ہے عجیب شہر کی زندگی

فاطمہ طاہرہ

وفقہ اللہ
رکن
ہے عجیب شہر کی زندگی، نہ سفر رہا، نہ قیام ہے

کہیں کاروبار سی دوپہر ،کہیں، بد مزاج سی شام ہے

یونہی روز ملنے کی آرزُو، بڑی رکھ رکھاؤ کی گفتگو

یہ شرافتیں، نہیں بے غرض! اِسےآپ سے کوئی کام ہے

کہاں اب دُعاؤں کی برکتیں، وہ نصیحتیں، وہ ہدایتیں

یہ مطُالبوں کا خلُوص ہے ، یہ ضرُورتوں کا سلام ہے

وہ دِلوں میں آگ لگائے گا ، مَیں دِلوں کی آگ بُجھاؤں گا

اُسے اپنے کام سے کام ہے، مُجھے اپنے کام سے کام ہے

نہ اُداس ہو، نہ ملال کر ،کسی بات کا نہ خیال کر!

کئی سال بعد مِلے ہیں ہم، تِرے نام آج کی شام ہے

کوئی نغمہ دُھوپ کے گاؤں سا، کوئی نغمہ شام کی چھاؤں سا

ذرا اِن پَرِندوں سے پُوچھنا ،یہ کلام ،کِس کا کلام ہے

ڈاکٹر بشیر بدرؔ
 
Top