(65) فعل مضارع کے تغیرات

فاطمہ طاہرہ

وفقہ اللہ
رکن
بسم اللہ الرحمن الرحیم
اَلْحَمْدُ لِلہِ الَّذِیْ ہَدَانَا لِہٰذَا وَ مَا کُنَّا لِنَہْتَدِیَ لَوْلاَ اَنْ ہَدَانَا اللّٰہُ
رَبِّ اشۡرَحۡ لِىۡ صَدۡرِىۙ‏ وَيَسِّرۡ لِىۡۤ اَمۡرِىۙ‏ وَاحۡلُلۡ عُقۡدَةً مِّنۡ لِّسَانِىۙ‏ يَفۡقَهُوۡا قَوۡلِى

رَبِّ يَسِّرْ وَ لَا تُعَسِّرْ وَ تَمِّمْ بِالْخَيْرِ
مضارع کے تغیرات:

فعل ماضی تو مبنی اسماء کی طرح اپنی شکل تبدیل نہیں کرتا لیکن فعل مضارع اپنی نارمل شکل کے علاوہ مزید شکلیں اختیار کرتا ہے۔ ان شکلوں کو ہم مضارع خفیف اور مضارع اخف دو عنوانات کے تحت سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔
سب سے پہلے یہ نوٹ کریں کہ عربی زبان میں کچھ حروف ایسے ہیں جو فعل مضارع سے پہلے آ کر فعل مضارع کی شکل تبدیل کر دیتے ہیں یعنی فعل مضارع کی گردان کے مختلف صیغوں میں کچھ تبدیلیاں واقع ہوتی ہیں۔ ان مختلف تبدیلیوں کو سمجھنے کے لیے ہم فعل مضارع کی کسی بھی گردان کو تین قسم کے صیغوں میں تبدیل کر لیتے ہیں۔
پہلی قسم کے صیغے:
یَفْعَلُ – تَفْعَلُ – تَفْعَلُ – اَفْعَلُ – نَفْعَلُ
دوسری قسم کے صیغے:
یَفْعَلَانِ – تَفْعَلَانِ – تَفْعَلَانِ – تَفْعَلَانِ – یَفْعَلُوْنَ – تَفْعَلُونَ – تَفْعَلِیْنَ
تیسری قسم کے صیغے:
یَفْعَلْنَ – تَفْعَلْنَ
فعل مضارع جب خفیف یا اخف ہوتا ہے تو ان تین قسم کے صیغوں میں کیا تبدیلیاں واقع ہوتی ہیں اور وہ کون کون سے حروف ہیں جو فعل مضارع کو خفیف یا اخف کر دیتے؟ ان سوالوں کے جوابات کے لیے ہم باقاعدہ ان عنوانات کا مطالعہ کرتے ہیں۔

مضارع خفیف:

فعل مضارع جب خفیف ہوتا ہے تو مضارع کے تین قسم کے صیغوں میں جو تبدیلی واقع ہوتی ہے وہ درج ذیل ہے۔
1: پہلی قسم کے صیغوں میں لام کلمہ پر آنے والی "پیش" "زبر" میں تبدیل ہو جاتی ہے۔ یعنی
یَفْعَلَ – تَفْعَلَ – تَفْعَلَ – اَفْعَلَ – نَفْعَلَ
2: دوسری قسم کے صیغوں کے آخر میں آنے وال نون گر جاتا ہے۔ یعنی
یَفْعَلَا – تَفْعَلَا – تَفْعَلَا – تَفْعَلَا – یَفْعَلُوْ – تَفْعَلُو – تَفْعَلِیْ
3: تیسری قسم کے صیغوں میں کوئی تبدیلی نہیں واقع ہوتی۔ یعنی
یَفْعَلْنَ – تَفْعَلْنَ
کچھ حروف ایسے ہیں جو مضارع کی شروع میں آ جائیں تو مضارع کو خفیف کر دیتے ہیں۔ یہ حروف درج ذیل ہیں
لَنْ، اَنْ، کَیْ، اِذَنْ، حَتّی، لِ
مندرجہ بالا حروف میں سے پہلے چار اصلا مضارع کو خفیف کرتے ہیں جبکہ آخری دو کے "اَنْ" حرف مخذوف سمجھا جاتا ہے جس کی وجہ سے مضارع خفیف ہوتا ہے۔ ان حروف کی تفصیل درج ذیل ہے۔
1: لَنْ:
حرف لَنْ کے اپنے کوئی الگ معنی نہیں ہیں لیکن جب یہ فعل مضارع پر داخل ہوتا ہے تو اس میں دو طرح کی معنوی تبدیلی لاتا ہے۔
1: اس میں زور دار نفی کا مفہوم پایا جاتا ہے۔
2: اس کے معنی کو مستقبل کے ساتھ مخصوص ہو جاتے ہیں۔
یَفْعَلُ (وہ کرتا ہے/ کرے گا)
لَنْ یَفْعَلَ (وہ ہرگز نہیں کرے گا)
2: اَنْ:
اسے حرف مصدر کہتے ہیں کیونکہ یہ فعل کے ساتھ مل کر مصدر کے معنی دیتا ہے۔ مثلا
اَمَرْتُہُ اَنْ یَذْھَبَ ( میں نے اسے جانے کا حکم دیا)
اَمَرَنَا اللہُ اَنْ نَعْبُدُہُ (اللہ نے ہمیں اپنی عبادت کرنے کا حکم دیا)
حرف ان اور فعل کا مجموعہ مصدر مؤول کہلاتا ہے۔ یعنی
اَنْ + فعل = مصدر مؤول
مصدر مؤوّل کی جگہ مصدر صریح لانا جائز ہے۔ مثلا
اَنْ تَصُوْمُوْا خَیْرٌ لَّکُمْ (تمہارا روزہ رکھنا تمہارے لیے بہتر ہے)
صِیَامُکُمْ خَیْرٌ لَّکُمْ
مصدر مؤوّل جملے میں مبتداء، خبر، فاعل اور مفعول وغیرہ بن کا استعمال ہوتا ہے۔
3: کَیْ: تا کہ
یہ فعل کے بعد آ کر فعل کا مقصد بیان کرتا ہے۔
اَقْرَءُ الْقُرْآنَ کَیْ اَفْھَمَہُ
کَیْ نُسَبِّحَکَ کَثِیْرًا
کَیْ
کے ساتھ اکثر لام جارّہ ہوتا ہے مثلا
جِئْتُ لِکَیْ اَفْھَمَ الْقُرْآنَ
اس لام کو اکثر حذف کر دیا جاتا ہے جیسے اوپر کی مثالوں میں ہے۔
لِکَیْ کو لَا نافیہ کے ساتھ ملا کر لکھا جاتا ہے۔
لِکَیْ + لَا = لِکَیْلَا
4: اِذَنْ: تب تو یا پھر تو

اس حرف سے پہلے ایک جملہ آتا ہے جس کا نتیجہ یا رد عمل "اِذَنْ" سے ظاہر کیا جاتا ہے۔ مثلا
قُلْتُ لِزَیْدٍ: ھٰذَا الْکِتَابُ مُفِیْدٌ۔ فَقَالَ " اِذَنْ سَاَقَرَءَہُ
5: حَتّٰی: یہاں تک کہ

میں ہرگز نہیں بیٹھوں گا یہاں تک کہ معلم اجازت دے۔
لَنْ اَجْلِسَ حَتّٰی یَأْذَنَ الْمُعَلِّمُ
6: لِ: تا کہ

وجہ بتانے کے لیے استعمال ہوتا ہے۔
میں پانی پینے کے لیے کلاس سے باہر نکلا/ نکلی۔
خَرَجْتُ مِنَ الْفَصْلِ لِاَشْرَبَ الْمَاءَ
لِ، کَیْ، لَکَیْ ا
یک ہی طرح استعمال ہوتے ہیں۔




و آخر دعوانا أن الحمد لله رب العالمين والصلاة والسلام على أشرف الانبیاء و المرسلين سيدنا محمد و على آله وصحبه أجمعين



والسلام
طاہرہ فاطمہ
2022-09-16
 
Top