خلافت عثمانیہ کا جامع تعارف

فاطمہ طاہرہ

وفقہ اللہ
رکن
سلطنت عثمانیہ عالم اسلام کی سب سے عظیم اور طویل ترین سلطنت تھی۔ اس نے ساڑھے چھ سو سال تک دنیا میں حکمرانی کی۔ اس سلطنت کی حکومت تین براعظموں یورپ، ایشیا اور افریقہ پر محیط تھی۔ یہ عالم اسلام کی واحد سلطنت تھی جس نے براعظم یورپ میں عظیم ترین فتوحات کیں اور آج بھی یورپ میں مسلمانوں کی آبادیاں اسی سلطنت کی نیک یادوںمیں سے ایک ہیں جن میں البانیہ، مقدونیہ، کوسوو اور بوسنیا بہت اہم ہیں۔

اس سلطنت کا دور 621 ہجری بمطابق 1223 عیسوی تا 1342 ہجری بمطابق 1924 عیسوی ہے۔ اس خاندان کو ہم چار ادوار میں تقسیم کرتے ہیں۔

ابتدائی دور: یہ دور ارطغرل سے شروع ہو کر مراد اول تک چلتا ہے۔ جس میں یہ حکمران کہلاتے تھے لیکن کوئی خاص لقب اختیار نہیں کیا تھا۔

سلطانی دور: اس دور میں بایزید اول نے سلطان کا لقب اختیا کیا اور پانچ اہم حکمران اس دورمیں گزرے جو محمد اول، مراد دوم، محمد فاتح اور بایزید دوم ہیں۔

خلافت عثمانیہ کا آغاز: اس دور میں خلافت اسلامیہ وقت عباسی خاندان کے پاس تھی، سلطنت عثمانیہ کے فرمانروا سلیم اول کو منتقل ہو گئی اور اس طرح یہ حکومت سلطنت عثمانیہ سے خلافت عثمانیہ میں تبدیل ہو گئی اور اس دور کے دو اہم حکمران سلیم اول اور سلیمان اعظم ہیں

زوال کا دور: چوتھے دور میں یہ حکومت زوال کا شکار رہی اور یہ دور سلیم ثانی سے شروع ہو کر آخری خلیفہ عبد المجید ثانی تک رہی اور یہ دور 974 ہجری بمطابق 1566 عیسوی تا 1342 ہجری بمطابق 1924 عیسوی تک محیط ہے، اس دور میں کل سینتیس حکمران ہوئے۔

ابتدائی دور:

جس زمانے میں برصغیر کے علاقے میں غیاث الدین بلبن اور علاؤالدین خلجی حکومت کر رہے تھے اس زمانے میں ایشائے کوچک میں جسے اناطولیہ اور ترکی بھی کہا جاتا ہے ایک عظیم الشان سلطنت کی بنیادیں مضبوط ہو رہی تھیں۔ یہ آل عثمان کی سلطنت تھی جسے سلطنت عثمانیہ اور دولت عثمانیہ بھی کہتے ہیں کیونکہ اس کے بانی کا نام عثمان خان تھا۔ یہ سلطنت اپنے عروج کے زمانے میں وسعت میں عربوں کی سلطنت کا مقابلہ کیا کرتی تھی اور پائیدار اور استحکام کے لحاظ سے اسلامی تاریخ کی سب سے مستحکم اور پائیدار حکومت ثابت ہوئی۔

عثمانی نسلا ترک تھے ان کی حکومت قائم ہوتے کا قصہ بڑا دلچسپ ہے جب ہلاکو خان کے زمانے میں بغداد پر منگولوں نے قبض کر لیا تو چند سال بعد ان کی ایک فوج ایشیائے کوچک پر قبض کرتی ہوئی شہر انقرہ کے قریب پہنچ گئی۔ یہاں قونیہ کے سلیوقی سلطان نے ان کا مقابلہ کیا۔ اس وقت جب کہ دونوں میں لڑائی ہو رہی تھی خانہ بدوش ترکوں کی ایک جماعت جس کا سردار ارطغرل تھا یہاں سے گزرا۔ ارطغرل نے دیکھا کہ ایک فوج تعداد میں زیادہ اور دوسری کم۔ ارطغرل کے پاس صرف 400 کے قریب سوار تھے، لیکن وہ کمزور فوج کی مدد کے لیے بڑھا اور اس زور سے حملہ کیا کہ طاقتور فوج کو شکست ہوگئی اور وہ بھاگ کھڑی ہوئی۔ یہ طاقتور فوج منگولوں کی تھی اور تعداد کمزور فوج سلجوقیوں کی تھی۔

اس دور کے اہم حکمرانوں کا تذکرہ ذیل میں بیان کیا جاتا ہے۔

  • عثمان خان:
1299ء میں بازنطینی سلطنت کا شہر بلیچک عثمان اول کے ہاتھوں فتح ہوا اور یہ 1300ء اور 1310ء کی دہائی میں عثمانی ترکوں کے ہاتھوں فتح ہونے والے کئی شہروں اور قصبوں میں سے ایک تھا۔ عثمان نے قریبی ترک امارات اور قبیلوں کے خلاف بھی فتوحات حاصل کیں اور انہیں اپنی ریاست میں شامل کر لیا۔ 1310ء کی دہائی کے اواخر میں عثمان اول نے اہم بازنطینی قلعوں کا محاصرہ کیا۔ ان میں ینی شہر فتح ہوا اسے اناطولیہ میں بازنطینیوں کے بڑے شہروں بروصہ اور نیسیا (ازنک) پر فتوحات کی بنیاد سمجھا جاتا ہے۔ بروصہ 1326ء میں عثمان کے انتقال سے کچھ عرصہ قبل فتح ہوا۔

  • اورخان اول:
عثمان کے بیٹے اورخان اول نے 1331ء میں نیسیا اور 1337ء میں نکومیڈیا پر قبضہ کیا اور بروصہ کو دار الحکومت قرار دیا۔ اورخان کے دور حکومت میں عثمانی سلطنت ایک منظم ریاست کی صورت میں ابھرا جس میں جدید کرنسی، نظام حکومت اور نئی منظم فوج شامل تھی۔ اورخان کے دور حکومت میں عثمانی پہلی مرتبہ یورپ میں داخل ہوئے اور انہوں نے درہ دانیال کے کنارے پر واقع گیلی پولی کا شہر فتح کیا۔ اورخان کا انتقال 1360ء میں ہوا اور اس نے اپنے جانشیں اور بیٹے مراد اول کے لیے ایک ابھرتی ہوئی سلطنت چھوڑی۔

  • مراد اول:
1360ء کی دہائی میں عثمانیوں نے گیلی پولی سے آگے تھریس کی جانب قدم بڑھائے اور ادرنہ (ایڈریانوپل) اور فلپوپولس (پلوفڈف) کو فتح کر لیا اور بازنطینیوں کو خراج دینے پر مجبور کیا۔ ان کے دور حکومت میں مسیحیوں نے متحد ہوکر عثمانیوں کے خلاف صلیبی جنگ لڑی تاہم مراد کو شکست نہ دے سکے۔ انہی کے دور حکومت میں بلغاریہ فتح ہوا۔ 1383ء میں مراد نے خود کو عثمانی سلطنت کا سلطان قرار دیا۔ 1385ء میں صوفیہ اور اگلے سال نیس فتح ہوا۔ 1387ء میں سربوں نے عثمانی فتوحات کو روکا لیکن دو سال بعد جنگ کوسوو میں عثمانیوں نے عظیم فتح حاصل کی لیکن اس جنگ میں سلطان مراد شہید ہو گیا۔

  • بایزید اول:
سلطان مراد کا ہونہار بیٹا بایزید تخت پر بیٹھا جو دوران جنگ اپنی تیزی کے باعث یلدرم یعنی بجلی کہلاتا تھا۔ بایزید نے اپنے دور حکومت میں بلغاریہ کا بیشتر حصہ اور شمالی یونان فتح کیا اور 1391ء تا 1398ء قسطنطنیہ کا محاصرہ کیا۔ 25 ستمبر 1396ء کو اس نے جنگ نکوپولس میں مسیحیوں کی مشترکہ فوج کو زبردست شکست دی۔ اس نے 1397ء میں سلطنت کے مشرقی حصے میں کرہ مان کی امارت کو فتح کیا۔ 1400ء میں تیمور لنگ مشرق وسطی میں داخل ہوا اور اس نے مشرقی اناطولیہ پر حملہ کر دیا۔ جولائی 1402ء میں انقرہ کے قریب بایزید اور امیر تیمور کا ٹکراؤ ہوا جس میں تیمور کو فتح حاصل ہوئی اور بایزید گرفتار ہوا۔ اس کا دوران قید 1403ء میں انتقال ہوا۔

زمانہ تعطل:

5 جولائی 1413 تا 20جولائی1402 عیسوی تک، اس وقفے کے دوران میں کوئی سلطان تخت پر نہیں بیٹھا کیونکہ اس وقفے کے دوران میں عثمانی شہزادوں کے درمیان میں تخت و تاج کے لیے آپس میں جنگیں ہو رہی تھیں لیکن دو یا تین شہزادے تخت پر ضرور بیٹھے تھے۔

سلطنت عثمانیہ کا عروج:

5 جولائی 1413ءتا 29 مئی 1453ء سلطنت عثمانیہ کا وقت عروج ہے۔ اس میں درج ذیل سلاطین شامل ہیں۔

  • محمد اول:
محمد اول 1413ء میں ادرنہ میں تخت نشین ہوا۔ اس کا مقصد سلطنت کو اس کی ماضی کی عظمتیں لوٹانا تھا۔ اپنے 8 سالہ دور حکومت میں محمد نے زبردست کارنامے انجام دیے۔ دار الحکومت کو بروصہ سے ادرنہ منتقل کیا، بلغاریہ اور سربیا پر قبضے کو مضبوط کیا، منگولوں کو اناطولیہ سے نکال باہر کیا اور البانیہ، سلیسیہ، ترک امارتوں اور جنوبی یونان پر حملے کیے۔ 1421ء میں وفات کے بعد اس کا بیٹا مراد دوم تخت پر بیٹھا۔

  • مراد دوم:
مراد دوم کا دور حکومت بلقان اور اناطولیہ میں زبردست جنگوں کا دور تھا جس میں انہوں نے شاندار فتوحات حاصل کیں۔ انہوں نے اپنے والد محمد اول کی وفات پر محض 18 سالہ کی عمر میں تخت سنبھالا۔ ان کو سب سے پہلے بغاوتوں کا سامنا رہا تاہم وہ انہیں فرو کرنے میں کامیاب رہے۔ انہوں نے 1421ء میں قسطنطنیہ کا محاصرہ کیا لیکن اپنے بھائی مصطفی کی جانب سے بروصہ پر حملے کی وجہ سے انہیں یہ محاصرہ اٹھانا پڑا اور انہوں نے بروصہ پہنچ کر مصطفی کو شکست دی اور اسے قتل کر دیا۔

مصطفی کو بغاوت پر آمادہ کرنے والی اناطولیہ میں پھیلی ترک ریاستوں کو ان کے کیے کی سزا ملی اور مراد دوم نے سب کو شکست دے کر سلطنت میں شامل کر لیا۔ مراد نے بلقان میں وسیع علاقہ سلطنت میں شامل کیا اور 1439ء میں سربیا فتح کیا۔ 1441ء میں مقدس رومی سلطنت، پولینڈ اور البانیہ نے ان کے خلاف اتحاد قائم کرتے ہوئے صلیبی جنگ کا اعلان کر دیا۔ 1444ء میں جنگ وارنا میں انہوں نے یوناس ہونیاڈے کو شکست دی لیکن جنگ جلاووز میں انہیں شکست ہوئی اور دونوں کے درمیان معاہدہ ہو گیا۔ اس معاہدے کے بعد مراد دوم اپنے صاحبزادے محمد دوم کے حق میں تخت سے دستبردار ہو گئے لیکن محمد کی نو عمری کا فائدہ اٹھاتے ہوئے مسیحیوں نے معاہدہ توڑ دیا جس پر 1446ء میں مراد نے دوبارہ مسند اقتدار سنبھالی اور دوسری جنگ کوسوو میں مسیحی اتحاد کو کچل کر رکھ دیا۔ بلقان میں مسیحیوں کو عظیم شکست دینے کے بعد انہوں نے مشرق کا رخ کیا اور امیر تیمور کے بیٹے شاہ رخ تیموری کو شکست دی اور امارت کره مان کو اپنی قلمرو میں شامل کیا۔ 1450ء کے موسم سرما میں وہ بیمار پڑ گئے اور ادرنہ میں وفات پائی۔ محمد دوم (المعروف سلطان محمد فاتح) نے ان کی جگہ تخت سنبھالا۔

  • محمد دوم:
مراد کے بعد اس کا لڑکا محمد فاتح تخت نشین ہوا۔ سلطان کی حیثیت سے محمد ثانی کا پہلا ہدف قسطنطنیہ کو فتح کرنا تھا اور 15 اپریل 1452ء کو انہوں نے قسطنطنیہ کا محاصرہ کرنے کے احکامات جاری کیے۔ 1453ء میں انہوں نے محاصرہ قسطنطنیہ میں کامیابی حاصل کرکے بازنطینی سلطنت کا ہمیشہ کے لیے خاتمہ کر دیا۔ قسطنطنیہ کی فتح نے سلطنت عثمانیہ کو ایک دنیا بھر میں شاندار عظمت اورعزت عطا کی اور عثمانی پہلی بار ایک بھرپور قوت کے طور پر ابھرے۔ فتح قسطنطنیہ کے بعد محمد ثانی نے اپنے لیے قیصر روم کا خطاب چنا جبکہ دنیا آج تک انہیں محمد فاتح کے نام سے جانتی ہے۔ انہوں نے اناطولیہ اور یورپ میں بھی فتوحات حاصل کیں اور بلقان کو سلطنت عثمانیہ میں شامل کیا۔ ان کی فوج نے اٹلی پر بھی حملے کیے جن میں اوٹرانٹو فتح ہوا۔ تاہم یہ قبضہ محمد کے انتقال کے باعث صرف ایک سال جاری رہا۔ محمد کو محاصرہ بلغراد میں شکست ہوئی۔ 3 مئی 1481ء کو ان کا انتقال ہوا۔

  • بایزید ثانی:
سلطنت عثمانیہ کے آٹھویں حکمران، جو اپنے والد محمد فاتح کے انتقال کے بعد تخت پر بیٹھے۔ انہوں نے 1481ء سے 1512ء تک حکومت کی۔ ہرزیگووینا عثمانی سلطنت کی باجگذار ریاست تھی جس نے محمد فاتح کے دور میں باجگذاری اختیار کی لیکن بایزید نے اسے مکمل فتح کر کے سلطنت عثمانیہ کا حصہ بنایا۔ ہنگری اور سلطنت عثمانیہ کے خلاف جھڑپوں کا سلسلہ جاری رہا لیکن فتح کی نوبت نہ آ سکی اور بالآخر صلح ہو گئی۔ بایزید کے دور میں بحری معرکے بھی ہوئے اور 1498ء میں وینس سے ہونے والی جنگ میں ترکوں نے تین قلعے فتح کیے۔ اسی دور میں روس کا سفیر پہلی بار قسطنطنیہ آیا لیکن غرور و تکبر کا جو سبق اسے زار روس نے پڑھا کر بھیجا تھا اس پر عمل پیرا ہونے کی وجہ سے یہ سفارت ناکام ہو گئی۔ بایزید کے دور میں ہی ترکی اور مصر کی دشمنی کا آغاز ہوا۔ جبکہ مشرقی سمت ایران میں صفوی حکومت کے قیام کے ساتھ ہی سلطنت عثمانیہ کا ایک نیا حریف پیدا ہو گیا۔

  • سلیم اول:
سلیم اول المعروف سلیم یاووز 1512ء سے 1520ء تک سلطنت عثمانیہ کے سلطان تھے۔ سلیم کے دور میں ہی خلافت عباسی خاندان سے عثمانی خاندان میں منتقل ہوئی اور مکہ و مدینہ کے مقدس شہر عثمانی سلطنت کا حصہ بنے۔ اس کی سخت طبیعت کے باعث ترک اسے "یاووز" یعنی "درشت" کہتے ہیں۔

  • سلیمان اول:
سلیمان اول سلطنت عثمانیہ کے دسویں فرمانروا تھے جنہوں نے 1520ء سے 1566ء تک 46 سال تک حکمرانی کے فرائض انجام دیے۔ وہ بلاشبہ سلطنت عثمانیہ کے سب سے عظیم حکمران تھے جنہوں نے اپنے بے مثل عدل و انصاف اور لاجواب انتظام کی بدولت پوری مملکت اسلامیہ کو خوشحالی اور ترقی کی شاہراہ پر گامزن کر دیا۔ انہوں نے مملکت کے لیے قانون سازی کا جو خصوصی اہتمام کیا اس کی بنا پر ترک انہیں سلیمان قانونی کے لقب سے یاد کرتے ہیں جبکہ مغرب ان کی عظمت کا اس قدر معترف ہے کہ مغربی مصنفین انہیں سلیمان ذیشان یا سلیمان عالیشان اور سلیمان اعظم کہہ کر پکارتے ہیں۔ ان کی حکومت میں سرزمین حجاز، ترکی، مصر، الجزائر، عراق، کردستان، یمن، شام، بیت المقدس، خلیج فارس اور بحیرہ روم کے ساحلی علاقے، یونان اور مشرقی و مغربی ہنگری شامل تھے۔

  • سلیم ثانی:
سلیم ثانی سلطان سلیمان اول قانونی اور خرم سلطان کا بیٹا جو 1566ء سے 1574ء تک سلطنت عثمانیہ کے تخت پر بیٹھا۔ تھا۔ اس کے دور میں تمام تر ریاستی انتظامات صدر اعظم محمد صوقوللی پاشا نے سنبھالے۔

دور تنزلی کا آغاز:

  • مراد ثالث:
مراد ثالث 1574ء سے اپنی وفات تک سلطنت عثمانیہ کا حکمران رہا۔ مراد ثالث ایک کمزور، عیش پرست و جاہ پسند حکمران تھا جو حرم کے زیر اثر تھا جہاں پہلے اس کی والدہ نور بانو سلطان اور پھر اس کی پسندیدہ بیوی صفیہ سلطان کا زور چلتا تھا۔ اس کے دور میں امور سلطنت چلانے میں اہم کردار معروف عثمانی صدر اعظم محمد صوقوللی پاشا کے ہاتھوں میں تھا جو اکتوبر 1579ء میں اپنے قتل تک اس عہدے پر فائز رہے اور عثمانی سلاطین کی کمزوری کا اثر سلطنت پر نہ پڑنے دیا۔ مراد ثالث کے دور میں ایران اور آسٹریا کے ساتھ کئی جنگیں لڑی گئیں۔ اس کا دور عثمانی معیشت اور اداروں کی تنزلی کا دورِ آغاز تھا۔

  • محمد ثالث:
سلطنت عثمانیہ میں تخت سنبھالنے کے ساتھ ہی "قتل برادران" کی قبیح رسم کا آغاز سلطان محمد فاتح کے دور میں ہوا اور آہستہ آہستہ یہ رسم زور پکڑتی گئی۔ اس کی بنیادی وجہ نئے سلطان کے لیے بغاوت کے خطرات کو کم کرنا تھا لیکن محمد ثالث کا تخت سنبھالنا برادر کشی کے اس سلسلے میں ایک سیاہ باب کا اضافہ تھا اور 19 بھائیوں کا قتل محمد ثالث کو عثمانی تاریخ میں ناپسندیدہ کرداروں میں شامل کرنے کے لیے کافی تھا۔

جنگ میں عثمانیوں کی شکست کے باعث سلطان کو افواج کی قیادت خود سنبھالنی پڑی اور وہ سلیمان اول کے بعد میدان جنگ میں اُترنے والا پہلا عثمانی حکمران تھا۔ اس کی افواج نے 1596ء میں اگری فتح کیا اور جنگ کرسزتس میں ہیبسبرگ اور ٹرانسلوانیا کی افواج کو شکست دی۔

  • احمد اول:
احمد اول نے صرف 13 سال کی عمر میں رجب 1012ھ/12 دسمبر 1603ء کو اپنے والد محمد ثالث کی جگہ تخت سنبھالا۔ اس کے دور حکومت میں ہنگری اور ایران میں لڑی جانے والی تمام جنگوں کے نتائج سلطنت کے حق میں نہ نکلے اور 1606ء میں معاہدۂ ستواتورک کے نتیجے میں سلطنت کی ساکھ کو شدید نقصان پہنچا جس کے نتیجے میں آسٹریا کی جانب سے دیا جانے والا خراج ختم کر دیا گیا اور گرجستان اور آذربائیجان ایران کے حوالے کر دیے گئے۔ آج احمد اول کو استنبول میں واقع سلطان احمد مسجد کے باعث یاد کیا جاتا ہے جو نیلی مسجد بھی کہلاتی ہے۔ یہ مسجد اسلامی و عثمانی طرز تعمیر کا ایک عظیم شاہکار ہے اور جب تک اسلامی فن تعمیر کا یہ حسین نمونہ قائم رہے گا احمد اول کا نام زندہ رہے گا۔

  • مصطفیٰ اول:
صطفیٰ اول، پورا نام مصطفیٰ اول ابن محمد ثالث ابن مراد ثالث۔ خلافت عثمانیہ کا پندرہواں حکمران۔ سلطان احمد اول نے اپنی وفات کے وقت 7 (سات) لڑکے چھوڑے جن میں سے 3 (تین) تخت نشین ہوئے لیکن مصطفیٰ اول کو سلطان احمد اپنا جانشین کرگیا تھا۔ اب تک 14 (چودہ) پشتوں سے خلافت عثمانیہ کی وراثت باپ سے بیٹے کو منتقل ہوتی تھی۔

یہ پہلا اتفاق تھا کہ بیٹے کی بجائے بھائی وراث تخت ہوا۔ مصطفیٰ اول کی عمر زیادہ تر حرم میں گزری تھی، اس وجہ سے ضعیف العقل اور امور سلطنت سے بے خبر تھا۔ مصطفیٰ کی نااہلیت کے واضح ہو جانے کے بعد امراءسلطنت نے یہ حال دیکھ کر اس کو تین ماہ بعد 16 فروری 1618ء کو تخت سے اتار کر سلطان احمد کے 14 سالہ بڑے بیٹے عثمان خان کو تخت پر بٹھا دیا۔

  • عثمان ثانی:
عثمان دوم 1618ء سے لے کر اپنی وفات تک خلافت عثمانیہ کی باگ ڈور سنبھالنے والا سلطان تھا۔

  • مراد رابع:
مراد رابع کو مراد چہارم کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔ مراد اربع 1623ء سے 1640ء تک خلافت عثمانیہ کی باگ ڈور سنبھالنے والا سلطان تھا۔ سلطان مراد رابع نے تمام عمر باغیوں کی سرکوبی میں صرف کی ایک دن بھی آرام سے نہیں بیٹھا، ینی چری کی شرکسی کو فرو کرنے میں کامیاب ہوا۔

  • ابراہیم اول:
ابراہیم اول 1640ء سے 1648ء تک خلافت عثمانیہ کا تخت نشین رہا۔

  • محمد رابع:
محمد رابع 1648ء سے 1687ء تک خلافت عثمانیہ کا سلطان رہا۔ وہ 2 جنوری 1642ء کو توپ کاپی محل استنبول ترکی میں پیدا ہوئے اور 6 جنوری 1693ء کو ادرنہ کے مقام پر وفات پائی۔

  • سلیمان ثانی:
سلیمان ثانی 1687ء سے 1691ء تک خلافت عثمانیہ کا سلطان رہا۔ اس کے عہد میں زیادہ تر اختیارات صدراعظم احمد فاضل کوپریلی کے ہاتھ میں رہے۔ 1691ء میں ادرنہ محل میں انتقال کر گیا۔

  • احمد ثانی:
احمد ثانی 1691ء سے 1695ء تک سلطنت عثمانیہ کے فرمانروا تھے۔ احمد کے سلطان بننے کے چند ہفتوں بعد ہی سلطنت عثمانیہ کو لوئس ولیم کی زیر قیادت آسٹریا کے ہاتھوں جنگ سلانکامن میں بدترین شکست سے دوچار ہونا پڑا اور یوں عثمانی ہنگری سے نکال باہر کر دیے گئے۔ چار سالہ دور حکومت میں شکست در شکست کے بعد احمد ثانی غم و اندوہ اور بیماریوں کا شکار ہو کر چل بسا۔

  • مصطفیٰ ثانی:
مصطفیٰ ثانی 1695ء سے 1703ء میں اپنے انتقال تک سلطنت عثمانیہ کے تخت پر متمکن رہا۔ اس کے دور اقتدار کا سب سے افسوسناک واقعہ معاہدہ کارلوفچہ تھا جسے سلطنت عثمانیہ کے زوال کا نقطہ آغاز سمجھا جاتا ہے۔ اس معاہدے کے نتیجے میں ہنگری سلطنت کے دائرہ اختیار سے نکل گیا۔

  • احمد ثالث:
احمد سوم1703 سے 1730 تک خلافت عثمانیہ کی باگ ڈور سنبھالنے والے سلطان تھے۔ وہ 30 یا 31 دسمبر 1673ء کو بلغاریہ کے ایک قصبے دو بریچ میں پیدا ہوئے اور یکم جولائی 1736ء کو وفات پائی۔

  • محمود اول:
محمود اول 1648ء سے 1687ء تک خلافت عثمانیہ کی باگ ڈور سنبھالنے والا سلطان تھا۔ وہ 2 اگست 1696ء کو ادرنہ محل میں پیدا ہوئے اور 13 دسمبر 1754ء کو توپ کاپی محل کے مقام پر وفات پائی۔

  • عثمان ثالث:
عثمان ثالث نے 1754ء سے 1757ء تک حکومت کی۔ سلطان عثمان ثالث نے سب سے پہلے سلطان احمد ثالث کے تینوں بیٹوں کو قتل کروادیا تاکہ بغاوت کا اندیشہ نہ رہے۔ اس نے انتہائی مختصر عرصے کی حکومت کی۔ اس عرصے میں وہ سلطان محمود اول کے سیاسی اصولوں کا پابند رہا۔

  • مصطفی ثالث:
مصطفی ثالث 1757ء سے 1774ء تک خلافت عثمانیہ کی باگ ڈور سنبھالنے والا سلطان تھا۔

  • عبدالحمید اول:
عبد الحمید اول (20 مارچ 1725ء – 7 اپریل 1789ء) سلطنت عثمانیہ کے 27 ویں سلطان تھے۔ ان کی حکومت کے آغاز کے اگلے ہی سال سلطنت عثمانیہ کو جنگ کولویا میں بدترین شکست کا سامنا کرنا پڑا جس کے باعث اسے 1774ء میں ذلت آمیز معاہدہ کوچک کناری پر دستخط کرنا پڑے جو اس کے زوال کے آغاز کی واضح دلیل تھی۔

  • سلیم ثالث:
سلطنت عثمانیہ کے زوال کو روکنے اور اس کو ترقی کی راہ پر ڈالنے کے لیے جن عثمانی سلاطین نے قابل قدر کوششیں کی ان میں سلطان سلیم ثالث (1789ء تا 1807ء) کا نام سرفہرست ہے۔ سلطان سلیم میسور کے ٹیپو سلطان کا ہمعصر تھا۔

  • مصطفی رابع:
مصطفی رابع 1807ء سے 1808ء تک خلافت عثمانیہ کی باگ ڈور سنبھالنے والا سلطان تھا۔ وہ 8 ستمبر 1779ء کو استنبول میں پیدا ہوئے اور 15 یا 16 نومبر 1808ء کو انہیں محمود کے حکم پر قتل کر دیا گیا۔

  • محمود ثانی:
محمود ثانی 30 ویں عثمانی سلطان تھے۔

محمود سلطان عبدالحمید اول کا بیٹا تھا۔ بے امنی، سرکشی اور بغاوتوں سے اس کے دور کا آغاز ہوا۔ مصر میں مقامی مملوک سردار بے لگام ہو چکے تھے اور عرب میں نجد کے سعودی خاندان کو عروج حاصل ہوا اور سعودی افواج نے حجاز پر قبضہ کرکے عراق اور شام تک چھاپے مارنے شروع کردیے تھے۔ یونان نے بھی اپنی آزادی کا اعلان کر دیا۔

محمود نے 18 سال کے اندر تمام بغاوتوں کا خاتمہ کر دیا۔ مصر کے والی محمد علی نے مصر و شام میں امن قائم کر دیا۔ حجاز کو سعودی افواج سے واپس لے لیا اور 1826ء میں یونان کی بغاوت بھی فرو کردی گئی۔ اسی سال ینی چری کا بھی خاتمہ کر دیا گیا جس کے سردار اور سپاہی سلطنت کے لیے ایک مصیبت بن گئے تھے۔

محمود نے اب ان کی جگہ جدید طرز کی ایک نئی فوج تیار کی جس کی وردی یورپی طرز کی تھی اور پگڑی کی بجائے ترکی ٹوپی پہنتی تھی۔ سلطان نے بکتاشی اور درویشوں کا بھی خاتمہ کر دیا جو اصلاحات کی راہ میں بہت بڑی رکاوٹ تھے۔ اس کے علاوہ محمود نے جاگیرداری نظام پر بھی پابندیاں لگائیں اور یہ حکم جاری کیا کہ کوئی شخص مقدمے کے بغیر قتل نہ کیا جائے۔

سلیمان قانونی کے زمانے سے یہ قاعدہ ہو گیا تھا کہ سلاطین نے دربار میں آنا چھوڑ دیا تھا جہاں ساری کارروائی وزیر اعظم کی صدارت میں ہوتی تھی۔ محمود نے اس دستور کو توڑا اور پابندی سے دیوان میں آنا شروع کیا۔ ان اصلاحات کے بعد توقع تھی کہ سلطنت ترقی کی راہ پر گامزن ہوجاتی لیکن مغربی قوتیں خصوصاً روس یہ نہیں چاہتا تھا کہ سلطنت عثمانی پھر ایک بڑی طاقت بن جائے۔ چنانچہ انہوں نے سلطنت عثمانیہ کے معاملات میں مداخلت شروع کردی اور سلطنت سے جنگ چھیڑ دی۔

20 اکتوبر 1827ء کو یونان میں نوارینو کے مقام پر روس، انگلستان اور فرانس کے متحدہ بحری بیڑے نے حملہ کرکے عثمانی بیڑے کو بالکل تباہ کر دیا۔ روسی فوجیں بلقان کی طرف بڑھتی ہوئی 1829ء میں ادرنہ تک پہنچ گئیں،سلطان کو روس سے پھر صلح کرنی پڑی۔ روسی دباؤ کے تحت میں یونان کو آزادی دے دی گئی۔ روسی افواج نے مفتوحہ علاقے واپس کردیے لیکن دریائے ڈینیوب کے دہانے اور دریا کے شمال میں واقع رومانیہ کے علاقے پر قابض ہو گیا۔ ادھر سے اطمینان ہوا تو 1830ء میں فرانس الجزائر پر قابض ہو گیا۔ 1831ء میں مصر کے والی محمد علی پاشا نے بغاوت کردی اور اس کی فوجیں ابراہیم پاشا کی قیادت میں شام کو فتح کرتی ہوئی ترکی کے قلب میں کوتاہیہ تک پہنچ گئیں اور یہ معلوم ہوتا تھا کہ اب ان کا جلد ہی استنبول پر بھی قبضہ ہو جائے گا۔ ان حالات میں محمود ثانی کا انتقال ہو گیا۔

  • عبد المجید اول:
سلطنت عثمانیہ کے 31 ویں سلطان تھے جنہوں نے 2 جولائی 1839ء کو اپنے والد محمود ثانی کی جگہ تخت سلطانی سنبھالا۔ ان کا دور حکمرانی قوم پرستوں کی تحریکوں کے آغاز کا زمانہ تھا۔

  • عبد العزیز اول:
سلطنت عثمانیہ کے 32 ویں سلطان تھے جنہوں نے 25 جون 1861ء سے 30 مئی 1876ء تک عنان اقتدار سنبھالی۔ وہ سلطان محمود ثانی کے صاحبزادے تھے اور 1861ء میں اپنے بھائی عبد المجید اول کے بعد تخت سلطانی پر براجمان ہوئے۔ عبد العزیز کا سب سے بڑا کارنامہ عثمانی بحریہ کو جدید خطوط پر استوار کرنا تھا۔ 1875ء میں عثمانی بحریہ میں 21 بحری جنگی جہاز اور 173 دیگر جہاز شامل تھے اس لحاظ سے وہ برطانیہ اور فرانس کی بحری افواج کے بعد دنیا کی تیسری سب سے بڑی بحری فوج تھی۔

  • مراد خامس:
مراد خامس 1757ء سے 1774ء تک خلافت عثمانیہ کی باگ ڈور سنبھالنے والا سلطان تھا۔

  • عبدالحمید ثانی:
31 اگست 1876ء سے 27 اپریل 1909ء تک خلافت عثمانیہ کی باگ ڈور سنبھالنے والے سلطان تھے۔ وہ سلطنت عثمانیہ کے 34ویں فرماں روا تھے۔ زوال کے اس دور میں آپ نے بلقان کی بغاوت، روس کے ساتھ ایک ناکام جنگ لڑی اور 1897 میں یونان کے ساتھ ایک کامیاب جنگ لڑی۔ آپ نے 23 دسمبر 1876 کو پہلے عثمانی آئین کا اعلان کی تاہم، 1878 میں، پارلیمنٹ سے اختلاف رائے کا حوالہ دیتے ہوئے، انہوں نے مختصر مدت کے آئین اور پارلیمنٹ دونوں کو معطل کر دیا۔

  • محمد خامس:
محمد خامس 31 اگست 1876ء سے 27 اپریل 1909ء تک خلافت عثمانیہ کی باگ ڈور سنبھالنے والے سلطان تھے۔ وہ سلطنت عثمانیہ کے 35ویں فرماں روا تھے۔ وہ 2 یا 3 نومبر 1844ء کو توپ کاپی محل استنبول میں پیدا ہوئے اور 73 برس کی عمر میں 3 یا 4 جولائی 1918ء کو فوت ہوئے۔

  • محمد وحید الدین:
سلطنت عثمانیہ کے 36 ویں اور آخری فرمانروا تھے جو اپنے بھائی محمد پنجم کے بعد 1918ء سے 1922ء تک تخت سلطانی پر متمکن رہے۔ انہیں 4 جولائی 1918ء کو سلطنت کے بانی عثمان اول کی تلوار سے نواز کر 36 ویں سلطان کی ذمہ داریاں دی گئی تھیں۔

ان کے دور حکومت کا سب سے اہم اور بڑا واقعہ جنگ عظیم اول تھا جو سلطنت کے لیے تباہ کن ثابت ہوا۔ جنگ میں شکست کے نتیجے میں برطانوی افواج نے بغداد اور فلسطین پر قبضہ کر لیا اور سلطنت کا بیشتر حصہ اتحادی قوتوں کے زیر قبضہ آ گیا۔ اپریل 1920ء کی سان ریمو کانفرنس کے نتیجے میں شام پر فرانس اور فلسطین اور مابین النہرین پر برطانیہ کا اختیار تسلیم کر لیا گیا۔ 10 اگست 1920ء کو سلطان کے نمائندوں نے معاہدۂ سیورے پر دستخط کیے جس کے نتیجے میں اناطولیہ اور ازمیر سلطنت عثمانیہ کے قبضے سے نکل گئے اور ترکی کا حلقۂ اثر مزید سکڑ گیا جبکہ معاہدے کے نتیجے میں انہیں حجاز میں آزاد ریاست کو بھی تسلیم کرنا پڑا۔

ترک قوم پرست سلطان کی جانب سے معاہدے کو تسلیم کرنے کے فیصلے پر سخت ناراض تھے اور انہوں نے 23 اپریل 1920ء کو انقرہ میں مصطفٰی کمال اتاترک کی زیر قیادت ترک ملت مجلس عالی کا اعلان کیا۔ سلطان محمد سادس کو تخت سلطانی سے اتار دیا گیا اور عارضی آئین نافذ کیا گیا۔ قوم پرستوں نے جنگ آزادی میں کامیابی کے بعد یکم نومبر 1922ء کو سلطنت عثمانیہ کے خاتمے کا باضابطہ اعلان کیا اور سلطان کو ناپسندیدہ شخصیت قرار دیتے ہوئے ملک بدر کر دیا گیا جو 17 نومبر کو بذریعہ برطانوی بحری جہاز مالٹا روانہ ہو گئے اور بعد ازاں انہوں نے زندگی کے آخری ایام اطالیہ میں گزارے۔ 19 نومبر 1922ء کو اُن کے قریبی عزیز عبد المجید آفندی (عبد المجید ثانی) کو نیا خلیفہ چنا گیا جو 1924ء میں خلافت کے خاتمے تک یہ ذمہ داری نبھاتے رہے۔ محمد سادس کا انتقال 16 مئی 1926ء کو سان ریمو، اٹلی میں ہوا اور انہیں دمشق کی سلطان سلیم اول مسجد میں سپرد خاک کیا گیا۔

  • عبدالمجید ثانی:
آل عثمان کے اور دنیا بھر میں مسلمانوں کے آخری خلیفہ تھے جنہیں سلطنت عثمانیہ کے خاتمے کے بعد خاندان کا سربراہ منتخب کیا گیا۔ 3 مارچ 1924ء کو ترک جمہوریہ کی جانب سے خلافت کے خاتمے کے اعلان کے ساتھ ہی ان کا عہدۂ خلافت بھی ختم ہو گیا۔ وہ 19 نومبر 1922ء سے 3 مارچ 1924ء تک خلیفۃ المؤمنین رہے۔

یکم نومبر 1922ء کو آخری عثمانی سلطان محمد ششم کو اقتدار سے بے دخل کرنے کے بعد 19 نومبر کو انقرہ میں ترک قومی مجلس نے انہیں نیا خلیفہ بنایا۔ بعد ازاں مارچ 1924ء میں خلافت کے عہدے کے خاتمے کے بعد انہیں بھی اپنے پیشرو کی طرح اہل خانہ کے ہمراہ ملک بدر کر دیا گیا۔
 
Top