تلاشی

فاطمہ طاہرہ

وفقہ اللہ
رکن
خواتین کے ایک معروف سرکاری کالج میں انگریزی کا پیریڈ تھاکہ ایک طالبہ زور زور سے رونے لگی ٹیچر فوراََ اس کے پاس گئی اور بڑی نرمی سے دریافت کیا ،’’کیا بات ہے بیٹی کیوں رورہی ہو؟‘‘ اس نے سسکیاں لے کر جواب دیا،’’ میری فیس کے پیسے چوری ہوگئے ہیں، بیگ میں رکھے تھے کسی نے نکال لئے۔ٹیچر نے ایک لڑکی کو اشارہ کرتے ہوئے کہا ،کمرے کے دروازہ بند کردو کوئی باہر نہ جانے پائے سب کی تلاشیلی جائےگی۔ ٹیچر نے کچھ طالبات کی خود تلاشی لی ،پھر انہیں کلاس کی طالبات کی جیبیں چیک کرنے اور بستوں کی تلاشی کی ہدایت دی ،کچھ دیر بعد دو لڑکیوں کی تکرار سے اچانک کلاس ایک بار پھر شور سے گونج اٹھی۔

ٹیچر اپنی کرسی سے اٹھتے ہوئے بولیں،’’کیا بات ہے؟‘] تلاشی لینے والی طالبہ بولی،’’ مس کوثر اپنے بیگ کی تلاشی نہیں لینے دے رہی۔‘‘ٹیچر تڑک کر بولیں،’’ پیسے پھر اسی نے چرائے ہوں گے۔‘‘ یہ سن کرکوثر تڑپ کر بولی،’’ نہیں،نہیں مس میں چور نہیں ہوں۔ ”چورنہیں ہو تو پھربیگ کی تلاشی لینے دو‘‘۔”نہیں‘‘ کوثر نے کتابوں کے بیگ کو سختی سے اپنے سینے کے ساتھ لگاکر کہا، ’’نہیں میں تلاشی نہیں دوں گی‘‘۔ٹیچر آگے بڑھیں اور کوثر سے بیگ چھیننے کی کوشش کی لیکن وہ کامیاب نہ ہو سکیں ۔انہیں غصہ آگیا ، انہوں نے کوثر کے منہ پر تھپڑ مارا تو کوثر زور زور سے رونے لگی ۔

ٹیچر نےدوبارہ مارنے کےلئے ہاتھ اٹھایا ہی تھا کہ ایک بارعب آواز گونجی ،’’ رک جاؤ‘‘۔ ٹیچر نے پیچھے مڑکر دیکھا تو وہ پرنسپل صاحبہ کھڑی تھیں، نہ جانے کب کسی نے انہیں خبرکردی تھی ،انہوں نےکوثر اورٹیچرکو اپنے دفتر میں آنے کی ہدایت کی اور واپس چلی گئیں۔ پرنسپل نے پوچھا ’’کیا معاملہ ہے‘‘۔ ٹیچرنے تمام ماجراکہہ سنایا۔ انہوں نے طالبہ سے بڑی نرمی سے پوچھا”تم نے پیسے چرائے؟.’’نہیں‘‘اس نے نفی میں سرہلا دیا۔ کوثر کی آنکھوں میں آنسوتھے ”بالفرض مان بھی لیا جائے‘‘ پرنسپل متانت سے بولیں ،جب تمام طالبات اپنی اپنی تلاشی دے رہی تھیں تو تم نے انکار کیوں کیا؟‘‘کوثر خاموشی سے میڈم کو تکنے لگی .. اس کی آنکھوں سے دو موٹے موٹے آنسو نکل کر اس کے چہرے پر پھیل گئے.. ٹیچر نے کچھ کہنا چاہا، جہاندیدہ پرنسپل نے ہاتھ اٹھا کر انہیں روک دیا۔پرنسپل کا دل طالبہ کا چہرہ دیکھ کر اسے چور ماننے پر آمادہ نہ تھا ،پھر اس نے تلاشی دینے کے بجائے تماشا بننا گواراکیوں کیا،اس میں کیا راز ہے ؟ وہ سوچنے لگیںاور پھر کچھ سوچ کر ٹیچر کو کلاس کومیں جانے کا کہا۔

پرنسپل نے بڑی محبت سے کوثر کو اپنے سامنے والی نشست پر بٹھا کراُس سے استفسار کیاتو اس نے خاموشی سے اپنا بیگ ان کے حوالے کر دیا ۔پرنسپل نے اشتیاق، تجسس اور دھڑکتے دل کے ساتھ بیگ کھولا،مگر یہ کیا کتابوں کاپیوں کے ساتھ ایک کالے رنگ کا پھولا پچکا ہوا شاپر بھی باہر نکل آیا. طالبہ کو یوں لگا، جیسے اس کا دل سینے سے باہر نکل آیا ہو. کوثر کی ہچکیاں بندھ گئیں ۔پرنسپل نے شاپر کھولا تواس میں کھائے ،ادھ کھائے برگر،سموسے اور پیزے کے ٹکڑے،نان کچھ کباب اور دہی کی چٹنی میں ڈوبی چکن کی بوٹیاں تھیں،سارا معاملہ پرنسپل کی سمجھ میں آ گیا ۔وہ کانپتے وجود کے ساتھ اٹھیں، روتی ہوئی کوثر کو گلے لگا کر خود بھی رونے لگیں۔ کوثر نے بتایا،’’ میرا کوئی بڑا بھائی نہیں ،تین چھوٹے بہن بھائی ہیں والد صاحب ریٹائرمنٹ سے پہلے ہی بیمار رہنے لگے تھے، گھر میں کوئی اور کفیل نہیں ، پنشن سے گذارا نہیں ہوتا ،بھوک سے مجبور ہو کر ایک دن رات کا فاقہ تھا ،ناشتے میں بھی کچھ نہیںکھایاتھا ،کالج آنے لگی تو بھوک اور نقاہت سے چلنا مشکل ہوگیا، ایک تکہ کباب کی د کان کے آگے سے گذری تو کچرے میں کچھ نان کے ٹکڑے اور ایک چکن پیس پڑا دیکھا بے اختیار اٹھاکرکھا لیاقریبی نل سے پانی پی کر خداکر شکر ادا کیا، پھر ایسا کئی مرتبہ ہوا ایک دن میں دکان کے تھڑے پر بیٹھی پیٹ کا دوزخ بھررہی تھی کہ دکان کا مالک آگیا، اس نے مجھے دیکھا تو دیکھتاہی رہ گیا۔ ندیدوں کی طرح نان اور کباب کے ٹکڑے کھاتا دیکھ کر پہلے وہ پریشان ہوا،پھر ساری بات اس کی سمجھ میں آگئی۔

وہ ایک نیک اور ہمدرد انسان ثابت ہوا ۔میں نے اسے اپنے حالات سچ سچ بتا دئیے،اسے بہت ترس آیا۔ وہ کبھی کبھی میرے گھر کھانا بھی بھیج دیتا ہے اور گاہکوں کا بچا ہوا کھانا ،برگر وغیرہ روزانہ شاپر میں ڈال اپنی دکان کے باہر ایک مخصوص جگہ پررکھ دیتا ہے. جو میں کالج آتے ہوئے اٹھا کر کتابوں کے بیگ میں رکھ لیتی ہوں اور جاتے ہوئے گھر لے جاتی ہوں میرے امی ابو کو علم ہے۔ میں نے کئی مرتبہ دیکھا ہے لوگوں کا بچا کھچا کھانا کھاتے وقت ان کی آنکھوں میں آنسو ہوتے ہیں بہن بھائی چھوٹے ہیں انہیں کچھ علم نہیں وہ تو ایک دوسرے سے چھین کر بھی کھا جاتے ہیں۔
 
Top