جرم اور جنایت

فاطمہ طاہرہ

وفقہ اللہ
رکن
جرم اور جنایت:

اکثر و بیشتر فقہاء جرم کو جنایت کے لفظ سے بھی تعبیر کرتے ہیں۔ زبان کے لحاظ سے جنایت اس برے کام کو کہتے ہیں جو کوئی شخص انجام دے۔ گویا مصدر کو اسم کے طور پر استعمال کیا گیا ہے۔ یہ دراصل اس محاورے سے ماخوذ ہے۔ جنی علیہ شرا یعنی ایک شخص نے دوسرے کے خلاف برائی کا ارتکاب کیا۔ جنایت اگرچہ اس معنی کے لحاظ سے عام ہے مگر اس سے یہ تخصیص کر لی گئی ہے کہ اس سے مراد برائیوں میں سے صرف وہ برائی ہے جس کا ارتکاب قانونا ممنوع ہے۔

فقہاء کی اصطلاح میں جنایت ہر اس فعل کا نام ہے جو شرعا حرام ہے۔ خواہ یہ فعل کسی کے جان و مال کے خلاف ہو یا کوئی اور بات ہو۔ مگر اکثر فقہاء نے جنایت کا اطلاق صرف ان افعال پر کیا ہے، جن س انسانی جان یا اعضاء تلف ہوتے ہیں۔ جیسے کہ قتل کرنا، زخمی کرنا، مارنا اور اسقاط حمل کرنا وغیرہ۔ جب کہ بعض فقہاء حدود اور قصاص والے جرائم پر جنایت کا اطلاق کرتے ہیں۔

بہر حال اگر ہم ان فقہاء کی اصطلاح سے صرف نظر کر لیں جو بعض جرائم کو جنایت کہتے ہیں اور بعض دوسرے جرائم کو جنایت نہیں کہتے، تو ہم آسانی سے کہہ سکتے ہیں کہ فقہی اصطلاح میں جنایت کا لفظ جرم کے مترادف ہے۔

مصری قانون میں جنایت کا مفہوم شریعت اسلامیہ سے مختلف ہے۔ کیونکہ مصری قانون تعزیری قانون کی دفعہ 10 کے مطابق اس فعل کو جنایت قرار دیتا ہے جس پر سزائے موت یا دائمی قید با مشقت یا معینہ قید بامشقت یا صرف قید کی سزا مقرر کی گئی ہو۔ لیکن اگر کسی فعل کی سزا ایک ہفتے سے زیادہ کی قید یا سو قرش سے زیادہ کا جرمانہ ہو تو وہ فعل جنحہ ہے۔ اور اگر ایک ہفتے سے زیادہ قید یا سو قرش سے زیادہ جرمانے کی سزا نہیں ہے تو مصری قانون تعزیرات کی دفعہ نمبر 11 اور 12 کے مطابق یہ فعل مخالفت قرار دیا جائے گا۔

مگر شریعت اسلامیہ میں ہر جرم جنایت ہے۔ خواہ اس پر قید اور جرمانے کی سزا ہو یا اس سے بھی زیادہ سخت سزا مقرر ہو۔ اس لحاظ سے صرف قانونی مخالفت بھی شریعت میں جنایت ہی سمجھی جائے گی، جنحہ بھی جنایت شمار ہو گا۔ اور جو فعل جدید قانون میں جنایت ہے وہ بھی شریعت میں جنایت قرار دیا جائے گا۔

شریعت اسلامیہ اور جدید قانون میں اختلاف اور فرق کی اصل بنیاد یہ ہے کہ شریعت ہر جرم کو جنایت قرار دیتی ہے خواہ وہ کسی درجے کا ہو۔ مگر قانون میں جنایت سے مراد بڑے بڑے جرائم ہیں۔
 
Top