ کعبیہ ہے ان کا پیرابوقاسم بلخی کہتا تھا کہ قرآن محدث ہے نہ مخلوق اور خدا دیکھتا وسنتا نہیں ہے۔
  • جبائیہ: شیخ جبائی کے مرید کہتے ہیں خدا اپنے بندوں کا مطیع ہے۔
  • جاحظیہ:
  • عمرویہ:
  • شامیہ:
  • حدبیبہ:
  • مزواریہ:
  • بخاری: حنفی فرقہ کا دوسرا فرقہ بحاری فرقہ ہے۔ یہ اﷲ تعالی کی تمام صفات کاملہ کا انکار کرتے ہیں۔
  • کرامی: حنفی فرقہ کا تیسرا فرقہ کرامی فرقہ ہے۔محمد بن کرّام کے پیرو ہیں۔ ان کا عقیدہ ہے کہ ایمان صرف قول باللسان (زبانی اقرار) کا نام ہے۔ اور اس میں کمی بیشی نہیں ہوتی ہے۔ یہ کہ انبیا علیہم الصلاۃ والسلام تمام چھوٹے اور بڑے گناہوں میں جان بوجھ کر اﷲ کی نافرمانی کر سکتے ہیں۔
  • مرجئی:یہ حنفی فرقہ کا چوتھا فرقہ ہے۔مرجیہ وہ لوگ تھے جو پہلے فتنے (شہادتِ عثمان سے صلح حسن و معاویہ) اور دوسرے فتنے (شہادتِ حسین سے شہادتِ عبداللٰہ بن زبیر تک) کے خون خرابے سے اس قدر بددل ہوئے کہ تقدیر کے عقیدے میں انتہاء پسندی کا شکار ہوگئے اور بنوامیہ کے ظلم کو خدا کی رضا اور اپنی تقدیر قرار دے کر برداشت کرنے اور خارجیہ یا امامیہ یا راسخ العقیدہ اہلسنت کی طرح سیاسی و سماجی حالات کی ابتری پر بے چین ہوکر اقدامات اٹھانے سے منع کرنے لگے۔ مرجئہ ایک ایسا فرقہ ہے جو یہ عقیدہ رکھتا ہے کہ ایمان کا تعلق محض قول اور زبان سے ہے عمل کا اس میں دخل نہیں مرجئہ کہتے ہیں کہ ایمان کے بعد کوئی گناہ مضر نہیں اور کسی مومن کو آگ کا عذاب نہیں ہوگا۔
ان کے درج ذیل مزید ذیلی فرقے ہیں:
1)جہمیہ: اس فرقے کا بانی جہم بن صفوان تھا ان کا عقیدہ تھا کہ انسان اپنے افعال میں مجبور محض ہے نہ اس میں قدرت پائی جاتی ہے نہ ارادہ اور نہ اختیار ۔(جمادات کی طرح کوئی قدرت نہیں رکھتے)ہر چیز اﷲ کی طرف سے ہے اور اﷲ نے انسان کو جبرا گناہو ں پر لگا رکھا ہے۔ ایمان کے بارے میں اس کا عقیدہ تھا کہ ایمان صرف معرفت کا نام ہے جو یہودی نبی ﷺ کے اوصاف سے با خبر ہیں وہ مومن ہیں یہ فرقہ اﷲ تعالیٰ کی صفات کا منکر تھا۔ یہ کہتا تھا کہ اﷲ تعالیٰ کو ان اوصاف سے متصف نہیں کیا جا سکتا جن کا اطلاق مخلوق پر ہوتا ہے۔ ان کے نزدیک اﷲ تعالیٰ کی تمام صفات کا انکار کرنا توحید ہے۔ جنت و دوزخ میں لوگوں کو داخل کر کے فنا کر دیا جائےگا اس کے بعد فقط اﷲ کی ذات باقی رہے گی۔
2) صالحیہ: یہ حسن بن صالح بن حی الفقیہ کی طرف منسوب ہیں۔ یہ شیعہ فرقوں میں بھی شامل ہے۔ ان میں کوئی اہلِ سنت کے قول پر ہے اور کوئی قدریہ کے قول پر ہے۔ ان کا عقیدہ ہے کہ جاننا ایمان ہے نہ جاننا کفر ہے اور خدا کی ذات میں تثلیث کو ماننا کفر نہیں ہے۔
3) شمریہ: اس کے بانی کا نام حبیب بن عون الشمری ہے۔
4) یونسیہ: یہ یونس البری کے پیروکار ہیں۔
5) یونانیہ: یونان ایک شخص کے مرید ہیں۔
6) نجاریہ: حسن بن محمد نجار کے مرید ہیں۔
7) غیلانیہ: غیلان کی طرف منسوب ہیں۔
8) معاذیہ: معاذ موچی کے مرید ہیں۔
9) شبیبیہ: جو شعیب کے مرید ہیں یہ شخص کہتا تھا کہ شیطان بھی ایماندار تھا مگر تکبر کے سبب سے کافرہوا۔
10) مریسیہ: بشر المرسی کے مرید ہیں کہتے ہیں کہ سورج کو سجدہ کرنا کفر نہیں ہے مگر کفر کی نشانی ہے۔
11) کرامیہ: اس کی تفصیل گزر چکی ہے۔
  • جبری: حنفی فرقہ کا پانچواں فرقہ جبری فرقہ ہے۔یہ فرقہ جو انسان کو مجبور محض مانتا ہے۔ اور کہتا ہے۔ کہ جو کچھ ہوتا ہے وہ تقدیر الہٰی کے تحت ہوتا ہے۔ انسان خود کچھ بھی نہیں کر سکتا۔ اس فرقے کی بنیاد جہم بن صفوان نے رکھی۔ بخاریہ، قلابیہ اور بکریہ بھی جبریہ میں شمار ہوتے ہیں۔ ان کے مقابلے میں قدریہ یعنی معتزلہ انسان کو مختار مطلق مانتے ہیں۔ وہ جو چاہے کرے اسے پورا اختیار ہے۔ اشعری کہتے ہیں کہ انسان کچھ مختار ہے اور کچھ مجبور۔ معتزلہ اشاعرہ کو بھی جبریہ کہتے ہیں۔
مالکی فرقہ​

مالکی اہل سنت میں فقہ کے چار مذاہب میں سے ایک ہے۔ آٹھویں صدی عیسوی میں مالک بن انس نے اس کی بنیاد رکھی۔ قرآن اور احادیث مالکی مذہب کے بنیادی مآخذ ہیں۔ دوسرے اسلامی فقہوں کی طرح مالکی مذہب بھی مدینہ کے لوگوں کی رائے کو شریعت کا مستند ذریعہ خیال کرتا ہے۔ مالکی عقیدے پر مبنی شریعت پر عمل زیادہ تر شمالی امریکا، مغربی افریقا، چاڈ، سوڈان، کویت، بحرین، امارت دبئی (یو اے ای) اور سعودی عرب کے شمال مشرقی حصوں میں کیا جاتا ہے۔
اس کے 5 فرقے ہیں:
  • خارجی:
پہلا مالکی فرقہ اور خوارج اسلام میں پہلا مذہبی فرقہ جس نے شعائر سے ہٹ کر اپنا الگ گروہ بنایا۔ خوارج خارج کی جمع ہےجوخروج سےمشتق ہے، کیونکہ ان کا یہ نام ان کےخروج کی وجہ سےپڑاہے۔ چاہےدین سےنکل جانے کی وجہ سے یا علی رضی اﷲ عنہ کے خلاف خروج کی وجہ سے خواہ مسلمانوں کے خلاف خروج کی وجہ سے۔
خارجیوں کے اعتقاد کے مطابق حضرت علی المرتضی خلیفہ برحق تھے۔ ان کی بیعت ہر مسلمان پر لازم تھی۔ جن لوگوں نے اس سے انکار کیا وہ اﷲ اور رسول اﷲ کے دشمن تھے۔ اس لیے معاویہ اور ان کے حامی کشتنی اور گردن زدنی ہیں۔ ان کے ساتھ کسی قسم کی صلح کرنا ازروئے قرآن کفر ہے۔ حضرت علی نے چونکہ ان کے ساتھ مصالحت کرنے اور حکم قرآنی میں ثالث بنانے کا جرم کیا ہے۔ اس لیے ان کی خلافت بھی ناجائز ہوگئ۔ لہذا حضرت علی اور معاویہ دونوں کے خلاف جہاد لازم ہے۔
ان کے 20 فرقے ہیں:
  • محکمہ: فرقہ محکمیہ کہتے ہیں کہ جو کوئی کسی مخلوق سے فیصلہ کا خواہش مند وہ یعنی کسی شخص کو ثالث یا حکم بنائے تو وہ کافر ہے۔ اسی عقیدے کی بنیاد پر انہوں نے حضرت علی المرتضی کو کافر قرار دیا ہے۔ معاویہ بھی ان کے نزدیک کافر ہیں۔
  • بہیسیہ: ابن بہس جابر خارجی کے مرید ہیں۔ کہتے ہیں کہ جب تک سب حلال وحرام چیزوں سے آدمی واقف نہ ہو مسلمان نہیں ہوسکتا۔
  • ازارقہ: اس فرقہ کا بانی ابو راشد نافی بن ازراق خارجی ہے۔ اس کا زعم ہے کہ صرف یہ ہی لوگ مومن ہیں۔ ان کے نزدیک کبار اصحاب رسول صلی اﷲ علیہ و آلہ وسلم کی ایک بڑی تعداد اور تابعین کافر ہیں۔
  • نجدات: جو نجد بن عامر کے شاگرد ہیں۔ وہ دین کی شاخوں سے لاعلمی کا عذر کرتے ہیں۔ ان کے نزدیک صرف ایک ہی ایسا گناہ جن پر انسان اصرار کرتا ہے وہ کفر اور شرک ہے۔
  • اباضیہ: اس کا بانی عبد اﷲ بن اباض تھا۔ اس کا قول ہے کہ جو اس فرقہ کو مانے مومن اور جن نہ مانے وہ منافق ہے۔
  • زیدیہ: اس کی تفصیل بیان کی جا چکی ہے۔
  • شمراخیہ: اس کی تفصیل بیان کی جا چکی ہے۔ اس فرقہ کا ایک قول ہے کہ اجنبی عورتوں کو چھونا جائز ہے، اس لیے کہ عورتیں ریاحین بنائی گئی ہیں اور ریاحین کا مطلب ہے سونگھنے کی چیز۔
  • خلفیہ: اس کا بانی خلف خارجی ہے۔ اس کا قول ہے کہ جس کسی نے جہاد ترک کیا وہ کافر ہے خواہ مرد ہو یا عورت۔
  • حارثیہ: اس کی تفصیل بیان کی جا چکی ہے۔
  • صلیتہ: فرقہ صلیہ عثمان بن صلیہ کے مرید ہیں۔
  • ثعالبہ: اس فرقے کا بانی ثعلبہ بن مشکان بن مشکان ہے۔ اس فرقے کا عقیدہ ہے کہ اﷲ نے کچھ تقدیر مقدر وغیرہ نہیں بنایا۔
  • معبدیہ: یہ ثعلبہ بن معبد نامی شخص کی امامت کے قائل ہیں۔ (الفرق بین الفرق :ص 101 -103 والملل والنحل : 1/152 - 156)
  • کوزیہ: فرقہ کوزیہ کے عقیدے کے مطابق کسی دوسرے کو چھونا جائز نہیں ہے۔ کیونکہ و نجس ہو سکتا ہے۔ جب تک وہ ان کے سامنے غسل نہ کرے اور توبہ نہ کرے اس شخص کے ساتھ کھانا کھانا بھی جائز نہیں ہے۔
  • شیبانیہ: شیبان بن سلمہ کے اصحاب، جس نے ابومسلم خراسانی کے عہد میں ظہور کیا اوراس کی فوج کے ہاتھوں سنہ 130 ھ میں قتل کیا گیا۔
  • کنزیہ: کنزیہ مطلب خزانہ۔ فرقہ کنزیہ کا قول ہے کہ کسی کو کچھ مال دینا حلال نہیں ہے کیونکہ شاید وہ شخص اس مال کے پانے کا مستحق نہ ہو۔ اسی صورت میں مال غیر مستحق کو دینے کی وجہ سے وہ کافر ہو سکتا ہے(صاحب مال کافر ہو سکتا ہے)۔ اس مال کو خزانے کی صورت میں زمین میں دبا دینا چاہیے۔ جب کوئی واقعی مستحق شخص ملے تو اسے یہ مال دینا چاہیے۔مطلب کے زکوۃ کی ادائیگی کا انکاری ہے۔
  • مکرمیہ: مکرم بن عبداﷲ العجلی کے اصحاب مکرمیہ کہلاتے ہیں۔
  • اخنسیہ: فرقہ اخنسیہ کے قول کے مطابق مرنے کے بعد میت کو کوئی بھلائی یا برائی لاحق نہیں ہوتی۔ یعنی یہ لوگ قبر میں عذاب اور ثواب کے منکر ہیں۔
  • حمزیہ: حمزہ بن ادرک کی طرف منسوب ہے ۔اس کا ظہور ہارون رشید کے عہد میں ہوا۔ یہ عجاردہ خازمیہ میں سے تھا۔ پھرتقدیرو استطاعت کے باب میں ان کی مخالفت کرکے قدریہ کی موافقت کرلی۔ جس کی وجہ سے خازمیہ نے اس کی تکفیرکردی پھراس نے یہ اعتقاد اختیار کر لیا کہ مشرکین کے بچے جہنم میں جائیں گے۔ سجستان ، خراسان ، مکران اورکرمان وغیرہ میں اس کا زوررہا۔ (مقالات الاسلامیین : 1/165 ، الفرق بین الفرق :ص 99 ، التبصیر: ص 33 والملل والنحل : 1/150)
  • شیعیبیہ: شعیب بن محمد کے اصحاب جومیمون بن خالد کے ساتھیوں میں سے تھا۔ پھرجب میمون سے تقدیر کے باب میں اختلاف ہوا تو اس سے براءت کا اظہارکر دیا۔ اس کا عقیدہ تھا کہ اﷲ تعالی بندوں کے اعمال کا خالق ہے۔ بندے کو اختیار حاصل ہے اوراس سےخیروشرکا سوال کیا جائے گا اوراسی کے مطابق وہ جزاء وسزا کا مستحق ہوگا۔ اورکوئی بھی چیز صرف اﷲ کی مشیئت سے ہی وجود میں آتی ہے۔
  • حازمیہ: فرقہ حازمیہ کا بانی حازم بن علی تھا۔ اس فرق کے ماننے والوں کا قول ہے کہ ہم نہیں جان سکتے کہ ایمان کیا چیز ہے۔ اور مخلوق بےچاری سب معذور ہے کیونکہ ایمان کی پہچان ان کے لیے محال ہے۔
  • طرافیہ: فرقہ طرفیہ کہتے ہیں کہ اگر کوئی رسول کا انکار کرے یا دوزخ وبہشت کا بھی انکا کرے اور ساری بدیاں بھی کیا کرے مگر خدا کوجانتا ہو کہ وہ میرا خالق ہے تو وہ شخص شرک کفر سے پاک ہے۔ اوریوں بھی کہتے ہیں کہ ساتویں سپارہ کی ۸ رکوع میں جو لکھا ہے (کالذی استھوتہ الشیطان فی الارض حیران للہ اصحاب یدعونہ الی الیھود )یعنی جیسے ایک شخص کو بھلا دیا جنوں نے جنگل میں بھٹکتا ہے اس کے رفیق پکارتے ہیں راہ کی طرف۔ان کا یقین ہے کہ یہ آیت حضرت علی کے حق میں ہے حیران سے مراد وہی شخص ہے کیونکہ علی مرتضیٰ کے دوست اس کو ہدایت کی طرف پکارتے تھے کہ اسلام پر قائم رہ مگر وہ نہیں رہتے تھے۔
  • معلومیہ: ان کا دعوی ہے کہ جس شخص کو اﷲ تعالی کی معرفت اس کے اسماء وصفات کے ساتھ نہیں ہے وہ جاہل ہے اورجواﷲ سے جاہل ہے وہ کافرہے۔ اور یہ بھی کہتے ہیں کہ بندوں کے افعال کا خالق اﷲ تعالی نہیں ہے ۔
  • مجہولیہ: یہ کہتے ہیں کہ اگر کوئی خدا کے بعض نام بھی جانتا ہو وہ عالم ہے جاہل نہیں ہے۔
  • رابعیہ:
  • معتزلہ: یہ مالکی فرقے کا دوسرا ذیلی فرقہ ہے۔اس کی تفصیل اوپر بیان کی جا چکی ہے۔
  • مشبہہ: یہ مالکی فرقہ کا تیسرا ذیلی فرقہ ہے۔ یہ وہ فرقہ ہے جو اﷲ تبارک وتعالیٰ کو مخلوق کے ساتھ صفات میں تشبیہ دیتا ہے۔ اس فرقے کا بانی داود جواربی تھا یہ مذہب مذہب نصاریٰ کے برعکس ہے کہ وہ مخلوق یعنی حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو خالق کے ساتھ ملاتے ہیں اور انہیں بھی الٰہ قرار دیتے ہیں اور یہ خالق کو مخلوق کے ساتھ ملاتے ہیں۔ اس مذہب کے باطل اور گمراہ ہونے میں کیا شک ہوسکتا ہے۔
  • سالمی: یہ مالکی فرقہ کا چھوتھا ذیلی فرقہ ہے۔ یہ اﷲ کی سالمیت کے قائل ہیں۔ ان کے مطابق اﷲ ہر مکان میں ہے۔ عرش وغیرہ مکانات کا کچھ فرق نہیں ہے۔
  • اشعری: یہ مالکی فرقہ کا پانچواں ذیلی فرقہ ہے۔ اشعری مسلمانوں کا ایک فرقہ جس کی بنیاد ابوالحسن اشعری نے رکھی۔ چالیس سال کی عمر تک اپنے استاد شیخ علی الجبانی معتزلہ کا پیرو رہا مگر بعد میں مسئلہ خلق القرآن پر جو معتزلہ کا بنیادی عقیدہ تھا، اپنے استاد کے نظریات سے برگشتہ ہو گیا اور ایک نئے مسلک کی بنیاد ڈالی۔ اس فرقے کا اس دور کے دوسرے فرقوں کے برعکس خیال تھا کہ انسان کچھ مجبور ہے اور کچھ مختار۔ اور یہی مسلک عام مسلمانوں کا تھا۔ ان کے علاوہ دوسرے فرقوں میں معتزلہ انسان کو مختار کل مانتے تھے اور جبریہ مجبور محض۔
اس فرقے نے معتزلہ کی شدید مخالفت کی اور کوئی تین صد کتب لکھیں۔ جن میں سے آج بہت کم موجود ہیں۔ بہت سے مسلمان ان کے گرد جمع ہو گئے۔ خصوصا شافعیوں میں اس فرقے نے بڑی مقبولیت حاصل کی۔ امام غزالی اسی کے مقلدین میں سے تھے۔

شافعی فرقہ​

شریعت اسلامی کی اصطلاح میں امام شافعی کی فقہ پر عمل کرنے والے مسلمان شوافع کہلاتے ہیں۔ اس کے بانی کا نام ابن ادریس شافعی ہے۔ فقہ شافعی اور فقہ مالکی کے ماننے والوں کی تعداد فقہ حنفی کے بعد سب سے زیادہ ہے اور آج کل ان کی اکثریت ملائیشیا، انڈونیشیا، حجاز، مصر و شام اور مشرقی افریقا میں ہے۔ فقہ حنفی کی طرح فقہ شافعی بھی کافی وسیع ہے۔
ان کے 6 فرقے ہیں:
  • مشبہہ: اس کی تفصیل بیان کی جا چکی ہے۔
  • سلفی: سَلَفیہ یا سلفی‌، اہل سنت میں پیدا ہونے والے اس مذہبی اور سماجی تفکر کو کہا جاتا ہے جو مسلمانوں کی مشکلات کا حل سَلَف (قدیم مسلمانوں) کی پیروی میں ڈھونڈتے ہیں۔ سلفیہ پیغمبر اسلامؐ سے منسوب ایک حدیث سے استناد کرتے ہوئے اسلامی دور حکومت کی پہلی تین صدیوں کو اسلامی تہذیب کا نمونہ قرار دیتے ہیں اور اس دور میں زندگی گزارنے والوں کو دینی امور میں قابل تقلید قرار دیتے ہیں۔ سلفیوں کے مطابق قرآن و سنت کی تفسیر میں صرف اور صرف صحابہ، تابعین اور ان کی پیروی کرنے والوں کی تفسیر معتبر ہے۔ سلفی عقل کو حجت نہیں سمجھتے۔ اس بنا پر دینی تعلیمات کو سمجھنے میں صرف اور صرف قرآنی آیات اور پیغمبر اکرم صلی اﷲ علیہ و آلہ وسلم کی احادیث پر تکیہ کرتے ہیں۔ توحید پر سلفیوں کے اعتقاد کے مطابق بہت سارے مسلمان مشرک‌ ہیں۔ ابن ‌تیمیہ، ابن‌ قیم جوزیہ، محمد بن عبد الوہاب، محمد شوکانی اور رشید رضا اس فرقے کے اہم ترین نظریہ ‌پردازوں میں شمار ہوتے ہیں۔
  • خارجی: اس کی تفصیل بیان کی جا چکی ہے۔
  • معتزلی: اس کی تفصیل بیان کی جا چکی ہے۔
  • اشعری: اس کی تفصیل بیان کی جا چکی ہے۔
  • یزیدی: اس کی تفصیل بیان کی جا چکی ہے۔
حنبلی فرقہ​

یہ احمد بن حنبل (م۔ 855ء) کی تعلیمات پر مبنی ہے اور اس کی ترویج ان کے شاگردوں نے کی۔ حنبلی مذہب چار مکاتب فکر (حنفی، مالکی اور شافعی) میں (بلحاظ تعداد مقلدین) سب سے چھوٹا ہے۔
امام احمد بن حنبل نے اپنے نقطہ نظر کی وضاحت کے لیے کچھ ایسے اصول اختیار کیے جو بعد میں فقہ حنبلی کی اساس قرار پائے۔ یہ پانچ اصول ہیں جو آپ کے فتاوی میں واضح طور پر ملتے ہیں اور انہی پر ہی آپ کی فقہ کا دار و مدار تھا۔ امام احمد اگر دلائل کو متعارض پاتے تو بالکل فتوی نہ دیتے۔ اور اگر کسی مسئلے میں صحابہ کا اختلاف ہوتا یا کوئی حدیث آپ کے علم میں نہ ہوتی یا کسی صحابی یا تابعی کا قول نہ ملتا تو توقف فرماتے۔ جس مسئلے میں سلف سے کوئی اثر نہ ملتا تو بھی فتوی نہیں دیتے تھے۔ اِمام احمد فرمایا کرتے: ”اس مسئلے پر رائے دینے سے بچو جس میں تمہارے پاس کوئی راہنما نہ ہو۔“ جب مسائل کا جواب دیتے یا لکھتے تو کھلے دل سے فقہا محدثین کے فتاویٰ کو اور امام مالک بن انس اور اصحاب مالک کے فتاویٰ وغیرہ کو بطور دلیل کے پیش کر دیا کرتے۔ ایسے فتویٰ سے روکا کرتے جس میں حدیث سے اعراض نظر آتا ہو یا حدیث کے مطابق وہ فتویٰ نہ ہو اور نہ ہی ایسے فتویٰ کو قابل عمل سمجھتے تھے۔
یہ فرقہ عوام میں بہت زیادہ مقبول نہیں ہے۔ عوام کے درمیان مذہبِ حنبلی کے عدمِ فروغ و اشاعت کا ایک بہت بڑا سبب یہ بھی ہے کہ امام احمد کو اپنی زندگی میں ان کے اور متبعین کو ان کی وفات کے بعد جس قسم کے حوادث و مصائب سے دو چار ہونا پڑا، اس کے ردِ عمل کے طور پر تعصب پیدا ہو گیا اور انہوں نے نہایت سخت قسم کے تعصب کا مظاہرہ شروع کر دیا۔ تعصب کی یہ فضا امام احمد کے آخری دورِ حیات میں شروع ہو گئی تھی۔ لیکن ان کی وفات کے بعد تو یہ بہت بڑھ گئی۔
بغداد اور عراق میں حضراتِ حنابلہ کے اس تعصب نے بڑی نازک صورت پیدا کر دی۔ مناقشہ اور تنازع کا موضوع ”خلقِ قرآن“ کا مسئلہ تھا۔ نوبت یہاں تک پہنچ گئی کہ جو شخص قرآن کے غیر مخلوق ہونے کا قائل ہو، اس کی بات قبول کر لی، اگر کوئی شخص اس مسئلہ پر تردد کا اظہار کرے، گو تحقیق کی غرض سے کیوں نہ ہو، تو اس کی بات رد اور نا قابلِ قبول ہے۔

صوفی​

لفظ صوفی، ایسے گروہ پر اطلاق ہوتا ہے جو ظاہری طور پر گوشہ نشین اور دنیا سے کنارہ کشی کے ذریعہ لوگوں کو راہِ حق سے منحرف اور گمراہ کیا کرتے تھے اور مسلمانوں کو امامت و ولایت کے حقیقی معنی سمجھنے کے لئے مانع بنتے تھے۔ ان میں سے بعض اپنے اس راستہ میں اپنے آپ کو امام علی کی طرف منسوب کرتے تھے اور اپنے آپ کو امام علی کے راستہ پر آگے بڑھنے والا سمجھتے تھے۔ امام علی کے زمانے میں بہت کم ایسے افراد تھے جو زہد و گوشہ نشینی کی زندگی گزار رہے تھے۔ جو لوگ ایسا کرتے تھے، امام علی ان کو ایسا کرنے سے منع کرتے تھے، آئمہ علیہم السلام ان کے ساتھ بیٹھنے سے منع کرتے تھے۔
اس فرقے کی ذیلی فرقوں میں درج ذیل فرقے شامل ہیں:
  • اتحادی: اس فرقہ کا خیال یہ ہے کہ وہ اﷲ سے، اور اﷲ اس سے متحد ہو چکا ہے۔ یہ اﷲ کو آگ سے اور اپنے کو اس لوہے سے تشبیہ دیتے ہیں کہ جو آگ میں پڑا رہنے کی وجہ سے اس کی صورت و خاصیت پیدا کر چکا ہو۔
  • شمراخیہ: عبدالله بن شمراخ کے مرید ہیں۔ اس کی تفصیل گزر چکی ہے۔
  • باطنیہ: اس کی تفصیل گزر چکی ہے۔
  • واصلیی: اصحاب واصل بن عطاء کو واصلیہ کہا جاتا ہے۔یہ فرقیہ اپنے کو واصل بالله سمجھتا ہے اور اس کا نظریہ ہے کہ احکام شرع تکمیل نفس و تہذیب اخلاق کا ذریعہ ہیں اور جب نفس حق سے متصل ہو جاتا ہے تو پھر اسے تکمیل و تہذیب کی احتیاج نہیں رہتی۔(لہذا واصلین کے لیے عبادت و اعمال بیکار ہو جاتی ہے) لہذا وہ جو چاہیں کریں ان پر حرف گیری نہیں کی جا سکتی۔
  • سماعیہ:
  • سلوکیہ:
  • نوریہ:
  • نظریہ:
  • شارکیہ:
  • وحدتیہ:
اشاعرہ​

ابوالحسن علی بن اسماعیل اشعری کے کلامی نظریات کے ماننے والوں کو اشاعرہ کہا جاتا ہے۔ اشعریوں کی پیدائش کی جب تحقیق کرتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ اس میں معتزلہ کا سب سے بڑا دخل رہا ہے۔ چونکہ معتزلہ نے حقیقت کو کشف کرنے میں تغیر و تبدل کو ملاک قرار دیدیا تھا۔ اس کے علاوہ ان کے فقہاء اور محدثین کے درمیان بہت زیادہ اختلاف ہوگئے تھے اور اس طرح ان کے درمیان اشعریوں کا ایک نیا فرقہ بن گیا۔
ان کے 14 فرقے ہیں:
  • جہمیہ: اس کی تفصیل گزر چکی ہے۔
  • صفاتیہ: یہ صفاتِ الٰہیہ قدیمہ کو ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
  • وہابیہ: وہابیت ایک سلفی اسلامی تحریک ہے جو امام محمد بن عبد الوہاب سے منسوب کی جاتی ہے۔ دعوے کے مطابق وہ بدعتوں کو ختم کرنے والے اور اسلام کو اس کی اصل صورت میں جیسے کہ یہ پیغمبر اسلام حضرت محمد صلی اﷲ علیہ و آلہ وسلم کے دور میں تھی لے جانے والے تھے۔ کچھ لوگ اسے شدت پسند سمجھتے ہیں۔ یہ خیال کیا جاتا ہے کہ یہ سنی مسلک سے ہیں۔ وہابی خود کو وہابی کہلانا پسند نہیں کرتے بلکہ خود کو اہل حدیث، سلفی اور موحد پکارتے ہیں۔ یہ دنیا میں اور خاص طور پر سعودی عرب میں کسی اور مذہب حتی کہ اسلام ہی کے دوسرے مسالک کے وجود کے قائل نہیں۔ مذہبی طور پر شروع ہونے والی یہ تحریک بہت جلد سیاسی اور پھر شاہی رنگ اختیار کر گئی۔
  • مجسمہ: یہ لوگ خدا کو مجسم(جسم رکھنے والا) جاننتے ہیں۔
  • حشویہ: حَشوِیّہ‘: یہ لفظ حشو سے ماخوذ ہے۔ اس سے مراد وہ شے (بھراؤ) ہے جس کے ذریعہ بستر وغیرہ کو بھرا جاتا ہے جیسے روئی وغیرہ۔ اس کا اطلاق لوگوں میں سے اس شخص پر ہوتا ہے جس پر بھروسہ نہیں کیا جاتا ہے۔ یہ محض ایک اصطلاح ہے جس کے ذریعے گمراہ فرقے أهلِ سنت وجماعت پر طعنہ زنی کرتے ہیں۔ اس لفظ سے ان کی مراد یہ ہے کہ اہلِ سنت گھٹیا ترین اور گرے پڑے لوگ ہیں اور دین کے بارے میں وہ جو کچھ کہتے ہیں اس کا کوئی اعتبار نہیں۔ کیوں کہ وہ ان کے خیال میں گمراہ ہیں اور اسی وجہ سے وہ لوگوں کو ان سے متنفر کرتے ہیں۔ معتزلہ ان لوگوں کو حشوی کا نام دیتے ہیں جو تقدیر کو ثابت مانتے ہیں۔
  • کرامیہ: اس کی تفصیل گزر چکی ہے۔
  • مرجئیہ: اس کی تفصیل گزر چکی ہے۔
  • عبیدیہ: عبیدی فرقہ کا بانی عبیداﷲ تھا جس کے متعلق پورے یقین کے ساتھ نہیں کہا جاسکتا کہ وہ کہاں کا رہنے والا تھا، بعض مورخوں نے لکھا ہے کہ وہ کوفہ کا رہنے والا تھا اور کچھ نے لکھا ہے کہ وہ حمص کے علاقے کے ایک گاؤں مسلمیہ کا رہنے والا تھا ،اس کے باپ کا نام محمد حبیب تھا اور وہ اپنے قبیلے کا سرکردہ فرد تھا۔
    محمد حبیب کو ایک خواہش پریشان رکھتی تھی۔ وہ عمر کے آخری حصے میں پہنچ چکا تھا ،اس کا بیٹا عبید اﷲ جوان ہو گیا تھا اور وہ دیکھ رہا تھا کہ عبیداﷲ میں ایسے ابلیسی اوصاف پائے جاتے ہیں کہ وہ لوگوں کو اپنا گرویدہ بنانے کے لیے ہر ڈھنگ کھیل سکتا ہے۔ اس کی خواہش یہ تھی کہ تھوڑے سے علاقے میں اس کی اپنی سلطنت قائم ہو جائے۔ محمد حبیب نے اعلان کردیا کہ اس کا بیٹا مہدی آخر الزماں ہے۔ یہ بڑی لمبی داستان ہے کہ عبید اﷲ اور اسکے باپ نے کیسے کیسے ڈھنگ کھیل کر اور کیسی کیسی فریب کاریوں سے اپنے پیروکار بنا لیے اور ان کی تعداد بڑھتی چلی گئی۔
  • عبیداﷲ نے 270 میں مہدویت کا اعلان کیا تھا۔ اور اس نے اپنے فرقے کو فرقہ مہدویہ کا نام دیا تھا۔ اس نے 278 ہجری میں حج کیا اور وہاں اپنے مہدی موعود ہونے کا پروپیگنڈہ ایسے انداز سے کیا کہ بنو کنانہ کے پورے قبیلے نے اسے امام مہدی تسلیم کر لیا۔ محمد حبیب نے اپنے بیٹے کو مہدی تسلیم کرانے کے لئے قبیلوں کے سرداروں کو بڑی خوبصورت لڑکیوں اور سونے چاندی کے انعامات کے ذریعے بھی پھانسا تھا۔ جب اس فرقے کے پیروکاروں کی تعداد زیادہ ہو گئی تو مہدیوں نے خفیہ اور پراسرار قتل کا سلسلہ شروع کردیا۔ قتل اہلسنت کے علماء کو کیا جاتا تھا اور پتہ ہی نہیں چلتا تھا کہ قاتل کون ہے؟ چونکہ اس فرقے کی مخالفت اہلسنت کی طرف سے ہوتی تھی اس لئے وہی قتل ہوتے تھے۔ جہاں کہیں سے بھی مخالفانہ آواز اٹھتی تھی وہاں کے چیدہ چیدہ آدمی ہمیشہ کے لئے لاپتہ ہو جاتے تھے۔
  • تاریخ الخلفاء میں لکھا ہے کہ ایک روز ایک سرکردہ فرد ابن طباءالباعلوی عبیداﷲ سے ملنے گیا، عبیداﷲ دربار لگائے بیٹھا تھا وہاں کچھ امراء بھی تھے اور عام حاضرین کی تعداد خاصی تھی۔
    اے عبیداﷲ !۔۔۔۔علوی نے کہا ۔۔۔میں تجھے مہدی آخر الزماں تسلیم کرلونگا پہلے تو یہ بتا کہ تیرا حسب ونسب کیا ہے، اور کونسا قبیلہ تیری پہچان ہے؟ عبیداﷲ نے اپنی نصف تلوار نیام سے کھینچی اور بولا ۔۔۔یہ ہے میرا نصب۔۔۔۔ پھر وہ ایک تھیلی میں ہاتھ ڈال کر سونے کی بہت سی اشرفیاں نکال کر دربار کے حاضرین کی طرف پھینک کر بولا۔۔۔ اور یہ ہے میرا حسب۔ درباری اشرفیوں پر ٹوٹ پڑے ابن طباءالباعلوی وہاں سے چپ چاپ باہر نکل گیا۔ یہ تھی عبید اﷲ کی کامیابی کی اصل وجہ، اس کے علاوہ اس نے اس قسم کے عقیدے رائج کر دیے کہ ایک آدمی بیک وقت اٹھارہ عورتوں کے ساتھ شادی کرسکتا ہے۔ جبکہ اسلام نے صرف چار بیویوں کی اجازت دی ہے اور وہ بھی مخصوص حالت میں۔ اس کا دوسرا عقیدہ یہ تھا کہ حکومت کا جو سربراہ ہو اور مذہب کا جو امام ہو وہ گناہوں سے پاک ہوتا ہے۔ اس سے اس کے اعمال پر کوئی باز پرس نہیں کی جا سکتی۔ ایک عقیدہ یہ بھی تھا کہ امام کسی عورت سے یہ کہہ دے کہ تم فلاں کی بیوی ہو تو اس پر یہ فرض ہوجاتا تھا کہ وہ اس کی بیوی بن جائے۔ اس قسم کے عقائد سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ عبید اﷲ نے لوگوں کو اپنا گرویدہ بنانے کے لئے ان کے دل پسند عقائد تخلیق کیے تھے۔
  • غسانیہ: جبلہ بن الایہم غسانی اس فرقے کا بانی تھا۔ بنو غسان کا آخری بادشاہ۔ سلطنت غسان عرب اور شام کے درمیان عربوں کی ایک ریاست تھی اور قیصرروم کی باج گزار تھی۔ جنگ یرموک 636ء میں جبلہ ابن لایہم بازنطینی لشکر کے ساتھ مسلمان عربوں کے خلاف لڑا۔ شکست کے بعد جبلہ نے اسلام قبول کر لیا۔ قبول اسلام کے بعد وہ بڑے شاہانہ کروفر کے ساتھ اسلامی دار الخلافہ میں آیا۔ ایک روز کعبے کا طواف کرتے ہوئے جبلہ کی شاہی چغے پر ایک بدو کا پاؤں پڑ گیا۔ جبلہ نے اس کے منہ پر طماچہ مارا۔ جس سے بدو کا ایک دانت ٹوٹ گیا۔ بدو عمر کی عدالت میں حاضر ہو کر انصاف کا طالب ہوا۔ حضرت عمر نے جبلہ سے کہا کہ یا تو تم بدو سے معافی مانگو یا مقررہ سزا بھگتو۔ جبلہ نے کہا کہ ’’لیکن میں بادشاہ ہوں اور وہ ایک معمولی آدمی ۔‘‘ عمر نے فرمایا ’’شاہ ہو یا گدا ہو، تم دونوں مسلمان ہو اور اسلام کی نظر میں سب برابر ہیں۔ جبلہ نے درخواست کی کہ سزا کل تک کے لیے موقوف رکھی جائے۔ بدو کی رضامندی سے یہ درخواست منظور ہوئی، مگر جبلہ نے رات کی تاریکی میں راہ فرار اختیار کی اور قسطنطنیہ پہنچ کر دوبارہ مسیحی ہو گیا۔
  • صالحیہ: اس کی تفصیل گزر چکی ہے۔
  • نجایہ: اس کے بارے میں کہا گیا ہے کہ یہ فرقہ حق پر ہے اور جنت میں جانے کا حق دار صرف ناجیہ فرقہ ہے۔ اہل سنت خود کو اور اہل تشیع خود کو ناجیہ کہتے ہیں۔
  • وعیدیہ یا حروریہ: حروریہ (فرقہ حَرُورِيَّةُ) خوارج کا ایک گروہ جو کوفہ کے قریب ’’حروراء‘‘ نامی ایک مقام پر اکٹھا ہوا تھا۔
حروریہ خوارج کا ایک گروہ ہے جس کے افراد علی بن ابی طالب کے مخالف ہو گئے تھے اور انہوں نے ان کے خلاف مسلح بغاوت کی تھی۔ جب علی المرتضی نے اپنے اور معاویہ بن سفیان کے مابین تحکیم(جنگ صفین کے موقع پر علی المرتضی نے صلح کیلئے دو ثالثوں کے ذریعے فیصلہ کرانا چاہا جسے خوارج کفر و شرک کہتے ہیں) کو قبول کیا تو انہوں نے ان کی تکفیر کی۔ انہیں یہ نام اس لیے دیا گیا کیونکہ صفین سے واپس لوٹنے پر یہ لوگ کوفہ کے قریب واقع ’’حروراء‘‘ نامی جگہ پر جمع ہوئے اور جب علی المرتضی کے مخالف ہوئے تو سب سے پہلے یہیں سے ان کا نعرۂ تحکیم بلند ہوا اور اسی جگہ یہ اکٹھا ہوئے۔ انہیں ”اہلِ نہروان“ بھی کہا جاتا ہے، کیونکہ علی المرتضی نے اس مقام پر ان سے جنگ کی تھی۔ اور اسی طرح انہیں ”المُحَكِّمة“ بھی کہا جاتا ہے کیونکہ ان کا نعرہ جس کے گرد یہ مجتمع ہوئے تھے وہ ”لاَ حُكمَ إلا لله“ تھا۔ اسی طرح انہیں ”النواصب“ کا نام بھی دیا گیا کیونکہ انھوں نے علی اور ان کے ساتھیوں سے دشمنی اور بغض رکھا اور بہت سے سابقین اولین، بدری صحابہ سے براءت کا اظہار کیا۔ انہیں ”وعیدیہ“ بھی کہا جاتا ہے کیونکہ گناہ کبیرہ کے مرتکب کے بارے میں ان کا کہنا تھا کہ وہ ہمیشہ ہمیشہ جہنم میں رہیں گے اور ان کے جان و مال کو وہ اپنے لئے حلال گردانتے ہیں۔ بعدازاں اس اسم کا اطلاق ہر اس شخص پر ہونے لگا جو ان کے فاسد مذہب کی پیروی کرے اور ان کی غلط راہ پر چلے۔ اس گروہ کے نزدیک اعمال ایمان کے اجزاء تقویمی ہیں ‘ صغیرہ گناہ کرنے کے بعد بھی آدمی کافر ہوجاتا ہے۔ یہ لوگ علی المرتضی، عثمان غنی اور امیر معاویہ کو کافر کہتے ہیں اور ان حضرات پر طرح طرح کی تہمتیں لگاتے ہیں۔
  • ثوبانیہ:
  • تومیہ:
غالی فرقے​

غالی سے مراد غلو کرنے والا، مبالغہ آرائی کرنے والا۔ ان کے عقائد باطل ہیں جو انہیں دائرہ اسلام سے خارج کرتے ہیں۔ ذیل میں بیان کیے جانے غالی فرقوں میں سنی اور شیعہ دونوں کے غالی فرقے شامل ہیں۔ ان میں درج ذیل فرقے شامل ہیں۔
  • آل مشعشع: سید محمد ابن فلہ ابن حبیب اﷲ کا سلسلہ نسب شیعوں کے ساتویں امام کی طرف جاتا ہے۔ شیعہ حکمرانوں کا ایک خاندان ہے جس نے خزستان میں 845 ء سے 914 ہجری تک حکومت کی۔
  • اباحیہ: یہ فرقہ جو حلال و حرام کا قائل نہیں۔ اس فرقہ کا خیال ہے کہ انسان میں نہ گناہوں سے بچنے کی قدرت ہے اور نہ مامورات بجا لانے کی طاقت۔ دنیا میں کوئی کسی چیز کا مالک نہیں۔ سب لوگ اموال و ازواج میں شریک ہیں۔
  • اخیہ: یہ باطل فرقہ یونان کے علاقوں میں موجود تھا۔ اسے کاکائیہ فرقہ بھی کہا جاتا ہے۔
  • احمدیہ: احمدیہ جماعت 1889ء میں مرزا غلام احمد (1835ء تا 1908ء) نے لدھیانہ میں قائم کی۔ مرزا غلام احمد نے اعلان کیا کہ اسے الہام کے ذریعہ اپنے پیروکاروں سے بیعت لینے کی اجازت دی گئی ہے۔ اس نے امام مہدی اور مسیح اور حضرت محمد صلی اﷲ علیہ و آلہ وسلم کے تابع نبی ہونے کا بھی دعویٰ کیا۔
  • اسحاقیہ: یہ بھی حضرت علی میں خدا کے حلول کے قائل ہیں۔
  • اسحاقیہ حارثیہ: یہ فرقہ حقیقت میں دو ہیں 1 پیروان حارث شامی 2 پیروان عبداﷲ بن حارث مدائنی۔ عالم اھل سنت شھرستانی نے اس فرقہ کو اسحاقیہ بھی کہا ہے بہرحال یہ دونوں ان سات افراد میں شامل ہیں جن پر امام جعفر صادق نے لعنت فرمائی ہے۔
  • اسماعیلیہ: اس کی تفصیل بیان ہو چکی ہے۔
  • آمریہ: اس کی تفصیل بیان ہو چکی ہے۔
  • اہل حق: اہل حق مغربی ایران کا ایک مذہبی گروہ ہے۔ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ یہ اہل تشیع کا ایک فرقہ ہے۔ لیکن دراصل اس کی بنیاد کچھ تصوف، کچھ شیعیت اور کچھ زرتشتی عقائد پر مبنی ہے۔ یہ لوگ تناسخ کے اور خدا کے انسانی جسم میں حلول کرنے کے قائل ہیں۔ شیعوں کے بارہ اماموں کو مانتے اور نصیریوں کی طرح امامعلی کی پرستش کرتے ہیں۔ ان کے نزدیک پیر کا مرتبہ بہت بلند ہے اور بغیر اس کی امداد کے نجات پانا نا ممکن ہے۔ یہ لوگ انفرادی عبادت کے قائل نہیں۔ سب ایک جگہ جمع ہو کر ذکر کرتے یا کلام پاک کی تلاوت کرتے ہیں۔ حال و قال کی مجلس میں ساز بجائے جاتے ہیں۔ روزہ صرف تین دن رکھتے ہیں۔ ان کے بارہ فرقے ہیں جن میں آتش بیگی زیادہ مشہور ہیں۔
  • بابکیہ: بابکیہ بزمانہ معقم باللّٰہ من ھارون الرشید ۲۲۰ھ خرمیہ خرم کی طرف منسوب ہے۔ ماں بہن سے نکاح کرنے کے قائل ہیں۔
  • بزیغیہ: بزیغ بن یونس کے ساتھیوں کا فرقہ ہے جو حضرت جعفر صادق کے معبود ہونے کے قائل ہیں، یہ بزیغیہ کہلاتا ہے۔
  • بشریہ: یہ فرقہ محمد بن بشیر کے ساتھہ منسوب ہے محمد بن بشیر قبیلہ بنی اسد سے تھا اور کوفہ کا رہنے والا تھا۔ یہ ابتدا میں امام موسی کاظم کے اصحاب میں سے تھا۔ لیکن بعد میں غالی ہو گیا۔ یہ ایک شعبدہ باز شخص تھا اور اپنی شعبدہ بازی سے لوگوں کو بیوقوف بناتا تھا۔ یہ امام رضا کے زمانے تک زندہ رھا۔ اور آخر کار ھارون کے دور حکومت میں قتل کر دیا گیا۔ امام کاظم کی الوھیت کا دعوی کیا کرتا۔ اماموں کو نبی مانتا تھا۔ دو خداؤں کا قائل تھا۔
  • محمد بن بشیر کا عقیدہ تھا کہ ظاھر انسان آدم اور باطن انسان ازلی ہے اسی وجہ سے ھشام بن سالم نے اس کے ساتھہ مناظرہ کیا لیکن پھر بھی یہ اپنے عقیدہ سے باز نہ آیا۔
  • محمد بن بشیر نے اپنی وفات سے پہلے اپنے بیٹے سمیع کو اپنا جانشین مقرر کیا اور کہا سمیع کے بعد جس کو سمیع مقرر کرے گا وہی مفترض الطاعۃ ہو گا یہاں تک کہ موسی بن جعفر ظہور فرمائیں اس وقت تک اپنے واجبات مالی محمد بن بشیر کے جانشین کو دیں۔
  • اس فرقے کے لوگ تناسخ کے قائل تھے ان کے نزدیک امام ایک ہی تھا کہ جو ایک بدن سے دوسرے بدن میں منتقل ہوتا تھا۔
  • بشریہ حلول کے قائل تھے ان کے نزدیک جو بھی جو بھی حضرت محمد مصطفی صلی اﷲ علیہ و آلہ وسلم کے ساتھ نسبت رکھتا ہے محمد مصطفی صلی اﷲ علیہ والہ وسلم کہ جو پروردگار ہیں ان میں حلول کرتے ہیں محمد مصطفی کو نہ کسی نے جنا ہے اور نہ ہی اس کی کوئی اولاد ہے وہ پردوں میں چھپا ہوا ہے(معاذ اﷲ)۔ امام موسی کاظم نے محمد بن بشیر پر لعنت فرمائی ہے اور اسے جھوٹا کہا ھے اور شیعوں کو اس سے دور رہنے کا حکم دیا ہے اور امام نے ھمیشہ محمد بن بشیر کے لئے بد دعا کی ہے کہ خدایا لوگوں کو اس کے شر سے محفوظ فرما اور اسے جھنم کی آگ کا مزہ چکھا۔
  • حرمیہ: حرمیہ یہ بابکیہ کے متعلق ہے بابک ۲۲۳ھ میں مارا گیا۔ حمرہ و حمیرا سرخ لباس پہنتے تھے انکا عقیدہ تھا کہ معرفت انہی امام کے بغیر ناممکن ہے۔
  • بکتاشیہ: بابا اسحاق بابائی کے شاگرد تھے اناطولیا میں ان کا مسکن ہے۔ اکثر لوگوں کا خیال ہے کہ مسلمانوں اور مسیحیوں کے مشترکہ عقائد ہیں۔ ایک گروپ قزلباش بھی ان کے ساتھ منسلک کیا جاتا ہے یہ نماز اور عقائد سے دور رہتے ہیں۔
  • بیانیہ: یہ فرقہ بیان بن سمان تمیمی مھدی کے ساتھہ منسوب ہے۔ بیان بن سمان بھی ان ۷ لوگوں میں شامل ہے جن پر امام جعفر صادق نے لعنت فرمائی ہے۔ یہ کہتا تھا قرآن کی آیت ،وھذا بیان للناس ، میں جو لفظ بیان استعمال ہوا ہے وہ میں ہوں۔ یہ مغیرہ بن سعید عجلی کا یار خاص تھا اور اسی کے ساتھہ واصل جھنم ہوا۔ اس کے تمام عقاید مغیرہ والے تھے۔
  • تعلیمیہ: ان کا اعتقاد ہے کہ ہر زمانے ایک امام کی تعلیم و تدریس کی ضرورت ہے، جو درحقیقت معلم صادق ہے۔
  • تمیمیہ: یہ فرقہ زرارہ بن اعین کے ساتھہ منسوب ہے۔ اس بشاریہ فرقہ بھی کہا جاتا ہے۔
  • جناحیہ: یہ فرقہ عبداﷲ بن معاویہ بن عبداﷲ بن جعفر بن ابی طالب کے ساتھہ منسوب ہے۔ چونکہ پیغمبر صلی اﷲ علیہ و آلہ وسلم نے حضرت جعفر کی شھادت پر ان کو ذوالجناحین کا لقب دیا تھا اس لیئے اس فرقے کو جناحیہ کہتے ہیں۔ عبداﷲ بن معاویہ نے ۱۲۷ ہجری کو کوفہ میں بنی امیہ کے عاملوں کے خلاف قیام کیا اور آخر میں قتل ہو گئے۔
  • حابطیہ یا حائطیہ: حائطیہ، ایک فرقے کا نام ہے۔ اس فرقے کے بانی احمد بن حائط ہے۔ اس فرقے کا عقیدہ ہے کہ خدا دو ہیں۔ ایک قدیم خدا جس نے انسان کو پیدا کیا اور دوسرا بعد میں پیدا ہوا تھا۔ وہ مسیح ہے۔ قیامت کے دن دوسرا خدا ہی فیصلہ کرے گا۔
  • جنابیہ: جنابیہ ابو سعید بن حسن بن بہرام جنابی کے پیروکار ہیں۔
  • حارثیہ: یہ فرقہ حقیقت میں دو ہیں 1 پیروان حارث شامی 2 پیروان عبداﷲ بن حارث مدائنی۔ عالم اھل سنت شھرستانی نے اس فرقہ کو اسحاقیہ بھی کہا ہے بہرحال یہ دونوں ان سات افراد میں شامل ہیں جن پر امام جعفر صادق نے لعنت فرمائی ہے۔
  • صائدیہ: یہ فرقہ صائد نھدی کے ساتھہ منسوب ہے اور صائد نھدی بھی ان سات لوگوں میں سے ہے جن پر امام جعفر صادق نے لعنت فرمائی ہے ان کے عقاید بھی فرقہ مغیریہ و بیانیہ کی طرح تھے۔
  • حربیہ: یہ فرقہ عبداﷲ بن عمرو بن حرب کندی کوفی کے ساتھہ منسوب ہے۔ یہ فرقہ انشعابی کیسانیہ فرقے میں سے شمار ہوتا ہے اس فرقے کے لوگ عبداﷲ بن عمر کے اشتباھات اور اس کے زیادہ جھوٹ بولنے کی وجہ سے اسے چھوڑ کر فرقہ حارثیہ کے ساتھہ مل گئے۔
  • حروفیہ: جس نے فرقہ حروفیہ کی بنیاد ڈالی تھی اسکا پورا نام سید عمادالدین نسیم شیرازی بغدادی الحروفی ہے۔
  • حلاجیہ: اس گروہ کے افراد اعتقاد رکھتے ہیں کہ ائمہ علیہم السلام خدا سے منشعب شدہ نور ہیں اور وہ خدا کے اجزاء میں سے ایک جزو ہیں۔
  • حلمانیہ: حلمانیہ صوفیوں کا ایک سلسلہ ہے۔ اس کے بانی ابو حلمان الفارسی الحلبی کو ابو بکر کلا بازی کی تصنیف "التعرف" میں صوفی شیوخ میں سے تسلیم کیا گیا ہے۔ مگر اشاعرہ نے اسے بعض عقائد کی بنیاد پر اسلام سے خارج قرار دیا ہے۔ ابو حلمان کے عقیدے یہ تھے، خدا جسمانی طور پر خوب صورت اشخاص کے اندر موجود ہے۔ ہر چیز اس شخص کے لیے جائز ہے جو یہ جانتا ہو کہ اس چیز میں ذات باری تعالیٰ کی پرستش کس طرح کی جائے۔
  • حلولیہ: حلولیہ ایک صوفی فرقے ہے۔ یہ سماع اور رقص کرنے کے شوقین ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ یہ خدا کی صفات میں سے ہے جو ہم نے نازل کی ہے۔ جائز اور حلال ہے۔ حلولیہ فرقے کے یہ بھی کہتے ہیں کہ لوگوں کی روح ایک جسم سے دوسرے جسم میں حلول کرتی ہے۔
  • حماریہ: خرمی قبیلہ کا ایک فرقہ جن کا شعار سرخی ہے وہ اپنے جھنڈوں اور پگڑیوں کو سرخ رنگتے ہیں۔
  • کربیہ: یہ فرقہ ابن کرب یا ابوکرب ضریر کے ساتھہ منسوب ہے۔ ان کا عقیدہ ہے کہ محمد بن حنفیہ مھدی ہے اور یہ لقب امام علی نے ان کو دیا تھا وہ فوت نہیں ہوے بلکہ غائب ہیں اور ایک دن ظہور کریں گے۔
  • تفویضیہ: اس بات کا قائل ہے کہ باری تعالیٰ نے دنیا بنانے کے بعد دنیا کے سارے امور پیغمبر محمد صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کے حوالے کردیئے اور دنیا کی ہر چیز کو پیغمبر صلی اﷲ علیہ و آلہ کے لئے مباح کردیا ۔ اس جماعت کا ایک گروہ اس بات کا قائل ہے کہ تمام امور دنیا حضرت علی المرتضیٰ کے حوالے کردیئے اوربعض دونوں کے قائل ہیں۔
  • خمسیہ: یہ پنج تن پاک کو خدا مانتا ہے۔
  • خطابیہ: یہ فرقہ محمد بن مقلاص اسدی کوفی بزاز ،المعروف ابوالخطاب کے ساتھہ منسوب ہے یہ شخص پارچہ فروش تھا امام جعفر صادق کے اصحاب میں سے شمار ہوتا تھا بعد میں منحرف ہو گیا اور جعلی احادیث بناتا اور امام جعفر صادق سے منصوب کرتا تھا ۔
  • خطابیہ مطلقہ: اس بات کا قائل ہے کہ سارے ہی امام خدا کے بیٹے ہیں اورعلی المرتضیٰ رضی ااﷲ عنہ خدا ہیں ۔ نیز حضرت علی المرتضیٰ رضی ااﷲ عنہ کو إلہ اکبر اور امام جعفر صادق کو الٰہ اصغر کہتا ہے۔
  • ذمیہ: یہ حضرت علی میں اﷲ کے حلول کے قائل ہیں۔
  • راوندیہ: یہ تناسخ اور حلول کا قائل تھا۔ ان کا عقیدہ تھا کہ ابو جعفر منصور امام کی رہائش گاہ میں ہے۔ لوگ منصور کو خدا سمجھ کر اس کی زیارت کرتے تھے ۔ ان کا عقیدہ تھا کہ حضرت آدم کی روح عثمان بن نہیک اور حضرت جبرئیل ہیثم بن روح کی رہائش گاہ میں قیام پذیر ہے۔
  • رجعیہ: فرقہ رجعیہ شیعوں کا ایک طبقہ تھا جو اس بات کا قائل تھا کہ حضرت علیؓ کی شہادت واقع نہیں ہوئی۔ بلکہ وہ زندہ آسمانوں پر اُٹھا لے گئے اور بادلوں میں وہی گھومتے پھرتے ہیں۔ حتیٰ کہ بادلوں سے جو کڑک پیدا ہوتی ہے وہ حضرت علیؓ کے کوڑے کی آواز ہوتی ہے اور قیامت کے قریب حضرت علیؓ دنیا میں دوبارہ تشریف لائیں گے اور اپنے مخالفین کو ختم کریں گے۔
  • رزامیہ:یہ تارک فرائض اور حرام کو حلال بتاتے ہیں۔
  • سبائیہ: اس کی تفصیل بیان کی جا چکی ہے۔
  • سبعیہ: سبعیہ سبعہ سے ماخوذ ہے بمعنی (سات اماموں کے پیروکار) اور اس نام کا سبب یہ ہے کہ سات اماموں کا فرقہ، مذہب شیعہ کے اہم مکاتب میں سے ایک تھا۔
  • سفید جامگان: ان کی بنیاد حاکم بن ہاشم مقنّع نے رکھی۔ یہ نام انہیں اس لیے دیا گیا کہ یورپ کے ٹیبوریون (Taborides) کی طرح وہ سفید لباس پہنتے تھے۔ مقنّع یہ تعلیم دیتا تھا کہ خدا نے انسان کی شکل اختیار کرلی ہے کیونکہ اس نے فرشتوں کو آدم علیہ السلام کی پرستش کا حکم دیا تھا۔ چنانچہ اس وقت سے فطرت الہٰی یکے بعد دیگر ے نیبوں میں حلول کرتی رہی تھی اور اس وقت اس کی شخصیت میں مجّسم تھی
  • سرخ جامگان: یہ سفید جامگان کی ہی طرز کی ایک تحریک تھی۔ اس کے بانی نے نبوت کا دعوی نہیں کیا۔ یہ آذربائیجان میں شروع کی گئی۔
  • سلیمانیہ یا شامغانیہ: یمن والوں نے سلمان بن حسن کو اپنا داعی مطلق تسلیم کرتے۔ وہ سلیمانی بوہرہ بھی کہلاتے ہیں۔ ان کے دو فرقے ہیں۔ یمن مین سلیمانیوں کی اکثریت ہے اور پاکستان و بھارت میں داؤدیوں کی۔ ان لوگوں کے مذہبی رہنما۔ ’’ملا جی‘‘ کہلاتے ہیں۔ بوہروں کا لباس عام طور پر عمامہ اور لمبی اچکن ہوتا ہے۔
  • علویہ: علوی آئمہ کے ایک منحرف صحابی محمد بن نمیر (نصیر) کے ماننے والے ہیں۔ اسی شخص نے نصیری فرقے کی بنیاد رکھی تھی۔ ان کا عقیدہ ہے کہ ہر امام کا ایک "باب" ہوتا ہے۔ محمد بن نصیر بھی ان کا ایک باب تھا۔ ان کی ایک اور شاخ ترکی میں ہوتی ہے، ترک علوی اور شامی علویوں میں کافی فرق ہے۔ ترک علوی تصوّف سے بھی کافی متاثر ہیں۔۔ یہ ایک صوفی بزرگ "حاجی بکتاشی" کے ماننے والے ہیں۔ ترک علویوں میں غلو کافی پایا جاتا ہے۔ البتہ شامی علوی ایران کی تبلیغات کے بعد غلو سے پیچھے ہٹ رہے ہیں اور عام شیعوں کی طرح نماز وغیرہ بھی پڑھنے لگے ہیں۔
  • شام کے صدر بشّار الاسد اور ان کے والد حافظ الاسد اسی علوی فرقے سے تعلق رکھتے تھے۔ البتہ ایک مستند روایت کے مطابق حافظ الاسد آیت اﷲ سیّد حسن شیرازی کے تبلیغ کے نتیجے میں شیعہ اثناعشری ہو گیا تھا اور غالبا بشّارالاسد بھی شیعہ اثنا عشری ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے ایران کے ساتھ بہت قریبی تعلقات ہیں
  • علی اﷲیان: برّصغیر میں "علی اللّھی" فرقے کو نصیری کہا جاتا ہے جو علمی لحاظ سے غلط ہے۔ علی اللّھی ایک کافر و مشرک فرقہ ہے جو مولا علی کو خدا مانتا ہے یا خدا کی ذات کو ان میں حلول شدہ مانتا ہے۔
  • بزیعیہ: یہ فرقہ بزیع بن موسی حائک کے ساتھہ منسوب ہے یہ ابوالخطاب کے طرفداران میں سے تھا فرقہ خطابیہ کے قتل عام کے بعد اس نے اپنا ایک فرقہ بنا لیا یہ ان غالیوں میں سے تھا کہ جن پر امام جعفر صادق نے بارھا لعنت فرمائی ہے۔
  • عمیریہ: یہ فرقہ عمیر بن بیان عجلی کے ساتھہ منسوب ہے۔ یہ فرقہ بھی خطابیہ کی شاخ ہے ان کے عقاید وہی بزیعیہ والے عقاید ہیں لیکن یہ غائب کے قائل نہیں تھے اور اپنے مرنے کو تسلیم کرتے تھے۔ انہوں نے کوفہ کے باہر ایک خیمہ لگایا ہوا تھا جس میں یہ امام جعفر صادق کی عبادت کرتے تھے آخر کار حکومت وقت نے ان کو پکڑ کر سولی پہ لٹکا دیا۔
  • غمامیہ: اس فرق کو زبیعہ بھی کہتے ہیں۔
  • قرامطہ: اس کی تفصیل گزر چکی ہے۔
  • باطنیہ: اس کی تفصیل گزر چکی ہے۔
  • تعلیمیہ: یعنی امام ظاہر کے بعد امام باطن آتا ہے اور تعلیمیہ نام ان کا اس واسطے ہوا کہ وہ اس بات کے قائل ہیں۔
  • کاکائیہ: اس کی تفصیل بیان کر دی گئی ہے۔
  • محمدیہ: یہ فرقہ محمد بن عبداﷲ بن حسن بن علی بن ابی طالب کے ساتھہ منسوب ہے۔ ابومنصور عجلی کے مرنے کے بعد اس کے کچھ پیروکار اس کے بیٹے کے ساتھہ ملحق ہونے کے بجائے محمد بن عبداﷲ بن حسن کے ساتھہ ملحق ہو گئے۔ کیونکہ محمد بن عبداﷲ نے اس وقت منصور خلیفہ عباسی کے خلاف قیام شروع کیا ہوا تھا اس لیے یہ لوگ ابو منصور کے بیٹے کے بجائے محمد بن عبداﷲ کے ساتھہ مل گئے۔ ان کا عقیدہ تھا کہ امام باقر نے ابومنصور کو اپنا وصی قرار دیا ہے نہ کہ اپنے بیٹوں کو جیسے حضرت موسی نے یوشع بن نون کو اپنا وصی قرار دیا تھا ناکہ اپنے بیٹوں کو اور نہ ہی فرزندان ھارون کو۔
  • محمرہ: اس باطنی فرقے کو محمرہ اس لیے کہا جاتا ہے کیونکہ وہ بابک خرمی کے زمانے میں سرخ لباس پہنتے تھے۔
  • معمریہ: یہ فرقہ معمر بن خثیم کے ساتھہ منسوب ہے یہ بھی امام جعفر صادق کے زمانے کے غالیوں کے فرقوں میں سے ایک ہے۔
  • جوالیقیہ: یہ فرقہ ابوالحکم ھشام بن سالم جوالیقی کے ساتھہ منسوب ہے۔ اسے نعمانیہ بھی کہتے ہیں۔
  • مفیریہ: امام ابو منصور عبدالقاہر بغدادی نے انہیں مسلم نما یہودیوں پر یعنی جو بظاہر مسلمان معلوم ہوتے ہیں کہا ہے۔ اس کی تفصیل بیان کی جا چکی ہے۔
  • مفضلیہ: یہ فرقہ مفضل بن عمر جعفی کوفی کے ساتھہ منسوب ہے۔
  • مفوظہ: مفوضہ ایسا گروہ ہے جو کہتا ہے کہ خداوند متعال نے حضرت محمدصلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کو خلق فرمایا اور پھر دنیا کی خلقت حضرت کو سونپ دی۔ اس عقیدے کی بنیاد پر دنیا اور دنیا میں موجود ہر چیز کے خالق حضرت رسول اکرم صلی اﷲ علیہ و آلہ وسلم ہیں۔ بعض نے کہا ہے کہ دنیا اور اس میں موجود ہر چیز کی خلقت حضرت امیر المؤمنین امام علی کے حوالےکردی گئی۔
  • ملاحدہ: آغا خانی فرقہ کو اس نام سے بھی موسوم کیا جاتا ہے۔
  • خلفیہ: یہ فرقہ خلف نامی کے شخص کے مستبع تھے۔ یہ قیامت کے منکر تھے۔ قرامطہ جس نام سے یہ فرقہ بہت مشہور ہوا یہ فرقہ دہشت گردی اور اسلام کے مٹانے میں بہت مشہور ہے۔ اسکی قابل نفرین حرکات سے تاریخ کے صفحات بھرے پڑے ہیں۔ یہی قرامطہ ہیں جن کے ہاتھوں بیت اﷲ شریف میں ہزاروں حجاج کرام نے جام شہادت نوش کیا۔ یہی قرامطہ کعبہ سے حجرا سود اکھاڑ کرلے گئے جو 23 سال بعد ٹکڑوں کی صورت میں واپس ہوا۔ یہی نہیں بلکہ انہوں نے شریعت محمدی کو چھوڑ کر ایک باطل اصول ایجاد کیا جس کی رو سے جملہ املاک بہ شمول خواتین مشترک قومی ملکیت قرار پائے۔
  • منصوریہ یا کسفیہ: یہ فرقہ ابو منصور عجلی کے ساتھہ منسوب ہے کہ جو طوائف کوفہ میں سے تھا۔ صحرانشین اور جاھل شخص تھا اس نے امام باقر کی شھادت کے بعد دعوی کیا کہ امام باقر نے مجھے اپنا جانشیں بنایا ہے اس نے بعد میں نبوت کا دعوی بھی کیا اور اعلان کیا کہ میرے بعد میرے چھے بیٹے نبی ہوں گے اور آخری بیٹا قائم ہو گا۔
  • موسویہ: اس کی تفصیل بیان کی جا چکی ہے۔
  • میمونیہ: میمونیہ یہ لوگ عبداﷲ بن میمونی کے پیر وکار ہیں۔ باطنیہ اسی میمو نیہ سے نام بد لا گیا اس لئے انکے نزدیک قرآن و حدیث کے ظاہر پر نہیں باطن پر عمل فرض ہے ۔ بیٹیوں کا نکاح بیٹوں سے جائز ہے۔
  • یزیدیہ: اباضیہ کا ایک فرقہ جو ’یزید بن انیسہ‘ کے پیروکار ہیں جس کا کہنا تھا کہ اﷲ تعالیٰ عجم سے ایک نبی بھیجے گا اور اس پر یکبارگی آسمان سے ایک کتاب نازل کرے گا۔ یہ ایک گمراہ فرقہ ہے جس کا ظہور 132 ہجری میں اموی حکومت کے سقوط کے بعد ’یزید بن انیسہ‘ کے ہاتھ پر ہوا۔ جدید تحقیق سے معلوم ہوتا ہے کہ اس فرقے کا یزید بن معاویہ یا ایران کے شہر یزد سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ تاہم جدید فارسی لفظ ایزد سے ہے جس کا مطلب خدا۔ ایزدیز نام کا عام مطلب خدا کے عبادت کرنے والے ہیں اور یزیدی بھی اپنے فرقے کا نام اسی طرح سے بیان کرتے ہیں۔ یزیدی یا ایزدی بین النہرین کا کرد مذہبی اقلیتی گروہ اور شمالی بین النہرین کے مقامی لوگ ہیں۔ یہ لوگ قبیلے سے باہر شادی کے سخت خلاف ہیں۔ ان کا مذہب یزدیت ایک توحیدی اور دوسرے توحیدی مذاہب زرتشتیت، اسلام، مسیحیت اور یہودیت کا ملاپ ہے۔
  • یعقوبیہ: یہ زیدیہ فرقے کا غالی فرقہ ہے۔ یعقوب بن علی (یا عدی) کوفی کے پیروکار یعقوبیہ کہلاتے ہیں۔
  • یونسیہ: یہ فرقہ یونس بن عبدالرحمان قمی مولی آل یقطین کے ساتھہ منسوب ہے۔ ان فرقوں میں سے بعض پر آئمہ نے خصوصا امام جعفر صادق نے لعنت کی ہے اور ان کے خطرات سے شیعیان کو اگاہ کیا۔
  • تناسیخیہ: ناسخ درحقیقت بعض قدیم اقوام اور ہندوؤں کا عقیدہ ہے جو بعث بعد الموت کے منکر ہیں اور تناسخ کے قائل ہیں۔ تناسخ کا معنی ہے روحوں کی تبدیلی اور ایک جسم سے دوسرے میں منتقل ہونا۔ اہل تناسخ آخرت کے منکر ہیں اور اس بات کے قائل ہیں کہ بندے کو اچھے اور برے اعمال کی جزاء وسزا دنیا ہی میں مل جاتی ہے۔ وہ اس طرح کہ نیک لوگوں کی روح اعلیٰ تر جسم میں منتقل ہوکر عزت پاتی ہے اور برے لوگوں کی روح کمتر جسم میں منتقل ہو کر ذلیل وخوار ہوتی ہے۔ یہی نیک وبد کی جزا وسزا ہے اہل تناسخ کے بہت سے فرقے ہیں بعض فرقے مدعئی اسلام بھی ہیں ان کا مقتدیٰ احمد بن حابط اور اس کا شاگرد احمد بن نانوس ہے۔ ان کا ایک فرقہ دہریہ ہے جو دنیا کے عدم فناء کا قائل ہے۔ بعض فرقے روحوں کے دوسری اجناس میں انتقال کے بھی قائل ہیں کہ انسانی روح جانوروں میں بھی منتقل ہوجاتی ہے۔ بعض اس کے قائل نہیں ہیں وہ صرف جنس میں انتقال روح کے قائل ہیں۔
  • مقتعیہ:
  • غلویہ:
  • میمیہ:
  • نبئين:
  • عینیہ:
  • علیائیہ یا علیاویہ:
  • خلالیہ:
  • خرسیہ:
  • حدثیہ:
  • برکوکیہ:
  • جواربیہ:
  • ازدریہ:
  • بلالیہ:
(اس کے بعد آگے ان تمام فرق کے عقائد، اصول اور فروع کو تفصیل میں بیان کیا جائے گا۔ اس مواد کے حوالاجات بھی اس کے ساتھ مزید اضافت کے ساتھ تحریر کیے جائیں گے) تحریر جاری ہے۔۔۔۔۔۔!
 

فاطمہ طاہرہ

وفقہ اللہ
رکن
آپ کس فرقے سے تعلق رکھتی ہیں؟
وَاعْتَصِمُواْ بِحَبْلِ اللّهِ جَمِيعًا وَلاَ تَفَرَّقُواْ

اور تم سب مل کر اﷲ کی رسی (قرآن) کو مضبوطی سے تھام لو اور تفرقہ مت ڈالو۔ (آل عمران،3 :103)
وَ مَنْ اَحْسَنُ قَوْلًا مِّمَّنْ دَعَاۤ اِلَى اللّٰهِ وَ عَمِلَ صَالِحًا وَّ قَالَ اِنَّنِیْ مِنَ الْمُسْلِمِیْنَ
اور اس سے زیادہ کس کی بات اچھی جو اللہ کی طرف بلائے اور نیکی کرے اور کہے میں مسلمان ہوں (سورۃ حم سجدۃ آیت نمبر :33)

الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي وَرَضِيتُ لَكُمُ الْإِسْلَامَ دِينًا ۚ

آج میں نے تمہارے لئے دین کو مکمل کر دیا ہے۔ اور اپنی نعمت تم پر تمام کر دی ہے اور تمہارے لئے دین کی حیثیت سے اسلام کو پسند کر لیا ہے (سورة المائدة 5:3)

إِنَّ الَّذِينَ فَرَّقُوا دِينَهُمْ وَكَانُوا شِيَعًا لَّسْتَ مِنْهُمْ فِي شَيْءٍ ۚ إِنَّمَا أَمْرُهُمْ إِلَى اللَّـهِ ثُمَّ يُنَبِّئُهُم بِمَا كَانُوا يَفْعَلُونَ

جن لوگوں نے اپنے دین کو ٹکڑے ٹکڑے کر دیا اور گروہ گروہ بن گئے یقیناً ان سے تمہارا کچھ واسطہ نہیں، ان کا معاملہ تو اﷲ کے سپرد ہے، وہی ان کو بتائے گا کہ انہوں نے کیا کچھ کیا ہے (سورة الأنعام 159)
 

زنیرہ عقیل

منتظم اعلی۔ أیدہ اللہ
Staff member
منتظم اعلی
الحمد للہ مسلمان ہوں۔ آپ ہی بتائیں پھر کونسا فرقہ ہو گا میرا؟
آپ نے اتنے سارے فرقوں کی تفصیل شئیر کی ہے تو کیا ان میں مسلمانوں کے فرقے نہیں ہیں اگر ہیں تو پھر آپ کون سے فرقے سے ہیں؟
 

فاطمہ طاہرہ

وفقہ اللہ
رکن
آپ نے اتنے سارے فرقوں کی تفصیل شئیر کی ہے تو کیا ان میں مسلمانوں کے فرقے نہیں ہیں اگر ہیں تو پھر آپ کون سے فرقے سے ہیں؟
فرقے بنائے کس نے ہیں۔ اللہ نے کون سا فرقہ بنایا ہے؟
 

زنیرہ عقیل

منتظم اعلی۔ أیدہ اللہ
Staff member
منتظم اعلی
فرقے بنائے کس نے ہیں۔ اللہ نے کون سا فرقہ بنایا ہے؟
یہ تو ایک الگ موضوع ہے اس پر بھی ان شاء اللہ گفتگو رہے گی
فی الحال میرے سوال کا جواب یہ نہیں ہے۔
فرقوں سے تو آپ انکار نہیں کر سکتی کیوں کہ یہ تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے کہ میری امت ۷۳ فرقوں میں تقسیم ہو جائے گی
اور پھر یہ بھی فرمایا ہے کہ ان میں سے ایک فرقہ جنت میں جائےگا
 

فاطمہ طاہرہ

وفقہ اللہ
رکن
یہ تو ایک الگ موضوع ہے اس پر بھی ان شاء اللہ گفتگو رہے گی
فی الحال میرے سوال کا جواب یہ نہیں ہے۔
فرقوں سے تو آپ انکار نہیں کر سکتی کیوں کہ یہ تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے کہ میری امت ۷۳ فرقوں میں تقسیم ہو جائے گی
اور پھر یہ بھی فرمایا ہے کہ ان میں سے ایک فرقہ جنت میں جائےگا
حضرت محمد خاتم الرسل و خاتم النبین صلی اﷲ علیہ و آلہ وسلم کی مسلم امہ کے تہتر فرقوں میں بٹ جانے والی حدیث سے لوگ یہ مطلب نکالنے کی کوشش کرتے ہیں کہ آپ صلی اﷲ علیہ و آلہ وسلم نے اس بات کا اشارہ دے دیا تھا کہ میری امت ان فرقوں میں بٹے گی اور ان کو بٹ جانا چاہیے۔ اس سے مراد یہ نہیں ہے اس کا مطلب ہے کہ ہم لوگوں کے درمیان اختلافات اتنے بڑھ جائیں گے کہ ہم لوگ اپنا اپنا گروہ بنا لیں گے۔ مگر آپ صلی اﷲ علیہ و آلہ وسلم نے اپنے آخری حج کے دوران فرمایا تھا کہ میں تم میں دو چیزیں چھوڑ کر جا رہا ہوں جب تک تم انہیں تھامے رکھے گو گمراہ نہیں ہو سکتے ایک قرآن اور دوسری میری سنت۔ اب قرآن اور سنت کو چھوڑ کر ان فرقوں میں بٹنے کا کوئی جواز نہیں ہے۔
 

زنیرہ عقیل

منتظم اعلی۔ أیدہ اللہ
Staff member
منتظم اعلی
حضرت محمد خاتم الرسل و خاتم النبین صلی اﷲ علیہ و آلہ وسلم کی مسلم امہ کے تہتر فرقوں میں بٹ جانے والی حدیث سے لوگ یہ مطلب نکالنے کی کوشش کرتے ہیں کہ آپ صلی اﷲ علیہ و آلہ وسلم نے اس بات کا اشارہ دے دیا تھا کہ میری امت ان فرقوں میں بٹے گی اور ان کو بٹ جانا چاہیے۔ اس سے مراد یہ نہیں ہے اس کا مطلب ہے کہ ہم لوگوں کے درمیان اختلافات اتنے بڑھ جائیں گے کہ ہم لوگ اپنا اپنا گروہ بنا لیں گے۔ مگر آپ صلی اﷲ علیہ و آلہ وسلم نے اپنے آخری حج کے دوران فرمایا تھا کہ میں تم میں دو چیزیں چھوڑ کر جا رہا ہوں جب تک تم انہیں تھامے رکھے گو گمراہ نہیں ہو سکتے ایک قرآن اور دوسری میری سنت۔ اب قرآن اور سنت کو چھوڑ کر ان فرقوں میں بٹنے کا کوئی جواز نہیں ہے۔
شاید آ پ اس حدیث کے اگلے حصے کو چھوڑ رہی ہیں۔ آگے ہے کہ سوائے ایک جماعت کے سب دوزخ میں جائیں گے۔ عرض کیا گیا اے اللہ کے رسول وہ کونسا گروہ ہو گا؟ آپ نے فرمایا :ما انا علیہ واصحابی ۔'' یہ وہ جماعت ہوگی جو اس راستے پر چلے گی جس پر میں اور میرے صحابہ ہیں اور آقا ﷺ کی کوئی بات غلط کیسے ہو سکتی ہے اللہ معاف فرمائے فرقوں میں تو بٹ ہی گئے ہیں اور میرا آپ سے سوال یہی ہے کہ آپ کس فرقے کی پیروی کرتی ہو
 

زنیرہ عقیل

منتظم اعلی۔ أیدہ اللہ
Staff member
منتظم اعلی
اچھا چلیں جو فرقہ میرے اور آپ کے نبی محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خاتم النبین رحمت للعالمین کا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
چلیں یہ بتا دیں کہ یہ جو آپ بتا رہی ہیں یہ آپ نے کس مکتبہ فکر سے سیکھا ہے؟
 

فاطمہ طاہرہ

وفقہ اللہ
رکن
میرا سوال اپنی جگہ جامد و ساقط ہے
وَاعْتَصِمُواْ بِحَبْلِ اللّهِ جَمِيعًا وَلاَ تَفَرَّقُواْ

اور تم سب مل کر اﷲ کی رسی (قرآن) کو مضبوطی سے تھام لو اور تفرقہ مت ڈالو۔ (آل عمران،3 :103)
وَ مَنْ اَحْسَنُ قَوْلًا مِّمَّنْ دَعَاۤ اِلَى اللّٰهِ وَ عَمِلَ صَالِحًا وَّ قَالَ اِنَّنِیْ مِنَ الْمُسْلِمِیْنَ
اور اس سے زیادہ کس کی بات اچھی جو اللہ کی طرف بلائے اور نیکی کرے اور کہے میں مسلمان ہوں (سورۃ حم سجدۃ آیت نمبر :33)

الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي وَرَضِيتُ لَكُمُ الْإِسْلَامَ دِينًا ۚ

آج میں نے تمہارے لئے دین کو مکمل کر دیا ہے۔ اور اپنی نعمت تم پر تمام کر دی ہے اور تمہارے لئے دین کی حیثیت سے اسلام کو پسند کر لیا ہے (سورة المائدة 5:3)

إِنَّ الَّذِينَ فَرَّقُوا دِينَهُمْ وَكَانُوا شِيَعًا لَّسْتَ مِنْهُمْ فِي شَيْءٍ ۚ إِنَّمَا أَمْرُهُمْ إِلَى اللَّـهِ ثُمَّ يُنَبِّئُهُم بِمَا كَانُوا يَفْعَلُونَ

جن لوگوں نے اپنے دین کو ٹکڑے ٹکڑے کر دیا اور گروہ گروہ بن گئے یقیناً ان سے تمہارا کچھ واسطہ نہیں، ان کا معاملہ تو اﷲ کے سپرد ہے، وہی ان کو بتائے گا کہ انہوں نے کیا کچھ کیا ہے (سورة الأنعام 159)

اب آپ بتائیں میں کیا بنوں۔ مسلمان یا کوئی سنی، شیعہ یا کوئی اور
 
Top