بنو عباس کے عہد میں علمی سرگرمیاں

فاطمہ طاہرہ

وفقہ اللہ
رکن
بنو عباس کے عہد میں علمی سرگرمیاں:

مذہبی علوم کے تحت علوم القرآن، تفسیر القرآن، علم حدیث، علم فقہ، علم الکلام اور علم تاریخ آتے ہیں۔ ان پر الگ الگ نظر ڈالتے ہیں کہ اس دور میں ان تمام علوم میں کیا کیا کام ہوا۔

علوم القرآن:

قرآن مجید کاعلم تمام علوم میں سر فہرست ہے۔ علوم القرآن میں سب سے زیادہ توجہ علم القراءت پر دی گئی۔ اس کی وجہ تھی کہ اہل عرب کیلئے تو بغیر اعراب کے قرآن پاک پڑھنا مشکل نہ تھا مگر نومسلموں خصوصا جن کا تعلق عرب سے نہیں تھا،ان کے لیے اس میں بہت دشواری تھی۔ اس ضرورت کے پیش نظر چند علماء نے اس طرف توجہ دی۔ یہ علماء قراء سبعہ کہلاتے ہیں ۔ ان ہی کی قراءت پر آج ہماری قراءت قرآن کا مدار ہے۔ ان قراء سبعہ کے نام یہ ہیں: نافع بن عبد الرحمن ابوعمرو بن العلاء البصری، عبد الله بن عامر، عبد الله بن کثیر، ابوبکر عاصم بن ابی النجد، ابوعمار حمزہ بن حبیب الزيات، ابوالحسن علی بن حمزه الکسائی۔

ان قراء میں سے اکثر نے بنو عباس کا عہد پایا ہے۔ علم قرآءت کے اولین مصنفین میں ابوعمرو بن العلاء البصری، ربان بن تغلب اور مقاتل بن سلیمان قابل ذکر ہیں۔

علم تجوید پرکئی علماء نے دور بنی عباس میں کیابیں تحریر کیں، جن میں مکی بن ابی طالب کی ''رعایتہ تجوید القراة'' اور محمد بن جزری کی ''مقدمة جزریہ'' مشہور کتب ہیں۔ آیات قرآنیہ کے اسباب نزول پرحافظ المدینی نے کتاب تحریر کی، علی بن احمد الواحدی نے بھی اس فن پر کتاب ''اسباب النزول'' تصنیف کی۔

علم تفسیر:

بنوامیہ کے عہد میں علم تفسیر پر کوئی قابل ذکر تصنیف نہیں ملتی۔ در اصل اموی دور میں تفسیری روایات ملتی ہیں تفسیری تصانیف نہیں۔ اگرچہ علم تفسیر کے بانی عبد الله بن عباس ہیں لیکن اس علم نے بڑے اور منظم علم کی صورت بنو عباس کے عہد میں ہی اختیار کی۔

عہد بنوعباس میں علم تفسیر پر باقاعدہ کام کا آغاز ہوا۔ اس دور میں تفسیر کے دو مکتب فکر وجود میں آئے۔ ایک وہ مکتب فکر جو نظریہ رکھتے تھے کہ قرآن کی تشریح تفسیر کے سلسلے میں صرف آیات قرآن، احادیث اور اقوال صحابہ پر ہی اکتفا کیا جائے اور اس سلسلے میں اپنی رائے اور اجتہاد سے مطلق پرہیز کیا جائے۔ اس قسم کی تفسیر کو تفسیر بالماثور کہتے ہیں۔

اس دور میں تفیسر بالماثور کی طرز پو جو تفاسیر لکھی گئیں ہیں ان میں جامع البیان فی تفسیر القرآن، بحر العلوم، معالم التنزیل، تفسیر القرآن العظیم شامل ہیں۔

مسائل کو قرآن و سنت کی روشنیمیں رائے و اجتہاد کے ذریعے حل کیا اور آیات قرآن کی تشریح و تفسیر میں رائے سے کام لیا وہ اصحاب الرائے کہلائے، ان کی تفسیر کو تفسیر بالرائے کا نام دیا گیا۔ بنو عباس کے عہد میں خصوص مامون الرشید کے دور میں یونانی علوم کا بہت رواج ہو گیا، ان علوم کے متعارف ہونے سے فلسفہ اور علم الكلام وجود میں آئے۔ لہذا ان یونانی علوم کی وجہ سے بہت سے سوالات پیدا ہوئے، علماء مجبور تھے کہ ان کا جواب اسلامی نقطہ نظر سے دیا جائے۔ چنانچہ اصحاب الرائے تفسیر قرآن کے ساتھ ساتھ یہ مسائل بھی زیر بحث لائے۔ مثلا فخرالدین رازی کی تفسیر" مفاتح الغيب'' جہاں تفسیر وتشریح کے تقاضے پورے کرتی ہے وہاں اس دور کے فکری اور عقلی رجحانات کی نشاندہی بھی کرتی ہے۔

علم حدیث:

علماء و محدثین نے احادیث کے سلسلے میں یہ بات خاص طور پر پیش نظر رکھی کہ احادیث مستند ہوں، ان کا راوی جھوٹا نہ ہو، روایت کا سلسله اسناد کسی جگہ سے ٹوٹا نہ ہو، سند متصل ہووغیرہ جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ احادیث کی تدوین کے ساتھ ساتھ ایک علم ''اسماء الرجال'' بھی وجود میں آ گیا۔ اس کی بدولت راویوں کی زندگی اور ان کے اخلاق و عادات کی تحقیق ہوئی جس سے احادیث کا ایک محفوظ اور مستند سرمایہ جمع ہو گیا جو اس سے پہلےنہیں تھا۔

عہد عباسیہ میں دوسری صدی ہجری میں جن محدثین نے یہ کام شروع کیا، ان میں سفیان ثوری، مالک بن انس، سفیان بن عیینہ، امام اوزاعی اور عبد اللہ بن مبارک کے اسماء گرامی شامل ہیں۔

علم فقہ:

فقہ شرعی قوانین کے علم کا نام ہے جوان کے تفصیلی دلائل ( قرآن، سنت، اجتماع، قیاس) سے حاصل ہو۔

عہد رسالت میں علم فقہ کو مدون کرنے کی ضرورت نہ بھی کیونکہ ہر معاملے میں راہنمائی کے لیے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات اقدس موجوتھی۔ عہد صحابہ کرام میں صحابہ کرام سماجی یا معاشی مسائل میں حال بیان کر دیتے ہیں لیکن جب تابعین اور تبع تابعین کا عہد آیا تو بہت سی تبدیلیاں بھی آئیں۔ سلطنت اسلامی کی حدود ایشیاء، افریقہ اور یورپ تک وسیع ہوگئیں۔ معاشرے میں عجمی اور رومی تمدن بھی آ گیا۔ جس سے معاشی اور معاشرتی زندگی میں بہت سی تبدیلیاں پیدا ہو گئیں اور نت نئے مسائل پیدا ہوئے۔ معاشرت، تجارت، معاملات اور کئی انتظام سب بہت وسیع اور پیچیدہ شکلیں اختیار کر گئے۔ مفتوحہ ممالک کے مختلف مسائل، جزیہ اور خراج کے معاملات اور اس طرح بہت سے مسائل تھے جو اسلامی احکام کے منتظر تھے، لہذا اس دور کی ایک بڑی ضرورت فقہ کی تدوین تھی، چنانچہ خلافت عباسیہ میں فقہ کی تدوین کا کام شروع ہوا۔ اس عہد میں سب سے پہلے فقہ پر کام کرنے والے امام اعظم نعمان بن ثابت ابوحنیفہ ہیں۔ فقہ کے سلسلے میں چار بڑے نام امام مالک، امام ابوحنیفہ، امام شافعی، اور امام احمد بن حنبل کے ہیں ۔

ان ائمہ اربعہ نے عہد عباسیہ میں ضروریات کے لحاظ سے فقہ اسلامی مدون کیا۔ انہوں نے فقہی مسائل کی تدوین اور مسائل کے استنباط میں محنت کی اس کے نتیجے میں فقہ اسلامی مدون ہوئی۔ اس عہد میں اہل سنت کے فقہاء کے دو بڑے گروہ بھی وجود میں آئے۔ اہل عراق نے کثرت کے ساتھ قیاس سے کام لیا جس میں انہیں بصیرت و مہارت حاصل تھی، اس لئے انہیں ''اہل الرائے'' کہا جاتا تھا۔ اہل الرائے کی وہ جماعت جس نے ایک مستقل فقہی مذہب کے طور پر نشوونما پائی اور پھر ایک باقاعدہ فقہی مذہب رواج پذیر ہوا، اس کے پیشوا امام ابوحنیفہ تھے۔ دوسرا گروہ اہل الحدیث کے نام سے معروف تھا اور اس طریق فقہ کے رہنما امام مالک بن انس تھے

ان آئمہ اربعہ نے فقہ کی ایسی بنیادیں قائم کیں اور ایسے اصول مرتب کردیئے جن سے بعد میں پیش آنے والے مسائل اور مشکلات حل کرنے میں مدد لی جاتی رہی اور رہے گی۔

علم الکلام:

علم الکلام سے مراد وہ علم ہے جس میں عقلی دلائل سے عقائد پر حجت قائم کی جاتی ہے۔ یہ وہ علم ہے جس کا وجود عہد رسالت اور عہد صحابہ میں نہیں پایا جاتا تھا۔ قرون اولی میں ساری توجہ دعوت اسلام، فتح و جہاد، اور زندگی کے عملی مسائل اور مفید علوم کے حصول کی طرف تھی۔ اس علم کا آغاز بنوامیہ کے عہد میں ہوا مگر اس کوترقی عہد بنوعباس میں ملی۔ اس علم الکلام کے پیشرو امام ابو الحسن اشعری تھے جن کا عہد تیسری ہجری ہے۔ آپ علم کلام کے مشہور مسلک اشعریہ کے بانی ہیں۔

علم التاریخ:

عربی زبان میں علمی تاریخ نویسی کی ابتداء آنحضرت صلى الله عليه وسلم کی سیرت کے مطالعے سے ہوئی، اسی لئے یہ تاریخ احادیث میں ملتی ہے خصوصا ان حادیث میں جن کا تعلق آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے غزوات سے تھا بعد میں غزوات اور سرایا کی تفصیل کے لئے علم مغازی کی ابتداء ہوئی اور یہ علم بعد میں تاریخ نگاری کا ابتدائی زمین ثابت ہوا۔ اسلامی تاریخ کی تدوین کا کام بھی عہد بنو عباس میں شروع ہوا۔ عہد عباسیہ کے سب سے پہلے مؤرخ محمد بن اسحاق تھے۔ جن کا زمانہ دوسری صدی ہجری کا ہے۔ محمد بن اسحاق نے تاریخ میں سب سے پہلی کتاب ''السیرۃ والمبتداء و المغازی'' لکھی جس کی جامعیت، تفصیل اور معلومات کی فراوانی کی بنا پر اکثر اہل علم نے اسے قدرومنزلت کی نگاہ سے دیکھا ہے۔

دوسری صدی ہجری میں محمد بن عمر واقدی نے اس فن پر ''کتاب المغازی'' تحریر کی۔ واقدی نے اپنی کتاب میں واقعات کی تاریخیں متعین کرنے کا التزام کیا ہے۔ مغازی کے سلسلے میں واقدی مقامات غزوات کا خود جا کر مطالعہ کرتے تھے اور پھر اسے لکھتے۔

واقدی کے تلامذہ میں محمد بن سعد کانام قابل ذکر ہے۔ جنہیں سیرت و مغازی کے فن میں مہارت حاصل تھی۔
 
Top