محبت اور برف

فاطمہ طاہرہ

وفقہ اللہ
رکن
محبت اور برف میں کوئی واضح رشتہ تو نہیں سوائے اس بات کے کہ، جب محبت نہ رہے تو اسے سرد مہری کہا جاتا ہے اور’ سرد‘ کا تعلق واضح طور پر برف سے جا ملتا ہے۔ کسی زمانے میں برف کا وجود نہ تھا ، اس زمانے میں لوگوں میں بہت زیادہ محبت اور پیار کا رشتہ قائم تھا۔ نفسا نفسی کم ہی تھی۔،پھر یوں ہوا کہ گرمی بڑھ گئی اور برف بنانا ضروری ہو گیا۔ برف بننے لگی اور محبت ٹھندا پانی پینے لگی، جس سے خون کی تمازت میں کمی آگئی۔ خون کی گرمی کم ہونے سے محبت کی گرم جوشی بھی کچھ درجے نیچے آگئی،پھر برف بڑے شہروں سے چھوٹے شہروں میں بھجوائی جانے لگی اور محبت کی گرم جوشی مزید مانند پڑ گئی۔ محبت کا گاڑھا خون سفید ہونے لگا اور خون کی سفیدی کی اہمیت میں اضافہ اور گرمی کی شدت کم ہونے لگی۔

پھر یہ ہوا کہ چھوٹے شہروں میں بھی برف بنانے کی کارخانے لگنے لگے اور گھر گھر برف کی آمد شروع ہو گئی۔ پہلے جو برف صرف مالدار طبقہ ہی استعمال کرتا تھا، اب وہی برف متوسط طبقہ اورغریب بھی پینے لگے تھے، ان کا خون بھی ٹھنڈک کا متلاشی ہونے لگا تھا۔ خون کے سفید خلیوں کی اہمیت بھی پہلے سے زیادہ لوگوں کے شعور میں آ چکی تھی ،اس لئے خون کی سرخی اور گرمی کی ضرورت مزید کم ہو گئی،پھر برف باہر سے آنے کی بجائے فریجوں کی شکل میں گھر گھر بننے لگی، جس فرد کا جی چاہتا نکال کے استعمال کر لیتا، برف کے آنے اور لانے کا انتظار ختم ہو چکا تھا وہ انسان سے بس دو قدم کے فاصلے پر تھی، اسے ٹھنڈا پانی پینے کی عادت بہت زیادہ بڑھ گئی تھی۔ گھروں سے کولر بھی اٹھا دیئے گئے تھے اور فریج کو گرمیوں کی سرگرمیوں کا مرکز قرار دیا جا چکا تھا۔ برف باہر نہیں بلکہ انسان کے اندر ہی سرایت کرتی گئی ، اس کا خون ہر وقت ٹھنڈا ہی رہنے لگا، اس کے خون کے سفید خلیےاتنے زیادہ ہو گئے تھے کہ اس کا رنگ بھی سفید ہو گیا تھا و ہ باظاہر بہت مہذب اور صاف ستھرا لگتا تھا، جبکہ اس کا خون بہت ٹھنڈا اور سفید ہو چکا تھا۔

دیہات ابھی اس برف سازی میں شہروں سے اس طرح پیچھے ہیں کہ وہاں ہر گھر میں فریج کا راج نہیںہےاور ابھی وہاں محبت کی ہوا خود غرضی کے دھوئیں سے مکدر نہیں ہوئی۔ وہاں ابھی ایک دوسرے اور تیسرے کا کچھ کچھ تعلق باقی ہے، اگرچہ دیہات میں بھی کیبل بچھ گئی ہے، موبائل سگنل کی آمدورفت جاری ہے۔ طوفانِ بد تمیزی شہروں کے بعد اب دیہاتوں کا رخ کرنے کے لیےپر تول رہا ہےاور اسے کوئی روک بھی نہیں سکتا۔ گاؤں کی آب ہوا زیادہ دیر تک پسماندہ نہیں رہے گی، وہاں بھی تعلیم کا اثرو رسوخ قائم ہو گا۔ وہاں بھی ترقی ہو گی۔، گھر گھر میں برف بنے گی ،وہاں بھی ذاتی معاملات کا فلسفہ اپنا اثر دکھائے گا اور پھر انسان اکیلا ہو جائے گا۔
 

مولانانورالحسن انور

رکن مجلس العلماء
رکن مجلس العلماء
محبت اور برف میں کوئی واضح رشتہ تو نہیں سوائے اس بات کے کہ، جب محبت نہ رہے تو اسے سرد مہری کہا جاتا ہے اور’ سرد‘ کا تعلق واضح طور پر برف سے جا ملتا ہے۔ کسی زمانے میں برف کا وجود نہ تھا ، اس زمانے میں لوگوں میں بہت زیادہ محبت اور پیار کا رشتہ قائم تھا۔ نفسا نفسی کم ہی تھی۔،پھر یوں ہوا کہ گرمی بڑھ گئی اور برف بنانا ضروری ہو گیا۔ برف بننے لگی اور محبت ٹھندا پانی پینے لگی، جس سے خون کی تمازت میں کمی آگئی۔ خون کی گرمی کم ہونے سے محبت کی گرم جوشی بھی کچھ درجے نیچے آگئی،پھر برف بڑے شہروں سے چھوٹے شہروں میں بھجوائی جانے لگی اور محبت کی گرم جوشی مزید مانند پڑ گئی۔ محبت کا گاڑھا خون سفید ہونے لگا اور خون کی سفیدی کی اہمیت میں اضافہ اور گرمی کی شدت کم ہونے لگی۔

پھر یہ ہوا کہ چھوٹے شہروں میں بھی برف بنانے کی کارخانے لگنے لگے اور گھر گھر برف کی آمد شروع ہو گئی۔ پہلے جو برف صرف مالدار طبقہ ہی استعمال کرتا تھا، اب وہی برف متوسط طبقہ اورغریب بھی پینے لگے تھے، ان کا خون بھی ٹھنڈک کا متلاشی ہونے لگا تھا۔ خون کے سفید خلیوں کی اہمیت بھی پہلے سے زیادہ لوگوں کے شعور میں آ چکی تھی ،اس لئے خون کی سرخی اور گرمی کی ضرورت مزید کم ہو گئی،پھر برف باہر سے آنے کی بجائے فریجوں کی شکل میں گھر گھر بننے لگی، جس فرد کا جی چاہتا نکال کے استعمال کر لیتا، برف کے آنے اور لانے کا انتظار ختم ہو چکا تھا وہ انسان سے بس دو قدم کے فاصلے پر تھی، اسے ٹھنڈا پانی پینے کی عادت بہت زیادہ بڑھ گئی تھی۔ گھروں سے کولر بھی اٹھا دیئے گئے تھے اور فریج کو گرمیوں کی سرگرمیوں کا مرکز قرار دیا جا چکا تھا۔ برف باہر نہیں بلکہ انسان کے اندر ہی سرایت کرتی گئی ، اس کا خون ہر وقت ٹھنڈا ہی رہنے لگا، اس کے خون کے سفید خلیےاتنے زیادہ ہو گئے تھے کہ اس کا رنگ بھی سفید ہو گیا تھا و ہ باظاہر بہت مہذب اور صاف ستھرا لگتا تھا، جبکہ اس کا خون بہت ٹھنڈا اور سفید ہو چکا تھا۔

دیہات ابھی اس برف سازی میں شہروں سے اس طرح پیچھے ہیں کہ وہاں ہر گھر میں فریج کا راج نہیںہےاور ابھی وہاں محبت کی ہوا خود غرضی کے دھوئیں سے مکدر نہیں ہوئی۔ وہاں ابھی ایک دوسرے اور تیسرے کا کچھ کچھ تعلق باقی ہے، اگرچہ دیہات میں بھی کیبل بچھ گئی ہے، موبائل سگنل کی آمدورفت جاری ہے۔ طوفانِ بد تمیزی شہروں کے بعد اب دیہاتوں کا رخ کرنے کے لیےپر تول رہا ہےاور اسے کوئی روک بھی نہیں سکتا۔ گاؤں کی آب ہوا زیادہ دیر تک پسماندہ نہیں رہے گی، وہاں بھی تعلیم کا اثرو رسوخ قائم ہو گا۔ وہاں بھی ترقی ہو گی۔، گھر گھر میں برف بنے گی ،وہاں بھی ذاتی معاملات کا فلسفہ اپنا اثر دکھائے گا اور پھر انسان اکیلا ہو جائے گا۔
بہت ہی خوب بات ہے دیہاتوں میں اب بھی محبت وہیار ایک دوسرے کا خیال۔ملنا بیٹھنا ۔۔۔گپ شپ مل جاتا ہے اگرچہ دہی زندگی میں موبائل کے آ سیبی اثرات تیزی سے پھیل رہے ہیں مگر پھر بھی شیروں سے مختلف حالات ہیں ۔۔۔اگر دیکھا جاے تو دیہات
حسن اور خوبصورتی سے مالا مال ہیں دیہات کے لوگ مخلص اور خوش اخلاق ہوتے ہیں دیہات میں صبح شام کے نظارے قابل دید ہوتے ہیں
لہلہاتی فصلیں، ہرے بھرے کھیت ،خوشبو دار پھولوں کے باغات ،سرسبز میدان ،سایہ دار درخت ،خوبصورت باغات قدرت کا بہت بڑا انعام ہیں ہر طرف پرندے چہچہاتے ہیں ہرے بھرے پودے صفیں باندھے کھڑے ہوتے ہیں ندی کے شفاف پانی میں پھولوں کا عکس خوبصورت منظر پیش کرتا ہے
صبح کے وقت گھاس پر پڑی ہوئی شبنم کے قطرے سورج کی روشنی میں موتیوں کی طرح چمکتے ہیں یوں معلوم ہوتا ھے کہ گھاس پر موتی بکھرے ہوئے ہوں لہراتی اور بل کھاتی پگڈنڈیاں ،مہکتی فضائیں اور دلکش ہوائیں یہ سب مل کر دیہات کی خوبصورتی کو چار چاند لگا دیتے ہیں
 

فاطمہ طاہرہ

وفقہ اللہ
رکن
بہت ہی خوب بات ہے دیہاتوں میں اب بھی محبت وہیار ایک دوسرے کا خیال۔ملنا بیٹھنا ۔۔۔گپ شپ مل جاتا ہے اگرچہ دہی زندگی میں موبائل کے آ سیبی اثرات تیزی سے پھیل رہے ہیں مگر پھر بھی شیروں سے مختلف حالات ہیں ۔۔۔اگر دیکھا جاے تو دیہات
حسن اور خوبصورتی سے مالا مال ہیں دیہات کے لوگ مخلص اور خوش اخلاق ہوتے ہیں دیہات میں صبح شام کے نظارے قابل دید ہوتے ہیں
لہلہاتی فصلیں، ہرے بھرے کھیت ،خوشبو دار پھولوں کے باغات ،سرسبز میدان ،سایہ دار درخت ،خوبصورت باغات قدرت کا بہت بڑا انعام ہیں ہر طرف پرندے چہچہاتے ہیں ہرے بھرے پودے صفیں باندھے کھڑے ہوتے ہیں ندی کے شفاف پانی میں پھولوں کا عکس خوبصورت منظر پیش کرتا ہے
صبح کے وقت گھاس پر پڑی ہوئی شبنم کے قطرے سورج کی روشنی میں موتیوں کی طرح چمکتے ہیں یوں معلوم ہوتا ھے کہ گھاس پر موتی بکھرے ہوئے ہوں لہراتی اور بل کھاتی پگڈنڈیاں ،مہکتی فضائیں اور دلکش ہوائیں یہ سب مل کر دیہات کی خوبصورتی کو چار چاند لگا دیتے ہیں
نہیں مولانا صاحب میں اس سے متفق نہیں ہوں۔ اب کسی کی گپ شپ نہیں ہوتی۔ موبائل کا آسیب پہنچ چکا ہے۔ اب قدرتی حسن ختم ہے۔ کوئی خوش اخلاق بھی نہیں ملتا۔ صبح نہ شام کوئی نظارہ قابل دید نہیں ہے۔ اب فصلیں لہلہاتی تو ہیں مگر ساتھ ہی کھادوں اور کیمیائی موادوں سے سانس تک دوبھر ہو جاتا ہے۔ اب کوئی پرندہ نہیں چہچہاتا۔ ہر سال بہار کے آغاز میں چڑیوں کی ایک بڑی تعداد مر جاتی ہے۔ ندیاں شفاف کم اور گندے نالوں کا منظر زیادہ پیش کرتی ہیں۔
 
Top