کہناکہ رہوں کب تک میں دور مدینہ سے

مفتی ناصرمظاہری

کامیابی توکام سے ہوگی نہ کہ حسن کلام سے ہوگی
رکن

کہناکہ رہوں کب تک میں دور مدینہ سے

ناصرالدین مظاہری​

مظاہرعلوم سہارنپور میں دوہزار کے آس پاس ایک طالب علم پڑھتا تھا نام تھامحمد قاسم،یہ نیپال کے روتہٹ کا رہنے والا تھا،محمدقاسم ہر ہفتہ پابندی کے ساتھ ایک مخصوص دن ریلوے اسٹیشن جاکرواپس آجاتا تھا،اس کی یہ عادت مدرسہ میں شہرت پاگئی،لوگ اتنی پابندی کے ساتھ اسٹیشن جانے کی وجہ معلوم کرتے لیکن محمدقاسم خاموش رہتا،میں نے بھی کئی بار کوشش کی توکہنے لگا کہ
’’اجی! میں اسٹیشن برونی ایکسپریس نامی ٹرین دیکھنے کے لئے جاتاہوں جو دوپہر بارہ چالیس پرامرتسر سے آکر سہارنپور پہنچتی ہے اور اگلی منزل برونی کے لئے روانہ ہوجاتی ہے ،مجھے یہ ٹرین بہت پسندہے کیونکہ یہ ٹرین میرے وطن کے بالکل قریب تک جاتی ہے‘‘۔
تقریباً یہی حال میرابھی ہے جب بھی کوئی شخص حج یاعمرہ کرنے جاتا ہے تومیں اس کے ساتھ دور بہت دور تک جانا چاہتا ہوں ،اس لئے نہیں کہ مجھے سفر پسندہے… اس لئے بھی نہیں کہ کھانے پینے کی نئی نئی چیزیں ملیں گی…اس لئے بھی نہیں کہ جانے والے سے میرا کوئی اتنا قرب اورتعلق ہے کہ اس کی جدائی میں یہاں ماہئی بے آب رہوں گا… یا…اس کے دیدار کے لئے میری آنکھیں ترسیں گی…اس لئے بھی نہیں کہ مجھے اڑتے طیارے، دندناتی کاریں ،چمچماتی سڑکیں اور رنگ برنگی دنیاسے کوئی پیارہے ،ایسا کچھ بھی نہیں ہے۔
یادش بخیرسب سے پہلے غالباً ۱۹۹۷ء میں دہلی اندراگاندھی انٹرنیشنل ائرپورٹ کو دیکھا تھا،ہوایہ کہ حضرت مولانامحمد ریاض الحسن ندوی مظاہری حج کے لئے تشریف لے جارہے تھے ،میں ان کاماتحت بھی تھا اور ان کی شفقتوں اور کرم فرمائیوں سے نہال اور مالامال بھی ،مولانا کی فلائٹ وایا مسقط تھی،مولاناکے والد ماجدحضرت مولانا ابوالحسن مظاہریؒ بھی ائرپورٹ تک ساتھ تھے،جوں جوں ائرپورٹ سے قریب ہورہاتھا میرے دل کی دھڑکنیں تیز ہورہی تھیں ،ہراڑتے جہاز کو دیکھ کرمیں رشک کرتا تھاکہ یہ جدہ جارہا ہوگا،اس زمانے کا ائرپورٹ آج جیسا بالکل نہیں تھا، بہت سادہ، چھوٹاسا، ایک یادو گیٹ تھے، دونوں کے سامنے ایک ایک پولیس افسرتعینات تھا،نہ آج کل جیسی سختی تھی،نہ بھیڑبھاڑ،مولانا اندر چلے گئے، میں قریب میں موجود زینوں سے اترکر تاروں سے بنی دیوار کے قریب پہنچ گیا جہاں سے ہوائی جہاز نہایت ہی قریب دکھائی دے رہاتھا، ایک تو جہاز ہی اتنے قریب سے پہلی بار دیکھا تھادوسرے اتنابڑا جہاز،کبھی سوچا بھی نہیں تھا۔
مولانا کا جہاز جوں جوں رینگ رہاتھا میرے دل کی دھڑکنیں تیز تر ہورہی تھیں کہ کیانصیب پایا ہے مولانانے، ابھی بھارت میں ہیں اور کچھ ہی گھنٹوں میں اس پاک و پاکیزہ سرزمین میں اتریں گے جس کے چپہ چپہ سے اسلامی تاریخ وابستہ ہے،جہاں قدم قدم پرصحابہ کے نقوش موجود ہیں ، جہاں ارض مقدس ہے، جہاں روضۃ من ریاض الجنۃ ہے،جہاں رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم آرام فرماہیں ،جہاں مسجدحرام اور خانۂ کعبہ ہے، جہاں مسجدنبوی اور روضۂ اطہرہے، جہاں چاروں طرف یمن و سعادت ہے،جہاں ہرشخص بانصیب ہے کہ اس کوارض مقدس نصیب ہے، ہائے ہائے کیسے کیسے نصیبہ والے ہیں جو چندگھنٹوں میں دارالکفرسے دارالاسلام میں ہوں گے، جہاں ہرطرف اللہ کے پاک نام کے ترانے ہوں گے،جہاں کوئی کفرنہ ہوگا،نہ کوئی شرک نہ ہوگا،جہاں ہرزبان اللہ کے ذکرسے اورہردماغ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فکرسے ترو تازہ ہوگا، جہاں ایک نماز کا ثواب لاکھ نمازوں اور پچاس ہزار نمازوں کے برابر ہوگا، مولانا ریاض الحسن ندوی ویسے بھی خوش نصیب ہیں،ان کاگھر اور گھرانہ علم اور صاحبان علم سے جگمگ ہے،ان کی تعلیم جامع الہدیٰ مرادآباد، مظاہرعلوم سہارنپور اور ندوۃ العلماء لکھنؤ میں مکمل ہوئی، انہوں نے جامعہ گلزار حسینہ اجراڑہ اور مظاہرعلوم میں تعلیم دی،انہوں نے آئینۂ مظاہرعلوم کی ادارت کے فرائض انجام دئے ،انہوں نے بے شمار دینی، رفاہی،دعوتی اور ادارتی خدمات انجام دیں ،ان کی سعادتوں کا ستارہ توبلندی پرتھا ہی آج ان کا طیارہ مثل سیارہ آسمان کی وسعتوں میں محو پرواز ہوچکا ہے ،ان کا آنے والاہر منٹ سعادتوں کی طرف اور ہمارا ایک ایک منٹ اپنی محرومیوں اور حرماں نصیبیوں کی طرف، وہ اندھیرے سے اجالے کی طرف اورمیں اسی کفرستان میں ،اسی کفریہ اور شرکیہ ماحول میں،ان کو ایک عرصہ تک گانے بجانے سنائی نہیں دیں گے،ایک عرصہ تک ان کے کان میں توحید و رسالت کی صدائیں گونجتی رہیں گی،ایک عرصہ تک ان کے قدم اُن پاک قدموں کے نشانوں پر پڑتے رہیں گے جن کی آوازیں کبھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے معراج میں سنی تھیں۔
وہ دن ہے اور آج کادن ہے یقین جانیں کتنے ہی لوگوں کو ائرپورٹ تک پہنچانے جاچکا ہوں، کتنے ہی خوش نصیبوں سے درخواست کرچکا ہوں کہ جب کعبۃاللہ کا دیدار ہوتو میری حاضری کی دعابھی کردینا، جب بطحا پہنچیں توسرکارعالی میں اس حقیر فقیر کاسلام بھی عرض کردیں، جب اماں عائشہ کے مزار پرپہنچنا تو کہنا کہ تمہارا ایک گنہگار بچہ تمہارے قدموں میں اپناسر رکھ کراپنی سعادتوں کو پالینا چاہتا ہے ،جب شیخین جلیلین کے روبہ روہونا تو میراسلام بھی کہنا اور میرا پیام بھی کہنا اور کہنا کہ آپ کا ایک متبع اورمقتدی آپ کی جالیوں کوچھونا اور چھوکر یقین کرلینا چاہتا ہے کہ وہ ریاض الجنہ کے نہایت قریب ہے ،جب صفہ نامی چبوترے پربیٹھنا توتھوڑی سی خالی جگہ کے بارے میں کم ازکم خیال کرلینا کہ کاش ناصر ساتھ ہوتا تو یہاں بیٹھا ہوتا، مجھے مکہ مکرمہ کے بازاروں اور مدینہ منورہ کی مارکیٹوں سے کوئی محبت نہیں ہے مجھے تو بس حطیم و مطاف سے، مقام ابراہیم اورمسعی سے،مسجدحرام اور رکن یمانی ، حجراسود اور صفا و مروہ سے ،جنت البقیع اورجنت المعلیٰ سے،مسجدنبوی کے چپہ چپہ سے ،بدروحنین سے،تبوک ویرموک سے ،احداوربوقبیس سے بلکہ ہراس ذرے سے عشق ہے جہاں ہمارے آقااورآقاکے غلاموں کے قدم پڑے ہیں،میں چاہتا ہوں کہ مجھے ان میں سے کسی بھی جگہ اکیلا چھوڑد یاجائے تاکہ جی بھرکر رولوں۔
واللہ !سچ کہتاہوں میں اپنے آپ کوبلال کے کھڑاؤں سے،صہیب کے
میری خواہشات بھی عجیب ہیں میں بم سبقتنتی الی الجنۃ البارحۃ والے بلال حبشی ؓسے ،ومن الناس من یشری نفسہ والے صہیبؓ سے ، سلمان منا اہل البیت والے سلمان فارسی ؓسے ،اس لئے محبت کرتاہوں کہ واہ رے آپ کاعشق ،واہ رے آپ کی محبت،قربان جاؤں بلال حبشی ؓکے عشق پر،مرمٹوں صہیب رومیؓ کے سوزپر، جان دیدوں سلمان فارسیؓ کے سازپر، واللہ یہ دبے کچلے ، غلام ابن غلام کہاں تھے اورکہاں پہنچ گئے۔
تیری معراج کہ توعرش و قلم تک پہنچا
میری معراج کہ میں تیرے قدم تک پہنچا
٭٭٭
 
Top