حصارمیں کب تک محصور رہیں گے

مفتی ناصرمظاہری

کامیابی توکام سے ہوگی نہ کہ حسن کلام سے ہوگی
رکن
سنو!سنو!!

حصارمیں کب تک محصور رہیں گے

مفتی ناصرالدین مظاہری

حکیم الامت حضرت تھانویؒ کاارشادہے:
’’مجھ کو ایسی پارٹی بندی پسند نہیں کہ ایک ہی خیال اور ایک ہی مشرب کے ہوکر نسبتوں سے فرق ظاہر کریں،جیسے ایک صاحب نے اپنے نام کے ساتھ ’’ اشرفی‘‘ لکھا تھا، بلا ضرورت ایسی نسبتیں متضمن مفاسد ہیں، ایک صاحب نے عرض کیا کہ چشتی، قادری، نقشبندی، سہروردی، یہ بھی تو ایک نسبت ہے، فرمایا کہ وہاں تو اپنے مسلک اور مشرب کو اہل بدعت کے مسلک سے ممتاز کرنا ہے اور یہاں جب ایک ہی مسلک اور مشرب ہے تو وہ مقصود نہیں ہوسکتا ‘‘۔

( ملفوظات حکیم الامت، جلد نمبر: ۵، صفحہ نمبر: ۳۸، ۳۹)

سچ کہتاہوں اورسچ کہناہی چاہئے،سچ سنتاہوں اورسچ سنناہی چاہئے،حق بولتاہوں اورحق بولناہی چاہئے…جس طرح سچ بولنے کی فضیلت ہے اسی طرح سچ سننابھی بے شمارفوائد اور برکات کاحامل ہے…ہماری اس دنیامیں جس میں ہم سانسیں لے رہے ہیں آپ نے بہت سے صاحبان جبہ ودستارکودیکھاہوگاجویہ کہتے نہیں تھکتے کہ میں حق گوہوں،حق بیانی میری صفت ہے،سچائی میری خو اورصداقت بیانی میراطغرائے امتیازہے…لیکن ان ہی صاحبان عباوقباسے آپ کوئی بھی ’’سچی منفی بات‘‘ کہہ کردیکھ لیں جس کاتعلق ان کی ذات سے ہو،ان کے اجدادسے ہو،ان کے خاندان یاقبیلہ سے ہوتو پھرآپ کے لئے ان کے دروازے بندہوجائیں گے،آپ کانام وہ صاحب اپنے موبائل کی لسٹ سے خارج کردیں گے،اپنی مجلسوں میں آپ کا نام لینا تو درکنار سننا بھی گوارا نہیں کریں گے۔

آج ہرشخص ’’خوبیاں‘‘ سننا چاہتا ہے، جس میں ایران توران کی لن ترانیاں ہوں، آباء واجداد کے قصے اور ان سے منسوب ’’دیومالائی ‘‘ کہانیاں ہوں،بے پر کی باتیں اور حکایتیں ہوں ،یہاں وہاں کے قصے ہوں،خوابات اورمنامات ہوں، من گھڑت اورسچ آمیزجھوٹ کا پشتارہ ہو بس یہی چیزیں ’’محمود‘‘ہوکر رہ گئی ہیں،اگران ’’محمودات‘‘سے آگے بڑھے توپر پرواز متأثر کردی جائے گی، زبان کاٹ دی جائے گی،قلم توڑ دیا جائے گا،پیروں میں بیڑیاں اور ہاتھوں میں ہتھکڑیاں ڈال دی جائیں گی۔آپ اپنے حصارمیں خواہی نخواہی’’ محصور‘‘رہئے اور خود کو محفوظ سمجھنے کی ایکٹنگ کیجئے،زیادہ سوشل، زیادہ لبرل اورزیادہ آزادیٔ فکرونظر کااظہاربھی آپ کے لئے زہرقاتل بلکہ زہرہلاہل ہے ۔

آپ اپنے گھرکی حدودسے نکلیں گے نہیں ،کسی کواپنے گھراور در پرآنے نہیں دیں گے ،کسی سے فیض اٹھائیں گے نہیں اور دوسروں کو اپنی ذات سے فائدہ پہنچائیں گے نہیں،کوئی بافیض ہستی آپ کوبھاتی نہیں اور کوئی بے فیض بندہ آپ کوبھاتا نہیں ،نتیجہ یہ ہوتاہے کہ آپ کی شبیہ اپنے ہی ماحول میں محدودسے محدود ہوکررہ جاتی ہے۔کبھی نہیں دیکھاکہ میٹھے پانی کاچشمہ ہو اور وہاں مرغ ومور، مسافروجانورنہ پہنچتے ہوں…کبھی نہیں دیکھاکہ چشمۂ آب شیریں کے قرب وجوارمیں ہریالی نہ ہو،سبزہ زارنہ ہو،مرغ زارنہ ہو، پرندے نہ چہچہاتے ہوں،چرندے نہ آتے ہوں،درندے اپنی پیاس نہ بجھاتے ہوں،یعنی بس ایک چشمۂ شیریں ہے اوروہاں ہرقسم کے جانور، ہرطرح کے لوگ اورسب طرح کی ہریالیاں دیکھی جاتی ہیں۔
ایک ہم ہیں ،ہم نے اپنی سطحی اور دقیانوسی سوچ کے باعث چشمۂ صافی کے دروازے بندکردئے،ہم نے اپنی صلاحیتوں سے دوسروں کوفائدہ پہنچانے کی سوچ پرتالے لگادئے۔ہم نے اپنے گھرکو’’محل‘‘ سمجھنے کی غلطی کی حالانکہ ہماراگھر عارضی ہے،ہماری دولت عارضی ہے،ہماری زندگی کی ہرساعت عارضی ہے ،ہم ایک کرائے کے مکان کواپنامکان سمجھ بیٹھے،ہم ایک عارضی زندگی کو ’’حقیقی‘‘ زندگی سمجھ بیٹھے ،انبیائے کرام زبان نبوت سے چیخ چیخ کراعلان کرتے رہے کہ یہ دنیامردارہے اوراس کے طالب کتے ہیں،قرآن کریم باربار اعلان کرتا رہا کہ وقت سے پہلے سمجھ جاؤ ورنہ جب وقت سمجھائے گا توکف افسوس ملنے کی بھی مہلت نہیں ملے گی،اولیائے عظام اپنے کردار سے بتاتے رہے کہ یہاں جوکچھ دِکھتاہے وہ حقیقت نہیں ہے،ہرچیزکی ایک اصلیت ہے، ہربات کی ایک حقیقت ہے، ہرتصویرکے پیچھے ایک تصویر ہے، ہر پردے کی اوٹ میں ایک اورسچائی ہے ،ہم نے ظاہرکوباطن سمجھ لیا اورباطن سے نظریں میچ لیں تو پھر ہم نے اپنی ہرناکامی کا ٹھیکرا دوسروں پر پھوڑنا شروع کردیا، امتحان میں فیل ہم ہوئے اور قصور استاذ اورممتحن کا، کاروبار میں خسارہ ہمارا ہوا اورغلطی دوسروں کی،چلنے میں قصورہم نے کیااورسزا دوسرے نے جھیلی،دیوارپرشیرہ ہم نے لگایا اورقتل وقتال دوسروں میں ہوگیا۔ گویافتنے کی شروعات ہم سے ہوئی اورنتیجہ میں ہزاروں بے قصوروں کوسزائیں مل گئیں۔

آخرکب تک لمحے غلطیاں کرتے رہیں گے اورکب تک صدیاں اس کی سزائیں بھگتتی رہیں گی؟
کب تک دوسروں کے کندھے استعمال ہوں گے؟
کب تک دوسروں کوبلی کابکرا بنایا جائے گا؟
کب تک ’’چاپلوسانہ ‘‘خول میں پھنس کولاحول پڑھتے رہیں گے؟۔
ہم ہمیشہ شیطان پرلاحول پڑھتے ہیں کبھی خود پربھی پڑھ کردیکھناچاہئے کہیں ایسا تو نہیں کہ شیطان خاموش بیٹھا مسکرا رہا ہو اورہم اس کے نامکمل کاموں کوانجام دے رہے ہوں؟

حکیم الامت حضرت تھانویؒ کوایسی پارٹی پسندنہیں تھی جس میں ایک ہی خیال، ایک ہی فکر،ایک ہی مسلک اورایک ہی مشرب کی نسبت ہو، حضرت تھانویؒ کویہ بھی پسندنہیں کہ کوئی اپنے آپ کواشرفی لکھے ،سورج اپنی روشنی بکھیرنے میں امتیازنہیں کرتا،چانداپنے نورسے سبھی کومنور کرتاہے،بارش اپنی برسات سے سبھی کوفائدہ پہنچاتی ہے،ہوا اپنے فیض سے کسی کومحروم نہیں کرتی اورہمارا حال یہ ہے کہ اگرہمیں دوحرف معلوم ہوگئے توصرف اپنوں کوفائدہ پہنچائیں گے ،اپنے شاگردوں سے محبت کریں گے،اپنی نسبت کے لوگوں کوبلائیں گے،اپنے مسلک،اپنے مشرب اوراپنے خاندانی بزرگوں کے علاوہ کسی کوبھی خاطرمیں نہیں لائیں گے۔

ہم وہ ’’عظیم شکاری ‘‘ہیں جوقرآن کریم اورحدیث شریف کوچھوڑکراپنے تایاابا،اپنے ناناابا،اپنے چچااور دیگر خاندانی بزرگوں کے’’ اقوال زریں‘‘ نقل کریں گے تاکہ مخاطب کے فکرونظرکواپنی چرب زبانی اورمگرمچھی آنسوؤں اور بناوٹی لہجوں سے متأثر کرسکیں۔جس طرح شکاری کے پاس طرح طرح کے جال ہوتے ہیں،قسم قسم کے کیل کانٹے ہوتے ہیں، رنگا رنگ چارے ہوتے ہیں،دھوکہ اور فریب دینے والی اشیاء ہوتی ہیں بالکل اسی طرح ہم ایک شکاری کا کردار اداکرہے ہیں ،ہمیں بوبکروعمر نہیں اپنے تایااوردادایادرہ گئے،جنید وشبلی نہیں اپنے والد اور نانا یاد رہ گئے ،اپنامسلک اورمشرب نہیں اپنا مفاداورمقصدیاد رہ گیا،ہم جوقصہ بیان کرتے ہیں اس کاایک مقصد ہوتا ہے، جو واقعہ سناتے ہیں اس کاایک پیش منظرہوتاہے ،جوبات کرتے ہیں اس کاایک بیک گراؤنڈ ہوتاہے، ہماری ہربات’’بامقصد‘‘ہوتی ہے اور مقصدمیں کامیاب ہونے کے لئے ہم ریڈکراس کو بھی ’’ کراس‘‘ کرسکتے ہیں، ملت کا جنازہ نکلے، امت کی بدنامی ہووے، شریعت کی بیخ کنی ہو، طریقت کی رسوائی ہو، اداروں کی خفت ہوہمیں کسی سے مطلب نہیں۔

دریاکواپنی موج کی طغیانیوں سے کام
کشتی کسی کی پار ہو یا درمیاں رہے

یہ مفادپرستی کب تک غالب رہے گی؟
محدوداورگھٹیاسوچ کے حصارسے ہم کب نکلیں گے؟
کب ہمارے اندرتوسع پیداہوگا؟
کب ہم اپنے پیرومرشدکی طرح دوسروں کے پیرومرشد کی تعظیم کریں گے؟
کب ہم عزت دیناشروع کریں گے؟
کب دوسروں کی پگڑیاں اچھالنے سے بازآئیں گے؟
کب انگشت نمائی سے توبہ کی توفیق ملے گی؟
کب غیبت اورحسدسے بچنے کی کوشش کریں گے ؟۔
 
Top