علم القاضی

فاطمہ طاہرہ

وفقہ اللہ
رکن
علم القاضی

علم القاضی سے مراد وہ علم ہے جو اسے مقدمے کی سماعت کے دوران دعوی، اس کے حقائق اور ثبوت وغیرہ کے سلسلے میں حاصل ہوتا ہے۔ تو کیا ان امور کے متعلق اس کا علم اس کے فیصلے تک پہنچنے کا سبب بن سکتا ہے یا نہیں؟ قاضی کو علم دو طرح سے حاصل ہوتا ہے۔ پہلی صورت میں وہ علم جو قاضی مجلس قضاء میں حاصل کرتا ہے۔ دوسری صورت میں وہ علم جو قاضی مجلس قضاء سے باہر حاصل کرتا ہے۔ دونوں کے تفصیل مطالعہ سے پتہ چلے گا کہ قاضی اپنے کس علم کی بنیاد پر فیصلہ کر سکتا ہے۔

1) قاضی کا وہ علم جو وہ مجلس قضاء میں حاصل کرتا ہے:

جب قاضی دعوی کے حقائق اس کے اسباب اور ثبوت کے متعلق مجلس قضاء میں معلومات حاصل کرے جیسے مدعی علیہ اقرار کرے یا دعوی کا انکار یا یمین ادا کر دے یا پھر اس سے انکار کر دے تو ان چیزوں سے قاضی کو جو علم حاصل ہوتا ہے وہ اس علم کے مطابق فیصلہ کر سکتا ہے۔

یہ شرط نہیں لگائی جا سکتی کہ قاضی کو فیصلہ کرنے میں اور ان حالات و واقعات کو سننے میں جن کو پیش نظر رکھ کر وہ فیصلہ کرتا ہے ایک گواہ یا دو گواہوں کی ضرورت ہے۔ یہ امام احمد کی رائے ہے۔

شوافع کی بھی یہی رائے ہے ان کی دلیل یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا

فان اعترفت فارجمھا

اگر وہ دونوں اعتراف کر لیں تو ان کو رجم کر دو۔

اور آپ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ شرط نہیں لگائی کہ ان کا اعتراف (فعل زنا کا) لوگوں کی موجودگی میں ہو یا دو سے زیادہ گواہوں کی موجودگی میں ہو۔

مجلس قضاء میں مقدمے کی سماعت کے دوران قاضی کو جو معلومات حاصل ہوتی ہیں ان معلومات کی روشنی میں قاضی کے فیصلے پر پہنچنے میں کوئی اختلاف نہیں ہونا چاہیے۔ کیونکہ مجلس قضاء میں عام طور پر لوگ موجود ہوتے ہیں اور اگر وہ نہ بھی موجود ہوں تو کم از کم عدالت کے کارندے ضرور موجود ہوتے ہیں اور ان لوگوں کی موجودگی میں گواہ کی کوئی ضرورت نہیں اور اگر ہم فرض بھی کر لیں کہ عدالت میں قاضی اور خصوم (مقدمہ کا مخالف فریق) کے سوا کوئی اور موجود نہیں تو تب بھی قاضی نے اقرار یا یمین یا گواہوں یا دوسرے احوال کی بناء پر جو علم حاصل کیا ہے تو اس کی بناء پر اس کا فیصلہ کرنا درست ہے کیونکہ وہ حدیث جس کو بطور دلیل شوافع استعمال کرتے ہیں سب سے بڑی دلیل اور حجت ہے۔

2) قاضی کا وہ علم جو وہ مجلس قضاء سے باہر حاصل کرتا ہے:

اس سے مراد وہ حالت ہے جب قاضی کی معلومات مجلس قضاء سے باہر کی ہوتی ہیں۔ جیسے قاضی کسی شخص کو سنے کہ وہ اپنی بیوی کو تین طلاقیں دے رہا ہے یا مجلس قضاء سے باہر یا قاضی یہ دیکھے کہ ایک شخص کسی دوسرے شخص کا مال ضائع کر رہا ہے تو کیا قاضی کے لیے جائز ہے کہ وہ اس علم کی بنیاد پر جو اس نے مجلس قضاء سے باہر حاصل کیا ہے فیصلہ کرے یا نہ کرے؟ اس بارے میں فقہاء میں اختلاف ہے جس کی تفصیل حسب ذیل ہے۔

1: ظاہریہ کی رائے:

ظاہریہ کی رائے یہ ہے کہ وہ اپنے علم کے مطابق فیصلہ کرے گا چاہے یہ علم اس مجلس قضاء میں حاصل ہو یا اس سے باہر۔ چاہے یہ علم اسے قاصی بننے سے پہلے حاصل ہوا ہو یا اس کے بعد میں۔ اس کی رائے یہ ہے کہ قاضی کا اپنے علم کے مطابق فیصلہ کرنا زیادہ مناسب ہے کیونکہ اس کے علم نے اس کو یقین تک پہنچا دیا ہے۔

ان کی دلیل ارشاد باری تعالی ہے

کونوا قوامین بالقسط شھداء للہ

انصاف کے ساتھ اللہ کے ہاں گواہی دینے وال ہو جاؤ

اور یہ انصاف نہیں کہ ظالم کو اس کے ظلم کے ساتھ چھوڑ دیا جائے۔

2: شوافع کی رائے:

شوافع حقوق العباد اور حقوق اللہ میں فرق کرتے ہیں۔ پھر اگر دعوی حقوق العباد سے متعلق ہو تو مذہب شافعیہ میں اس کے متعلق دو آراء ہیں۔

1: یہ جائز نہیں کہ قاضی اپنے علم کی بنیاد پر فیصلہ کرے۔ کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرمی سے کہا

تیرے دو گواہ مدعی علیہ کی قسم اور تمہارے لیے کچھ اور نہیں سوائے اس کے سوا۔

کیونکہ اگر قاضی کا اپنے علم سے فیصلہ کرنا درست ہوتا تو اس کا علم دو گواہیوں کی طرح ہی ہوتا ہے اور اس سے نکاح منعقد ہو سکتا ہوتا۔ اور اس کا کوئی بھی قائل نہیں ہے۔ قاضی کا اپنے علم سے فیصلہ کرنا تہمت کا سبب بھی بن سکتا ہے۔ اور برے قاضی اس کو اپنے ذاتی مقاصد کے لیے بھی استعمال کر سکتے ہیں۔

2: شوافع کا دوسرا قول یہ ہے کہ قاضی اپنے علم سے فیصلہ کرے گا۔ آنحضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے قول کی بنیاد پر جیسا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے روایت ہے

لا یمنع احدکم ھیبۃ الناس ان یقول فی حق اذ رآہ اور علمہ او سمعہ

لوگوں کا رعب و دبدبہ تمہیں اس چیز سے منع نہ کرے کہ جب حق کو دیکھو یا تمھیں اس کا علم ہو یا تم اس کے متعلق سنو تو اسے بیان نہ کرو۔

جب قاضی کے لیے جائز ہے کہ وہ اس گواہی کی بنیاد پر فیصلہ دے دے جس کے درست ہونے کا یقین نہ ہو تو کیوں جائز نہیں کہ وہ اس کی جو اس نے خود سنا ہے یا دیکھا، کی بنیاد پر فیصلہ کرے۔

3: اور اگر دعوی حقوق اللہ سے متعلق ہو تو اس بارے میں بھی شوافع کی ہاں دو آراء ہیں اور ان میں سے اکثریت کی رائے یہ ہے کہ قاضی کے لیے جائز نہیں کہ و حقوق اللہ میں اپنے علم سے فیصلہ کرے۔ ان کی اس رائے کی دلیل حضرت ابو بکر صدیق کا قول ہے:

اگر میں نے کسی شخص کو دیکھا کہ وہ حد جرم میں مبتلا ہے تو میں اسے حد نہیں لگاؤں گا۔ یعنی اس کو سزا نہیں دوں گا جب تک کہ میرے پاس اس بارے میں گواہ نہ ہوں۔

کیونکہ حدود شبہات سے ساقط ہو جاتی ہے۔

3: حنابلہ کی رائے:

حنابلہ کا ظاہری موقف یہ ہے کہ قاضی اپنے علم سے فیصلہ نہیں کرے گا نہ حد کے معاملات میں اور نہ ہی دوسرے معاملات میں چاہے اسے ان چیزوں کا علم قاضی بننے سے پہلے ہوا ہو یا قاضی بننے کے بعد۔ مذہب حنابلہ کی حجت آنحضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا قول ہے۔ اس میں آپ نے ارشاد فرمایا۔

انما انا بشر وأنكم تختصمون اليي ولعل بعضكم أن يكون الحن بحجته من بعض فأقضي له على نحو ما أسمعه

میں تمہاری طرح ہی بشر ہوں تم اپنے جھگڑے میرے پاس لاتے ہو، ہوسکتا ہے کہ تم میں سے کوئی دوسرے سے زیادہ بہتر دلائل پیش کرے اور میں اس کے حق میں فیصلہ کر دوں اس کے مطابق جو میں اس سے سنوں۔

اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرمی (حضری قبیلے سے تعلق رکھنے والے) اور الکندی (کندی قبیلے سے تعلق رکھنے والے) کے معاملہ میں کہا

شاهد الا أو يمينه ، ليس لك منه الا ذلک

تمہارے گواہ یا مدعی علیہ کی قسم اس کے علاوہ تمہارے لیے اور کچھ نہیں۔

اس حدیث کے معنی یہ ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مدعی سے کہا کہ اپنے دعوی کو ثابت کرنے کے لیے گواہ لاؤ اور اگر تمہارے پاس دو گواہ نہیں ہے تو پھر تمہیں یہ حق ہے کہ اپنے مخالف فریق سے قسم لے لو۔

حنابلہ کی دوسری دلیل یہ ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے پاس دو آدمیوں نے دعوی دائر کیا۔ ان میں سے ایک نے حضرت عمر سے کہا کہ آپ میرے گواہ ہیں اس پر آپ نے فرمایا اگر تم دونوں چاہتے ہو تو میں گواہی دے دیتا ہوں اور تمہارے درمیان فیصلہ کرنے والا نہیں رہتا یا یہ کہ فیصلہ کروں اور گواہی نہ دوں۔

اسی طرح ان کی دلیل یہ بھی ہے کہ قاضی کا اپنے علم سے فیصلہ کرنا تنقید کا باعث بن سکتا ہے اور یہ ایسے فیصلہ کا سبب بھی ہے جس میں پسند اور ناپسند کو اہمیت حاصل ہو جائے۔

جو لوگ قاضی کو اس کے علم کے مطابق فیصلہ کرنے کی اجازت دیتے ہیں انہوں نے ان کی دلیلوں کو رد کیا ہے۔ ان کی دلیل یہ ہے کہ آنحضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہند زوجہ ابو سفیان سے کہا

خذی ما یکفیک و ولدک بالمعروف

وہ لے لو جو تمہارے لیے اور تمہارے بیٹے کے لیے دستور کے مطابق کافی ہو۔

اس وضاحت میں وہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ابو سفیان کے حق میں فیصلہ دیا جبکہ وہ حاضر نہ تھا۔ اسی طرح ان کا کہنا یہ ہے کہ قاضی گواہوں کی سچائی پر یقین نہ ہونے کے باوجود گواہیوں کی بناء پر فیصلہ کرنا دراصل قاضی کے اپنے علم کے مطابق فیصلہ کرنے کو اور زیادہ پسندیدہ قرار دے دیتا ہے۔

4: احناف کی رائے:

احناف کہتے ہیں کہ حقوق العباد میں قاضی اپنے علم سے فیصلہ کر سکتا ہے جبکہ اسے یہ علم قاضی کے عہدے پر تقرری کے بعد حاصل ہوا ہو۔ جہاں تک حدود کا تعلق ہے جو کہ خالص اللہ کے لیے ہیں مثلا حد الزنا، شرب الخمر وغیرہ تو ان میں استحسان کا تقاضا یہ ہے کہ قاضی اپنے علم سے فیصلہ کرے۔ البتہ چوری کے معاملات میں اگر وہ ہاتھ کاٹنے کے علاوہ سزا دینا چاہے تو تب بھی وہ اپنے علم سے فیصلہ کر سکتا ہے۔

اور اگر قاضی قضاء کے عہدے پر تقرری سے پہلے کے علم کی بنیاد پر فیصلہ کرنا چاہے تو امام ابو حنیفہ کے بقول ایسا کرنا جائز نہیں ہے۔ جبکہ امام ابو یوسف اور امام محمد کے نزدیک وہ اپنے پہلے علم کی بنیاد پر فیصلہ کر سکتا ہے۔

5: مالکیہ کی رائے:

امام مالک اور ان کے اکثر اصحاب کی رائے یہ ہے کہ قاضی اپنے علم سے فیصلہ نہیں کرے گا چاہے کسی بھی قسم کے معاملات ہی کیوں نہ ہوں۔ چاہے اسے علم قاضی بننے سے پہلے حاصل ہوا ہو یا بعد میں۔ مالکیہ کی دلیل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا قول ہے آپ نے ارشاد فرمایا

انما ان بشر مثلکم وانکم تختصمون الی۔۔۔۔۔۔۔۔

یہ حدیث اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ قضاء اس کے مطابق ہو گی جو سنا گیا نہ کہ اس کے مطابق جو معلوم ہے جیسا کہ القرافی کہتے ہیں:

فیصلہ اس کے مطابق ہو گا جو سنا نہ کہ جو معلوم ہے

ان کی دلیل ایک دوسری حدیث بھی ہے۔ جس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

شھداک او یمین لیس لک الا ذلک

تمہارے دو گواہ یا مدعی علیہ کی قسم کس کے علاوہ آپ کے ذمے اور کچھ نہیں ہے۔

اس حدیث سے ثابت ہوتا ہے کہ قضاء میں حجت گواہی ہے یا مدعی علیہ کی قسم اور اس میں قاضی کے علم کا کوئی کردار نہیں۔ اسی طرح مالکیہ کہتے ہیں کہ اگر قاضی اپنے بھائی کو یہ جانتے ہوئے قتل کروا دے کہ اس نے قتل کیا ہے۔ تو قاضی کا یہ فعل قتل عمد شمار ہو گا اور وہ اپنے بھائی کا وارث نہیں ہو گا۔

مختلف آراء کا تجزیہ:

جن لوگوں ( حنابلہ وغیرہم) نے حدیث (انکم تختصمون الی ) سے استدلال کرتے ہوئے یہ کہا ہے کہ قاضی اس کے مطابق فیصلہ کرے گا جو اس نے سنا نہ کہ جو اس کو علم ہے۔ اس اعتراض کا رد یہ ہے کہ سماع سے فیصلے کو مخصوص کرنے کا یہ مطلب نہیں کہ قاضی کسی اور چیز کی بنیاد پر فیصلہ نہیں کر سکتا جیسے اس کا علم۔ اور یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ یہی حدیث فیصلہ کرنے میں قاضی کے علم کی اہمیت پر دلالت کرتی ہے کیونکہ علم سماع سے زیادہ ہوتا ہے۔ جو کچھ انسان سنے اس کا بطلان ممکن ہے لیکن جو کچھ انسان جانتا ہو اس کا بطلان مکن نہیں۔

کچھ لوگوں نے حدیث

" شھداک او یمینہ ولیس لک الا ذلک"

سے یہ دلیل لی ہے کہ قاضی کے علم کے مطابق فیصلہ نہیں کیا جائے گا۔ اس کا جواب وہی ہے جو اوپر دیا گیا کہ کسی ایک سے تنصیص (مخصوص) اس بات کی دلالت نہیں کہ اس کے علاوہ کسی اور چیز کی بنیاد پر فیصلہ نہیں کیا جا سکتا۔

امام شوکانی کہتے ہیں کہ شارع سے حکم (فیصلے ) کے جو اسباب بتائے ہیں وه گواه، یمین، نکول وغیرہ ہیں۔ اگر ایسے امور ہوں جو اللہ تعالی نے ہمارے لیے بنائے ہیں تو ہمارے لیے ان وسائل اثبات کے علاوہ فیصلہ کرنا درست نہیں اور ہمارے لیے لازمی ہے کہ ہم انہی پر اکتفا کریں۔

اور اگر ایسے اسباب ہوں جن میں باطل سے حق کو پہچاننا ہو۔ اور حقیقت میں ایسا ہی ہے تو اس صورت میں قاضی کے علم سے فیصلہ کیا جا سکتا ہے۔ کیونکہ قاضی کا علم حق کی پہچان میں گواہی سے بھی زیادہ قوی ہے اور گواہی سے جو علم ہوتا ہے وہ ظنی ہوتا ہے جبکہ قاضی کے علم سے یقینی علم حاصل ہوتا ہے جو کہ ظن سے قوی ہے۔ (اسلامی قانون میں وسائل اثبات (دعوی اور نظام احتساب), 2018)
 
Top