ارتدادکی دستک

مفتی ناصرمظاہری

کامیابی توکام سے ہوگی نہ کہ حسن کلام سے ہوگی
رکن
سنو!سنو!!

ارتدادکی دستک

ناصرالدین مظاہری
8/صفرالمظفر1444ھ

2013 میں مظفرنگر فساد زدگان کوریلیف پہنچانے کے لئے مدرسہ مظاہرعلوم (وقف) کی طرف سے بار بار جاناہوا،بہت سے تجربات میں سے ایک تجربہ یہ بھی ہوا کہ مسلم قوم جگہ جگہ صرف نام کی وجہ سے ماری جارہی ہے ،اسلامی کام اور عمل توسرے سے دکھاہی نہیں، برانہ مانیں بڑی تعداد ایسے لوگوں کی ملی جن کے نام کفریہ اورشرکیہ ہیں، بہت سوں کو اپنے مسلمان ہونے کاصرف پتہ ہے باقی انھیں اسلام کے تعلق سے کچھ بھی معلوم نہیں ہے حتیٰ کہ کلمہ طیب بھی یادنہیں ہے ۔

کیرانہ کے پاس منصورہ نامی علاقہ میں واقع ایک کیمپ میں جانا ہوا، سامان کی تقسیم کے دوران ایک بندے سے میں نے پوچھ لیاکہ تم کس کی امت میں ہو؟اس نے جو جواب دیااس جواب کوسن کرسنجیدہ افراد تورو ہی پڑیں گے اس نے اپنے نبی کا نام نہیں لیا بلکہ اپنے گرام پردھان کانام لیا اوربولا کہ میں تو پردھان جی کی امت میں ہوں۔
بے شمارگاؤں فساد کی لپیٹ میں آئے تھے،پچاس ہزار افراد نے نقل مکانی کی تھی، ممکن ہے میں نے جس بندے سے پوچھا تھااس کے علاوہ دیگر لوگوں کواپنی امت اورنبی کانام معلوم ہو یہی سوچ کرکئی لوگوں سے صرف یہی پوچھا لیکن کسی نے بھی صحیح جواب نہیں دیا۔

مظفرنگر ایسے علاقہ میں واقع نہیں ہے جہاں مسلمان کم ہوں یانہ ہوں الحمدللہ مسلم اکثریتی اضلاع میں اس کا بھی نام آتاہے ،یہاں بھی خوب مدارس ہیں، مساجد ہیں،کئی جگہ خانقاہی نظام ہے،تبلیغی جماعت کے وفود بھی آتے ہیں لیکن خدا جانے ان تمام کوششوں کے باوجود روشنی ان گھروں تک کیوں نہیں پہنچی اورجن گھروں کے بڑوں کایہ حال ہے وہاں کے بچوں کاکیاحال ہوا۔

دارالعلوم،مظاہرعلوم،خانقاہ کاندھلہ، خانقاہ تھانہ بھون،خانقاہ دیوبند،خانقاہ سہارنپور،خانقاہ گڑھی دولت ،خانقاہ رائے پورسبھی اسی علاقہ میں ہیں۔علوم وعرفان کی ان کہکشاؤں کے باوجود جب لوگوں کی دینی لاعلمی کایہ حال ہے تو اندازہ کیاجاسکتاہے کہ ان علاقوں کا کیاعالم ہوگا جہاں کئی کئی کلو میٹرکے فاصلہ پرایک آدھ عالم ہے وہ بھی اپنے روزگار سے تنگ دنیاسے جنگ لڑرہاہے،جس کے پاس کوئی مدرسہ نہیں بلکہ اپنی سائیکل پرکپڑوں کی گٹھری ہے ،وہ علماء کسی کام کے نہیں رہ پاتے جن کامشغلہ تعلیم وتعلم نہ ہو،ان کاعلم دنیوی مشاغل کی وجہ سے زنگوں کی نذر ہوجاتاہے ،ان کے پاس چھٹی ہی چھٹی ہوتی ہے اسی لئے سبق یادنہیں رہتاہے۔وہ صرف نام کے ساتھ مولانا لکھتے ہیں حالانکہ وہ ’’مولانائیت‘‘سے کوسوں دورہوچکے ہیں۔ان کوشدائداورمصائب نے، روگار اورمعاش نے دین سے تو قریب رکھاہے لیکن علم سے محروم کردیاہے ۔اس محرومی کا ایک سبب نہیں بے شماراسباب بیان کرسکتا ہوں لیکن یہ میراموضوع نہیں ہے ۔

گفتگو ہورہی ہے دین کی بنیادی سے باتوں سے لاعلمی کی،کل ہی نماز مغرب کے بعدایک صاحب کہنے لگے کہ پورے بھارت میں مسلمان بیس فیصدہیں لیکن جیلوں میں اسی فیصد ہیں،ان اسی فیصدکودینی باتیں بتانے والے لوگ میسرنہیں ہیں،آرایس ایس کے افرادوہاں پہنچتے ہیں اور اپنے حساب سے ان کی ذہن سازی کرتے ہیں،دیگر ادیان ومذاہب کے افرادبھی پہنچ رہے ہیں کیونکہ حکومت بھی چاہتی ہے کہ بگڑے لوگ راہ راست پرآجائیں لیکن وہاں اگرنہیں جاتا توعلماء نہیں جاتے،دعوتی وفود نہیں جاتے،اصلاح معاشرے کے بندے اورکارندے نہیں جاتے ، جیلوں میں قیدبڑی تعدادایسے لوگوں کی ہے جن کی رہائی کے فیصلے ہوچکے ہیں،کورٹ نے انھیں مطالعہ پورا کرکے جانے کی اجازت دے دی ہے لیکن ان غریبوں کے پاس اتنے بھی پیسے نہیں ہیں کہ وہ کورٹ کامطالبہ پورا کرسکیں،اسی غربت اورتہی دستی کی وجہ سے ہرضلع کی جیلوں میں آپ کو ایسے بے شمار افرادمل جائیں گے ۔

کہاں ہیں اصلاح معاشرہ کی تنظیمیں، کہاں ہیں رفاہی جمعتیں،کہاں ہیں وہ رؤساء اور دولت مند جو ذرا ذرا سی بات پر اپنی تجوریوں کے دہانے کھول دیتے ہیں ؟کہاں ہیں علمائے کرام جو دن رات قیدیوں کی ضمانت اور رہائی کے فضائل بیان کرتے نہیں تھکتے،کیاکبھی ان تک پہنچنے کی توفیق ہوئی،کیاکبھی ان کے درد کو ان کی زبان سے سننے کا اتفاق ہوا؟وہ عورتیں جومدت سے جیلوں میں بند ہیں کیاآپ نے ان کی تکلیفیں سنی ہیں،مجرم جرم کرکے جیل جاتا ہے لیکن جیلوں میں سارے مجرم،مجرم نہیں ہوتے،بہت سے مجرم " مہمان‘‘ کی حیثیت رکھتے ہیں،ان کے لئے وہاں بھی وہی آسائشیں اور آرائشیں ہوتی ہیں جو ان کے گھروں میں میسر ہیں،بدنام زمانہ غنڈوں کے ساتھ معاملہ الگ ہوتاہے، امیروں کے ساتھ معاملہ الگ ہوتاہے، غریبوں کے ساتھ معاملہ الگ ہوتا ہے، بہت سے مجرم جیلوں میں زبردست کمائی کرتے ہیں گویا جیلیں ان کے لئے بہترین کاروبار اور روزگارثابت ہوتی ہیں ۔باقی مجرموں کے گھراور کھیت وکھلیان ان کی رہائی کے چکرمیں فروخت ہوجاتے ہیں۔

دینی تعلیم اورتعلم میں مصروف حضرات اگر ہفتہ واری نظام بنالیں کہ وہ تھوڑی دیر ان لوگوں کے ساتھ گزاریں گے جو جیلوں میں دین سے، دینی تعلیم سے، انسانیت سے اور تقریباً ہر چیزسے محروم ہیں توان کے اندربھی دینی روح پھونکی جاسکتی ہے،وہ بھی انسان ہیں انھیں بھی توبہ کی توفیق مل سکتی ہے۔نمازیں، روزے اورعبادات کاموقع وہاں بھی ملتاہے لیکن افسوس کہ ان تک کوئی داعی نہیں پہنچتا،کوئی مبلغ نہیں پہنچتا، کوئی مقرر اور کوئی دردمندنہیں پہنچتا۔
پہنچتے ہیں توr.s.sکے نمائندے۔
پہنچتے ہیں توعیسائی مشنری کے اہلکار۔
 
Top