معاشرے کے اجتماعی نظم اور نظام حکومت میں جرائم کے اثرات

فاطمہ طاہرہ

وفقہ اللہ
رکن
معاشرے کے اجتماعی نظم اور نظام حکومت میں جرائم کے اثرات

شریعت اسلامیہ نے بعض جرائم کے سزا کے تعین میں سختی کی ہے اور سزا کے تعین اور اس کی مقدار میں معاشرے کو جرم سے محفوظ رکھنے کی جانب توجہ کی ہے۔ محتلف سماجوں کے اصول خواہ کتنے ہی جداگانہ ہوں اور ان میں زمانے کا خواہ کتنا ہی اختلاف ہو مگر دنیا کے تمام معاشرے بنیادی طور پر درج ذیل چار اصولوں پر قائم رہے ہیں اور آج بھی انہی پر قائم ہیں:

1: خاندانی تشکیل

2: انفرادی ملکیت کی اساس

3: معاشرے کا اجتماعی نظام

4: نظام حکومت

غرض یہ چار بنیادیں ہیں جن پر سماج کا ڈھانچہ استوار ہوتا ہے اور ان میں سے کسی ایک بنیاد پر اثر انداز ہونا گویا سماج کے اصل وجود پر اثر انداز ہونا اور اس کے ستونوں کو گرا دینے کے مترادف ہے۔ اسی لیے شریعت نے ان بنیادوں کے تحفظ کی پوری کوشش کی ہے کیونکہ ان بنیادوں کے باقی رہنے ہی میں معاشرے کی بقا ہے اور اس کے تحفظ میں کوئی سستی اور کوتاہی اجتماعی نظام کے سقوط اور اس کے منہدم کر دینے کے لیے کافی ہے۔

شریعت نے ان بنیادوں پر اثر انداز ہونے والی خطرناک زیادتیوں کو ان جرائم میں منحصر کیا ہے۔ اور ان کے خطر ے کے مطابق سزا کی سختی اور نرمی رکھی ہے۔

وہ جرائم کون سے ہیں؟

وہ جرائم جو جو ان میں سب سے زیادہ کردار ادا کرتے ہیں وہ یہ ہیں:

جرائم حدود اور جرائم قصاص و دیت: یعنی زنا، تہمت، مے نوشی، چوری، خونریزی، ارتداد، بغاوت، قتل اور جرح بحالت عمد اور بحالت خطاء

1) جرم زنا:

جرم زنا خاندانی نظام پر دست درازی ہے۔ اگر اس کی اجازت دے دی جائے اور اس جرم پر کوئی سزا نہ تو ہر شخص کے لیے ممکن ہو جائے گا کہ وہ جس عورت سے چاہے تعلقات قائم کرلے۔ اور جس کی اولاد کو چاہے اپنی بتا دے اور خود اپنی اولاد سے انکار کر دے۔ اور اس صورت حال کی انتہاء یہ ہو کہ طاقتور کمزوروں پر غالب آ جائیں۔ انساب ضائع ہو جائیں۔ ماں باپ اور اولاد دونوں ہی بد بختی میں مبتلا ہو جائیں۔ اور بالآخر معاشرے کے ستونوں میں سے ایک ستون یعنی خاندانی نظام ٹوٹ جائے۔

2) چوری:

چوری انفرادی ملکیت کی اساس کو مسمار کرنا ہے کیونکہ اگر جرم سرقہ پر سزا نہ دی جائے تو ہر انسان دوسرے کے طعام و شراب، مسکن و لباس اور آلات عمل میں شرکت کر سکتا ہے اور بالآخر طاقتور غالب آ جائیں گے اور کمزوروں کے پاس بھوک، عریانی اور محرومی کے سوا کچھ باقی نہ رہے گا۔ اس لیے چوری کے جواز کا مفہوم یہ ہے کہ انفرادی ملکیت ختم ہو جائے اور افراد ضروریات زندگی کے حصول سے عاجز آ جائیں اور معاشرے کے ایک اہم ستون یعنی انفرادی ملکیت کے ختم ہو جانے سے معاشرہ بھی ختم ہو جائے۔

3) جرم ارتداد:

ارتداد معاشرے کی اجتماعی نظام پر دست درازی ہے۔ کیونکہ ہر اسلامی معاشرے کا نظام اجتماعی اسلام ہی ہے۔ ارتداد کے معنی ہی اسلام سے انکار کرنا، اس کے اصولوں کی خلاف ورزی کرنا اور اس کی صحت میں شک کرنا ہیں۔ اور کوئی معاشرتی نظام اس صورت میں برقرار نہیں رہ سکتا کہ اس کے افراد خود اس نظام میں شک و شبہ کریں کیونکہ اس طرز عمل سے بالآخر یہ نظام ہی ختم ہو جائے گا۔

4) بغاوت:

بغاوت معاشرے کے نظام حکومت پر دست درازی کرنا ہے۔ کیونکہ بغاوت کا مطلب حکمرانوں کی نافرمانی کرنا اور سرکشی اختیار کرنا ہے۔ یا بغاوت سے مقصد حکام کو یا خود نظام حکومت کو بدل ڈالنا ہے۔ اس جرم کی اگر اجازت دے دی جائے تو معاشرے میں اختلاف و اضطراب پھیل جائے گا۔ اور معاشرہ ٹولیوں اور پارٹیوں میں تقیسم ہو کر باہم خونریزی اور قتل و غارت میں مبتلا ہو جائے گا۔ اس طرح اس جرم سے امن اور نظام میں خلل پڑے گا اور معاشرہ تباہ ہو جائے گا۔

5) جرم قذف:

قذف خاندانی نظام پر دست اندازی ہے۔ کیونکہ شریعت میں قذف (تہمت) کا مفہوم یہی ہے کہ تہمت عزت پر لگائی جاتی ہے۔ نیز عزت پر لگائی جانے والی تہمت دراصل خاندانی نظام کی صحت پر شک کا اظہار ہے۔ اس لیے جو شخص کسی پر تمہت لگاتا ہے وہ اس کے باپ کے علاوہ کسی دوسرے شخص کی جانب یعنی دوسرے خاندان کی طرف منسوب کرتا ہے۔ اگر معاشرے کے خاندانی نظام پر یقین باقی نہ رہے تو خود معاشرے پر یقین کمزور پڑ جاتا ہے۔ کیونکہ یہ خاندانی نظم ہی تو معاشرے کی اساس ہے۔

6) جرائم قتل و جرح:

قتل و جرح ایک پہلو سے تو ان افراد پر اعتداء ہیں جو معاشرے کی تشکیل کرتے ہیں اور دوسرے پہلو سے وہ معاشرے کے نظام اجتماعی اور نظام حکومت پر بھی زیادتی کا باعث بنتے ہیں کیونکہ یہ جرائم افراد کی زندگی اور ان کے جسموں پر اثر انداز ہوتے ہیں اور اجتماعی نظام افراد کے جان و مال کے تحفظ کا ذمے دار ہے جب کہ نظام حکومت کا فرض ہے کہ وہ اجتماعی نظام کو برقرار رکھے اور امن قائم رکھے۔

اس لیے ان جرائم میں تساہل کا نتیجہ یہ ہو گا کہ طاقتور کمزوروں پر غالب آجائیں گے اور افراد نتیجہ خیز عمل سے کنارہ کش ہو کر قتل و غارت میں الجھ جائیں گے اور امن پسند لوگ اپنی جانوں کے تحفظ میں لگے رہیں گے۔

اس صورت حال کا نتیجہ یہی ہو گا کہ معاشرہ پارہ پارہ ہو کر بکھر جائے گا۔ شریعت اسلامیہ یہ نہیں چاہتی کہ معاشرہ اس حالت تک پہنچے اس لیے شریعت نے حالت عمد میں قصاص اور حالت خطا میں دیت مقرر کی ہے۔ اور ان متنبہ کرنے والی سزاؤں کا مقصد ان افراد کا تحفظ ہے جو معاشرے کی تشکیل کرتے ہیں اور ان کو قلبی اطمینان و سکون بہم پہنچتا ہے۔

7) شراب نوشی:

شراب نوشی ضعف عقل اور صحت کے نقصان کا باعث بنتی ہے۔ اسلام نے شراب کو بالکل ممنوع قرار دے دیا ہے کیونکہ جرم مے نوشی کا ارتکاب ہر لحاظ سے معاشرے پر دست درازی ہے اور معاشرے کی اساس کو منہدم کر دینا ہے۔

یہ وہ جرائم ہیں جو معاشرے کے مختلف ستونوں پر براہ راست اثر انداز ہوتے ہیں۔ شریعت نے ان سے باز رکھنے والی سزائیں مقرر کیں ہیں اور سزاؤں کی مقدار میں معاشرے کے تحفظ کی خاطر مجرم کی ذات کو نظر انداز کر دیا ہے۔ یہ کہنا کہ یہ جرائم معاشرے پر اثر انداز ہوتے ہیں تو اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ باقی جرائم معاشرے پر اثر انداز نہیں ہوتے بلکہ حقیقت یہ ہے کہ تمام جرائم کسی نہ کسی صورت میں معاشرے پر اثر انداز ہوتے ہیں۔

البتہ یہ کہا جا سکتا ہے کہ تمام جرائم معاشرے کی بنیادوں پر اس طرح براہ راست اثر انداز نہیں ہوتے جیسا کہ یہ مندرجہ بالا جرائم اثر انداز ہوتے ہیں۔ جن پر شریعت نے سخت سزائیں مقرر کی ہیں ۔ باقی جرائم بلا شبہ معاشرتی مفادات کو متاثر کرتے ہیں مگر ان بنیادوں کو متاثر نہیں کرتے جن پر معاشرہ استوار ہوتا ہے۔ (اسلام کا فوجداری قانون, 1988)
 
Top