حضرت مولانامفتی نظام الدین قاسمی

مفتی ناصرمظاہری

کامیابی توکام سے ہوگی نہ کہ حسن کلام سے ہوگی
رکن
حضرت مولانامفتی نظام الدین قاسمی
ناصرالدین مظاہری

مدرسہ امدادالعلوم میں داخل ہونے کے بعدیوں توتقریباًسبھی اساتذہ کی شفقتوں سے مالامال رہالیکن جن اساتذہ کی شفقتیں زیادہ رہی ہیں ان میں ایک نام حضرت مولانامفتی نظام الدین قاسمی مدظلہ کابھی ہے ،آپ پورینی ضلع بھاگل پوربہارکے رہنے والے ہیں،کھنک دارآواز،رعب دارلہجہ ،بسطۃ فی العلم توپہلے ہی تھے لیکن سناہے کہ اب ماشائ اللہ بسطۃ فی الجسم بھی ہوگئے ہیں،میرے طالب علمی کے زمانے میں توآپ سب سے ہلکے پھلکے بدن کے تھے ،پیدل بھی خوب چلتے تھے،فقہ آپ کاخاص موضوع تھا،اورہم نے اکثروبیشترفقہ کی کتابیں آپ سے ہی پڑھی ہیں ،اسی لئے بات بات میں فقہی موشگافیاں ،فقہی نکتہ سنجیاں،فقہی باتیں،فقہی ضرب الامثال،فقہی کتابوں کے تذکرے اورفقہائے احناف کے قصے آپ کی زبان پرآکرہم لوگوں کی سماعتوں سے ٹکراتے تھے ،کچھ باتیں سمجھ میں آجاتی تھیں تواکثرنہیں بھی آتی تھیں لیکن اتناضروریادہے کہ ہربات میں وہ خاص لہجے میں’’سمجھے‘‘کہتے تھے اورمیں اپنی عادت کے مطابق اورموافق ’’جی‘‘ضرورکہتاتھا،حالانکہ اب احساس ہورہاہے کہ بات بات میں جی کہنابہت غلط ہے ،جب بات سمجھ میں آجائے تبھی جی کہناچاہئے یہ بھی دھوکہ اورفریب ہے ،جھوٹ اورغلط بیانی ہے ،استاذاتنی محنت اورمحبت سے شرعی احکام ومسائل بتائے اورطالب علم بلاسوچے سمجھے ہاں جی ہاں جی کہے تواس سے استاذکاتوخیرنقصان کچھ نہیں ہوگالیکن طالب علم تاحیات ایک نہایت ہی نادربات سے محروم ہوجائے گا۔

حضرت مولانامفتی نظام الدین مدظلہ جیدالاستعداداستاذتھے،مدرسہ امدادالعلوم میں آپ کااہم مقام تھا،دوسری منزل پرپہلاکمرہ مفتی محمدیعقوب صاحب کاتھاان کے متصل جوکمرہ تھااسی میں مفتی نظام الدین صاحب کی رہائش تھی، مفتی صاحب کی کوشش ہوتی تھی کہ طلبہ اپناقیمتی وقت بالکل ضائع نہ کریں،مغرب کے بعدطلبہ تکرارومذاکرے میں ہوتے تھے ،مفتی صاحب اس میں بھی خوب توجہ سے نگرانی فرماتے تھے ،جتنی دیررہتے تھے چکرلگاتے رہتے تھے ،چائے کاشوق اس زمانے میں بہت تھاپتہ نہیں اس میں اضافہ ہواہے یابڑھتی عمراوربڑھتے وزن کے ساتھ کمی ہوئی ہے ،آپ کاافہام وتفہیم بھی زبردست تھا،طلبہ کی تربیت کاپہلوآپ کاخاص وصف تھا،کون طالب علم کس سے بات کررہاہے اس پربھی خوب دھیان دیتے تھے،سرزنش ضروری ہوتی توسرزنش فرماتے ،ورنہ نرمی اورملائمت کے ساتھ سمجھادیتے تھے ۔

کچھ ایسایادپڑتاہے کہ مفتی صاحب کی شادی شایدتاخیرسے ہوئی تھی ،شادی کے بعدامی کوبھی زیدپورلے آئے تھے ،حضرت کے گھرپردوایک بارجانابھی یادہے ۔
ہمارے زیدپورسے آنے کے بعدآپ نے ماشائ اللہ اپنی زمین خریدکرمکان بھی تعمیرکرایاہے اورایک باران کے اس مکان میں کچھ سال پہلے حاضری کی سعادت اوران کے دسترخوان سے استفادے کی نوبت بھی آئی ہے۔

زیدپورکے قیام کے دوران کم عمری کے باجودمجھے سب سے زیادہ خارجی مضمون میں تاریخ سے دلچسپی تھی ،یہی وجہ ہے کہ درجہ ششم تک پہنچتے پہنچے اکبرشاہ خان نجیب آبادی کی تاریخ اسلام تین بارباقاعدہ مطالعہ کرچکاتھا،کتب خانے کے منتظم استاذمحترم حضرت مولانامحمدسلیم صاحب کی کرم فرمائیوں کے طفیل کتاب مستعارآسانی سے مل جاتی تھی اس لئے مجھے مطالعہ کاچسکہ وہیں سے پڑگیاتھا،سہارنپورآکرتوکیاکہنے ،یہاں کے کتب خانے کی کیا تعریف کروں ،بھلاکنویں میں زندگی بسرکرنے والاسمندرکی وسعت کوکس طرح بیان کرسکتاہے۔

مجھے اسلامی تاریخ کے اہم واقعات بقیدنام وسنین یادہوگئے تھے ،میرے اساتذہ کے درمیان اگرکسی تاریخی واقعہ کاذکرہوگیااوراس میں کچھ بھی اختلاف رائے ہواتوخوب یادہے حضرت مفتی نظام الدین صاحب کسی طالب علم سے فرماتے کہ میرے بیٹے کوبلاؤ!(کیونکہ ان کابھی نام نظام الدین تھا)مجھے بلایاجاتااورمفتی صاحب ایک خاص اندازمیں پوچھتے کہ ارے بیٹاناصر!یہ توبتاؤکہ فلاں واقعہ کس طرح ہے یافلاں موقع پرکون سے صحابی تھے ،میں بتادیتااورجانے کاحکم ہوجاتا۔

اللہ تعالیٰ نے بڑی خوبیاں آپ کے اندرودیعت فرمائی ہیں لیکن میں نے آپ کوکبھی تقریرکرتے نہیں سنانہ دیکھا۔ہوسکتاہے یہ میری محرومی رہی ہو۔

جب بھی ملاقات ہوئی یافون پرگفتگوہوئی میرے مشاغل ضرورمعلوم کئے اورہربارکچھ نہ کچھ اچھے مشورے ہی عنایت فرمائے۔
اللہ تعالیٰ ان کوصحت کے ساتھ طویل عمرسے نوازے۔
 
Top