جھوٹی گواہی کے بارے میں شریعت اسلامیہ کا مؤقف

فاطمہ طاہرہ

وفقہ اللہ
رکن
جھوٹی گواہی کے بارے میں شریعت اسلامیہ کا مؤقف

جھوٹی گواہی کبیرہ گناہ ہے۔ اس کی قباحت کو ظاہر کرنے کے لیے قرآن کریم میں اسے شرک کے برابر ٹھہرایا گیا ہے۔ ظاہر ہے کہ شرک ہر صورت میں ناقابل معافی جرم ہے۔ اکبر الکبائر ہے۔ یقینا کوئی بھی بڑے سے بڑا گناہ شرک کے برابر نہیں ہو سکتا۔ لیکن چونکہ مشرک بھی دلیل حق کو چھپاتا ہے اور اس کا انکار کرتا ہے۔ پس اس مشابہت کی وجہ سے جھوٹی گواہی کو جزوی طور پر شرک کے برابر ٹھہرایا گیا ہے اور یہ شدید ترین وعید ہے۔ حدیث پاک میں ہے

حضرت خریم بن فاتک بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فجر کی نماز پڑھائی پھر لوگوں کی طرف متوجہ ہو کر کھڑے ہو گئے اور تین مرتبہ فرمایا: جھوٹی شہادت کو اللہ کے ساتھ شریک ٹھہرانے کے برابر قرار دیا گیا ہے۔ (سنن ابن ماجہ: 2372)

اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس آیت کی تلاوت فرمائی

فَاجْتَنِبُوا الرِّجْسَ مِنَ الْاَوْثَانِ وَاجْتَنِبُواقَوْلَ الزُّورِ

بتوں کی پرستش سے بچو اور جھوٹی بات کہنے سے بچو۔ (سورۃ الحج 30)

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کبیرہ گناہوں کے متعلق پوچھا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا

”اللہ کے ساتھ کسی کو شریک ٹھہرانا، ماں باپ کی نافرمانی کرنا، کسی کی جان لینا اور جھوٹی گواہی دینا۔ (صحیح بخاری 2653)

ایک اور ارشاد ہے جس میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ

میں تم لوگوں کو سب سے بڑے گناہ نہ بتاؤں؟ تین بار آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی طرح فرمایا۔ صحابہ نے عرض کیا، ہاں یا رسول! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، اللہ کا کسی کو شریک ٹھہرانا، ماں باپ کی نافرمانی کرنا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس وقت تک ٹیک لگائے ہوئے تھے لیکن اب آپ صلی اللہ علیہ وسلم سیدھے بیٹھ گئے اور فرمایا، ہاں اور جھوٹی گواہی بھی۔ انہوں نے بیان کیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس جملے کو اتنی مرتبہ دہرایا کہ ہم کہنے لگے کاش! آپ صلی اللہ علیہ وسلم خاموش ہو جاتے۔ اسماعیل بن ابراہیم نے بیان کیا، ان سے جریری نے بیان کیا، اور ان سے عبدالرحمٰن نے بیان کیا۔ (صحیح بخاری 2654)

قرآن پاک میں بہت سارے مقامات پر جھوٹی گواہی دینے والوں کی مذمت اور شدید عذاب کی وعید سنائی گئی ہے۔ ارشاد باری تعالی ہے:

یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا کُوۡنُوۡا قَوّٰمِیۡنَ بِالۡقِسۡطِ شُہَدَآءَ لِلّٰہِ وَ لَوۡ عَلٰۤی اَنۡفُسِکُمۡ اَوِ الۡوَالِدَیۡنِ وَ الۡاَقۡرَبِیۡنَ ۚ اِنۡ یَّکُنۡ غَنِیًّا اَوۡ فَقِیۡرًا فَاللّٰہُ اَوۡلٰی بِہِمَا ۟ فَلَا تَتَّبِعُوا الۡہَوٰۤی اَنۡ تَعۡدِلُوۡا ۚ وَ اِنۡ تَلۡوٗۤا اَوۡ تُعۡرِضُوۡا فَاِنَّ اللّٰہَ کَانَ بِمَا تَعۡمَلُوۡنَ خَبِیۡرًا۝

اے ایمان والو!اللہ کی خاطرانصاف پر قائم رہتے ہوئے گواہی دیا کرو خواہ وہ گواہی تمہارے اپنے یاتمہارے والدین یاقریبی عزیزوں کے خلاف ہی ہو اگرکوئی فریق امیرہے یا فقیر بہرصورت اللہ ہی ان دونوں کاتم سے زیادہ خیر خواہ ہے لہٰذا اپنی خواہش نفس کے پیچھے عدل کو چھوڑو نہیں اوراگرگول مول بات کرویا سچائی سے کترائو ( توجان لوکہ ) جوتم کرتے ہواللہ اس باخبرہے۔ (سورۃ النساء 135)

ایک اور مقام پر ارشاد ہے:

یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا کُوۡنُوۡا قَوّٰمِیۡنَ لِلّٰہِ شُہَدَآءَ بِالۡقِسۡطِ ۫ وَ لَا یَجۡرِمَنَّکُمۡ شَنَاٰنُ قَوۡمٍ عَلٰۤی اَلَّا تَعۡدِلُوۡا ؕ اِعۡدِلُوۡا ۟ ہُوَ اَقۡرَبُ لِلتَّقۡوٰی ۫ وَ اتَّقُوا اللّٰہَ ؕ اِنَّ اللّٰہَ خَبِیۡرٌۢ بِمَا تَعۡمَلُوۡنَ۝

اے ایمان والو! اللہ تعالیٰ کی خاطرقائم رہنے والے اور انصاف کے ساتھ گواہی دینے والے بنوکسی قوم کی دشمنی تمہیں اس بات پر مشتعل نہ کردے کہ تم عدل کو چھوڑدو ، عدل کیا کرو ، یہی بات تقویٰ کے قریب ترہے اور اللہ تعالیٰ سے ڈرتے رہو جو کچھ تم کرتے ہویقینااللہ اس سے خوب باخبر ہے۔
(سورۃ المائدۃ 8)​

اسی طرح ایک اور ارشاد ہے:

وَ الَّذِیۡنَ لَا یَشۡہَدُوۡنَ الزُّوۡرَ ۙ وَ اِذَا مَرُّوۡا بِاللَّغۡوِ مَرُّوۡا کِرَامًا۝

اور جو جھوٹی گواہی نہیں دیتے اور جب کسی ناپسندیدہ چیز سے ان کو سابقہ پڑتا ہے تو شریفوں کی طرح گزر جاتے ہیں۔ (سورۃ الفرقان 72)

ایک اور مقام پر ارشاد ہے:

حَتّٰۤی اِذَا مَا جَآءُوۡہَا شَہِدَ عَلَیۡہِمۡ سَمۡعُہُمۡ وَ اَبۡصَارُہُمۡ وَ جُلُوۡدُہُمۡ بِمَا کَانُوۡا یَعۡمَلُوۡنَ۝

یہاں تک کہ جب ( سب ) جہنم کے قریب آپہنچیں گے توان کے کان ، ان کی آنکھیں اور ان کی کھالیں ا ن کے خلاف وہی گواہی دینگےجو عمل وہ کیا کرتے تھے۔ (سورۃ حم سجدہ 20)

فقہاء کی اکثریت کا خیال ہے کہ اگر قاضی کو یہ یقین ہو جائے کہ گواہ جھوٹا ہے تو وہ اس کو سزا دے سکتا ہے۔ جھوٹے گواہ کی تعزیر یعنی اس کو سزا دینا کافی نہیں ہے بلکہ اس کی تشہیر بھی ضروری ہے۔ اس قسم کی سزا حضرت عمر سے روایت کی جاتی ہے۔ یہ شریح، قاسم بن محمد، سالم بن عبد اللہ، امام اوزاعی، امام ابن ابی لیلی، امام مالک، شوافع اور حنابلہ کی رائے ہے۔
 
Top