ذکرمظاہرعلوم کے دربانوں کا(۱۲)

مفتی ناصرمظاہری

کامیابی توکام سے ہوگی نہ کہ حسن کلام سے ہوگی
رکن
ذکرمظاہرعلوم کے دربانوں کا
سلسلہ علم وکتاب(۱۲)

ناصرالدین مظاہری
۲۷؍ذوالقعدۃ ۱۴۴۳ھ

ملامنظوراحمدمرحوم

ؒ(گزشتہ سے پیوستہ)

جمعہ کی امامت سے فرار:

جمعہ کا دن تھا،اس گاؤں میں اس دن اتفاق سے امام صاحب موجود نہیں تھے ، مسجد میں نماز جمعہ پڑھنے والوں کی بھیڑ امام صاحب کی منتظر تھی ،چہ می گوئیاں ہورہی تھیں کہ نماز کون پڑھائے ، ملامنظور ٹھیک اسی وقت وارد ہوئے، لوگوں میں خوشی کی لہردوڑ گئی کہ نماز پڑھانے کے لئے امام کی ضرورت پوری ہوگئی ، گویا لوگوں کی تو باچھیں کھل گئیں اور ادھر ملاجی منظور کوجب پتہ چلا کہ آج جمعہ کی نماز خطبہ سمیت انھیں پڑھانی ہے تو گویا ملاجی کی باچھیں پھٹ گئیں،ملاجی کی پریشانی دیدنی تھی، کہتے ہیں کہ میرا حال خراب ہورہا تھا، نماز پڑھانا توزیادہ مشکل نہیں تھا لیکن خطبۂ جمعہ نہایت مشکل کام تھا، چنانچہ ملاجی نے بہانہ کیاکہ مجھے قریب کے گاؤں میں فوراً پہنچنا ہے ، وہاں مدرسہ کا ایک اہم کام ہے۔ اس طرح ملاجی نے وہاں سے راہ فرار اختیار کی۔

سورۂ تکاثر میں بھول:

خود بتایا کرتے تھے کہ ایک گاؤں میں پہنچا، ارادہ تھا کہ رات اسی گاؤں میں گزار کرا گلی منزل کی طرف روانگی ہوگی وہاں عشا کی نماز میں لوگوں نے امامت کے لئے آگے کردیا، میں نے بہت ہی غور سے قرأت کی پھربھی سورۂ تکاثر میں کچھ بھول گیا، حالانکہ میں نے سجدہ سہو بھی کیا پھر بھی لوگوں نے کہاکہ سورت میں غلطی کردی ہے نماز نہیں ہوئی، ملاجی کہنے لگے کہ اسی لئے توسجدۂ سہوکیا ہے تاکہ نماز ہوجائے۔ اب لوگوں نے طے کیاکہ فجر کی نماز بھی ان سے ہی پڑھوانی ہے ۔کشاں کشاں یہ خبر ملاجی تک پہنچ گئی، ملاجی نے اس گاؤں میں قیام کے ارادے کو ہی کینسل کردیا۔

نماز جنازہ کا واقعہ:

ایک دفعہ میرٹھ کے حالات بہت خراب تھے ،لاشیں آرہی تھیں ، نماز جنازہ پڑھانے والا کوئی نہیں تھا ، دلچسپ بات یہ کہ دارالعلوم دیوبند کاسفیر بھی موجود اور مظاہرعلوم سے ملا منظور بھی موجود ،دونوں نمازجنازہ پڑھانے سے کترارہے تھے، لوگ غصہ ہوئے کہ ویسے تویہ دونوں ادارے چندے کے معاملہ میں پیش پیش رہتے ہیں اور نمازجنازہ کے لئے کوئی آگے نہیں بڑھ رہاہے ، ایک شخص نے ملاجی کو آگے ڈھکیل دیا، ملاجی کہتے ہیں کہ مجھے نماز جنازہ میں پڑھی جانے والی دعائیں یاد نہیں تھیں اس لئے تکبیرات پر اکتفا کرنا پڑا۔

قلعی کھل گئی:

شروع ہی میں لکھ چکا ہوں کہ پہلے ملاجی کی لائن بالکل بدلی ہوئی تھی، حضرت مفتی مظفرحسینؒ ان کی زندگی میں فرشتۂ رحمت بن کر داخل ہوئے اوربعدکی زندگی یکسر بد ل گئی ، توبہ سے پہلے والے مرحلہ کے کچھ کیس وغیرہ پولیس میں چل رہے تھے ، ملاجی کو لوگوں نے مشورہ دیاکہ اگر حضرت مولانا اسعدمدنی ؒ سے تم سفارشی مکتوب لکھوالو توسو فیصد کام ہوسکتا ہے ،ملاجی کہتے ہیں کہ

’’میں نے حضرت مولانا سید محمد سلمان سے کرتا مانگا، حضرت مولانا محمد باقرؒ لکھیم پوری سے سفیدرومال خریدا، عمدہ سی سفیدلنگی پہنی، بایں حال و حالت اور کیف و کیفیت دیوبند پہنچ گیا ، دربان نے داخل ہونے سے منع کیا تو میں نے دربان سے کہا کہ جاؤ! اور حضرت سے بولو کہ مظاہرعلوم سے حضرت آئے ہیں ملاقات کرنا چاہتے ہیں‘‘۔

دربان نے جیسے ہی یہ اطلاع حضرت مولانا مدنی کو دی تو مولانا بھی سنبھل کر بیٹھ گئے اور فرمایا کہ فوراً اندر لے کر آؤ، اب ملاجی اندر پہنچے ،’’حضرت‘‘ کی شایان شان ناشتہ کیا، ناشتہ کے بعد مو لانا مدنی نے حاضری کی غرض پوچھی تو ملاجی نے بلاکم و کاست سچ سچ بات گوش گزار کردی ۔

وہاں سے فارغ ہوکر باہر نکلے تو دارالعلوم ہی کے کچھ طلبہ ملاجی کو دیکھ کر آپس میں باتیں کرنے لگے کہ یہ اصلی استاذ ہیں یانقلی؟ ایک نے کہا اصلی، دوسرے نے کہا نقلی، دونوں میں طے ہوگیا کہ جو غلطی پر ہوگا وہ گاجر کا حلوہ کھلائے گا۔

ملاجی آگے آگے اور دونوں طلبہ پیچھے پیچھے ،ایک نے آگے بڑھ کر پوچھ ہی لیاکہ حضرت! آپ مظاہرعلوم میں کیا پڑھاتے ہیں؟برجستہ بولے ’’شرح جامی‘‘دونوں طالب علم ملاجی کے ساتھ ہی سعیدیہ ہوٹل پہنچ گئے،ملاجی بھی ہوٹل میں داخل ہوگئے ،جب ملاجی نکل رہے تھے تووہ دونوں طلبہ بھی گاجرکے حلوے سے فارغ ہوچکے تھے وہ بھی نکلنے لگے، اچانک وہاں مظاہرعلوم میں پڑھے ہوئے کسی طالب علم نے ملاجی کودیکھ لیااوراس نے زورسے پکارا’’ملامنظور‘‘ اورملا منظورکہتے ہیں کہ پھرتومیں ٹاپوٹاپ‘‘ (جلد ی جلدی رخصت ہوا)

حضرت مولانااسعدمدنی ؒکے لئے دروازہ نہیں کھولا:

مدرسہ میں حالات خراب چل رہے تھے،ملاجی دارجدیدکی دربانی پرمامورتھے ،حضرت مولاناسیدمحمداسعدمدنیؒ سہارنپور تشریف لائے تھے، سوچاکہ حضرت مفتی محمودحسن گنگوہیؒ سے ملاقات کرتاچلوں،مفتی صاحبؒ کی رہائش دارجدیدمیں تھی،رات کاوقت تھا،دروازے پردستک دی گئی، ملاجی نے اندرسے پوچھا کون؟مدنی صاحب کے رفقائے سفرنے بتایاکہ حضرت مولاناسید اسعد مدنیؒ تشریف لائے ہیں دروازہ کھول دو،ملاجی نے کہاکہ یہاں سینکڑوں آتے جاتے ہیں ، قانون اٹل ہے ،دروازہ نہیں کھلے گا۔خودحضرت مولانا اسعد مدنی ؒآگے بڑھے اور ملاجی کو پہچان بھی گئے فرمایا: بھائی جی دروازہ کھول دو!ملاجی نے کہاکہ حضرت ! دفتراہتمام سے سخت ہدایت ہے کہ کسی کے لئے بھی دروازہ کھولنانہیں ہے، اس لئے قانون بالکل اٹل ہے ۔حضرت مدنیؒ نے فرمایاکہ ایک کام کرو،حضرت مفتی محمودحسن صاحبؒ کواطلاع کردو، چنانچہ ملاجی نے حضرت مفتی محمودحسنؒ کی خدمت میں پہنچ کر مدنی صاحب کی آمد کی اطلاع دی تو حضرت مفتی صاحبؒ بہت خفا ہوئے اور خود دروازے تک تشریف لائے،دروازہ کھلوایا اور مہمانوں کو اندر لے گئے۔

حضرت مولانا سید اسعد مدنی ؒ نے مفتی صاحبؒ کے سامنے ملا منظور احمد کے اس عمل کی تعریف وستائش فرمائی اور کچھ نقد انعام سے بھی نوازا۔
 

احمدقاسمی

منتظم اعلی۔ أیدہ اللہ
Staff member
منتظم اعلی
انشاء اللہ آئندہ شمارہ اکتوبر میں "دربان نمبر" نکالا جائےگا۔
 
Top