حضرت ابن عباس ؓ

زنیرہ عقیل

منتظم اعلی۔ أیدہ اللہ
Staff member
منتظم اعلی
صحابہ کرام میں تفسیر کے اعتبار سے سب سے زیادہ شہرت پانے والے حضرت ابن عباسؓ ہیں،فن تفسیر میں سب سے زیادہ اقوال اورروایتیں انہیں سے منقول ہیں،اللہ تعالی نے آپ کو علم تفسیر وفقہ میں وہ کمال عطافرمایا تھا کہ لوگ آپ کوالحبر(زبردست عالم)البحر(علم کا سمندر)کے القاب سے یادکرتے تھے(الاتقان۲۴۱۳)حتی کہ بڑے بڑے صحابہ کرام ان کی کم عمری کے باوجود تفسیری معاملات میں ان کی طرف رجوع کرتے اور ان کے اقوال کو خاص وزن دیتے تھے،حضرت عمررضی اللہ عنہ کی مجلس میں آپ کونمایاں مقام حاصل تھا؛چنانچہ صحیح بخاری میں حضرت ابن عباس سے اس طرح منقول ہے:
حضرت عمر رضی اللہ عنہ اپنی مجلس میں کبار صحابہ کے ساتھ مجھ کو بٹھاتے تھے اوراپنے قریب جگہ دیتے تھے،اس سے بعض صحابہ کوناگواری ہوتی تھی کسی نے ان سے کہا،آپ اس نوجوان کو ہمارے ساتھ کیوں بٹھاتے ہیں؛ جبکہ ہمارے بیٹے بھی انہی جیسے ہیں(ان کو آپ اپنی مجلس میں جگہ نہیں دیتے)توحضرت عمررضی اللہ عنہ نے فرمایا:یہ تم میں سب سے زیادہ علم رکھنے والے ہیں، حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ایک دن حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ان سب کو بلایااورمجھے بھی ان کے ساتھ مدعوکیا،میں سمجھتاہوں کہ اس دن مجھے بلانے کا مقصد ان کے سامنے میری علمی حیثیت کو اجاگرکرنا تھا؛چنانچہ حضرت عمرؓ نے فرمایا:تم اللہ تعالی کے اس قول "اِذَا جَاءَ نَصْرُ اللہِ وَالْفَتْحُ" (سورۂ نصر) کےمتعلق کیا کہتے ہو تو ان میں سے بعض نے کہا: ہم کو حکم دیا گیا کہ جب ہماری مدد کی جائے اور دشمنوں پر ہم کو فتحیابی ہوجائے تو ہم اللہ کی حمد کریں اوراس سے استغفار کریں اور بعض نے ان میں سے سکوت اختیار کیا؛ پھرحضرت عمر رضی اللہ عنہ نے مجھ سے خطاب کرکے فرمایا:اے ابن عباس کیا تم بھی یہی کہتے ہو تو میں نے کہا نہیں، حضرت عمررضی اللہ عنہ نے پوچھا:توپھر تم کیا کہتے ہو؟ میں نے کہا: اس سورۃ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی موت کی خبر ہے جس سے اللہ تعالی نے ان کو باخبر کیا ہے"إِذَا جَاءَ نَصْرُ اللَّهِ وَالْفَتْحُ"تو یہ آپ کی مدت ختم ہونے کی علامت ہے،حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: اس آیت کے متعلق میں بھی وہی جانتا ہوں جو تم جانتے ہو۔
(بخاری،باب منزل النبی ﷺ،حدیث نمبر:۳۹۵۶،شاملہ)
حضرت عمرؓ فرمایاکرتے تھے کہ آپ ہمارے سب نوجوانوں سے حسین بااخلاق اوران سب سے زیادہ کتاب اللہ کے سمجھنے والے ہیں۔
(التفسیروالمفسرون:۲۱۴)
آپ ہی کا ارشاد ہے:ابن عباس عمر کے ادھورے اورعقل کے پورے ہیں آپ ذہن رسا اور زبان نکتہ بیان کے مالک ہیں۔
(الاتقان:۲۴۱۳)
حضرت ابن مسعود ؓکا قول ہے:
"نِعْمَ تَرْجُمَانُ الْقُرْآنِ اِبْنَ عَبَّاسٍ"۔
(الاتقان:۲۴۱۳)
عباسؓ بہت اچھے ترجمان القرآن ہے۔
حضرت عبداللہ بن عمر ؓکاارشاد ہے:
"اِبْنُ عَبَّاسٍ أَعْلَمُ مِنْ اُمَّۃِ مُحَمَّدٍ بِمَانَزَلَ عَلیٰ مُحَمَّدٍ"۔
(تاریخ تفسیرومفسرین:۶۹)
جو کچھ محمدؐ ﷺپر نازل ہوا ہے ابن عباسؓ اس امت میں اس کے سب سے بڑے عالم ہے۔
لیث بن ابی سلیمؒ نے طاؤسؒ سے کہا:آپ نے حصول علم کے لیے اس کم عمر صحابی کو پکڑلیا(یعنی ابن عباسؓ کو) اورکبارصحابہؓ کوچھوڑدیا،توحضرت طاؤس ؓنے فرمایا: میں نے۷۰ صحابہ کو دیکھا کہ وہ جب کسی مسئلہ میں بات چیت کرتے تو بالآخرابن عباسؓ کاقول اختیار کرتے(اسدالغابۃ:۱۶۳۰)حضرت ابن عباسؓ کی تفسیر کا سننے والوں پر کیا اثرپڑتاتھا اس کا اس واقعہ سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے،اعمش ابووائل سے روایت کرتے ہے کہ حضرت علیؓ نے حضرت ابن عباسؓ کو امیر حج بناکر بھیجا آپ نے خطبہ میں سورۂ "بقرۃ"یا"نور"کی تلاوت فرمائی اورپھر اس کی ایسی دلنشین تفسیر بیان فرمائی کہ اگراہل روم وترک اوردیلم اسے سن لیتے تو اسلام لے آتے۔
(تذکرۃ الحفاظ:۱۳۴)
حضرت علی رضی اللہ عنہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کی تفسیری صلاحتیوں پرروشنی ڈالتے ہوئےفرماتے ہیں:
ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ابن عباس باریک پردہ کی اوٹ سے غیبی حقائق کو بچشم خود دیکھ رہے ہیں،حضرت عطاء فرماتے ہیں:میں نے ابن عباس رضی اللہ عنہ کی مجلس سے بڑھکر باعزت محفل نہیں دیکھی،مفسرین آپ کے یہاں ہوتے تھے فقہا وشعراء کا جمگھٹا آپ کے یہاں ہوتا تھا اوریہ سب آپ کے چشم فیض سے سیراب ہوتے تھے۔
(تفسیرومفسرین:۶۸)
علمی برتری کے اسباب
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کی اس علمی برتری ووسعت علمی کے مختلف اسباب ہیں۔
(۱)سب سے پہلا اوراہم سبب حضورصلی اللہ علیہ وسلم کی دعاتھی آپ نے ان کے حق میں یہ دعافرمائی تھی۔
"اَللّٰھُمَّ فَقِّہْہُ فِی الدِّیْنِ وَعَلِّمْہُ التَّأْوِیْل"۔
(مسند احمد،بدایۃ مسند عبداللہ بن عباسؓ،حدیث نمبر:۲۲۷۴،شاملہ)
اے اللہ انہیں دین کی سمجھ عطافرما، اورانہیں تفسیر قرآن کا علم عطافرما۔
اورایک مرتبہ یہ دعافرمائی:
"اَللّٰھُمَّ بَارِکْ فِیْہِ وَانْشُرْمِنْہُ"۔
(الجامع الکبیر،حرف الھمزہ،حدیث نمبر:۳۷۲،شاملہ)
اے اللہ ان کو برکت عطافرما اوران کے ذریعہ علم دین کو عام فرما۔
(۲)دوسرا سبب یہ ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کےبعد آپ رضی اللہ عنہ اکابر صحابہ کی صحبت میں رہ کر ان سے استفادہ کرتے رہے، آپ نے ان سے وہ مقامات دریافت کئے جہاں جہاں قرآن اتراتھا اور اسباب نزول کے بارے میں واقفیت حاصل کی اوراس ضمن میں انہوں نے بڑی محنت ومشقت اٹھائی خود انکا اپنابیان ہے فرماتے ہیں:کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد میں نے ایک انصاری صحابی سے کہا: ابھی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بہت سے صحابہ باقی ہیں آؤ ہم ان سے (علم کی باتیں)معلوم کیا کریں توانصاری صحابی نے کہا،بڑے تعجب کی بات ہے کیا آپ کاخیال ہے کہ لوگ کسی وقت علم کے معاملہ میں آپ کے محتاج ہوں گے(کہ اس وقت کے لیے ابھی سے تیاری کی فکر ہے)چنانچہ انہوں نے میری تجویز منظورنہیں فرمائی،پھر میں نے تنہا یہ کام شروع کیا میں صحابہ کے پاس جاتارہا اوران سے علم کی باتیں معلوم کرتارہا،اگر کسی شخص کے حوالہ سے مجھے کوئی حدیث پہونچتی تو میں اس کے دروازہ پرپہونچ جاتا پھر معلوم ہوتا کہ وہ آرام فرمارہے ہیں،تومیں اپنی چادر کو تکیہ بناکر وہیں دروازہ پر بیٹھا رہتا، اس دوران ہواکے جھونکے مجھ پر مٹی لالاکر ڈالتے رہے،جب وہ صاحب باہر نکلتے اورمجھے دیکھتے تو کہتے،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے چچازاد بھائی آپ کیوں تشریف لائے؟میرے پاس پیغام بھیج دیاہوتا میں آپ کے پاس چلاآتا میں جواب میں کہتا نہیں یہ میرافرض تھا کہ میں آپ کے پاس آؤں چنانچہ میں ان سے اس حدیث کے بارے میں پوچھتا(یہی سلسہ عرصہ درازتک چلتا رہا)وہ انصاری صحابی(جنہوں نے میرے ساتھے چلنے سے انکارکیاتھا) لمبے وقت تک زندہ رہے،یہاں تک کہ انہوں نے مجھے اس حال میں دیکھا کہ لوگ میرے گرد جمع تھے اور مجھ سے علمی سوالات کررہے تھے تو انہوں نے فرمایا،یہ نوجوان تو مجھ سے زیادہ عقلمند تھا۔
(سنن دارمی:۵۸۰)
عبید اللہ بن ابی رافع کا بیان ہے کہ ابن عباسؓ ابو رافع کے پاس آتے اوران سے پوچھتے کہ فلاں دن حضورصلی اللہ علیہ وسلم نے کیا کیاتھااور ان کے ساتھ ایک آدمی اورہوتا جو ابورافع کاجواب لکھ لیتا تھا؛ تو اس طرح سے ابن عباس رضی اللہ عنہ جس چشمہ فیض سے محروم ہوئے تھے بڑی حد تک اس کی تلافی کرلی۔
تفسیری اقوال
یہاں حضرت ابن عباسؓ کے تفسیری اقوال کی چند مثالیں پیش کی جاتی ہیں،جس سے اندازہ ہوگا کہ آپ کو فن تفسیر میں کس قدر تبحر حاصل تھا:
(۱)حضرت ابن عباسؓں کی قرآن دانی کا ایک عجیب واقعہ علامہ سیوطی نے الاتقان میں اس طرح نقل فرمایا:
حضرت ابن عباسؓ خود فرماتے ہیں کہ حضرت عمربن خطابؓ مہاجرین صحابہ کی ایک جماعت میں بیٹھے ہوئے تھے کہ اتنے میں لیلۃ القدر کی تعیین کے متعلق تذکرہ چھڑگیا، ہر ایک نے اس مسئلہ میں اپنے علم کے مطابق کلام کیا توحضرت عمرؓ نے فرمایا اے ابن عباس تمہیں کیا ہوا خاموش بیٹھے ہو بولتے نہیں تم بھی کچھ بولو اورکم عمری تمہارے بولنے سے رکاوٹ نہ بنے ،ابن عباسؓ فرماتے ہیں: میں نے کہا اے امیر المومنین بلاشبہ اللہ تعالی طاق ہے اورطاق عدد کو پسند کرتے ہیں، دنیا کے سات دن بنائے جن سات میں دنیا گھومتی ہے رہتی ہے اورہمارے لیے سات قسم کے رزق پیدا فرمائے اورانسان کو سات مراحل میں گزار کر پیدا فرمایا ہمارے اوپر سات آسمان بنائے، ہمارے نیچے سات زمیں بنائیں، مثانی (سورۃ فاتحہ) کو سات آیتوں میں رکھا اوررشتہ داروں میں سات قسم کی عورتوں سے نکاح کرنے سے منع فرمایا، میراث کو اپنی کتاب میں سات قسم کے رشتہ داروں میں تقسیم فرمایا، ہم اپنے جسم کے سات حصوں پر سجدہ کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کعبہ کے ساتھ چکر لگائے، صفا مروہ کے درمیان سات چکر لگائے اورجمرات پر سات کنکریاں ماری تو میں سمجھتا ہوں کہ شب قدر رمضان کے آخر عشرۃ کی ساتویں رات کو ہے(یعنی رمضان کی ستائیسویں"۲۷"شب کو ) حضرت عمرؓ اس جواب سے بہت خوش ہوئے اورفرمایا: (اس مجمع میں سے) اس لڑکے کے سواجس کے سر کے بال بھی ابھی تک کھڑے نہ ہوئے کسی نے میری موافقت نہیں کی پھر فرمایا: اے لوگو اس مسئلہ میں ابن عباسؓ کی طرح کون جواب دے سکے گا۔
(الاتقان :۴۱۴۲)
اس واقعہ سے حضرت ابن عباسؓ کی فہم و فراست اورآپ کی قرآن دانی کا اندازہ ہوتا ہے کہ آپ علم تفسیر میں کس مقام کوپہونچے ہوئے تھے۔
(۲)عبداللہ بن دینار کہتے ہیں کہ ابن عمرؓ کے پاس ایک آدمی آیا اوران سے اس آیت: "السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ كَانَتَا رَتْقًا فَفَتَقْنَاهُمَا"(الانبیاء:۳۰)
(آسمان اورزمین بند تھے پھر ہم نے اپنی قدرت سے ان کو کھولدیا ) کی تفسیرمعلوم کی حضرت ابن عمرؓ نے فرمایا: اُس شیخ(ابن عباسؓ) کے پاس جاؤ اوران سے اس کی تفسیر پوچھو پھر میرے پاس آؤ اورمجھے بتاؤ کہ انہوں نے کیا فرمایا، چنانچہ وہ شخص ابن عباسؓ کے پاس آیا اوران سے اس کی تفسیر پوچھی تو انہوں نےفرمایا: ہاں! میں بتاتا ہوں آسمان بند تھا بارش برسا نہیں رہا تھا اورزمین بند تھی غلہ اگا نہیں رہی تھی پھر جب اللہ نے زمین کو پیدا کیا تو آسمان کو بارش کے ذریعہ کھولا اورزمین کو نباتات کے ذریعہ سے پھر وہ آدمی حضرت ابن عمرؓ کے پاس لوٹا اورانہیں اس واقعہ کی خبر دی، تو حضرت ابن عمرؓ نے فرمایا: اب مجھ کو معلوم ہوا کہ ابن عباس ؓ کو قرآن کے سلسلہ میں خاص قسم کا علم دیا گیا ہے، ابن عباس نے سچ کہا ایسے ہی تھا۔
 

مولانانورالحسن انور

رکن مجلس العلماء
رکن مجلس العلماء
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ خود بھی صاحب علم تھے ساتھ ساتھ علم والوں کے قدر دان بھی تھے۔۔ حضرت ابوالعالیہ رحمۃ اللّٰہ ان نےغلامی سے آزادی کی طرف سفر کیا حصول علم کے بعد حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے ملے ان نے انہیں اپنے برابر چارپائی پر بیٹھایا قریش کے کچھ لوگ زمین۔پر بیٹھے ہوے تھے ان نے یہ منظر دیکھا تو آپس میں باتیں شروع کردیں حضرت ابن عباس رضی اللہ سمجھ گے آپ نے فر مایا علم ہی انسان کو عزت کا مقام دیتا ہے اور دنیا و آخرت میں بلند وبالا کرتا ہے

(سیر اعلام النبلاء209جلد5بیروتی
 
Top