سلطنت عثمانیہ عالم اسلام کی سب سے عظیم اور طویل ترین سلطنت تھی۔ اس نے ساڑھے چھ سو سال تک دنیا میں حکمرانی کی۔ اس سلطنت کی حکومت تین براعظموں یورپ، ایشیا اور افریقہ پر محیط تھی۔ یہ عالم اسلام کی واحد سلطنت تھی جس نے براعظم یورپ میں عظیم ترین فتوحات کیں اور آج بھی یورپ میں مسلمانوں کی آبادیاں اسی سلطنت کی نیک یادوںمیں سے ایک ہیں جن میں البانیہ، مقدونیہ، کوسوو اور بوسنیا بہت اہم ہیں۔
اس سلطنت کا دور 621 ہجری بمطابق 1223 عیسوی تا 1342 ہجری بمطابق 1924 عیسوی ہے۔ اس خاندان کو ہم چار ادوار میں تقسیم کرتے ہیں۔
ابتدائی دور: یہ دور ارطغرل سے شروع ہو کر مراد اول تک چلتا ہے۔ جس میں یہ حکمران کہلاتے تھے لیکن کوئی خاص لقب اختیار نہیں کیا تھا۔
سلطانی دور: اس دور میں بایزید اول نے سلطان کا لقب اختیا کیا اور پانچ اہم حکمران اس دورمیں گزرے جو محمد اول، مراد دوم، محمد فاتح اور بایزید دوم ہیں۔
خلافت عثمانیہ کا آغاز: اس دور میں خلافت اسلامیہ وقت عباسی خاندان کے پاس تھی، سلطنت عثمانیہ کے فرمانروا سلیم اول کو منتقل ہو گئی اور اس طرح یہ حکومت سلطنت عثمانیہ سے خلافت عثمانیہ میں تبدیل ہو گئی اور اس دور کے دو اہم حکمران سلیم اول اور سلیمان اعظم ہیں
زوال کا دور: چوتھے دور میں یہ حکومت زوال کا شکار رہی اور یہ دور سلیم ثانی سے شروع ہو کر آخری خلیفہ عبد المجید ثانی تک رہی اور یہ دور 974 ہجری بمطابق 1566 عیسوی تا 1342 ہجری بمطابق 1924 عیسوی تک محیط ہے، اس دور میں کل سینتیس حکمران ہوئے۔
ابتدائی دور:
جس زمانے میں برصغیر کے علاقے میں غیاث الدین بلبن اور علاؤالدین خلجی حکومت کر رہے تھے اس زمانے میں ایشائے کوچک میں جسے اناطولیہ اور ترکی بھی کہا جاتا ہے ایک عظیم الشان سلطنت کی بنیادیں مضبوط ہو رہی تھیں۔ یہ آل عثمان کی سلطنت تھی جسے سلطنت عثمانیہ اور دولت عثمانیہ بھی کہتے ہیں کیونکہ اس کے بانی کا نام عثمان خان تھا۔ یہ سلطنت اپنے عروج کے زمانے میں وسعت میں عربوں کی سلطنت کا مقابلہ کیا کرتی تھی اور پائیدار اور استحکام کے لحاظ سے اسلامی تاریخ کی سب سے مستحکم اور پائیدار حکومت ثابت ہوئی۔
عثمانی نسلا ترک تھے ان کی حکومت قائم ہوتے کا قصہ بڑا دلچسپ ہے جب ہلاکو خان کے زمانے میں بغداد پر منگولوں نے قبض کر لیا تو چند سال بعد ان کی ایک فوج ایشیائے کوچک پر قبض کرتی ہوئی شہر انقرہ کے قریب پہنچ گئی۔ یہاں قونیہ کے سلیوقی سلطان نے ان کا مقابلہ کیا۔ اس وقت جب کہ دونوں میں لڑائی ہو رہی تھی خانہ بدوش ترکوں کی ایک جماعت جس کا سردار ارطغرل تھا یہاں سے گزرا۔ ارطغرل نے دیکھا کہ ایک فوج تعداد میں زیادہ اور دوسری کم۔ ارطغرل کے پاس صرف 400 کے قریب سوار تھے، لیکن وہ کمزور فوج کی مدد کے لیے بڑھا اور اس زور سے حملہ کیا کہ طاقتور فوج کو شکست ہوگئی اور وہ بھاگ کھڑی ہوئی۔ یہ طاقتور فوج منگولوں کی تھی اور تعداد کمزور فوج سلجوقیوں کی تھی۔
اس دور کے اہم حکمرانوں کا تذکرہ ذیل میں بیان کیا جاتا ہے۔
زمانہ تعطل:
5 جولائی 1413 تا 20جولائی1402 عیسوی تک، اس وقفے کے دوران میں کوئی سلطان تخت پر نہیں بیٹھا کیونکہ اس وقفے کے دوران میں عثمانی شہزادوں کے درمیان میں تخت و تاج کے لیے آپس میں جنگیں ہو رہی تھیں لیکن دو یا تین شہزادے تخت پر ضرور بیٹھے تھے۔
سلطنت عثمانیہ کا عروج:
5 جولائی 1413ءتا 29 مئی 1453ء سلطنت عثمانیہ کا وقت عروج ہے۔ اس میں درج ذیل سلاطین شامل ہیں۔
مصطفی کو بغاوت پر آمادہ کرنے والی اناطولیہ میں پھیلی ترک ریاستوں کو ان کے کیے کی سزا ملی اور مراد دوم نے سب کو شکست دے کر سلطنت میں شامل کر لیا۔ مراد نے بلقان میں وسیع علاقہ سلطنت میں شامل کیا اور 1439ء میں سربیا فتح کیا۔ 1441ء میں مقدس رومی سلطنت، پولینڈ اور البانیہ نے ان کے خلاف اتحاد قائم کرتے ہوئے صلیبی جنگ کا اعلان کر دیا۔ 1444ء میں جنگ وارنا میں انہوں نے یوناس ہونیاڈے کو شکست دی لیکن جنگ جلاووز میں انہیں شکست ہوئی اور دونوں کے درمیان معاہدہ ہو گیا۔ اس معاہدے کے بعد مراد دوم اپنے صاحبزادے محمد دوم کے حق میں تخت سے دستبردار ہو گئے لیکن محمد کی نو عمری کا فائدہ اٹھاتے ہوئے مسیحیوں نے معاہدہ توڑ دیا جس پر 1446ء میں مراد نے دوبارہ مسند اقتدار سنبھالی اور دوسری جنگ کوسوو میں مسیحی اتحاد کو کچل کر رکھ دیا۔ بلقان میں مسیحیوں کو عظیم شکست دینے کے بعد انہوں نے مشرق کا رخ کیا اور امیر تیمور کے بیٹے شاہ رخ تیموری کو شکست دی اور امارت کره مان کو اپنی قلمرو میں شامل کیا۔ 1450ء کے موسم سرما میں وہ بیمار پڑ گئے اور ادرنہ میں وفات پائی۔ محمد دوم (المعروف سلطان محمد فاتح) نے ان کی جگہ تخت سنبھالا۔
دور تنزلی کا آغاز:
جنگ میں عثمانیوں کی شکست کے باعث سلطان کو افواج کی قیادت خود سنبھالنی پڑی اور وہ سلیمان اول کے بعد میدان جنگ میں اُترنے والا پہلا عثمانی حکمران تھا۔ اس کی افواج نے 1596ء میں اگری فتح کیا اور جنگ کرسزتس میں ہیبسبرگ اور ٹرانسلوانیا کی افواج کو شکست دی۔
یہ پہلا اتفاق تھا کہ بیٹے کی بجائے بھائی وراث تخت ہوا۔ مصطفیٰ اول کی عمر زیادہ تر حرم میں گزری تھی، اس وجہ سے ضعیف العقل اور امور سلطنت سے بے خبر تھا۔ مصطفیٰ کی نااہلیت کے واضح ہو جانے کے بعد امراءسلطنت نے یہ حال دیکھ کر اس کو تین ماہ بعد 16 فروری 1618ء کو تخت سے اتار کر سلطان احمد کے 14 سالہ بڑے بیٹے عثمان خان کو تخت پر بٹھا دیا۔
محمود سلطان عبدالحمید اول کا بیٹا تھا۔ بے امنی، سرکشی اور بغاوتوں سے اس کے دور کا آغاز ہوا۔ مصر میں مقامی مملوک سردار بے لگام ہو چکے تھے اور عرب میں نجد کے سعودی خاندان کو عروج حاصل ہوا اور سعودی افواج نے حجاز پر قبضہ کرکے عراق اور شام تک چھاپے مارنے شروع کردیے تھے۔ یونان نے بھی اپنی آزادی کا اعلان کر دیا۔
محمود نے 18 سال کے اندر تمام بغاوتوں کا خاتمہ کر دیا۔ مصر کے والی محمد علی نے مصر و شام میں امن قائم کر دیا۔ حجاز کو سعودی افواج سے واپس لے لیا اور 1826ء میں یونان کی بغاوت بھی فرو کردی گئی۔ اسی سال ینی چری کا بھی خاتمہ کر دیا گیا جس کے سردار اور سپاہی سلطنت کے لیے ایک مصیبت بن گئے تھے۔
محمود نے اب ان کی جگہ جدید طرز کی ایک نئی فوج تیار کی جس کی وردی یورپی طرز کی تھی اور پگڑی کی بجائے ترکی ٹوپی پہنتی تھی۔ سلطان نے بکتاشی اور درویشوں کا بھی خاتمہ کر دیا جو اصلاحات کی راہ میں بہت بڑی رکاوٹ تھے۔ اس کے علاوہ محمود نے جاگیرداری نظام پر بھی پابندیاں لگائیں اور یہ حکم جاری کیا کہ کوئی شخص مقدمے کے بغیر قتل نہ کیا جائے۔
سلیمان قانونی کے زمانے سے یہ قاعدہ ہو گیا تھا کہ سلاطین نے دربار میں آنا چھوڑ دیا تھا جہاں ساری کارروائی وزیر اعظم کی صدارت میں ہوتی تھی۔ محمود نے اس دستور کو توڑا اور پابندی سے دیوان میں آنا شروع کیا۔ ان اصلاحات کے بعد توقع تھی کہ سلطنت ترقی کی راہ پر گامزن ہوجاتی لیکن مغربی قوتیں خصوصاً روس یہ نہیں چاہتا تھا کہ سلطنت عثمانی پھر ایک بڑی طاقت بن جائے۔ چنانچہ انہوں نے سلطنت عثمانیہ کے معاملات میں مداخلت شروع کردی اور سلطنت سے جنگ چھیڑ دی۔
20 اکتوبر 1827ء کو یونان میں نوارینو کے مقام پر روس، انگلستان اور فرانس کے متحدہ بحری بیڑے نے حملہ کرکے عثمانی بیڑے کو بالکل تباہ کر دیا۔ روسی فوجیں بلقان کی طرف بڑھتی ہوئی 1829ء میں ادرنہ تک پہنچ گئیں،سلطان کو روس سے پھر صلح کرنی پڑی۔ روسی دباؤ کے تحت میں یونان کو آزادی دے دی گئی۔ روسی افواج نے مفتوحہ علاقے واپس کردیے لیکن دریائے ڈینیوب کے دہانے اور دریا کے شمال میں واقع رومانیہ کے علاقے پر قابض ہو گیا۔ ادھر سے اطمینان ہوا تو 1830ء میں فرانس الجزائر پر قابض ہو گیا۔ 1831ء میں مصر کے والی محمد علی پاشا نے بغاوت کردی اور اس کی فوجیں ابراہیم پاشا کی قیادت میں شام کو فتح کرتی ہوئی ترکی کے قلب میں کوتاہیہ تک پہنچ گئیں اور یہ معلوم ہوتا تھا کہ اب ان کا جلد ہی استنبول پر بھی قبضہ ہو جائے گا۔ ان حالات میں محمود ثانی کا انتقال ہو گیا۔
ان کے دور حکومت کا سب سے اہم اور بڑا واقعہ جنگ عظیم اول تھا جو سلطنت کے لیے تباہ کن ثابت ہوا۔ جنگ میں شکست کے نتیجے میں برطانوی افواج نے بغداد اور فلسطین پر قبضہ کر لیا اور سلطنت کا بیشتر حصہ اتحادی قوتوں کے زیر قبضہ آ گیا۔ اپریل 1920ء کی سان ریمو کانفرنس کے نتیجے میں شام پر فرانس اور فلسطین اور مابین النہرین پر برطانیہ کا اختیار تسلیم کر لیا گیا۔ 10 اگست 1920ء کو سلطان کے نمائندوں نے معاہدۂ سیورے پر دستخط کیے جس کے نتیجے میں اناطولیہ اور ازمیر سلطنت عثمانیہ کے قبضے سے نکل گئے اور ترکی کا حلقۂ اثر مزید سکڑ گیا جبکہ معاہدے کے نتیجے میں انہیں حجاز میں آزاد ریاست کو بھی تسلیم کرنا پڑا۔
ترک قوم پرست سلطان کی جانب سے معاہدے کو تسلیم کرنے کے فیصلے پر سخت ناراض تھے اور انہوں نے 23 اپریل 1920ء کو انقرہ میں مصطفٰی کمال اتاترک کی زیر قیادت ترک ملت مجلس عالی کا اعلان کیا۔ سلطان محمد سادس کو تخت سلطانی سے اتار دیا گیا اور عارضی آئین نافذ کیا گیا۔ قوم پرستوں نے جنگ آزادی میں کامیابی کے بعد یکم نومبر 1922ء کو سلطنت عثمانیہ کے خاتمے کا باضابطہ اعلان کیا اور سلطان کو ناپسندیدہ شخصیت قرار دیتے ہوئے ملک بدر کر دیا گیا جو 17 نومبر کو بذریعہ برطانوی بحری جہاز مالٹا روانہ ہو گئے اور بعد ازاں انہوں نے زندگی کے آخری ایام اطالیہ میں گزارے۔ 19 نومبر 1922ء کو اُن کے قریبی عزیز عبد المجید آفندی (عبد المجید ثانی) کو نیا خلیفہ چنا گیا جو 1924ء میں خلافت کے خاتمے تک یہ ذمہ داری نبھاتے رہے۔ محمد سادس کا انتقال 16 مئی 1926ء کو سان ریمو، اٹلی میں ہوا اور انہیں دمشق کی سلطان سلیم اول مسجد میں سپرد خاک کیا گیا۔
یکم نومبر 1922ء کو آخری عثمانی سلطان محمد ششم کو اقتدار سے بے دخل کرنے کے بعد 19 نومبر کو انقرہ میں ترک قومی مجلس نے انہیں نیا خلیفہ بنایا۔ بعد ازاں مارچ 1924ء میں خلافت کے عہدے کے خاتمے کے بعد انہیں بھی اپنے پیشرو کی طرح اہل خانہ کے ہمراہ ملک بدر کر دیا گیا۔
اس سلطنت کا دور 621 ہجری بمطابق 1223 عیسوی تا 1342 ہجری بمطابق 1924 عیسوی ہے۔ اس خاندان کو ہم چار ادوار میں تقسیم کرتے ہیں۔
ابتدائی دور: یہ دور ارطغرل سے شروع ہو کر مراد اول تک چلتا ہے۔ جس میں یہ حکمران کہلاتے تھے لیکن کوئی خاص لقب اختیار نہیں کیا تھا۔
سلطانی دور: اس دور میں بایزید اول نے سلطان کا لقب اختیا کیا اور پانچ اہم حکمران اس دورمیں گزرے جو محمد اول، مراد دوم، محمد فاتح اور بایزید دوم ہیں۔
خلافت عثمانیہ کا آغاز: اس دور میں خلافت اسلامیہ وقت عباسی خاندان کے پاس تھی، سلطنت عثمانیہ کے فرمانروا سلیم اول کو منتقل ہو گئی اور اس طرح یہ حکومت سلطنت عثمانیہ سے خلافت عثمانیہ میں تبدیل ہو گئی اور اس دور کے دو اہم حکمران سلیم اول اور سلیمان اعظم ہیں
زوال کا دور: چوتھے دور میں یہ حکومت زوال کا شکار رہی اور یہ دور سلیم ثانی سے شروع ہو کر آخری خلیفہ عبد المجید ثانی تک رہی اور یہ دور 974 ہجری بمطابق 1566 عیسوی تا 1342 ہجری بمطابق 1924 عیسوی تک محیط ہے، اس دور میں کل سینتیس حکمران ہوئے۔
ابتدائی دور:
جس زمانے میں برصغیر کے علاقے میں غیاث الدین بلبن اور علاؤالدین خلجی حکومت کر رہے تھے اس زمانے میں ایشائے کوچک میں جسے اناطولیہ اور ترکی بھی کہا جاتا ہے ایک عظیم الشان سلطنت کی بنیادیں مضبوط ہو رہی تھیں۔ یہ آل عثمان کی سلطنت تھی جسے سلطنت عثمانیہ اور دولت عثمانیہ بھی کہتے ہیں کیونکہ اس کے بانی کا نام عثمان خان تھا۔ یہ سلطنت اپنے عروج کے زمانے میں وسعت میں عربوں کی سلطنت کا مقابلہ کیا کرتی تھی اور پائیدار اور استحکام کے لحاظ سے اسلامی تاریخ کی سب سے مستحکم اور پائیدار حکومت ثابت ہوئی۔
عثمانی نسلا ترک تھے ان کی حکومت قائم ہوتے کا قصہ بڑا دلچسپ ہے جب ہلاکو خان کے زمانے میں بغداد پر منگولوں نے قبض کر لیا تو چند سال بعد ان کی ایک فوج ایشیائے کوچک پر قبض کرتی ہوئی شہر انقرہ کے قریب پہنچ گئی۔ یہاں قونیہ کے سلیوقی سلطان نے ان کا مقابلہ کیا۔ اس وقت جب کہ دونوں میں لڑائی ہو رہی تھی خانہ بدوش ترکوں کی ایک جماعت جس کا سردار ارطغرل تھا یہاں سے گزرا۔ ارطغرل نے دیکھا کہ ایک فوج تعداد میں زیادہ اور دوسری کم۔ ارطغرل کے پاس صرف 400 کے قریب سوار تھے، لیکن وہ کمزور فوج کی مدد کے لیے بڑھا اور اس زور سے حملہ کیا کہ طاقتور فوج کو شکست ہوگئی اور وہ بھاگ کھڑی ہوئی۔ یہ طاقتور فوج منگولوں کی تھی اور تعداد کمزور فوج سلجوقیوں کی تھی۔
اس دور کے اہم حکمرانوں کا تذکرہ ذیل میں بیان کیا جاتا ہے۔
- عثمان خان:
- اورخان اول:
- مراد اول:
- بایزید اول:
زمانہ تعطل:
5 جولائی 1413 تا 20جولائی1402 عیسوی تک، اس وقفے کے دوران میں کوئی سلطان تخت پر نہیں بیٹھا کیونکہ اس وقفے کے دوران میں عثمانی شہزادوں کے درمیان میں تخت و تاج کے لیے آپس میں جنگیں ہو رہی تھیں لیکن دو یا تین شہزادے تخت پر ضرور بیٹھے تھے۔
سلطنت عثمانیہ کا عروج:
5 جولائی 1413ءتا 29 مئی 1453ء سلطنت عثمانیہ کا وقت عروج ہے۔ اس میں درج ذیل سلاطین شامل ہیں۔
- محمد اول:
- مراد دوم:
مصطفی کو بغاوت پر آمادہ کرنے والی اناطولیہ میں پھیلی ترک ریاستوں کو ان کے کیے کی سزا ملی اور مراد دوم نے سب کو شکست دے کر سلطنت میں شامل کر لیا۔ مراد نے بلقان میں وسیع علاقہ سلطنت میں شامل کیا اور 1439ء میں سربیا فتح کیا۔ 1441ء میں مقدس رومی سلطنت، پولینڈ اور البانیہ نے ان کے خلاف اتحاد قائم کرتے ہوئے صلیبی جنگ کا اعلان کر دیا۔ 1444ء میں جنگ وارنا میں انہوں نے یوناس ہونیاڈے کو شکست دی لیکن جنگ جلاووز میں انہیں شکست ہوئی اور دونوں کے درمیان معاہدہ ہو گیا۔ اس معاہدے کے بعد مراد دوم اپنے صاحبزادے محمد دوم کے حق میں تخت سے دستبردار ہو گئے لیکن محمد کی نو عمری کا فائدہ اٹھاتے ہوئے مسیحیوں نے معاہدہ توڑ دیا جس پر 1446ء میں مراد نے دوبارہ مسند اقتدار سنبھالی اور دوسری جنگ کوسوو میں مسیحی اتحاد کو کچل کر رکھ دیا۔ بلقان میں مسیحیوں کو عظیم شکست دینے کے بعد انہوں نے مشرق کا رخ کیا اور امیر تیمور کے بیٹے شاہ رخ تیموری کو شکست دی اور امارت کره مان کو اپنی قلمرو میں شامل کیا۔ 1450ء کے موسم سرما میں وہ بیمار پڑ گئے اور ادرنہ میں وفات پائی۔ محمد دوم (المعروف سلطان محمد فاتح) نے ان کی جگہ تخت سنبھالا۔
- محمد دوم:
- بایزید ثانی:
- سلیم اول:
- سلیمان اول:
- سلیم ثانی:
دور تنزلی کا آغاز:
- مراد ثالث:
- محمد ثالث:
جنگ میں عثمانیوں کی شکست کے باعث سلطان کو افواج کی قیادت خود سنبھالنی پڑی اور وہ سلیمان اول کے بعد میدان جنگ میں اُترنے والا پہلا عثمانی حکمران تھا۔ اس کی افواج نے 1596ء میں اگری فتح کیا اور جنگ کرسزتس میں ہیبسبرگ اور ٹرانسلوانیا کی افواج کو شکست دی۔
- احمد اول:
- مصطفیٰ اول:
یہ پہلا اتفاق تھا کہ بیٹے کی بجائے بھائی وراث تخت ہوا۔ مصطفیٰ اول کی عمر زیادہ تر حرم میں گزری تھی، اس وجہ سے ضعیف العقل اور امور سلطنت سے بے خبر تھا۔ مصطفیٰ کی نااہلیت کے واضح ہو جانے کے بعد امراءسلطنت نے یہ حال دیکھ کر اس کو تین ماہ بعد 16 فروری 1618ء کو تخت سے اتار کر سلطان احمد کے 14 سالہ بڑے بیٹے عثمان خان کو تخت پر بٹھا دیا۔
- عثمان ثانی:
- مراد رابع:
- ابراہیم اول:
- محمد رابع:
- سلیمان ثانی:
- احمد ثانی:
- مصطفیٰ ثانی:
- احمد ثالث:
- محمود اول:
- عثمان ثالث:
- مصطفی ثالث:
- عبدالحمید اول:
- سلیم ثالث:
- مصطفی رابع:
- محمود ثانی:
محمود سلطان عبدالحمید اول کا بیٹا تھا۔ بے امنی، سرکشی اور بغاوتوں سے اس کے دور کا آغاز ہوا۔ مصر میں مقامی مملوک سردار بے لگام ہو چکے تھے اور عرب میں نجد کے سعودی خاندان کو عروج حاصل ہوا اور سعودی افواج نے حجاز پر قبضہ کرکے عراق اور شام تک چھاپے مارنے شروع کردیے تھے۔ یونان نے بھی اپنی آزادی کا اعلان کر دیا۔
محمود نے 18 سال کے اندر تمام بغاوتوں کا خاتمہ کر دیا۔ مصر کے والی محمد علی نے مصر و شام میں امن قائم کر دیا۔ حجاز کو سعودی افواج سے واپس لے لیا اور 1826ء میں یونان کی بغاوت بھی فرو کردی گئی۔ اسی سال ینی چری کا بھی خاتمہ کر دیا گیا جس کے سردار اور سپاہی سلطنت کے لیے ایک مصیبت بن گئے تھے۔
محمود نے اب ان کی جگہ جدید طرز کی ایک نئی فوج تیار کی جس کی وردی یورپی طرز کی تھی اور پگڑی کی بجائے ترکی ٹوپی پہنتی تھی۔ سلطان نے بکتاشی اور درویشوں کا بھی خاتمہ کر دیا جو اصلاحات کی راہ میں بہت بڑی رکاوٹ تھے۔ اس کے علاوہ محمود نے جاگیرداری نظام پر بھی پابندیاں لگائیں اور یہ حکم جاری کیا کہ کوئی شخص مقدمے کے بغیر قتل نہ کیا جائے۔
سلیمان قانونی کے زمانے سے یہ قاعدہ ہو گیا تھا کہ سلاطین نے دربار میں آنا چھوڑ دیا تھا جہاں ساری کارروائی وزیر اعظم کی صدارت میں ہوتی تھی۔ محمود نے اس دستور کو توڑا اور پابندی سے دیوان میں آنا شروع کیا۔ ان اصلاحات کے بعد توقع تھی کہ سلطنت ترقی کی راہ پر گامزن ہوجاتی لیکن مغربی قوتیں خصوصاً روس یہ نہیں چاہتا تھا کہ سلطنت عثمانی پھر ایک بڑی طاقت بن جائے۔ چنانچہ انہوں نے سلطنت عثمانیہ کے معاملات میں مداخلت شروع کردی اور سلطنت سے جنگ چھیڑ دی۔
20 اکتوبر 1827ء کو یونان میں نوارینو کے مقام پر روس، انگلستان اور فرانس کے متحدہ بحری بیڑے نے حملہ کرکے عثمانی بیڑے کو بالکل تباہ کر دیا۔ روسی فوجیں بلقان کی طرف بڑھتی ہوئی 1829ء میں ادرنہ تک پہنچ گئیں،سلطان کو روس سے پھر صلح کرنی پڑی۔ روسی دباؤ کے تحت میں یونان کو آزادی دے دی گئی۔ روسی افواج نے مفتوحہ علاقے واپس کردیے لیکن دریائے ڈینیوب کے دہانے اور دریا کے شمال میں واقع رومانیہ کے علاقے پر قابض ہو گیا۔ ادھر سے اطمینان ہوا تو 1830ء میں فرانس الجزائر پر قابض ہو گیا۔ 1831ء میں مصر کے والی محمد علی پاشا نے بغاوت کردی اور اس کی فوجیں ابراہیم پاشا کی قیادت میں شام کو فتح کرتی ہوئی ترکی کے قلب میں کوتاہیہ تک پہنچ گئیں اور یہ معلوم ہوتا تھا کہ اب ان کا جلد ہی استنبول پر بھی قبضہ ہو جائے گا۔ ان حالات میں محمود ثانی کا انتقال ہو گیا۔
- عبد المجید اول:
- عبد العزیز اول:
- مراد خامس:
- عبدالحمید ثانی:
- محمد خامس:
- محمد وحید الدین:
ان کے دور حکومت کا سب سے اہم اور بڑا واقعہ جنگ عظیم اول تھا جو سلطنت کے لیے تباہ کن ثابت ہوا۔ جنگ میں شکست کے نتیجے میں برطانوی افواج نے بغداد اور فلسطین پر قبضہ کر لیا اور سلطنت کا بیشتر حصہ اتحادی قوتوں کے زیر قبضہ آ گیا۔ اپریل 1920ء کی سان ریمو کانفرنس کے نتیجے میں شام پر فرانس اور فلسطین اور مابین النہرین پر برطانیہ کا اختیار تسلیم کر لیا گیا۔ 10 اگست 1920ء کو سلطان کے نمائندوں نے معاہدۂ سیورے پر دستخط کیے جس کے نتیجے میں اناطولیہ اور ازمیر سلطنت عثمانیہ کے قبضے سے نکل گئے اور ترکی کا حلقۂ اثر مزید سکڑ گیا جبکہ معاہدے کے نتیجے میں انہیں حجاز میں آزاد ریاست کو بھی تسلیم کرنا پڑا۔
ترک قوم پرست سلطان کی جانب سے معاہدے کو تسلیم کرنے کے فیصلے پر سخت ناراض تھے اور انہوں نے 23 اپریل 1920ء کو انقرہ میں مصطفٰی کمال اتاترک کی زیر قیادت ترک ملت مجلس عالی کا اعلان کیا۔ سلطان محمد سادس کو تخت سلطانی سے اتار دیا گیا اور عارضی آئین نافذ کیا گیا۔ قوم پرستوں نے جنگ آزادی میں کامیابی کے بعد یکم نومبر 1922ء کو سلطنت عثمانیہ کے خاتمے کا باضابطہ اعلان کیا اور سلطان کو ناپسندیدہ شخصیت قرار دیتے ہوئے ملک بدر کر دیا گیا جو 17 نومبر کو بذریعہ برطانوی بحری جہاز مالٹا روانہ ہو گئے اور بعد ازاں انہوں نے زندگی کے آخری ایام اطالیہ میں گزارے۔ 19 نومبر 1922ء کو اُن کے قریبی عزیز عبد المجید آفندی (عبد المجید ثانی) کو نیا خلیفہ چنا گیا جو 1924ء میں خلافت کے خاتمے تک یہ ذمہ داری نبھاتے رہے۔ محمد سادس کا انتقال 16 مئی 1926ء کو سان ریمو، اٹلی میں ہوا اور انہیں دمشق کی سلطان سلیم اول مسجد میں سپرد خاک کیا گیا۔
- عبدالمجید ثانی:
یکم نومبر 1922ء کو آخری عثمانی سلطان محمد ششم کو اقتدار سے بے دخل کرنے کے بعد 19 نومبر کو انقرہ میں ترک قومی مجلس نے انہیں نیا خلیفہ بنایا۔ بعد ازاں مارچ 1924ء میں خلافت کے عہدے کے خاتمے کے بعد انہیں بھی اپنے پیشرو کی طرح اہل خانہ کے ہمراہ ملک بدر کر دیا گیا۔