نغمۂ بغاوت

فاطمہ طاہرہ

وفقہ اللہ
رکن
سر اُٹھائیں جو کبھی ہم تو بغاوت کہتے

اپنے ہر ظلم کو قانونِ شریعت کہتے

منتشر قوم کو شیرازۂ وحدت کہتے

نغمہ و رقص کو محبوب ثقافت کہتے

طلبِ حق پہ زباں بند نظر بند تو خُوب

ورنہ گستاخ کو نادان طبیعت کہتے

تلخیِ وقت چکھا ہی نہ ہو، جس نے عروج

اُس کی شیریں سُخنی کو نہ حلاوت کہتے

(عقیلہ عروج)
 

مولانانورالحسن انور

رکن مجلس العلماء
رکن مجلس العلماء
یہ محلوں ، یہ تختوں ، یہ تاجوں کی دنیا
یہ انساں کے دشمن سماجوں کی دنیا
یہ دولت کے بھوکے رواجوں کی دنیا
یہ دنیا اگر مل بھی جائے تو کیا ہے ؟
ہر اک جسم گھائل، ہر اک روح پیاسی
نگاہوں میں الجھن ، دلوں میں اداسی
یہ دنیا ہے یا عالمِ بد حواسی
یہ دنیا اگر مل بھی جائے تو کیا ہے ؟
یہاں اک کھلونا ہے انساں کی ہستی
یہ بستی ہے مردہ پرستوں کی بستی
یہاں پر تو ہے جیون سے موت سستی
یہ دنیا اگر مل بھی جائے تو کیا ہے ؟
جوانی بھٹکتی ہے بدکار بن کر
جواں جسم سجتے ہیں بازار بن کر
یہاں پیار ہوتا ہے بیوپار بن کر
یہ دنیا اگر مل بھی جائے تو کیا ہے ؟
یہ دنیا جہاں آدمی کچھ نہیں ہے
وفا کچھ نہیں ، دوستی کچھ نہیں ہے
یہ دنیا اگر مل بھی جائے تو کیا ہے ؟
جلا دو اسے پھونک ڈالو یہ دنیا
میرے سامنے سے ہٹا لو یہ دنیا
تمھاری ہے تم ہی سنبھالو یہ دنیا
یہ دنیا اگر مل بھی جائے تو کیا ہے ؟
 
Top