دارالعلوم دیوبند کا متقی طالب علم*

مفتی ناصرمظاہری

کامیابی توکام سے ہوگی نہ کہ حسن کلام سے ہوگی
رکن
*دارالعلوم دیوبند کا متقی طالب علم*

(ناصرالدین مظاہری)

ذوالفقار قاری مظاہرعلوم( وقف))کے حلقہ دھلی کے سفیر ہیں، یہ اس وقت کی بات ہے جب وہ ملازمت کے سلسلہ میں پریشان پریشان حضرت مفتی مظفرحسین کی خدمت میں پہنچے اور ملازمت پانے کی درخواست کی، مفتی صاحب نے فرمایا کہ مولانا یعقوب بلند شہری کے پاس جاؤ ان شاء اللہ ملازمت مل جائے گی، قاری صاحب کہتے ہیں کہ میں حسب الحکم مولانا محمد یعقوب بلند شہری کی خدمت میں پہنچا، گزارش احوال کے بعدملازمت برائے سفارت مل گئی، یہ سن 2000کے آس پاس کی بات ہے، میں دھلی سے سہارنپور آرہاتھا، میرے پاس سترہ ہزار روپے بیگ میں رسیدات وسامان سمیت موجود تھے، ٹرین میں میرے قریب ایک دومشرع لوگ بھی تھے ایک دہلی کے فراشخانے کی مسجد کے امام صاحب کاواقف کار تھا، دوسرادارالعلوم دیوبند کاطالب علم تھااس کانام محمد اسجد تھا، بہرائچ یوپی کارہنے والاتھا،رواق خالدنامی عمارت میں رہتا تھا، سکوتی اسٹیشن پر ٹرین کافی دیر رکی، پتہ چلاکہ آگے کہیں مرمت کاکام چل رہاہے، میں نے گارڈ سے پوچھاکہ کتنی دیر مزید رکے گی؟ بولاکہ آدھاگھنٹہ، میں قریب ہی نماز پڑھنے چلاگیا، واپس آیا توٹرین جاچکی تھی، پریشانی کے عالم میں دوسری ٹرین پکڑ کر سہارنپور پہنچا،خیال آرہا تھا کہ مدرسہ والے پتہ نہیں کیا کیا سوچیں، رسیدات بھی تھیں، سوچیں گے کہ لمبا چندہ ہوا ہوگا اب بہانے بنارہاہے، خیر ٹرین کھڑی مل گئی لیکن پوری ٹرین خالی تھی، میں نے حیرانی و پریشانی کے عالم میں سامان کی جستجومیں خوب بھاگم بھاگ کی، دہلی فراشخانے کی مسجد کے امام صاحب سے ملا روداد سنائی انھوں نے سفرکے ساتھی کاپتہ دیا میں پھر سہارنپور آیا، گاؤں پہنچا، وہ رفیق سفر تو مل گیا لیکن بولا کہ آپ کاسامان دوسرے مولوی صاحب نے رکھ لیا تھا، قاری صاحب کہتے ہیں کہ میں آس ویاس کے درمیان دیوبند گیا، اس پوری بھاگ دوڑ میں دوتین ہفتے بیت گئے، طالب علم نے رواق خالد بتایا تھا لیکن کمرہ نمبر نہیں بتایا تھا میں نے دونوں منزلوں کے حجرے حجرے میں تلاش کیا اور آخرکار ایک حجرے کاجودروازہ کھولا تو میرا بیگ پلاسٹک میں ملفوف سامنے ٹانڈ پر رکھا ہوا تھا ایک طالب علم نے بتایا کہ اسجد بہرائچی کاکمرہ یہی ہے لیکن وہ مسجد قدیم میں سبق یاد کررہاہے وہیں جاکر مل لو، میں مسجد قدیم پہنچا، اسجد کاپتہ کرتے کرتے منزل ہاتھ آگئی، اس نے مجھے دیکھا تو فرط مسرت سے اس کاچہرہ کھل گیا کہنے لگا کہ آپ کے لئے میں نے کتنی دعائیں کی ہیں آپ کو اندازہ نہیں ہے، اگرآپ اپنا پتہ بتادیتے تو رابطے کی کوشش بھی کرتا لیکن خیر آئیے آپ کی امانت میرے پاس بحفاظت رکھی ہے، چنانچہ میں اس کے حجرہ پہنچا میرا بیگ میرے حوالے کیا اور بولا کہ میں نے کھول کر بالکل چیک نہیں کیاہے آپ اپنے سامان کو چیک کرلیں. قاری صاحب کہتے ہیں میں نے اپنا بیگ کھولا سب سے پہلے روپے نکالے پورے سترہ ہزار روپے تھے، دوسرا سامان بھی جوں کا توں تھا، میں نے خوشی ومسرت کااظہار کیا اور پانچ سو روپے ہدیہ دینے چاہے لیکن اس اللہ کے ولی نے میرا یہ معمولی ہدیہ لینے سے بالکل انکار کردیا،
میں نے اللہ تعالیٰ کاشکراداکیا کہ ابھی ہمارے درمیان اتنے متقی وپارسا طلبہ اور نئی نسل موجود ہے جن کا حق ہے کہ جبرئیل آمین ان کے نیچے اپنے پر بچھائیں، ان ہی کاحق ہے کہ سمندر کی مچھلیاں دعائے خیرکریں، یہی تو ہیں جن کے سونے کو عبادت پر فضیلت حاصل ہے، ان جیسی پاک وپاکیزہ ہستیوں سے اداروں کی رونق قائم ہے، اسجد بہرائچی! تم جہاں کہیں بھی ہو اللہ تمہیں ہرحال میں خوش رکھے، خوشیاں تمہارا مقدر بنیں، دارین کی سرخروئی حاصل ہو، تمہاری نسلوں میں دین کے راہبرو راہنما پیدا ہوں، تم نے اپنے کردار وعمل کاجونمونہ چھوڑا ہے وہ تادم واپسیں بھلایا نہ جاسکے گا، تمہارے مربیان، تمہارے والدین خوش نصیب ہیں کہ تم جیسا شاگرد وبیٹا نصیب ہوا
 
Top