تقلید اور فقہ کی تعریف

زنیرہ عقیل

منتظم اعلی۔ أیدہ اللہ
Staff member
منتظم اعلی
تقلید:
تقلید کے معنی لغت میں ماننا، پیروی کرنا اور کسی شئ کو دوسری شئ کے لیے لازم کردینے کے ہیں
اصطلاح میں تقلید کہتے ہیں کہ کسی کا قول محض اس حسن ظن پر مان لینا اورعمل کرنا کہ وہ دلیل کے موافق بتلائے گا
اور اس سے دلیل وتحقیق کا مطالبہ نہ کرنا ، صاحب نامی شرح حسامی فرماتے ہیں:
التقلید اتباع الغیر علی ظن أنہ محق بلا نظر في الدلیل
(نامي: ۱۹۰)


فقہ:
فقہ کے لغوی معنی، سمجھ، فہم وفراست کے ہیں اور اصطلاح میں فقہ کہتے ہیں احکام شرعیہ کے جاننے کو جو ادلہ تفصیلیہ سے ماخوذ ہوں۔
واصطلاحاً عند الأصولیین: العلم بالأحکام الشرعیة الفرعیة المکتسب من أدلّتہا التفصیلیة․
(مقدمة رد المحتار: ۱/ ۱۱۴، ط: اشرفی دیوبند)
 

فاطمہ طاہرہ

وفقہ اللہ
رکن
لفظ تقلید جو باب تفعیل کے وزن پر ہے کا مادہ ق، ل، د اور حروف اصلیہ تین ہیں۔ اس سے مراد کی انسان کی طرف سے دی گئی ہدایات یا اقوال پر بغیر دلیل طلب کے عمل کرنا ہے۔ اسلامی شریعت میں دو لفظ بولے جاتے ہیں
اتباع
تقلید
اتباع سےمراد کسی مجتہد کے قول پر دلیل دیکھ کر عمل کرنا ہے۔
تقلید سے مراد کسی مجتہد کے قول پر بغیر دلیل کے عمل پیرا ہونا ہے۔
اسی مادہ سے قلادہ نکلا ہے جس سے مراد وہ پٹہ ہے جو جانوروں کے گلے میں ان کو باندھے کے لیے ڈالا جاتا ہے ۔ جیسے محمد بن أبي بكر بن عبد القادر الرازي لکھتے ہیں
و تقیلد البدنہ ان یعلق فی عنقھا شی یعلم انھا ھدی (مختار الصحاح)
اور قربانی کے جانور کی تقیلد سے مراد اس کے گلے میں کسی رسی یا اس قسم کی دوسری نشانی باندھ دینا ہے تاکہ ہر کوئي جان سکے کہ یہ قربانی کا جانور ہے۔
اصطلاحی معنی:
اگر ہم کسی مجتہد کی رائے کے مطابق بغیر دلیل طلب کئے یا اس کی رائے کے پس منظر کا مطالعہ کیے بغیر عمل پیرا ہونگے تو یہ عمل اصول فقہ کی اصطلاح میں تقیلد کہلائے گا اور عمل کرنے والا مقلد کہلائے گا۔
 
Last edited by a moderator:

مولانانورالحسن انور

رکن مجلس العلماء
رکن مجلس العلماء
لفظ تقلید جو باب تفعیل کے وزن پر ہے کا مادہ ق، ل، د اور حروف اصلیہ تین ہیں۔ اس سے مراد کی انسان کی طرف سے دی گئی ہدایات یا اقوال پر بغیر دلیل طلب کے عمل کرنا ہے۔ اسلامی شریعت میں دو لفظ بولے جاتے ہیں
اتباع
تقلید
اتباع سےمراد کسی مجتہد کے قول پر دلیل دیکھ کر عمل کرنا ہے۔
تقلید سے مراد کسی مجتہد کے قول پر بغیر دلیل کے عمل پیرا ہونا ہے۔
اسی مادہ سے قلادہ نکلا ہے جس سے مراد وہ پٹہ ہے جو جانوروں کے گلے میں ان کو باندھے کے لیے ڈالا جاتا ہے ۔ جیسے علامہ جوہری لکھتے ہیں
و تقیلد البدنہ ان یعلق فی عنقھا شی یعلم انھا ھدی (مختار الصحاح)
اور قربانی کے جانور کی تقیلد سے مراد اس کے گلے میں کسی رسی یا اس قسم کی دوسری نشانی باندھ دینا ہے تاکہ ہر کوئي جان سکے کہ یہ قربانی کا جانور ہے۔
اصطلاحی معنی:
اگر ہم کسی مجتہد کی رائے کے مطابق بغیر دلیل طلب کئے یا اس کی رائے کے پس منظر کا مطالعہ کیے بغیر عمل پیرا ہونگے تو یہ عمل اصول فقہ کی اصطلاح میں تقیلد کہلائے گا اور عمل کرنے والا مقلد کہلائے گا۔
علامہ جوہری سے مراد کون ہے مختار الصحاح کے مصنف میرے خیال میں اور کوئی ہے
 

فاطمہ طاہرہ

وفقہ اللہ
رکن
علامہ جوہری سے مراد کون ہے مختار الصحاح کے مصنف میرے خیال میں اور کوئی ہے
مولانا صاحب نشاندہی کا بہت بہت شکریہ۔
محمد بن أبي بكر بن عبد القادر الرازي کی کتاب مختار الصحاح صفحہ 229 تھا۔
 

زنیرہ عقیل

منتظم اعلی۔ أیدہ اللہ
Staff member
منتظم اعلی
تقلید کرنے والے کے لحاظ سے تقلید کے چار مختلف درجات اور اُن کے احکام ہیں۔ ان درجات میں فرق نہ کرنے کی وجہ سے بہت سی خرابیاں پیدا ہوتی ہیں اور غیر مقلدین کے بیشتر اعتراضات اسی فرقِ مراتب کو نہ سمجھنے کا نتیجہ ہے۔ ان چار درجات کا سمجھنا بہت ضروری ہے، وہ بالترتیب یہ ہیں:

(۱)عوام کی تقلید ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔(۲)متبحر عالم کی تقلید۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔(۳)مجتہد فی المذب کی تقلید۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ (۴)مجتہد مطلق کی تقلید۔

(۱)عوام کی تقلید:

”عوام“ سے ہماری مراد مندرجہٴ ذیل اقسام کے حضرات ہیں:
(۱)۔وہ حضرات جو عربی زبان اور اسلامی علوم سے بالکل ناواقف ہوں، خواہ وہ دوسرے فنون میں وہ کتنے ہی تعلیم یافتہ اور ماہر و محقق ہوں۔
(۲)۔وہ حضرات جو عربی زبان جانتے اور عربی کتابیں سمجھ سکتے ہوں؛ لیکن انھوں نے تفسیر، حدیث، فقہ اور متعلقہ دینی علوم کو باقاعدہ اساتذہ سے نہ پڑھا ہو۔
(۳)۔وہ حضرات جو رسمی طور پر اسلامی علوم سے فارغ التحصیل ہوں؛ لیکن تفسیر، حدیث، فقہ اور ان کے اصولوں میں اچھی استعداد اور بصیرت پیدا نہ ہوئی ہو۔

یہ تینوں قسم کے حضرات تقلید کے معاملے میں ”عوام“ ہی کی صف میں شمار ہوں گے، اور تینوں کا حکم ایک ہی ہے۔ اس قسم کے عوام کو ”تقلید محض“ کے سوا چارہ نہیں؛ کیونکہ ان میں اتنی استعداد اور صلاحیت نہیں ہے کہ وہ براہِ راست کتاب و سنت کو سمجھ سکیں، یا اس کے متعارض دلائل میں تطبیق و ترجیح کا فیصلہ کر سکیں۔ لہٰذا احکامِ شریعت پر عمل کرنے کے لیے ان کے پاس اس کے سوا کوئی راستہ نہیں کہ وہ کسی مجتہد کا دامن پکڑیں اور اس سے مسائلِ شریعت معلوم کریں۔ (تقلید کی شرعی حیثیت ص:۸۵،۸۶)

اس درجے کے مقلد کا کام یہ نہیں ہے کہ وہ دلائل کی بحث میں اُلجھے اور یہ دیکھنے کی کوشش کرے کہ کون سے فقیہ و مجتہد کی دلیل زیادہ راجح ہے؟ اس کا کام صرف یہ ہے کہ وہ کسی مجتہد کو متعین کر کے ہر معاملے میں اسی قول کے پر اعتماد کرتا رہے؛ کیونکہ اس کے اندر اتنی استعداد موجود نہیں ہے کہ وہ دلائل کے راجح و مرجوح ہونے کا فیصلہ کر سکے؛ بلکہ ایسے شخص کو اگر اتفاقاً کوئی حدیث ایسی نظر آ جائے جو بظاہر اس کے امام مجتہد کے مسلک کے خلاف معلوم ہوتی ہو ، تب بھی اس کا فریضہ یہ ہے کہ وہ اپنے امام و مجتہد کے مسلک پر عمل کرے، اور حدیث کے بارے میں یہ اعتقاد رکھے کہ اس کا صحیح مطلب میں نہیں سمجھ سکا، یا یہ کہ امام مجتہد کے پاس اُس کے معارض کوئی قوی دلیل ہو گی۔

․․․․․․ اور اگر ایسے مقلد کو یہ اختیار دے دیا جائے کہ وہ کوئی حدیث اپنے امام کے مسلک کے خلاف پا کر امام کے مسلک کو چھوڑ سکتا ہے، تو اس کا نتیجہ شدید افراتفری اور سنگین گمراہی کے سوا کچھ نہیں ہو گا؛ اس لیے کہ قرآن و حدیث سے مسائل کا استنباط ایک ایسا وسیع و عمیق فن ہے کہ اس میں عمریں کھپا کر بھی ہر شخص اس پر عبور حاصل نہیں کر سکتا۔ ( تقلید کی شرعی حیثیت ص:۸۷)

ایسی احادیث بیسیوں ہیں، جن کو قرآن و سنت کے علوم میں کافی مہارت کے بغیر انسان دیکھے گا تو لامحالہ غلط فہمیوں میں مبتلا ہو گا۔ اسی بناء پر علماء نے فرمایا ہے کہ جس شخص نے علمِ دین باقاعدہ حاصل نہ کیا ہو، اُسے قرآن و حدیث کا مطالعہ ماہر استاذ کی مدد کے بغیر نہیں کرنا چاہیے۔ ( تقلید کی شرعی حیثیت ص:۹۱)

ہمارے فقہاء نے اس بات کی تصریح فرمائی ہے کہ عوام کو براہِ راست قرآن و حدیث سے احکامِ شریعت معلوم کرنے کے بجائے علماء و فقہاء کی طرف رجوع کرنا چاہیے؛ بلکہ فقہاء نے تو یہاں تک فرمایا ہے کہ اگر کسی عام آدمی کو کوئی مفتی غلط فتویٰ دے دے تو اس کا گناہ فتویٰ دینے والے پر ہو گا، عام آدمی کو معذور سمجھا جائے گا؛ لیکن اگر عام آدمی کوئی حدیث دیکھ کر اس کا مطلب غلط سمجھے اور اس پر عمل کر لے، تو وہ معذور نہیں ہے؛ کیونکہ اس کا کام کسی مفتی کی طرف رجوع کرنا تھا، خود قرآن و سنت سے مسائل کا استنباط اس کا کام نہ تھا۔ ( تقلید کی شرعی حیثیت ص:۹۲،۹۳)

(۲)متبحر عالم کی تقلید:

”متبحر عالم“ سے ہماری مراد ایسا شخص ہے جو اگرچہ رُتبہٴ اجتہاد تک نہ پہنچا ہو؛ لیکن اسلامی علوم کو باقاعدہ ماہر اساتذہ سے حاصل کرنے کے بعد انہی علوم کی تدریس و تصنیف کی خدمت میں اکابر علماء کے زیرِ نگرانی عرصہٴ دراز تک مشغول رہا ہو، تفسیر، حدیث، فقہ اور ان کے اصول اسے مستحضر ہوں، اور وہ کسی مسئلے کی تحقیق میں اسلاف کے افادات سے بخوبی فائدہ اُٹھا سکتا ہو، اور ان کے طرزِ تصنیف و استدلال کا مزاج شناس ہونے کی بناء پر ان کی صحیح مراد تک پہنچ سکتا ہو۔ حضرت شاہ ولی اللہ رحمة اللہ علیہ ایسے شخص کو ”متبحر فی المذہب“ کے نام سے یاد کرتے ہیں۔ ایسا شخص بھی اگرچہ رُتبہٴ اجتہاد تک نہ پہنچنے کی وجہ سے مقلد ہی ہوتا ہے؛ لیکن وہ اپنےمذہب کا مفتی بن سکتا ہے، ایسے شخص کی تقلید عوام کی تقلید سے کچھ امور میں مختلف ہوتی ہے۔ ( تقلید کی شرعی حیثیت ص:۹۴،۹۵)

ایک متبحر عالم کن شرائط کے ساتھ حدیث ِصحیح کی بنیاد پر اپنے امام مجتہد کے قول کو چھوڑ سکتا ہے؟ علمائے اُصولِ فقہ کی کتب سے اُن شرائط کو ذکر کرنے کے بعد فرمایا کہ علمائے اُصول کی مذکورہ بالا تصریحات کی روشنی میں ایک متبحر عالم اگر کسی مسئلے کے تمام پہلووٴں اور ان کے دلائل کا احاطہ کرنے کے بعد کم از کم اُس مسئلہ میں اجتہاد کے درجہ تک پہنچ گیا ہو (خواہ وہ پوری شریعت میں مجتہد نہ ہو) تو وہ یہ فیصلہ کر سکتا ہے کہ میرے امام مجتہد کا مسلک فلاں حدیث ِصحیح کے خلاف ہے۔ ایسے موقع پر اس کے لیے ضروری ہو گا کہ وہ امام کے قول کو چھوڑ کر حدیث پر عمل کر۔ (تقلید کی شرعی حیثیت ص:۱۰۴)

لیکن اس طرح جزوی طور پر اپنے امام سے اختلاف کرنے کے باوجود مجموعی طور پر اُسے مقلد ہی کہا اور سمجھا جاتا ہے؛ چنانچہ بہت سے فقہاءِ حنفیہ نے اسی بناء پر امام ابو حنیفہ کے قول کو ترک کر کے دوسرے ائمہ کے قول پر فتویٰ دیا ہے۔ ( تقلید کی شرعی حیثیت ص:۱۰۷)

تنبیہ: البتہ یہ مسئلہ انتہائی نازک ہے؛ اس لیے اس میں نہایت احتیاط کی ضرورت ہے، اور ہر شخص کے لیے جائز نہیں ہے کہ وہ اپنے آپ کو متبحر علماء کی صف میں شمار کر کے اس منصب پر فائز ہو جائے، اور اُوپر جو شرائط بیان کی گئی ہوں اُن کی رعایت رکھے بغیر احکامِ شرعیہ میں تصرف شروع کر دے۔ ( تقلید کی شرعی حیثیت ص:۱۰۸)

(۳)مجتہد فی المذہب کی تقلید:

”مجتہد فی المذہب“ اُن حضرات کو کہتے ہیں جو استدلال و استنباط کے بنیادی اُصولوں میں کسی مجتہد مطلق کے طریقے کے پابند ہوتے ہیں؛ لیکن اُن اصول و قواعد کے تحت جزوی مسائل کو براہِ راست قرآن و سنت اور آثارِ صحابہ وغیرہ سے مستنبط کرنے کی اہلیت رکھتے ہیں؛ چنانچہ ایسے حضرات اپنے مجتہد مطلق سے بہت سے فروعی احکام میں اختلاف رکھتے ہیں، لیکن اصول کے لحاظ سے اس کے مقلد کہلاتے ہیں۔ مثلاً: فقہ حنفی میں امام ابو یوسف اور امام محمد، فقہ شافعی میں امام مزنی اور امام ابو ثور، فقہ مالکی میں سحنون اور ابن القاسم، اور فقہ حنبلی میں ابراہیم الحربی اور ابو بکر الاثرم (رحمہم اللہ تعالیٰ)۔ لہٰذا مجتہد فی المذہب اصول کے لحاظ سے مقلد اور فروع کے لحاظ سے مجتہد ہوتا ہے۔ ( تقلید کی شرعی حیثیت ص:۱۰۸،۱۰۹)

(۴)مجتہد مطلق کی تقلید:

”مجتہد مطلق“ وہ شخص ہے جس میں تمام شرائط اجتہاد پائی جاتی ہوں اور وہ اپنے علم و فہم کے ذریعہ اصولِ استدلال بھی خود قرآن و سنت سے وضع کرنے پر قادر ہواور ان اصول کے تحت تمام احکامِ شریعت کو قرآنِ کریم سے مستنبط بھی کر سکتا ہو، جیسے: امام ابو حنیفہ، امام شافعی، امام مالک اور امام احمد وغیرہ (رحمہم اللہ تعالیٰ)۔ یہ حضرات اگرچہ اصول اور فروع دونوں میں مجتہد ہوتے ہیں؛ لیکن ایک طرح کی تقلید ان کو بھی کرنی پڑتی ہے، اور وہ اس طرح کہ جن مسائل میں قرآنِ کریم یا سنت ِصحیحہ میں کوئی تصریح نہیں ہوتی، وہاں یہ حضرات اکثر و بیشتر اس بات کی کوشش کرتے ہیں کہ خالصةً اپنی رائے اور قیاس سے فیصلہ کرنے کے بجائے صحابہ و تابعین میں سے کسی کا کوئی قول یا فعل مل جائے؛ چنانچہ اگر ایسا کوئی قول و فعل مل جاتا ہے تو یہ حضرات بھی اس کی تقلید کرتے ہیں۔ (تقلید کی شرعی حیثیت ص:۱۰۹،۱۱۰)

تمام ائمہ مجتہدین نے اجتہاد کی شرائط کو پورا کر کے قرآن و حدیث کی صحیح مراد معلوم کرنے کی کوشش کی ہے؛ اس لیے سب کے مذاہب برحق ہیں، اور اگر کسی سے اجتہادی غلطی ہوئی ہے تو اللہ کے نزدیک وہ نہ صرف معاف ہے؛ بلکہ اپنی کوشش صرف کرنے کی وجہ سے مجتہد کو ثواب ہو گا، جس کی تصریح احادیث میں موجود ہے؛ البتہ ایک مقلد یہ اعتقاد رکھ سکتا ہے کہ میرے امام کا مسلک صحیح ہے؛ مگر اس میں خطا کا بھی احتمال ہے، اور دوسرے مذاہب میں ائمہ سے اجتہادی خطا ہوئی ہے؛ لیکن ان میں صحت کا بھی احتمال ہے۔ (تقلید کی شرعی حیثیت ص:۱۵۷)

فرقہٴ ناجیہ اہل السنة و الجماعة کی اتباع ہی میں نجات ہے:

امامِ ربّانی حضرت مجدد الف ثانی رحمہ اللہ تعالیٰ (م۱۰۲۴ھ) فرماتے ہیں کہ

”ان بزرگانِ دین کی اتباع کے بغیر نجات حاصل ہونا محال ہے، اور اگر بال برابر بھی ان کی مخالفت ہے تو خطرہ ہی خطرہ ہے، یہ بات صحیح کشف اور صریح الہام کے ساتھ بھی یقین کے درجہ کو پہنچ چکی ہے، اس میں کسی قسم کے اختلاف کا شبہ و گنجائش نہیں ہے۔

پس اس شخص کے لیے خوشخبری ہے جس کو ان کی پیروی کی توفیق حاصل ہوئی اور ان کی تقلید سے مشرف ہوا اور اس شخص کے لیے ہلاکت ہے جس نے ان کی مخالفت کی اور ان سے منحرف ہو گیا اور ان کے اُصولوں سے رُوگردانی کی اور ان کے گروہ سے نکل گیا۔ لہٰذا وہ لوگ خود بھی گمراہ ہوئے اور انھوں نے دوسروں کو بھی گمراہ کیا“۔ (مکتوبات حضرت مجدد الف ثانی:۱/۱۹۱، دفتر اوّل، مکتوب:۵۹)

دُعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں حق کو سمجھنے اور اس کی اتباع کی توفیق بخشے، باطل کو باطل قرار دینے اور اس سے اجتناب کی ہمت عطا کرے، اور ہم آپس کی خانہ جنگیوں کے بجائے دین کے بلند مقاصد کے لیے اپنی زندگیاں خرچ کر سکیں، آمین ثم آمین۔
 
Top