لوگوں سے حسب مراتب برتاؤ

مفتی ناصرمظاہری

کامیابی توکام سے ہوگی نہ کہ حسن کلام سے ہوگی
رکن
سنوسنو!!

*لوگوں سے حسب مراتب برتاؤ*

(ناصرالدین مظاہری)

حضرت عائشہ ؓسے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :انزلوا الناس منازلھم (ابوداؤد) ’’لوگوں کو ان کے مرتبہ میں اتارو‘‘۔

اس حدیث سے دو باتیں معلوم ہوتی ہیں ایک تو اس کا ظاہری مطلب ہے جو ظاہر ہے کہ لوگوں کو ان کے مقام اور مرتبے کے مطابق جگہ دو،یعنی کوئی بادشاہ وقت آجائے تواس کی شایان شان اس کی خاطرکرو،کوئی عام انسان آجائے تو اسی کے معیارکے مطابق اس سے معاملہ کرو،ورنہ رسوائی ہوگی چنانچہ مجھے یادآیاایک نہایت ہی دیہاتی لڑکے کا رشتہ لکھنؤ میں کسی امیر کے یہاں ہوگیا، امیر نے اپنی عادت کے مطابق ایک فائیو اسٹار ہوٹل میں ان مہان مہمانوں کے لئے نظم کیا، ہوٹل کامعیار اتنابڑھا ہوا اورمہمانوں کامعیاراتنا گھٹا ہوا کہ بعد میں مہمانوں کو شکایت رہی کہ پتہ نہیں کیا کیا کھلادیا اور ہوٹل والوں کو شکایت رہی کہ مہمانوں نے واش بیسن توڑ دئے،انگلش ٹوئلٹ کوبرباد کردیا،شیشے کے خوبصورت دروازوں کوسالن کے نشانات سے داغ دار کردیا،فرش کو آلودہ اوربیت الخلاء کو’’فالودہ‘‘ کردیا، میزبان کو شکایت کہ کئی لاکھ روپے ہرجانے کے بھرنے پڑے،کاش کہ فائیو اسٹار ہوٹل کے بجائے کسی کھلے میدان میں ٹینٹ لگا کر کھلا دیتا تو اتنا نقصان اور رسوائی نہ ہوتی۔
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا دوران سفر ایک جگہ اتریں ،وہاں ایک فقیر آگیا ،آپ نے حکم دیاکہ: اسے ایک قرش (پیسہ) دے دو ، دوسرا شخص گھوڑے پر سوار گزرا تو آپ نے فرمایا کہ اسے کھانے پر بلاؤ،پوچھا گیا کہ آپ نے اس مسکین کو ایک قرش دیا اور اس مالدار آدمی کو کھانے پر مدعو فرمایا ؟ آپ نے جواب دیا کہ اللہ نے لوگوں کو ان کی حیثیت کے مطابق جگہ دی ہے ، ہمارا بھی فرض ہے کہ لوگوں کے ساتھ ان کی حیثیت کے مطابق ہی برتاؤ کریں،یہ مسکین ایک قرش پر خوش ہو سکتا ہے لیکن ہمارے لیے نامناسب ہے کہ اس مالدار کو جو اس شان سے آیا ہو ہم ایک قرش دیں ۔

حضرت مولانا شاہ ابرارالحق ہردوئیؒ قرآن کریم کے مکاتب میں سب سے بہترین فرش بچھواتے تھے ، دیگر درجات اور درسگاہوں میں اس سے کم تر،وجہ فرماتے تھے کہ قرآن کریم کلام الٰہی ہے ،کلام الٰہی کا تقاضا ہے کہ اس کوسب سے زیادہ اہمیت اور عزت دی جائے۔

سکندر بادشاہ نے اپنی مجلس میں کہاکہ میں نے کبھی کسی کو محروم نہیں کیا، مجھ سے جس نے جوکچھ مانگا میں نے اسے دیا،ایک شخص نے بادشاہ سے عرض کیا کہ مجھ کو ایک درم کی ضرورت ہے دیدیجئے! بادشاہ نے پتے کی بات کہی کہ ’’از بادشاہاں چیزے محقرخواستن بے ادبی است‘‘ بادشاہوں سے نہایت ہی بے وقعت اورحقیر چیزیں طلب کرنا گستاخی اوربے ادبی ہے‘‘۔ وہ شخص بولا کہ اگر ایک درم دینے میں عار محسوس تومجھ کو ایک ملک دیدیجئے!بادشاہ نے پھربہت عمدہ بات کہی کہ ’’پہلے توسوال کیا جو میرے مرتبہ سے کمترتھا اور دوبارہ سوال کیا جو خود کی اوقات سے زیادہ ہے،جوبھی سوال کیاغلط کیا۔

بڑوں کے پاس اکثر و بیشتر خادم و خدام بداخلاق یانا اہل ہوتے ہیں ، بہت خوش نصیب ہوتے ہیں وہ اکابرجن کے خدام تربیت یافتہ، مزاج آشنا اورمخلص ہوتے ہیں ، بہت سے خدام تو اپنی خدمت کے لئے بڑوں کی خدمت میں حاضر رہتے ہیں،فقیہ الاسلام حضرت مولانامفتی مظفرحسینؒ کے ایک غریب عقیدت مندکی خواہش تھی کہ وہ حضرت کی دعوت کرے ،لیکن خادم وقت ہی نہیں دیتا تھا، ایک دن بڑی منت سماجت کی کہ کوئی بھی تاریخ دے دو تاکہ انتظام کرلوں لیکن خادم نے ایک نہیں سنی۔وہ صاحب چلے گئے،حضرت مفتی صاحب نے قرائن سے حالات کوسمجھ لیا تو ایک صاحب کوبھیجا کہ واپس بلا کر لاؤ، وہ صاحب حاضرخدمت ہوئے ،مفتی صاحب نے پوری بات سنی تواپنے خادم سے فرمایاکہ جس تاریخ کو یہ دعوت کریں قبول ہے،اس دن کے بقیہ نظام کوکینسل کردو۔چنانچہ اس کے جانے کے بعدحضرت مفتی صاحب نے فرمایاکہ غریبوں کی دعوتیں ہرگز نہ ٹھکرانا،یہ لوگ بڑے مخلص،محنتی،جفاکش اور قدرقلیل حلال کمانے والے ہوتے ہیں ان کے سادہ کھانے میں جوبرکت اور رحمت ہوتی ہے وہ مرغن اورمرغ ومسلم میں نہیں ہوتی۔

سنوسنو! حضرت جریر بن عبداللہ البجلیؓ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دولت کدے پرحاضرہوئے ،پہلے سے ہی بہت سے صحابہ مجلس میں موجودتھے اس لئے جگہ تنگ تھی چنانچہ دروازے کے پاس ہی بیٹھ گئے ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی چادرمبارک انہیں پیش کی اورفرمایا ’’ اس پر بیٹھئے‘‘حضرت جریرؓ نے چادر کو اپنے چہرے سے لگایا اسے بوسہ دیا اور اس تکریم کودیکھ کر رونے لگے۔شکریہ ادا کرتے ہوئے چادر مبارک واپس کردی اور عرض کیا کہ یا رسول اللہ ! جیسی آپ نے مجھے عزت دی ، اللہ آپ کو اس سے بھی زیادہ عزت بخشے، آپ کی چادر پر میں نہیں بیٹھ سکتا،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نےفرمایا:اذا اتاکم کریم قوم فاکرموہ۔جب تمہارے پاس کسی قوم کا کوئی معزز آدمی آئے تو تم اس کا احترام کرو ’’۔(ابن ماجہ)
 
Top