حضرت علی ؓ

زنیرہ عقیل

منتظم اعلی۔ أیدہ اللہ
Staff member
منتظم اعلی
تفسیر قرآن کے معاملہ میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کا مقام انتہائی بلند ہے،آپؓ عرصہ دراز تک بقید حیات رہے اور ایک لمبے عرصہ تک افادۂ علم میں مشغول رہے اس لیے آپؓ سے بہت سی روایات منقول ہیں، علم تفسیر میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کے مقام بلند وعلوشان کا اس قول سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے جوابوالطفیل نے بیان کیا ہے۔
میں نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو خطبہ دیتے ہوئے دیکھا، وہ فرمارہے تھے مجھ سے پوچھو تم مجھ سے جس چیز کے بارے میں بھی پوچھو گے میں اس کے بارے میں تم کو بتلاؤں گا اورمجھ سے کتاب اللہ کے بارے میں سوالات کرو کیونکہ خدا کی قسم قرآن کریم کی کوئی آیت ایسی نہیں مگر اس کے بارے میں مجھے خوب معلوم ہے کہ وہ رات میں اتری یا دن میں میدان میں اتری یا پہاڑپر۔
(الاتقان:۲۴۱۲)
حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: میں نے قرآن کریم سے متعلق جو بھی سیکھا حضرت علی سے سیکھا،ترجمان القرآن حضرت ابن عباس کی یہ شہادت حضرت علی رضی اللہ عنہ کے مقام بلند کو جاننے کے لیے کافی ہے۔
حضرت عبداللہ بن مسعود فرماتے ہیں:
قرآن کریم سات حروف پر نازل کیاگیا اس میں سے ہر حرف کا ایک ظاہر ہے اور ایک باطن اورحضرت علی رضی اللہ عنہ کے پاس اس کے ظاہر کا بھی علم ہے اور اس کے باطن کا بھی۔
حضرت علی رضی اللہ عنہ کا خود ہی ارشاد ہے،بخدا قرآن کریم کی کوئی آیت نہیں اتری مگر مجھے خوب معلوم ہے کہ وہ کسی ضمن میں اور کہاں اتری،مجھے میرے رب نے روشن دماغ اورپوچھنے والی زبان بخشی ہے۔
(الاتقان:۲۴۱۲)
ایک مرتبہ حضرت علیؓ کھڑے ہوئے اور فرمایا کیا کوئی ہے جو قرآن سے متعلق مجھ سے سوالات کرے،بخدا اگر آج قرآن کریم کا کوئی مجھ سے زیادہ جاننے والا ہوتا چاہے وہ کئی سمندر پار ہوتا، تب بھی میں اس سے استفادہ کے لیے اس کے یہاں ضرور حاضر ہوتا؛چنانچہ عبداللہ بن کواء کھڑے ہوئے اور آپؓ سےپوچھا، وہ لوگ کون ہیں؛ جنہوں نے اللہ کی نعمت کو اختیار کرنے کے بجائے کفر اختیار کیا اور جنہوں نے اپنی قوم کو ہلاکت کے گھر(یعنی)جہنم میں پہنچادیا؟(اشارہ اس آیت کی طرف تھا:
"أَلَمْ تَرَ إِلَى الَّذِينَ بَدَّلُوا نِعْمَتَ اللَّهِ كُفْرًا وَأَحَلُّوا قَوْمَهُمْ دَارَ الْبَوَار"۔
(ابراہیم:۲۸)
کیا تم نے ان لوگوں کو نہیں دیکھاجنہوں نے اللہ کی نعمت کو کفر سے بدل ڈالااور اپنی قوم کو تباہی کے گھر میں لا اتارا۔
آپ نے فرمایا وہ مشرکین قریش ہیں جن کے پاس اللہ کی نعمت ایمان کی دولت آئی تھی؛تو انہوں نے اللہ کی نعمت کو کفر سے بدلا اور اپنی قوم کو ہلاکت کے گھر (جہنم) پہنچادیا۔
(تفسیر ابن کثیر،تفسیر سورۂ ابراہیم:۲۸)
تفسیری اقوال
حضرت علیؓ کے تفسیری اقوال کی کچھ مثالیں بطور نمونہ پیش کی جاتی ہیں جس سے آپ کے تفسیری ذوق کا اندازہ کیا جاسکتا ہے۔
(۱)حضرت علیؓ اللہ تعالی کے اس ارشاد "وَإِذْ أَخَذَ اللَّهُ مِيثَاقَ النَّبِيِّينَ لَمَا آتَيْتُكُمْ مِنْ كِتَابٍ وَحِكْمَةٍ" (ال عمران:۸۱)کی تفسیر کرتے ہوئے فرماتے ہیں:اللہ تعالی نے آدمؑ اوران کے بعد کسی نبی کو نہیں بھیجا مگر ان سے محمدﷺ کے بارے میں اس بات کا عہد وپیمان لیا کہ اگر ان (یعنی محمدﷺ) کی بعثت ہوجائے اوروہ (جن سے عہد لیا جارہا ہے) زندہ رہے تو وہ ضرور ان پر ایمان لائیں اور ضرور ان کی مددکریں اورن کو حکم دیا کہ وہ اپنی قوم سے بھی اس بات کا عہد و پیمان لیں پھر حضرت علیؓ نے یہ آیت تلاوت فرمائی "وَإِذْ أَخَذَ اللَّهُ مِيثَاقَ النَّبِيِّينَ لَمَا آتَيْتُكُمْ مِنْ كِتَابٍ وَحِكْمَةٍ"(اورجبکہ اللہ تعالی نے عہد لیا انبیاء سے کہ جو کچھ میں تم کو کتاب اور علم دوں پھر تمہارے پاس کوئی پیغمبر آئے جو تصدیق کرنے والا ہو اس کاجو تمہارے پاس ہے تو تم ضرور اس رسول پر ایمان لانا اوراس کی مدد کرنا فرمایا: کیا تم نے اقرار کیا اوراس پر میرا عہد قبول کیا؟ وہ بولے ہم نے اقرار کیا ارشاد فرمایا تو گواہ رہنا اورمیں اس پر تمہارے ساتھ گواہوں میں سے ہوں)۔

(الدر المنثور:۹۰۲)
(۲)اللہ تعالی کے اس ارشاد "وَاذْكُرُوا اللَّهَ فِي أَيَّامٍ مَعْدُودَاتٍ"(البقرۃ:۲۰۳)
(اوراللہ تعالی کا ذکرکروکئی روز تک) کی تفسیر کرتے ہوئے حضرت علیؓ فرماتے ہیں:"أَيَّامٍ مَعْدُودَاتٍ" سے مراد تین دن ہے ،یوم الاضحیٰ اوراس کے بعد کے دودن ان میں سے جس دن چاہو قربانی کرو اوران دنوں میں سب سے افضل ان میں کا پہلا دن (یعنی ۱۰ ویں ذی الحجہ) ہے۔
(الدر المنثور:۴۵۱۱)
(۳)"أَوْ لَامَسْتُمُ النِّسَاءَ" (النساء:۴۳) کی تفسیر کرتے ہوئے حضرت علیؓ فرماتے ہیں، کہ اس میں لمس سے مراد جماع ہے؛ لیکن اللہ تعالی نے یہاں پر اسے کنایۃً ذکر فرمایا ہے(صراحۃ ً ذکر نہیں فرمایا)۔
 
Top