مکتب،اساتذہ اورمعصوم بچے

مفتی ناصرمظاہری

کامیابی توکام سے ہوگی نہ کہ حسن کلام سے ہوگی
رکن
سنو! سنو!!

مکتب،اساتذہ اورمعصوم بچے

مجھے یہ بات بالکل سمجھ میں نہیں آتی تھی کہ میرے والد ماجد ہرسال نئے اور اعلیٰ بیج کی تلاش میں کیوں سرگرداں ہوجاتے ہیں،کیا وہ بیج جس کے ذریعہ پچھلے سال فصل تیار ہوئی تھی اسی اناج کو بطور بیج استعمال نہیں کیا جاسکتا، والد صاحب نے مجھے کبھی سمجھانے کی بھی کوشش نہیں کی کیونکہ انھیں ہماری لیاقت اور ہماری حالت کا بخوبی علم تھا وہ جانتے تھے کہ جس کو اپنے کھیت اور کھلیان کا علم نہ ہو،جس کوموسمی فصلوں کی واقفیت نہ ہو،جس کو چیزوں کی صحیح طور پر شناخت اور پہچان نہ ہو،جس کومکئی اور چری میں امتیاز نہ ہو اس کو ایسے راز ہائے سربستہ بتانے اور سمجھانے سے کوئی فائدہ نہیں ہے۔اب جاکرپتہ چل سکاکہ بیج کی اپنی ایک اہمیت ہوتی ہے، بیج کی تیاریوں میں بہت سے دماغ لگتے ہیں،بیج کوبے شمار مراحل سے گزرناپڑتاہے،مختلف موسموں میں اس بیج پر ریسرچ اورجانچ پڑتال کرکے اس کے مفیداور غیرمفید اثرات اورثمرات سے آگہی حاصل کی جاتی ہے تب کہیں جاکروہ بیج مارکیٹ اوربازارمیں بھیجا جاتا ہے اور وہی بیج کسان جب اپنی زراعت میں استعمال کرتا ہے تو زمین، موسم، حالات اور بارش وپانی کے اتفاقات سے جوفصل تیارہوتی ہے وہ نہایت عمدہ ہوتی ہے۔مجھے اب سمجھ میں آیاکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے شادی بیاہ کے بارے میں ابتدائی حکم کیوں لگایا کہ تم ایسی عورتوں سے نکاح کرو جو زیادہ بچے جننے والی ہوں،مجھے اب اندازہ ہوسکاکہ طلبہ کی تعلیم و تربیت کے لئے کیوں تعلیم یافتہ کے ساتھ کیوں تربیت یافتہ استاذ کا ہوناضروری ہے۔

شیخ سعدی شیرازیؒ بڑے کامل انسان تھے کیونکہ ان کوحضرت مولانا روم جیسا مرد کامل مل گیا تھا،حکیم الامت حضرت تھانویؒ ہی کولے لیجئے حضرت حاجی امداداللہ مہاجرمکیؒ، حضرت مولانا رشید احمدگنگوہیؒ،حضرت مولانا شیخ الہنداورحضرت مولانامحمد یعقوب نانوتویؒ جیسے اکابر و اساطین کے سامنے زانوے تلمذتہہ کرنے کے نتیجہ میں حکیم الامت حکیم الامت ہوگئے تھے۔

حضرت مولاناخلیل احمدمحدث سہارنپوریؒ اس لئے اتنے عظیم محدث بنے کہ انھیں بخاری شریف کے محشی حضرت مولانااحمدعلی محدث سہارنپوریؒ جیسے اہل علم ونظرملے تھے،حضرت شیخ الحدیث مولانا محمد زکریا مہاجر مدنیؒ اس لئے ریحانۃ الہند بن کرمہکے اور چمکے کیونکہ انھیں حضرت مولاناخلیل احمدمحدث سہارنپوریؒ کی تربیت اورتعلیم کا بہترین حصہ اورموقع نصیب ہواتھا۔پتہ یہ چلا کہ جب کھیت بھی اچھاہو، بیج بھی اچھاہو،ماحول اورموسم بھی موافق ہوتو پھر جو فصل تیارہوتی ہے وہ لاجواب ہوتی ہے۔

مکتب میں پڑھانے والے اساتذہ کاانتخاب بالکل اسی طرح ہوناچاہئے جس طرح بخاری شریف پڑھانے والے کاہوتا ہے،مکتب کامعلم اگر اس کو اردو پرعبورنہ ہو،تصحیح قرآن کاہنرنہ آتاہو،تلفظ غلط ہو، تحریر خراب ہو،تقریر نہ آتی ہو،انشاء سے واقفیت نہ ہو، املا درست نہ ہو، اخلاق اچھے نہ ہوں،اخلاص اس کے اندرنہ ہو، ہمدردی اوررفق سے محروم ہو،خوددار اورغیورنہ ہو،حریص اور تملق پسندہو،تمام طلبہ کوایک آنکھ سے نہ دیکھتا ہوتو ایسا استاذ مکتب کے طلبہ کوہرگز ہرگزصحیح تعلیم نہیں دے سکتا ہے۔
ہوتا یہ ہے کہ ہمارے بیج اور ہماری جڑ کوشروع ہی سے خراب موسم کے حوالے کردیا گیا،پانی کی جب ضرورت تھی تب محروم رکھاگیااورجب ضرورت نہیں تھی جب پانی کی ریل پیل کردی گئی، تربیت کا جوموسم تھااس میں بے اعتنائی برتی گئی اورجب وقت نکل گیاتو پیار چھلک آیا،جب شفقت کی ضرورت تھی تب غصہ اور ڈنڈوں سے ان کی پیٹھ لال کردی گئی اورجب بچے نے تعلیم کوتین طلاق دیدی تواب قصورواربچے کوگردانا گیا، جب مفردات پردھیان دیناچاہئے تھاتب مرکبات میں لگادیاگیا، جب پہاڑوں اورگنتیوں پرمحنت کاوقت تھاتب دیگرامور میں الجھائے رکھا اورجب ان کی عمرمیں پختگی آگئی تب ہوش آیایہ صرف مثالیں ہیں ۔بہت ممکن ہے کہ آپ کے مکتب میں اردو پڑھانے والااستاذمولوی اسمٰعیل کے اردوقاعدے محنت سے پڑھاتا ہو،یہ بھی ہوسکتاہے کہ ان قاعدوں میں موجودمشکل الفاظ کے تلفظ پر بھرپور توجہ دیتاہو،ہوسکتاہے کہ دینی تعلیم کارسالہ، اردو زبان کی پہلی کتاب کاسلسلہ،چمن اردووغیرہ مکتب میں پڑھایا جاتاہولیکن کیاکبھی دھیان دیاگیاکہ اسی مکتب کابچہ جب اگلی جماعتوں اوردرجوں میں پہنچتاہے تووہاں فیل اور نکماکیوں ہوجاتاہے کچھ توہے جواس کمی کاباعث ہے۔

ہم سمجھتے ہیں پڑھائی ہوئی باتیں نہ کرو
طفل مکتب ہو تم اے جاں ابھی استاد ہیں ہم

ہمارے مکاتب میں عموماًبچوں پررعب جھاڑاجاتاہے،تپائی پرڈنڈا مارمار کر بچوں کوہراساں کردیا جاتاہے، بداخلاقی، سرد مہری،غصہ اورتیزی وتندی ختم نہیں ہوتی یہاں تک کہ مدرسہ اورمکتب کاوقت ہی ختم ہوجاتا ہے۔ایسی صورت میں بچہ مکتب جاتے وقت رونے لگتاہے،اسے ڈنڈے کی آواز پریشان کرتی ہے،اس کواستاذکی ڈانٹ ڈپٹ ادھ مواکردیتی ہے،بچے کے جسم پرکپکپی طاری ہوجاتی ہے۔لائن بدل لیتی ہے،سمجھنے کے بجائے الفاظ اورحروف کورٹنے پراکتفا کرتی ہے،استاذاتناٹھپ ہوتاہے کہ وہ یادکرلینے کوہی کافی سمجھتا ہے کبھی کوشش نہیں کرتاکہ بچے نے اپنے دماغ اورذہن کے زورسے جوکچھ سنایاہے وہ سمجھابھی ہے یانہیں۔ذہن الگ چیزہے ،فہم الگ چیزہے،ذہن کے بعد کامرحلہ فہم کاآتاہے جس سے استاذ اور طالب علم دونوں محروم ہیں ایسی صورت میں ہمارایہ بیج کیسا تیارہوگا اندازہ کرسکتے ہیں۔میر محمدی بیدارکے بقول:

مکتب میں تجھے دیکھ کسے ہوش سبق ہے
ہر طفل کے یاں اشک سے آلودہ ورق ہے

مہتمم صاحبان کوان کلاسوں میں جانے کی نوبت نہیں آتی ،کسی بچے کوبلاکراس سے ان کے درجہ کی بابت پوچھ تاچھ کرنے کی توفیق نہیں ملتی،والدین توخیربالکل ہی مجرم ہیں جنھیں کبھی اپنے بچے کے مکتب میں جاکرتعلیمی احوال کو دیکھنے کی فرصت ہی نہیں ملتی۔نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ والدین سمجھتے ہیں کہ بچہ وقت پرمکتب جاتاہے اِس کا مطلب ہے سب کچھ ٹھیک ٹھاک ہے اوراستاذ یہ سمجھتاہے کہ مجھے جتنی قلیل تنخواہ ملتی ہے اس کے حساب سے میری محنت کافی ہے ، اسی سمجھاسمجھی میں جوناسمجھی صادر ہوتی ہے اس کاخمیازہ ہماری نسل کوبرداشت کرنا پڑتا ہے ،ہماری پوری نسل اسی رویہ کی نذر ہوجاتی ہے اور ان کی اس محرومی پرکوئی بھی آنسو بہانے والا نہیں ہے۔بقول جینا قریشی

ابھی طفل مکتب ہوں اور نا اہل بھی
کدھر لے چلے امتحانوں کی جانب

جب پانی سرسے اونچا ہوجاتا ہے تب کچھ لوگ استاذ کو قصور وار گردانتے ہیں،کچھ مکتب اور مدرسہ کے نظام کوناقص بتاتے ہیں،کچھ نصاب پرانگلی اٹھاتے ہیں اورکچھ پورے سسٹم اور نظام کولعنت ملامت کرتے دیکھے گئے ہیں۔

حصرت شیخ سعدی نے ایک شعربہت پیارارشادفرمایاہے :

خشت اول چوں نہد معمار کج
تا ثریا می رود دیوار کج

جب پہلی ہی اینٹ ٹیڑھی رکھ دی جائے گی توآسمان تک دیوارٹیڑھی ہی جائے گی۔

معززاساتذۂ کرام!آپ کوتنخواہ کتنی ملتی ہے کتنی نہیں یہ آپ کے ذاتی معاملات ہیں ،قلت تنخواہ کا اثر بچوں کی تعلیم اور تربیت پرہرگز نہیں پڑناچاہئے مثال کے طور پراگر تنخواہ قلیل ہو تو کوئی امام چار رکعت کی جگہ دورکعت نہیں پڑھاسکتا،رقم کم ہو تو کوئی حاجی جدہ یاممبئی سے ہی واپس نہیں آسکتا،بالکل اسی طرح جب آپ نے بچوں کی تعلیم وتربیت پراپنی رضامندی اور آمادگی مہتمم کے سامنے ظاہرکردی ہے تواب آپ کام چوری کریں گے تو اللہ تعالیٰ کے یہاں ماخوذ ہوں گے کیونکہ یہ بھی امانت میں خیانت کے زمرے میں آتاہے۔کل کواللہ تعالیٰ کے یہاں کام چوری کی بابت ضرور پوچھ ہوگی اورہم سے وہاں کوئی جواب نہیں بن پڑے گا۔الطاف احمد اعظمی خوب یادآئے:

طفل مکتب کی نظر بھی کیا نظر
عقل تیری رہبری کو کیا کہیں
 
Top