اسلام کا مذہبی وروحانی انقلاب

زنیرہ عقیل

منتظم اعلی۔ أیدہ اللہ
Staff member
منتظم اعلی
ظہورِ اسلام سے قبل دنیا کی مذہبی حالت نہایت خستہ تھی۔ عرب اس وقت کی آباد دنیا کے وسط میں واقع تھا۔ وہاں کفر و شرک اور جہالت و لاقانونیت کا دور دورہ تھا۔ قتل و غارت گری، ظلم و ناانصافی کا راج تھا ۔ عرب میں ایک دو نہیں، ہزاروں بت تھے۔ صرف خانۂ کعبہ میں ۳۶۰ بت تھے اور ہر ہر گھر کا بت الگ تھا، یہی نہیں؛ بلکہ معبودوں کی فہرست میں جنوں، فرشتوں اور ستاروں کا بھی نام تھا۔ کہیں کہیں آفتاب پرستی بھی رائج تھی۔

روم و ایران اس وقت دنیا کی دو سُپر طاقتیں تھیں اور آباددنیا کے نصف سے زیادہ حصے پر ان کی حکومت تھی؛ لیکن وہاں اخلاق و مروت، عدل و انصاف کا نام و نشان نہ تھا۔ روم اپنی قدیم یونانی علمی و مادی ترقیات کے باوجود انتہائی ذلت و پستی میں پہنچ چکا تھا۔ ایران میں آتش کدے روشن تھے، جن کے آگے سرِ نیاز خم کیے جاتے تھے۔ پوری انسانی سوسائٹی طرح طرح کی مذہبی و اخلاقی خرابیوں میں ڈوبی ہوئی تھی۔ ہندوستان میں بھی ابتری پھیلی ہوئی تھی۔ تمام ملک میں بت پرستی کا زور تھا۔ ستاروں، پہاڑوں، دریاؤں، درختوں ، حیوانوں پتھروں اور حتی کہ شرم گاہوں کی بھی پرستش کی جاتی تھی۔

یہودی قوم حضرت موسی علیہ السلام کی اصل تعلیمات بھول کر دنیا کے مختلف خطوں اور گوشوں میں ذلت کے ساتھ در در کی ٹھوکریں کھارہی تھی، خود عیسائی بھی حضرت عیسی علیہ السلام کی اصل دعوت اور پیغام کو چھوڑ کر انھیں خدا کا بیٹا مان چکے تھے۔ وہ انجیل میں تحریف کرچکے تھے اور سینٹ پال پولس کی پیش کردہ عیسائیت کے پیروکار ہوچلے تھے۔ بدھ ازم چند سو سال کی آب و تاب کے بعد تیزی سے رو بزوال تھا۔ بدھ مذہب کے پیشوا خانقاہوں میں تیاگی بن کر بیٹھ گئے تھے۔ گوتم بدھ جو شرک کے خلاف مشن لے کر آئے تھے، ان کے ماننے والوں نے خود انھیں کو خدا بناکر ان کی پوجا شروع کردی تھی۔

غرض ساتویں صدی عیسوی تک روئے زمین پر ایسی کوئی قوم نہیں تھی جو مزاج کے اعتبار سے صالح کہی جا سکے۔ نہ کوئی ایسا دین تھا جو انبیائے کرام علیہم السلام کی طرف صحیح نسبت رکھتا ہو۔ اس گھٹا ٹوپ اندھیرے میں کہیں کہیں عبادت گاہوں میں اگر کبھی کبھی کچھ روشنی نظر آجاتی تھی، تو اس کی حیثیت ایسی ہی تھی جیسے برسات کی شب دیجور میں جگنو چمکتا ہے۔ صحیح علم اتنا نایاب اور خدا کا سیدھا راستہ بتانے والے اتنے خال خال تھے کہ ایران کے بلند ہمت اور بے چین طبیعت نوجوان سلمان فارسی (رضی اللہ عنہ) کو ایران سے لے کر شام تک کے اپنے طویل سفر میں صرف چار راہب ایسے مل سکے، جن سے ان کی روح کو سکون اور قلب کوذرا اطمینان حاصل ہوا؛غرض یہ کہ دنیا مذہبی کشاکش سے دو چار تھی اور انسانیت کی کشتی مسائل کے گرداب میں چکر کھارہی تھی۔ کوئی ایسا باہمت شناور نہ دکھائی دیتا تھا جو اسے موجوں کے تلاطم سے بچا کر ساحلِ مراد تک پہنچاسکے۔ مایوسی کے اس عالم گیر سناٹے میں صحرائے عرب سے ایک صدا بلند ہوئی:

یَا اَیُّھَا النَّاسُ قَدْ جَآئَکُمُ الرَّسُوْلُ بِالْحَقِّ مِنْ رَبِّکُمْ فَآَمِنُوْا خَیْرًا لَکُمْ وَاِنْ تَکْفُرُوْا فَاِنَّ لِلہِ مَا فِیْ السَّمَاوَاتِ وَالْاَرْضِ وَکَانَ اللہُ عَلِیْمًا حَکِیْمًا (سورۃ النساء 170:4)

ترجمہ: اے لوگو! یہ رسول تمہارے پاس تمہارے پروردگار کی طرف سے حق لے کر آگئے ہیں ، اب (ان پر )ایمان لے آؤ کہ تمہاری بہتری اسی میں ہے۔ اگر (اب بھی) تم نے کفر کی راہ اپنائی تو (خوب سمجھ لو کہ ) تمام آسمانوں اور زمین میں جو کچھ ہے اللہ ہی کا ہے اور اللہ علم اور حکمت دونوں کا مالک ہے۔ (سورۃ النساء ۱۷۰)
 
Top