حضرت عمر بن عبدالعزیز کے عہد حکومت میں کی جانے والی اصلاحات

فاطمہ طاہرہ

وفقہ اللہ
رکن
عمر بن عبد العزیز بن مروان بن حکم خلافت بنو امیہ کے آٹھویں خلیفہ تھے اور سلیمان بن عبدالملک کے بعد مسند خلافت پر ممتکن ہوئے۔ انہیں ان کی نیک سیرتی کے باعث پانچواں خلیفہ راشد بھی کہا جاتا ہے جبکہ آپ خلیفہ صالح کے نام سے بھی مشہور ہیں۔حضرت عمر بن عبد العزیز مشہور اموی فرمانروا مروان حکم کے پوتے تھے جبکہ آپ کی والدہ حضرت عمر فاروق کی پوتی تھیں، اس لحاظ سے آپ کی رگوں میں فاروقی خون بھی شامل تھا۔ آپ کے والد عبد العزیز مصر کے گورنر تھے جس کی وجہ سے آپ نے شاہانہ ماحول میں پرروش پائی۔ آپ اموی خلیفہ عبد الملک کے بھتیجے اور داماد ہونے کی وجہ سے مختلف عہدوں اور مناصب پر فائز رہے تھے۔ شروع ہی سے آپ کی طبیعت میں شاہانہ وقار تھا، آپ بے حد نفیس لباس پہنتے اور خوشبویا کا کثرت سے استعمال کرتے تھے۔ خلافت کا بار اٹھانے کے بعد آپ کے تمام معمولات میں تبدیلی آ گئی، تمام شاہانہ ٹھاٹھ ختم کر دیئے اور شاہی لباس اتار کر فقیرانہ لباس زیب تن کر لیا۔ کنیزوں کو آزاد کر دیا اور اپنے لئے انتہائی سادہ اور عسرت کی زندگی کو پسند کیا۔ الغرض آپ فقر و استغناء کا پیکر ہو کر رہ گئے تھے۔ آپ کی ہمیشہ یہ کوشش رہی کہ خلفائے راشدین کی پیروی کریں۔

آپ کے عہد حکومت میں جو اصلاحات کی گئیں ان کی تفصیلات درج ذیل ہیں۔

احساس فرض اور طرز زندگی میں تبدیلی:

خلافت کا بار گراں اٹھاتے ہی فرض کی تکمیل کے احساس نے آپ کی زندگی بالکل بدل کر رکھ دی۔ وہی عمر جو نفاست پسندی اور خوش لباسی میں اپنا ثانی نہیں رکھتے تھے، جو خوشبو کے دلدادہ تھے، جن کی چال امیرانہ آن بان کی آئینہ دار تھی، جن کا لباس فاخرانہ تھا اب سراپا عجز و نیاز تھے۔ سلیمان کی تجہیز و تکفین کے بعد پلٹے تو سواری کے لیے اعلٰی ترین گھوڑے پیش کیے گئے مگر حضرت عمر بن عبد العزیز نے ان پر سوار ہونے سے انکار کر دیا اور کہا ’’میرے لیے میرا خچر کافی ہے‘‘ اور انہیں واپس بیت المال میں داخل کرنے کا حکم دیا۔ جب افسر پولیس نیزہ لے کر آگے آگے روانہ ہوا تو اسے ہٹا دیا اور کہا کہ ’’ میں بھی تمام مسلمانوں کی طرح ایک مسلمان ہوں‘‘ پھر جب سلیمان کے اثاثہ کو ورثا میں تقسیم کرنے کی تجویز کی تو آپ نے سارے سامان کو بیت المال میں داخل کرنے کا حکم صادر کر دیا۔

ہر وقت امت مسلمہ کے حقوق کی نگہداشت اور اللہ تعالٰی کے احکامات کی تعمیل اور نفاذ کی فکر دامن گیر رہتی جس کی وجہ سے ہمیشہ چہرے پر پریشانی اور ملال کے آثار دکھائی دیتے۔ اپنی بیوی فاطمہ کو حکم دیا کہ تمام زروجواہر بیت المال میں جمع کرا دو ورنہ مجھ سے الگ ہو جاؤ۔ وفا شعار اور نیک بیوی نے تعمیل کی۔ گھر کے کام کاج کے لیے کوئی ملازمہ مقرر نہ تھی تمام کام ان کی بیوی خود کرتیں۔ الغرض آپ کی زندگی درویشی اور فقر و استغنا کا نمونہ کر رہ گئی۔ آپ کی تمام تر مساعی اور کوششیں اس امر پر لگی ہوئی تھیں کہ وہ ایک بار پھر سنت فاروقی اور عہد فاروقی کی یاد تازہ کر دیں۔ آپ اس پاکیزہ زندگی اور کا رہائے نمایاں کی بدولت ہی پانچویں خلیفہ راشد قرار پائے۔ آپ نے اہل بیت کے ساتھ ہونے والی زیادتیوں کا ازالہ کیا۔ ان کی ضبط کی ہوئی جائیدایں ان کو واپس کر دی گئیں۔ حضرت علی پر جمع خطبہ کے دوران لعن طعن کا سلسلہ ختم کر دیا۔ اور ان پر ڈھائے جانے والے مظالم کا خاتمہ کر دیا۔ احیائے شریعت کے لیے کام کیا۔ بیت المال کو خلیفہ کی بجائے عوام کی ملکیت قرار دیا۔ اس میں سے تحفے تحائف اور انعامات دینے کا طریقہ موقوف کر دیا۔ ذمیوں سے حسن سلوک کی روایت اختیار کی۔ اس کے علاوہ معاشی اور سیاسی نظام میں اور بھی اصلاحات کیں۔

جائیداد کی واپسی کے اقدامات:

بارِ خلافت سنبھالنے کے بعد منادی کروادی کہ لوگ اپنے مال و جائیداد کے بارے میں اپنی شکایتیں پیش کر دیں جس کے بارے میں ان کا دعویٰ ہے کہ اسے زبردستی ہتھیا لیا گیا ہے۔

یہ کام بہت خطرناک اور نازک تھا، خود آپ کے پاس بڑی موروثی جاگیر تھی۔ بعض افراد نے آکر آپ سے کہا کہ اگر آپ نے اپنی جاگیر واپس کردی تو اولاد کی کفالت کیسے کریں گے؟ آپ نے فرمایا ان کو اللہ کے سپرد کرتا ہوں۔

آپ نے اعلان عام کروایا کہ اموی خلفاء نے جس کے مال، جاگیر یا جائداد پر ناجائز قبضہ جمالیا ہے وہ ان کے حقداروں کو واپس کی جا رہی ہیں۔ اس اعلان کے بعد جاگیروں کی دستاویزات منگوائیں اور آپ کے ایک ماتحت ان دستاویزات کو نکال کر پڑھتے جاتے تھے اور حضرت عمر بن عبد العزیز اسے پھاڑ پھاڑ کر پھینکتے جاتے تھے۔ آپ نے اپنی اور اہل خاندان کی ایک ایک جاگیر ان کے حقداروں کو واپس کردی اور اس میں کسی کے ساتھ کسی قسم کی رعایت سے کام نہ لیا۔

خلافت راشدہ کا احیاء:

ان مراحل سے فراغت کے بعد امورِ خلافت کی طرف متوجہ ہوئے،خلافت کے باب میں عمر بن عبدالعزیز کا نقطۂ نظر گذشتہ خلفاء سے بالکل مختلف تھا، ان کے پیش نظر نظامِ خلافت میں عظیم الشان انقلاب برپاکرنا تھا وہ سلطنت کی ظاہری ترقیوں یعنی فتوحات محاصل اور عمارتوں میں اضافہ کرنا نہیں چاہتے تھے بلکہ اموی حکومت کو خلافتِ راشدہ میں بدل دینا چاہتے تھے، یہ اقدام ایسا اہم اور خطرناک تھا، جس میں ہر طرف سے مخالفتوں کے طوفان کا مقابلہ تھالیکن عمر بن عبدالعزیز نے تمام خطرات سے بے پرواہ ہوکر نہایت جرأت سے انقلاب شروع کردیا۔

غصب کردہ مال وجائداد کی واپسی:

اسی سلسلہ میں سب سے اہم اورنازک کام رعایا کی املاک کی واپسی تھی، جس کو شاہی خاندان نے اپنی جاگیر بنالیا تھا،اس میں سارے خاندان کی مخالفت کا مقابلہ کرنا تھا ،لیکن عمر بن عبدالعزیز نے سب پہلے یہی کار خیر کیا اور سب سے اول اپنی ذات اوراپنے خاندان سے شروع کیا،جس وقت آپ نے اس کا ارادہ ظاہر فرمایا، اس وقت بعض ہوا خواہوں نے دبی زبان سے عرض کیا کہ اگر آپ جاگیر یں واپس کردیں گے تو اپنی اولاد کے لیے کیا انتظام کریں گے فرمایا ان کو خدا کے سپرد کرتا ہوں۔ اس عزم راسخ کے بعد خاندان والوں کو جمع کرکے فرمایا: بنی مروان تم کو شرف اور دولت کا بڑا حصہ ملا ہے،میرا خیال ہے کہ امتِ مسلمہ کا نصف یا دوتہائی مال تمہارے قبضہ میں ہے یہ لوگ یہ اشارہ سمجھ گئے اورجواب میں کہا: خدا کی قسم جب تک ہمارے سر تن سے جدا نہ ہوں گے اس وقت تک یہ نہیں ہوسکتا،خدا کی قسم نہ ہم اپنے اباواجداد کو کافر بناسکتے ہیں (عمر بن عبدالعزیز اپنے اسلاف کے افعال کو حرام کہتے تھے) اورنہ اپنی اولاد کو مفلس بنائیں گے،عمر بن عبدالعزیز نے فرمایا خدا کی قسم اگر اس حق میں تم میری مدد نہ کرو گے تو میں تم لوگوں کو ذلیل اور رسوا کر ڈالوں گا تم لوگ میرے پاس سے چلے جاؤ۔

اس کے بعد عام مسلمانوں کو مسجد میں جمع کرکے تقریر کی: ان لوگوں (بنی امیہ)نے ہم کو عطایا اورجاگیریں دیں،خدا کی قسم نہ انہیں ان کو دینے کا حق تھا اورنہ ہمیں ان کے لینے کا ،اب میں ان سب میں ان کے اصلی حق داروں کو واپس کرتا ہوں اوراپنی ذات اوراپنے خاندان سے شروع کرتا ہوں۔ یہ کہہ کر اسناد شاہی کا خریطہ منگایا،مزاحم سب کو پڑھ پڑھ کر سناتے جاتے تھے اورعمربن عبدالعزیز ان کو لے لے کر قینچی سے کاٹتے جاتے تھے،صبح سے لے کر ظہر کی نماز تک یہ سلسلہ جاری رہا۔ اس طرح اپنی اوراپنے پورے خاندان کی کل جاگیریں واپس کردیں اوراپنے پاس ایک نگینہ تک باقی نہ رہنے دیا ان کی بیوی فاطمہ کو ان کے باپ عبدالملک نے ایک قیمتی پتھر دیا تھا، عمر بن عبد العزیز نے اپنی بیوی سے کہا،یا اس کو بیت المال میں داخل کردیا۔

باغ فدک کی واپسی:

سب سے اہم معاملہ فدک کا تھا،جومدتوں سے خلفاء اوراہل بیت کے درمیان متنازعہ فیہ چلا آتا تھا اوراب عمر بن عبدالعزیز کے قبضہ میں تھا اوراسی پر اُن کی اوراُن کے اہل وعیال کی معاش کا دارومدار تھا،اس کے متعلق انہوں نے رسول اللہ ﷺ اورخلفاء راشدین کے طرزِ عمل کی تحقیقات کرکے آل مروان سے کہا فدک رسول اللہ ﷺ کا خاصہ تھا، جس کی آمدنی آپ اپنی اور بنی ہاشم کی ضروریات میں صرف فرماتے تھے۔ لیکن بعدمیں مروان بن حکم نے اسے اپنی جاگیر میں شامل کر کے انے بیٹوں عبد الملک اور عبد العزیز میں تقسیم کر دیا۔ حضرت عمر بن عبد العزیز نے اسے اپنی ملکیت سے نکال کر اس کی آمدنی کو بنو ہاشم کی ضروریات کی تکمیل کے لیے وقف کر دیا۔

ظالم عہدہ داروں کا تدارک:

مال مغصوبہ کی واپسی کے بعد دوسری اہم اصلاح عمال کے ظلم وجور کا تدارک تھا، جس کے وہ خوگر ہو رہے تھے،اگرچہ آپ کے مشورہ سے سلیمان ہی کے زمانہ میں بڑی حد تک اس کا تدارک ہوچکا تھا،پھر بھی کچھ آثار باقی رہ گئے تھے،اموی حکومت میں سب سے زیادہ جفاکار حجاج کے خاندان والے اوراس کے ماتحت عہدہ دار تھے،حضرت عمر بن عبدالعزیزؓ نے حجاج کے پورے خاندان کو یمن کی طرف جلائے وطن کردیا اوروہاں کے عامل کو لکھا کہ میں تمہارے پاس آل عقیل کو بھیج رہا ہوں، جو عرب میں بدترین خاندان ہے،اس کو اپنی حکومت میں ادھر ادھر منتشر کرو جو لوگ حجاج کے ہم قبیلہ یا اس کی ماتحتی میں کام کرچکے تھے ان کو ہر قسم کے ملکی حقوق سے محروم کردیا۔

مظالم کا انسداد:

اموی دور میں بد گمانی اورسوئے ظن پرداروگیر اورسزا عام تھی حضرت عمر بن عبدالعزیز نے اسے بالکل بند کردیا،موصل میں چوری اورنقب زنی کی وارداتیں بکثرت ہوتی تھیں، یہاں کے والی یحییٰ غسانی نے لکھا جب تک لوگوں کو شبہ پر پکڑا نہ جائے گا اور سزا نہ دی جائے گی اس وقت تک یہ وارداتیں بند نہ ہوں گی آپ نے لکھا کہ صرف شرعی ثبوت پر مواخذہ کرو اگر حق ان کی اصلاح نہیں کرسکتا تو خدا ان کی اصلاح نہ کرے۔ اسی طرح سے جراج بن عبداللہ بن حکمی والی خراسان نے لکھا کہ اہل خراسان کی روش نہایت خراب ہےان کو کوڑے اورتلوار کے علاوہ اورکوئی چیز درست نہیں کرسکتی، اگر امیر المومنین مناسب سمجھیں تو اس کی اجازت مرحمت فرمائیں ،آپ نے جواب میں لکھا تھا تمہارا خط پہنچا، تمہارا یہ لکھنا کہ اہل خراسان کو کوڑے اورتلوار کے سوا کوئی شے درست نہیں کرسکتی، بالکل غلط ہے،ان کو عدل وحق درست کرسکتا ہے، اسی کو عام کرو۔

عمال کو رعایا کا مال کم قیمت پر خریدنے کی سختی سے ممانعت کردی، عدی بن ارطاط والی فارس کو لکھا کہ مجھے معلوم ہوا ہے کہ تمہارے عمال پھلوں کا تخمینہ کرکے عام نرخ سے کم قیمت لگاکر اس کو خریدتے ہیں،اور کردوں کے قبیلے مسافروں سے عشر وصول کرتے ہیں،اگر یہ معلوم ہوگیا کہ یہ تمہارے ایما سے ہوتا ہے یا اسے تم پسند کرتے ہو،تو میں تم کو مہلت نہ دوں گا،میں بشر بن صفوان ،عبداللہ بن عجلان اورخالد بن سالم کو اس کی تحقیقات کے لیے بھیجتا ہوں، اگر وہ اس خبر کو صحیح پائیں گے تو پھلوں کو ان کے مالکوں کو واپس کردیں گے ،اس کے علاوہ جن جن باتوں کی مجھے اطلاع ملی ہے،سب کی تحقیقات کریں گے،تم ان لوگوں سے کوئی مزاحمت نہ کرنا۔ وقتاً فوقتاً عمال کو قیام عدل اورانسدادِ مظالم کے احکام بھیجتے رہتے تھے،ایک مرتبہ ایک گشتی فرمان تمام امراء کے نام بھیجا کہ لوگ بُرے عمال کی وجہ سے جنہوں نے برے دستور قائم کیے اورکبھی انصاف،نرمی اوراحسان کا ارادہ نہیں کیا، احکام الہی میں سخت مصیبت سختی اورظلم وجور میں مبتلا ہوگئے۔ ایک والی عبدالحمید کو پہلا خط لکھا کہ وسوسہ شیطانی اورحکومت کے بعد انسان کی بقا نہیں ہوسکتی،اس لیے جب تم کو میرا خط ملے،اس وقت ہر حقدار کو اس کا حق ادا کرو،جس قدر ناجائز ٹیکس تھے،سب موقوف کردیئے ان کے علاوہ اور تمام ظالمانہ طریقوں کو روکا۔

بیت المال کی آمدنی کی اصلاح:

اموی دور میں بیت المال کے مداخل اورمخارج میں بڑی بے عنوانیاں تھیں،جائز اورناجائز آمدنی میں کوئی تفریق نہ تھی، ہر طرح کی ناجائز آمدنیوں سے خزانہ بھرا جاتا تھا، پھر اس بے عنوانی سے اسے خرچ کیا جاتا تھا، بیت المال جو ایک قومی امانت ہے،ذاتی خزانہ بن گیا تھا اوراس کا بڑا حصہ خلفاء کے ذاتی مصارف اوران کے تعیش میں صرف ہوتا تھا، حضرت عمر بن عبدالعزیز نے دونوں بے عنوانیوں کا تدارک کیا۔ شاہی خاندان کے تمام مخصوص وظیفے بند کردیئے،خلافت کے شکوہ وتجمل کے مصارف بالکل ختم کردیے،ان کی تخت نشینی کے بعد شاہی اصطبل کے داروغہ نے سواریوں کے اخراجات طلب کیے تو حکم دیا کہ انہیں بیچ کر ان کی قیمت بیت المال میں داخل کردی جائے ، میرا خچر میرے لیے کافی ہے۔

بیت المال کی آمدنی بڑھانے کے لیے حجاج نو مسلموں سے بھی جزیہ لیتا تھا، آپ نے حکم جاری کردیا کہ ‘جو لوگ مسلمان ہوجائیں ان کا جزیہ ساقط کردیا جائے اس حکم پر اتنے آدمی مسلمان ہوئے کہ جزیہ کی آمدنی گھٹ گئی،حیان بن شریح نے شکایت لکھ بھیجی کہ، اس کثرت کے ساتھ لوگ مسلمان ہوئے ہیں کہ مجھے قرض لے کر مسلمانوں کے وظیفے دینے پڑےآپ نے ان کو نہایت سخت خط لکھا کہ جزیہ بہر حال موقوف کرو، رسول اللہ ﷺ ہادی بنا کر بھیجے گئے تھے، محصل خراج بناکر نہیں بھیجے گئے تھے۔ اور اس سلسلہ میں یہ فرمانِ عام جاری کردیا کہ اگر جزیہ ترازو میں رکھا جاچکا ہو اوراس حالت میں بھی ذمی اسلام قبول کرلے یا آغازِ سال سے ایک دن پہلے (جبکہ پورے سال کا جزیہ عائد ہوجاتا ہے )اسلام لے آئے تو بھی جزیہ نہ لیا جائے۔

بیت المال کی حفاظت کا انتظام:

اس کی حفاظت کا نہایت سخت انتظام کیا، ایک مرتبہ یمن کے بیت المال سے ایک دینار گم ہوگیا،حضرت عمر بن عبدالعزیز نے یہاں کے افسرِ خزانہ کولکھا کہ میں تمہاری امانت کو متہم نہیں کرتا، لیکن تمہاری لاپرواہی کو جرم قرار دیتا ہوں اور مسلمانوں کی طرف سے ان کے مال کا مدعی ہوں، تم پر فرض ہے کہ تم شرعی قسم کھاؤ۔ یزید بن مہلب بن ابی صفرہ والیِ خراسان کو خیانت کے جرم میں معزول کرکے قید کردیا۔ ابو بکرہ بن حزم نے سلیمان کے آخری عہد میں کاغذ، قلم، دوات اورروشنی کے دفتر اخراجات کے اضافہ کے لیے لکھا تھا، ابھی اس کا کوئی انتظام نہ ہوا تھا کہ عمر بن عبدالعزیزؒ خلیفہ ہوگئے،انہوں نے ابوبکرہ کو لکھا، وہ دن یاد کرو جب تم اندھیری رات میں بغیر روشنی کے کیچڑ میں اپنے گھر سے مسجد نبویﷺ جاتے تھے اور آج بخدا تمہاری حالت اس سے کہیں بہتر ہے،قلم باریک کرلو اورسطریں قریب قریب لکھا کرو، اپنی ضروریات میں کفایت شعاری سے کام لو، میں مسلمانوں کے خزانہ سے ایسی رقم صرف کرنا پسند نہیں کرتا ،جس سے ان کو کوئی فائدہ نہ پہنچے، دوسرے عمال کو بھی ہدایت لکھی کہ کوئی عامل بڑے کاغذ پر جلی قلم سے نہ لکھے، خود آپ کے فرامین ایک بالشت سے زیادہ نہ ہوتے تھے۔ بیت المال کی آمدنیوں اور مصارف کی علیحدہ علیحدہ مدیں قائم کیں، صدقہ کی علیحدہ ،خمس کی علیحدہ،مالِ غنیمت کی علیحدہ گذشتہ خلفاء خمس کے مقررہ مصارف کی پابندی نہیں کرتے تھے، عمر بن عبدالعزیز نے خمس کو اس کے صحیح مصارف میں لگایا۔

بیت المال کے مصارف:

بیت المال کو پھر مسلمانوں کی امانت بنادیا اوراس کو ان کی ضروریات کے لیے مخصوص کردیا چنانچہ اس کی آمدنی کا بڑا حصہ خالص رعایا کے مفاد کے کاموں میں صرف کیا جانے لگا؛ملک میں جتنے اپاہج تھے، سب کے نام درجِ رجسٹر تھے، ان سب کو وظیفہ ملتا تھا جو عمال اس میں ذرا بھی غفلت یاترمیم کرتے تھے ان کو تنبیہ کی جاتی تھی، دمشق کے بیت المال سے ایک اپاہج کے وظیفہ کے تقرر کے سلسلہ میں میمون بن مہران نے کہا،ان لوگوں کے ساتھ سلوک تو کیا جاسکتا ہے ،لیکن ان کو صحیح وتندرست آدمی کے برابر وظیفہ نہیں دیا جاسکتا،حضرت عمر بن عبدالعزیز کو اس کی اطلاع ہوئی تو نہایت غضب آلود خط لکھا ۔ بہتوں کو نقد کے بجائے جنس ملتی ہے اور فی کس ساڑھے چار اروب کے حساب سے غلہ دیا جاتا تھا، قرضداروں کی قرض کی ادایگی کے لیے بھی ایک مد تھی شیر خوار بچوں کے وظائف مقرر تھے ایک عام لنگر خانہ تھا ،جس سے فقرا ومساکین کو کھانا ملتا تھا۔

عام مستحقین میں صدقات وخیرات تقسیم ہوتی تھی، ایک مرتبہ حضرت عمر بن عبدالعزیز نے ایک شخص کو تقسیم مال کے لیے رقعہ بھیجا،اس نے عذر کیا کہ آپ مجھے ایسی جگہ بھیج رہے ہیں جہاں میں کسی کو نہیں پہچانتا،ان میں امیر وغریب سب ہیں، فرمایا کے مفید مصارف میں صرف کرتے، اس فیاضا نہ داد دہش کا بیت المال پر بہت بار پڑتا تھا، بعض عمال نے اس کی طرف توجہ دلائی تو جواب میں لکھا کہ جب تک ہے دیتے چلے جاؤ، جب خالی ہوجائے تو کوڑا کرکٹ بھردو۔

ذمیوں کے حقوق:

کسی حکومت کے عدل وانصاف اورظلم وجورکا ایک بڑا معیار دوسری اقوام اوردوسرے مذاہب کے ساتھ اس کا سلوک اورطرزِ عمل ہے،اس معیار سے بھی عمر بن عبدالعزیز کا دور سراپا ،عدل تھا، انہوں نے جس طرح ذمیوں کے حقوق کی حفاطت کی اوران کے ساتھ جیسی نرمی برتی اس کی مثال عہد فاروقی کے علاوہ اورکسی دور میں نہیں مل سکتی ،مسلمانوں کی طرح ان کی جان اوران کے مال کی حفاظت کی، ان کے مذہب میں کسی قسم کی دست اندازی نہیں کی،جزیہ کی وصولی میں نرمی اورآسانیاں پیدا کیں، اس کا اندازہ ذمیوں کے ساتھ ان کے طرز عمل اور ان احکام سے ہوگا جو عمال کو بھیجتے رہتے تھے۔ عدی بن ارطاط کو لکھا کہ ذمیوں کے ساتھ نرمی کرو ان میں جو بوڑھا اورنادار ہوجائے اس کی کفالت کرو، اگر اس کا کوئی رشتہ دار ہو تو اسے اس کی کفالت کا حکم دو جس طرح تمہارا کوئی غلام بوڑھا ہوجائے تو اسے آزاد کرنا پڑے گا یامرتے دم تک اس کی کفالت کرنی پڑے گی۔

رعایا کی خوشحالی:

مظالم کے انسداد ،ناجائز ٹیکسوں کی منسوخی،ذمیوں کے ساتھ مراعات اورعام داد ودہش کی وجہ سے ملک نہایت فارغ البال اوررعایا آسودہ حال تھی ملک کے طول وعرض میں افلاس کا نشان باقی نہ رہ گیا تھا،مہاجرین کا بیان ہے کہ ہم لوگ صدقہ تقسیم کرتے تھے،ایک سال کے بعد دوسرے سال وہ لوگ جو پہلے صدقہ لیتے تھے خود دوسروں کو صدقہ دینے لگتے تھے۔ عمر بن عبدالعزیز نے صرف ڈھائی سال حکومت کی اس مختصر مدت میں یہ حالت ہوگئی تھی کہ لوگ ان کے عمال کے پاس،فقراء میں تقسیم کرنے کے لیے صدقہ کا مال لے کر آتے تھے،لیکن کوئی صاحبِ حاجت نہ ملتا تھا اور مال واپس لے جانا پڑتا تھا، حضرت عمر بن عبدالعزیز نے سب کو اس قدر مالا مال کردیا تھا کہ کوئی شخص حاجت مند باقی نہ رہ گیا تھا۔

رفاہ عام کے کام:

آپ نے جس قدر اصلاحیں کیں، وہ سب درحقیقت رفاہ عام ہی کے کام ہیں، لیکن ان کے علاوہ مروجہ اصطلاح میں بھی آپ نے بہت سے رفاہِ عام کے کام کیے۔ سارے ممالکِ محروسہ میں نہایت کثرت سے سرائیں بنوائیں، خراسان کے عامل کو لکھا کہ وہاں کے تمام راستوں میں سرائیں تعمیر کرائی جائیں،سمر قند کے والی سلیمان بن ابی السری کے پاس بھیجا کہ وہاں کے شہروں میں سرائیں تعمیر کراؤ،جو مسلمان ادھر سے گزریں ایک شبانہ یوم ان کی مہمان نوازی کرو، ان کی سواریوں کی حفاظت کرو، جو مسافر مریض ہو، اس کو دو دن اور دورات مقیم رکھو، اگر کسی کے پاس گھر تک پہنچنے کا سامان نہ ہو تو وطن تک پہنچنے کا سامان کردو ایک عام لنگر خانہ قائم کیا، جس میں فقراء اورمساکین کو کھانا ملتا تھا۔

بادشاہت کے امتیازات کا استیصال:

جہاں تک ہوسکا آپ نے شاہنشاہیت کا زور توڑنے اوراس کے مفاسد کو دور کرنے کی پوری کوشش کی اور ہر شعبہ سے ملوکیت کے اثرات کو بالکل مٹادیا۔ خلفاء کے ساتھ نقیب وعلمبردار چلتے تھے، نماز کے بعد رسول اللہ ﷺ کی طرح ان پر درود وسلام بھیجا جاتا تھا، سلام میں خاص امتیاز برتا جاتا تھا ،عمر بن عبدالعزیزنے ان تمام امتیازات کو مٹادیا چنانچہ پہلی مرتبہ جب کو توال نے حسب دستور نیزہ لے کر آپ کے ساتھ چلنا چاہا تو آپ نے روک دیا کہ مسلمانوں کا ایک معمولی فرد ہوں اسلام کے متعلق ہدایت فرمائی کہ عام طریقہ سے سلام کیا جائے۔ عمال کو فرمان لکھا کہ پیشہ ور واعظ خلفاء پر درود وسلام بھیجتے ہیں، انہیں روک دو اورحکم دو کہ وہ عام مسلمانوں کے لیے دعا کریں، باقی چھوڑدیں۔ مخصوص میرے لیے کوئی دعا نہ کرو بلکہ تمام مسلمان مردوں اورعورتوں کے لیے دعا کرو،اگر میں ان میں ہوں گا تومیں بھی شامل ہو جاؤں گا۔

ایک نظر:

امورِ خلافت میں خلافتِ فاروق کو اپنے لیے نمونہ عمل بنایا، چنانچہ حضرت عمر کے پوتے سالم بن عبداللہ بن عمر کو لکھا میں چاہتا ہوں کہ اگر خدا کو منظور ہو اورمجھ میں اس کی استطاعت ہوتو رعایا کے معاملہ میں عمر بن خطاب کی روش اختیار کروں، اس لیے تم میرےلیے عمر کی تحریریں اوران کے فیصلے جو انہوں نے مسلمانوں اورذمیوں کے بارہ میں کیے، بھیجو، اگر خدا کو منظور ہوگا تو میں ان کے نقشِ قدم پر چلوں گا۔ لیکن اب زمانہ بدل چکا تھا،عہد رسالت پر مدت گزرچکی تھی، صحابہ اٹھ چکے تھے،بنی امیہ کی حکومت نے اسلامی حکومت کے بارہ میں عام مسلمانوں کا نقطہ نظر بدل دیا تھا، اس لیے اس زمانہ میں عہد فاروقی کو زندہ کرنا بہت مشکل تھا، سالم نے بھی ان دشواریوں کو محسوس کیا اورآپ کو لکھا کہ عمر نے جو کچھ کیا وہ دوسرے زمانہ میں اور دوسرے آدمیوں کے ذریعہ سے اگر تم نے اس زمانہ میں اوران آدمیوں کے ذریعہ سے عمر بن الخطاب کی پیروی کی تو تم ان سے افضل ہوگئے۔ لیکن حضرت عمر بن عبدالعزیز نے اس تغیر حالات اورہر طرح کے موانع ومشکلات کے باوجود ایک مرتبہ پھر فاروقی خلافت کا نمونہ دنیا کو دیکھا دیا، اسی لیے بعض محدثین آپ کو پانچواں خلیفہ راشد مانتے ہیں۔
 
Top