علماء ، جمہوریت کے تعاقب میں
جمع و ترتیب : مفتی عبد المعز حقمل
قسط : ۱
مولانا عاشق الٰہی بلند شہری رحمہ اللہ
چونکہ جمہوری دفاع جمہوریت میں کہتے ہیں کہ جمہوریت شوری ہے اور اس کے لئے " وشاورهم في الأمر " اور " وأمرهم شورى بينهم " پیش کرتے ہیں اس لئے ہم مولانا عاشق الٰہی صاحب رحمہ اللہ کی پوری عبارت پیش کر رہے ہیں کیونکہ اس میں مشورے کی شرعی حیثیت کے بارے میں بھی بات کی گئی ہے اور جمہوریت کے بارے میں بھی ۔۔۔ عبارت گو کہ کچھ لمبی ہے مگر مفید ہے اس لئے پوری پڑھیں
سورہ آل عمران کی آیت نمبر 159 میں مولانا عاشق الٰہی بلند شہری رحمہ اللہ اپنی تفسیر انوار البیان میں تحریر فرماتے ہیں :
پھر فرمایا (وَ شَاوِرْھُمْ فِی الْاَمْرِ ) اللہ جل شانہ نے آنحضرت سرور عالم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو صحابہ کرام سے مشورہ فرمانے کا حکم دیا۔ آنحضرت سرور عالم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس آیت کے نازل ہونے سے پہلے بھی اپنے صحابہ سے مشورہ فرماتے تھے۔ اور اس کے بعد بھی آپ نے مشورے فرمائے۔ آیت شریفہ میں مشورے کا حکم دے کر حضرات صحابہ کی اللہ تعالیٰ نے دلجوئی فرمائی اور ان کا اعزازو اکرام فرمایا یہ مشورہ ان امور میں نہیں تھا جہاں کوئی نص قطعی اور واضح حکم اللہ تعالیٰ کی طرف سے موجود ہو، جن امور کو آنحضرت سرور عالم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سپرد فرما دیا گیا ان میں مشورہ کرنے کا حکم فرمایا۔
مشورہ کی ضرورت اور اہمیت :
اس سے مشورے کی اہمیت اور ضرورت ظاہر ہوئی اور یہ بھی پتہ چلا کہ جب سید الاولین والآخرین (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مشورہ سے مستغنی نہیں تو آپ کے بعد ایسا کون ہوسکتا ہے جو مشورہ سے بےنیاز ہو، آئندہ آنے والے امراء اور اصحاب اقتدار اور امت کے کاموں کے ذمہ دار جو بھی آئیں سب کے لیے مشورہ کرنے کی ضرورت واضح ہوگئی۔ مشورہ میں بہت خیر ہے جو اصحاب رائے ہوں خواہ عمر یا مرتبہ میں چھوٹے ہی ہوں ان کو مشورہ میں شریک کرنا چاہیے اور وجہ اس کی یہ ہے کہ مشورہ کرنے کی صورت میں مختلف رائیں سامنے آجاتی ہیں۔ ان رایوں کے درمیان سے کسی مناسب ترین رائے کو اختیار کرلینا آسان ہوتا ہے۔ بعض مرتبہ بڑے کی نظر سے وہ گوشے اوجھل رہ جاتے ہیں جو چھوٹوں کی سمجھ میں آجاتے ہیں۔ تمام گوشے سامنے آنے سے کسی پہلو کو اختیار کرنے میں بصیرت حاصل ہوجاتی ہے۔ حضرت انس (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا مَا خَابَ مَنِ اسْتَخَارَ وَلاَ نَدِمَ مَنِ اسْتَشَارَ (یعنی جس نے استخارہ کیا وہ نا کام نہ ہوگا۔ اور جس نے مشورہ کیا اسے ندامت نہ ہوگی) ۔ (ذکرہ الہیثمی فی مجمع الزوائد) ۔۔۔۔ [ یہ حدیث موضوع ہے : عبد المعز ]
خانگی امور میں اور اداروں کے معاملات میں مشورے کرتے رہنا چاہیے جن لوگوں سے مشورہ کیا جائے ان کی ذمہ لازم ہے کہ وہ وہی رائے دیں جسے اپنی دیانت سے فیما بینھم و بین اللّٰہ صحیح سمجھتے ہوں۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد ہے ان المستشار مؤتمن (یعنی جس سے مشورہ طلب کیا جائے وہ امانت دار ہے) (اخرجہ الترمذی فی ابواب الزہدو ابن ماجہ فی کتاب الادب)
اگر کوئی شخص اپنے ذاتی معاملہ میں مشورہ کرے تب بھی اسے وہی مشورہ دے جو اس کے حق میں بہتر ہو۔ سنن ابو دواؤد میں ہے کہ آنحضرت سرورعالم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا کہ من اشار علی اخیہ بامر یعلم ان الرشد فی غیرہ فقد خانہ (جس نے اپنے بھائی کو کوئی ایسا مشورہ دیا جس کو وہ سمجھتا ہے کہ مشورہ لینے والے کی بہتری دوسری رائے میں تھی جو پیش نہیں کی گئی تو اس نے خیانت کی) (رواہ ابو داؤد فی کتاب العلم) اور حضرت علی (رض) سے اس کا قاعدہ کلیہ مروی ہے جسے علامہ سخاوی نے المقاصد الحسنہ صفحہ ٣٨٣ میں نقل کیا ہے اور وہ یہ کہ فاذا استشیر احد کم فلیشر بما ھو صانع لنفسہ (کہ جب کسی سے مشورہ طلب کیا جائے تو وہ مشورہ دے جسے وہ اپنے لیے اختیار کرتا اگر وہ خود اس حال میں مبتلا ہوتا جس میں مشورہ لینے والا مبتلا ہے) اور یہ مضمون اس حدیث کے مطابق ہے جس میں افضل الایمان بتاتے ہوئے ارشاد فرمایا۔ ان تحب للناس ماتحب لنفسک وتکرہ لھم ماتکرہ لنفسک (یعنی یہ کہ تو لوگوں کے لیے اسی کو پسند کرے جو اپنے لیے پسند کرتا ہے لوگوں کے لیے اس چیز کو ناپسند جانے جس کو اپنے لیے ناپسند جانتا ہے) (مشکوٰۃ المصابیح صفحہ ١٦)
مشورہ کی شرعی حیثیت :
مشورے کا حکم دینے کے بعد فرمایا ( فَاِذَا عَزَمْتَ فَتَوَکَّلْ عَلَی اللّٰہِ اِنَّ اللّٰہَ یُحِبُّ الْمُتَوَکِّلِیْنَ ) (پھر جب آپ پختہ عزم کرلیں تو اللہ پر تو کل کیجیے بیشک توکل کرنے والے اللہ کو محبوب ہیں) مطلب یہ ہے کہ مشورے کے بعد آپ جب کسی جانب کو طے فرما کر عزم کرلیں تو اللہ پر بھروسہ کیجیے اور اپنے عزم کے مطابق عمل کیجیے۔ اس میں یہ بات ظاہر ہے کہ مشورہ کرنے کے بعد آپ کو سب کے یا کسی ایک کے مشورے کا پابند ہونا ضروری نہیں۔ جس طرف آپ کا رحجان ہو اس پر عمل کرلیں اس
میں مشورہ دینے والوں کو بھی دلگیر ہونے کی ضرورت نہیں مشورہ دینا اور لینا ضائع نہیں ہے کیونکہ اس میں ہر شخص کو غور و خوض کرنے اور اپنی رائے پیش کرنے کا ثواب مل چکا ہے اب آپ جس رائے کو مناسب جانیں (اور رایوں میں اپنی ذاتی رائے بھی ہے) اس پر عمل فرمائیں۔
اپنا عزم فرمانے کے بعد اللہ پر بھروسہ کرنے کا حکم فرمایا اس سے یہ بات ظاہر ہے کہ تمام مشوروں اور تدبیروں کے بعد بھروسہ صرف اللہ ہی پر رہے بندوں کی رائیں اور تدبیریں صرف اسباب کی حیثیت رکھتی ہیں۔ اسباب پر بھروسہ کرنا مومن کا کام نہیں، مومن کا بھروسہ صرف اللہ پر ہوتا ہے۔
آنحضرت سرور عالم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بعد بھی مشورہ کی سنت جاری ہے لیکن اس کے ساتھ یہ بات سمجھ لینا چاہیے کہ مشورہ لینے والے کے لیے خواہ امیر المؤمنین ہی ہو یہ ضروری نہیں ہے کہ سب کا یا کسی ایک کا مشورہ مانے۔ باوجود مشورہ لینے کے اسے اپنی رائے پر عمل کرنے کا پورا پورا اختیار ہے۔ حق بات یہ ہے کہ جب مشورہ لینے والا بھی مخلص ہو اور مشورہ دینے والے بھی مخلص ہوں اور ہر ایک کو اللہ کی رضا مقصود ہو تو کسی وقت بھی بدمزگی پیدا ہونے کا موقعہ نہیں رہتا۔ آپس میں ضدا ضدی اور یہ اعتراض کہ میری رائے پر عمل کیوں نہ کیا اور امیر کی شکایت کہ وہ آمر مطلق ہے مشورہ کرکے بھی اپنی رائے پر عمل کرتا ہے۔ یہ سب باتیں جبھی ہوتی ہیں جب امیر اور مامور میں اخلاص نہ ہو اور آپس میں اعتماد نہ ہو اور امارت کے اصول پر امیر و مامور کو چلنے کا ارادہ نہ ہو، نفسانی اور دنیاوی چیزوں نے جگہ پکڑ رکھی ہو۔ اگر امیر کے انتخاب میں اللہ کی رضامندی کا دھیان رکھا ہو اور متقی آدمی کو امیر بنایا ہو جس کے علم و عمل اور اخلاص پر اعتماد ہو جو دنیا دار نہ ہو عہدہ کا طالب نہ ہو تو اس صورت میں امیر کا اپنی رائے پر عمل کرنا ناگوار نہ ہوگا۔ انتخاب تو غلط کریں اور پھر امیر کے خلاف احتجاج کرنے جلوس نکالنے کے جاہلانہ طریقوں سے امیر کو ہٹانے کی کوشش کریں۔ ان دونوں باتوں میں کوئی جوڑ نہیں ہے۔
موجودہ جمہوریت اور اس کا تعارف
زمانہ قدیم میں بادشاہتیں جاری تھیں ولی عہدی کے اصول پر بادشاہت ملتی تھی عرب و عجم میں بادشاہ تھے ان میں ظالم بھی تھے، رحم دل بھی تھے اور انصاف پسند بھی۔ لیکن بادشاہت کی تاریخ میں زیادہ تر مظالم ہی ملتے ہیں۔ ان مظالم سے تنگ آکر یورپ والوں نے جمہوریت کا طرز حکومت جاری کیا۔ اور اس کا نام عوامی حکومت رکھا۔ اس کے جو طریق کار ہیں انہیں عام طور سے سبھی جانتے ہیں۔ اس جمہوریت کا خلاصہ عوام کو دھوکہ دینا اور کسی ایک پارٹی کے چند افراد کے ملک پر مسلط ہونے کے سوا کچھ نہیں ہے۔ عنوان یہ ہے کہ اکثریت کی رائے انتخاب میں معتبر ہوگی۔ اور انتخاب بالغ رائے دہندگی کی بنیاد پر ہوگا اس میں امید وار کے لیے عالم ہونا، دیندار ہونا بلکہ مسلمان ہونا بھی شرط نہیں پڑھے لکھے اور بالکل جاہل، جپٹ مرد عورت امید وار بن کر کھڑے ہوجاتے ہیں۔ بعض پارٹی کے نمائندے ہوتے ہیں اور بعض آزاد ہوتے ہیں ان میں بعض وہ بھی ہوتے ہیں جو اسلام کے خلاف بولتے رہتے ہیں۔ اسلام کے نظام حدود و قصاص کو ظالمانہ کہتے ہیں جس کی وجہ سے حدودکفر میں داخل ہوجاتے ہیں اور انتخاب میں پارٹیوں کے زور پر اور سرداروں کے زور پر اور پیسوں کے زور پر ووٹ دینے والے بھی عموماً وہی لوگ ہوتے ہیں جو دین اسلام کے تقاضوں کو نہیں جانتے لہٰذا بےپڑھے اور ملحد اور زندیق بھی منتخب ہو کر پارلیمنٹ میں آجاتے ہیں۔ جس شخص کو زیادہ ووٹ مل گئے وہی ممبر منتخب ہوجاتا ہے اگر کسی سیٹ پر گیارہ آدمی کھڑے ہوں تو ان میں سے اگر دس آدمیوں کو ١٥۔ ١٥ ووٹ ملیں اور ایک شخص کو سولہ ووٹ مل جائیں تو یہ شخص سب کے مقابلہ میں کامیاب مانا جائے گا اور کہا یہ جائے گا کہ اکثریت سے منتخب ہوا حالانکہ اکثریت اس شخص کے مخالف ہے ڈیڑھ سو افراد نے اسے ووٹ نہیں دیئے۔ سولہ آدمیوں نے ووٹ دیئے ہیں ڈیڑھ سو کی رائے کی حیثیت نہیں یہ جمہوریت ہے جس میں ١٥٠ آدمیوں کی رائے کا خون کیا گیا اور سولہ افراد کی رائے کو مانا گیا۔ پھر پارلیمنٹ میں جس کسی پارٹی کے افراد زیادہ ہوجائیں اسی کی حکومت بن جاتی ہے اور وہ افراد اسی طریقہ پر پارلیمنٹ میں آئے ہیں جو ابھی ذکر ہوا اس طرح سے تھوڑے سے افراد کی پورے ملک پر حکومت ہوجاتی ہے اور پارٹی کے چند افراد اختیار سنبھال لیتے ہیں اور سیاہ وسفید کے مالک ہوجاتے ہیں خود پارٹی کے جو افراد کسی بات سے متفق نہ ہوں انہیں پارلیمنٹ میں پارٹی ہی کے موافق بولنا پڑتا ہے اپنی ذاتی رائے کا خون کردیتے ہیں۔ یہ جمہوریت اور اکثریت کی حقیقت ہے۔
پھر خدا کی پناہ مرکزی حکومت کے صدر اور وزیر اعظم اور دوسرے وزراء کے بےت کے اخراجات بنگلے اور ان کی سجاوٹیں گاڑیاں ڈرائیور، پٹرول کا خرچ، باورچی، مالی اور دوسرے خادموں کی تنخواہیں اور وزیروں کی بےجا کھپت پارٹی کے آدمی ہونے کی بنیاد پر خواہ مخواہ عہدے نکالنا اور حدیہ ہے کہ وزیر بےقلمدان بنانا اور کثیر تعداد میں مشیروں کو کھپانا ان سب کا بوجھ قوم کی گردن پر ہوتا ہے۔ پھر ہر صوبہ کا گورنر، وزیر اعلیٰ دوسرے وزراء اور نائب وزراء ان سب اخراجات سے ملک کا خزانہ خالی ہوجاتا ہے اور ملک چلانے کے لیے سودی قرضے لیتے ہیں۔ اور قوم پر ٹیکس لگاتے ہیں۔ انکم ٹیکس، برآمد ٹیکس، کسٹم ڈیوٹی۔ یہ سب مصیبت قوم پر سوار ہوتی ہے اور عوام کو دھوکہ دے رکھا ہے کہ تمہاری حکومت ہے عوام ان پارٹی بازوں اور سیاسی بازی گروں کی باتوں میں آجاتے ہیں اور سیدھا سادھا اسلامی نظام جس میں ایک امیر مرکزی حکومت میں ہو جس کا معمولی سا وظیفہ ہو۔ اور علاقوں میں چند امیر ہوں اور یہ سب لوگ سادگی کے ساتھ رہیں بقدر ضرورت واجبہ ان کو وظیفہ مل جائے معمولی سے گھر میں رہیں۔ اگر کسی کا اپنا گھر ہے تو اسی میں قیام پذیر ہو۔ اس نظام کو ماننے کے لیے لوگ تیار نہیں۔ انا للّٰہ و انا الیہ راجعون۔
کہا جاتا ہے کہ اسلام میں جمہوریت ہے اگر اس کا یہ مطلب ہے کہ اسلام میں شوریٰ کی بھی کوئی حیثیت ہے تو یہ بات ٹھیک ہے۔ مگر اس کی حیثیت وہی ہے جو اوپر ذکر کردی گئی ایسی حیثیت جس میں پورے ملک میں انتخاب ہو بالغ رائے دہی کی بنیاد پر ہر کس وناکس ووٹر ہو اور کثرت رائے پر فیصلہ رکھا جائے اسلام میں ایسی جمہوریت نہیں ہے۔ بعض اہل علم بھی دانستہ یا نا دانستہ طور پر اس غلط فہمی میں مبتلا ہیں وہ اسلام کی بات کو ماننے کے لیے تیار نہیں اور کہتے ہیں کہ ہم بڑی محنتوں سے جمہوریت کو لائے ہیں اب اس کے خلاف کیسے بولیں۔ اور ان کی لائی ہوئی جمہوریت بالکل جاہلانہ جمہوریت ہوتی ہے جس کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ انتخاب میں کوئی بھی کیسا ہی بےدین منتخب ہوجائے جمہوریت جاہلیہ کی وجہ سے اس کے عہدہ کو ماننے پر مجبور ہوتے ہیں کہ اب کیا کریں اب تو منتخب ہو ہی گیا عوام کی رائے کو کیسے ٹھکرائیں۔ قانون کے تابع ہیں اس کے خلاف چلنے بولنے کی کوشش کرنے کی کوئی اجازت نہیں۔
حضرات خلفائے اربعہ کا انتخاب :
یہ تو سب جانتے ہیں کہ حضرات ابوبکر و عمر و عثمان و علی (رض) خلفاء راشدین تھے ان حضرات کو منتخب کرتے وقت کوئی بالغ رائے دہندگی کی بنیاد پر انتخاب نہیں ہوا۔ نہ پورے ملک سے ووٹ لیے گئے تاریخ اور سیرت کے جاننے والے اس امر سے واقف ہیں کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی وفات کے بعد حضرات مہاجرین اور انصار سقیفہ بنی ساعدہ میں جمع ہوئے۔ وہاں اس بات کا مشورہ ہو رہا تھا کہ امیر کون ہو۔ انصار میں سے بعض حضرات یہ رائے دے رہے تھے کہ ایک امیر ہم میں سے ہو اور ایک مہاجرین میں سے ہو۔ حضرت ابوبکر و عمر (رض) بھی وہاں پہنچ گئے۔ حضرت عمر (رض) نے حضرت ابوبکر (رض) سے کہا کہ آپ اپنا ہاتھ لائیے میں بیعت کرتا ہوں انہوں نے ہاتھ بڑھا دیا۔ حضرت عمر (رض) نے بیعت کرلی اس کے بعد مہاجرین نے بیعت کرلی ان کے بعد انصار نے بیعت کی۔ یہ تو حضرت ابوبکر (رض) کا انتخاب تھا جو سب سے پہلے خلیفہ تھے۔ اس کی تفصیل البدایۃ والنہایۃ صفحہ ٢٤٦: ج ٥ میں مذکور ہے، اس کے بعد جب ابوبکر (رض) کی وفات ہونے لگی تو انہوں نے بغیر کسی مشورہ کے حضرت عمر (رض) کو خلیفہ بنا دیا۔ پھر جب حضرت عمر (رض) کو دشمن نے خنجر مار دیا اور انہوں نے سمجھ لیا کہ اب میں جانبر ہونے والا نہیں ہوں تو انہوں نے فرمایا کہ خلافت کا مستحق ان حضرات کے علاوہ کوئی نہیں جن سے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) راضی تھے اور اسی حالت رضا مندی میں آپ کی وفات ہوئی۔ پھر انہیں حضرات میں سے حضرت علی، حضرت عثمان، حضرت زبیر، حضرت طلحہ، حضرت سعد بن ابی وقاص اور حضرت عبدالرحمن بن عوف (رض) کے نام لیے اور فرمایا کہ ان میں سے کسی ایک کو منتخب کرلیا جائے ساتھ ہی یہ بھی فرمایا کہ میرا بیٹا عبداللہ بن عمر (رض) مشورے میں شریک ہوگا لیکن اسے خلافت سپرد نہ کی جائے اور فرمایا کہ اگر سعد کو منتخب کرلیا جائے تو وہ اس کے اہل ہیں۔ اور اگر ان کے علاوہ کسی دوسرے کو امیر بنا لیا جائے تو وہ ان سے مدد لیتا رہے جب حضرت عمر (رض) کی وفات ہوگئی اور ان کو دفن کردیا گیا تو وہ حضرات جمع ہوئے جن کو خلافت کے لیے نامزد فرمایا تھا کہ اپنے میں سے کسی ایک کو منتخب کرلیں۔ حضرت عبدالرحمن بن عوف (رض) نے فرمایا کہ تم سب اپنا معاملہ تین آدمیوں کے سپرد کرو حضرت زبیر (رض) نے فرمایا میں نے اپنا معاملہ حضرت علی (رض) کے سپرد کیا اور حضرت طلحہ (رض) نے فرمایا کہ میں نے اپنا معاملہ عثمان (رض) کے سپرد کیا۔ حضرت سعد (رض) نے فرمایا کہ میں نے اپنا معاملہ عبدالرحمن بن عوف (رض) کے سپرد کیا۔ اس کے بعد حضرت عبدالرحمن بن عوف (رض) نے حضرت علی (رض) اور حضرت عثمان (رض) سے کہا کہ تم دونوں میرے سپرد کرتے ہو تو میں تم میں جو افضل ترین ہوگا اس کے انتخاب میں کوتاہی نہیں کروں گا ان دونوں نے کہا کہ ہاں ہم تمہارے سپرد کرتے ہیں۔ اس کے بعد انہوں نے دونوں سے علیحدہ علیحدہ تنہائی میں بات کی اور دونوں نے اقرار کیا کہ اگر میرے علاوہ دوسرے کو تم نے امیر بنا دیا تو میں فرمانبر داری کروں گا
اس کے بعد انہوں نے حضرت عثمان (رض) سے کہا لاؤ ہاتھ بڑھاؤ یہ کہہ کر ان سے خود بیعت کرلی اور حضرت علی (رض) نے بھی ان سے بیعت کرلی۔ دوسرے حضرات جو باہر منتظر تھے وہ بھی اندر آئے اور انہوں نے حضرت عثمان (رض) سے بیعت کرلی۔ مفصل واقعہ صحیح بخاری صفحہ ٥٢٤: ج ١ میں مذکور ہے۔ یہ انتخاب خلیفہ ثالث کا تھا (اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ حضرت علی (رض) نے برضاء ورغبت حضرت عثمان (رض) سے بیعت کی تھی اور پہلے سے اقرار کرلیا تھا کہ اگر ان کو امیر بنا دیا گیا تو میں فرمانبر دار ہوں گا) ۔
جب حضرت عثمان (رض) کی شہادت ہوئی تو ان کی جگہ کسی امیر کے انتخاب کی ضرورت محسوس کی گئی اہل مصر جنہوں نے حضرت عثمان (رض) کو شہید کیا تھا وہ حضرت علی (رض) کو اصرار کرتے رہے کہ آپ خلافت کا بوجھ سنبھالیں لیکن وہ راضی نہ ہوئے اور باغوں کی طرف تشریف لے گئے۔ کوفہ والوں نے حضرت زبیر (رض) کو تلاش کیا وہ بھی نہ ملے۔ بصرہ والوں نے حضرت طلحہ (رض) سے عرض کیا انہوں نے انکار کردیا۔ پھر حضرت سعد بن ابی وقاص (رض) کی خدمت میں حاضر ہوئے اور معروض پیش کی انہوں نے بھی قبول نہ کیا۔ حضرت ابن عمر (رض) کے پاس گئے انہوں نے بھی نہ مانا ساری کوششیں کرکے پھر حضرت علی (رض) کی خدمت میں حاضر ہوئے اور خلافت قبول کرنے پر اصرار کرتے رہے آخر میں انہوں نے ذمہ داری قبول فرمائی۔ یہ تفصیل البدایۃ والنہایۃ صفحہ ٢٢٦: ج ٧ میں لکھی ہے۔
یہ چاروں خلفاء کا انتخاب تھا ان میں کبھی بھی پورے ملک میں الیکشن نہیں ہوا۔ بلکہ پورے صحابہ (رض) بھی شریک نہیں ہوئے نہ پورا مدینہ شریک ہوا چند افراد نے منتخب کرلیا سب نے مان لیا۔ ممکن ہے یورپ کی جمہوریت جاہلیہ سے مرعوب ہو کر بعض ناواقف یہ کہنے لگیں کہ صحیح طریقہ وہی ہے جو آج کل رواج پائے ہوئے ہے۔ ان حضرات نے انتخاب صحیح نہیں کیا۔ (العیاذ باللہ) اس جاہلانہ اپچ کا جواب دینے کی ضرورت تو نہیں لیکن پھر بھی ہم عرض کردیتے ہیں کہ یہ اعتراض اللہ تعالیٰ کی ذات پر پہنچتا ہے۔ اللہ جل شانہٗ نے سورة توبہ کی آیت نمبر ١٠٠ میں مہاجرین اور انصار اور جو خوبی کے ساتھ ان کا اتباع کریں ان کی تعریف فرمائی اور ان کے بارے میں رضی اللّٰہ عنھم و رضواعنہ فرمایا اگر انہیں حضرات نے اسلام کو نہیں سمجھا اور امیر کا انتخاب جس طرح ہونا چاہیے تھا اس طرح نہیں کیا تو ان کے بعد اسلام کو اور اسلام کے تقاضوں کو جاننے والا کون ہے ؟ پھر نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا علیکم بسنتی و سنۃ الخلفاء الراشدین المھدیین (رواہ ابو داؤد الترمذی) (کہ میرے طریقے کو اور خلفاء راشدین کے طریقے کو اختیار کرنا) اگر ان حضرات کا اپنا انتخاب صحیح نہیں اور انہوں نے دوسروں کا انتخاب صحیح نہیں کیا تو وہ خلفاء راشدین ہو ہی نہیں سکتے اگر آج کے جاہلوں کی بات مان لی جائے تو اس کا مطلب یہ نکلتا ہے کہ حضرات صحابہ (رض) میں سے کوئی بھی خلیفہ راشد نہیں ہوا (العیاذ باللہ) دشمنوں کے طریقہ کار سے مرعوب ہو کر اسلام کی تحریف اور تبدیل کرنے پر آمادہ ہو جاناایمانی تقاضوں کے سراسر خلاف ہے۔
اس سادہ سلیس اور دلنشین عبارت میں حضرت مولانا عاشق الہی بلند شہری رحمہ اللہ نے جمہوریت کی قلعی کھول دی ہے ۔۔۔ جو لوگ اکابر اکابر کی رٹ لگائے رکھتے ہیں انہیں چاہئے کہ اس عبارت کو بار بار دل کی آنکھوں سے پڑھیں ۔۔۔ حضرت نے اپنی اس عبارت میں جمہوریت کو کفر بھی کہا ہے کہ ان کی لائی ہوئی جمہوریت بالکل جاہلانہ جمہوریت ہوتی ہے جس سے اسلام کا کوئی تعلق نہیں ہوتا ۔۔۔
سورہ مائدہ کی آیت 100 کی تفسیر میں فرماتے ہیں
الیکشن کی قباحت
آیت کریمہ سے الیکشن کی قباحت بھی معلوم ہوگئی چونکہ الیکشن کی بنیاد اکثریت پر رکھی گئی ہے اس لئے الیکشن میں وہ آدمی جیت جاتا ہے جس کو ووٹ زیادہ مل جائیں بلکہ جس کے حق میں ووٹوں کی گنتی زیادہ ہوجائے وہ جیتنا ہے خواہ کسی طرح بھی ہو۔ دھاندلی بھی کی جاتی ہے ووٹ خریدے بھی جاتے ہیں فریق مخالف کے ووٹوں کے بکس بھی غائب کئے جاتے ہیں۔
قطع نظر ان سب باتوں کے اکثریت پر کامیابی کی بنیاد رکھنا یہ مستقل وبال ہے اور غیر کے دین پر نہ خود چلنا ہے نہ دوسروں کو چلنے دینا ہے ایسے لوگوں کی رائے کا شرعاً کچھ وزن نہیں۔ دنیا میں جب سے جمہوریت کا سلسلہ چلا ہے بہت سے لوگ جنہیں علم کا گمان بھی ہے وہ بھی جمہوریت کے لئے اپنی کوششیں خرچ کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہماری کوشش سے فلاں ملک میں جمہوریت گئی ہے گویا انہوں نے دین کا بہت بڑا کام کردیا۔ یہ لوگ جمہوریت کے دینی نقصانات جانتے ہوئے اس کے لئے اپنی کوششیں صرف کرتے ہیں پھر جمہوریت کے اصول پر جو بھی کوئی بد سے بدتر ملحد زنذیق منکر اسلام منتخب ہوجائے اسے مبارکباد دیتے ہیں ‘ کسی حلقے میں ووٹ ہوں اور اکیاون ووٹ کسی ملحد بےدین کو مل جائیں (جو اسی جیسے بےدینوں سے ملتے ہیں) تو فاسق فاجر الیکشن جیت لیتا ہے اور کامیاب سمجھا جاتا ہے۔ حالانکہ مسلمانوں کے کسی ملک کے چھوٹے بڑے عہدہ کے لئے کسی بھی فاسق فاجر کی رائے پر اعتماد کرنا درست نہیں جو لوگ اکثریت کے فیصلہ پر ایمان لاتے ہیں (اور اکثریت کا بےدین فاسق فاجر ہونا معلوم ہے) وہ (وَ لَوْ اَعْجَبَکَ کَثْرَۃُ الْخَبِیْثِ ) پر بار بار دھیان کریں۔ پھر فرمایا (فَاتَّقُوا اللّٰہَ یٰٓاُولِی الْاَلْبَابِ لَعَلَّکُمْ تُفْلِحُوْنَ ) کہ (اے عقل والو ! اللہ سے ڈرو تاکہ تم کامیاب ہوجاؤ) صاحب روح المعانی لکھتے ہیں ج ٧ ص ٣٧۔
” اں مدار الاعتبار ھوالخیر یۃ والرداء ۃ لا الکثرہ والقلۃ “ (ج)
یعنی خبیث کے بچنے میں اللہ تعالیٰ سے ڈرو اگرچہ زیادہ ہو اور طیب کو ترجیح دو اگرچہ کم ہو کیونکہ اچھا یا برا ہونے کا مدار اچھائی اور برائی اختیار کرنے پر ہے قلت یا کثرت پر نہیں۔ اھ
یہ پوری عبارت بھی بہت بصیرت افروز ہے ۔۔۔ اسے بار بار غور سے پڑھنا چاہئے ۔۔۔ پوسٹ لمبی ہوگئی حضرت کی دیگر عبارتیں ان شاء اللہ تعالی آئندہ قسط میں ۔۔۔
وقولوا للناس حسنا
أخوكم عبد المعز حقمل
أخوكم عبد المعز حقمل
Last edited: