علماء ، جمہوریت کے تعاقب میں

ابو داؤد

طالب علم
رکن
علماء ، جمہوریت کے تعاقب میں

جمع و ترتیب : مفتی عبد المعز حقمل

قسط : ۱

مولانا عاشق الٰہی بلند شہری رحمہ اللہ

چونکہ جمہوری دفاع جمہوریت میں کہتے ہیں کہ جمہوریت شوری ہے اور اس کے لئے " وشاورهم في الأمر " اور " وأمرهم شورى بينهم " پیش کرتے ہیں اس لئے ہم مولانا عاشق الٰہی صاحب رحمہ اللہ کی پوری عبارت پیش کر رہے ہیں کیونکہ اس میں مشورے کی شرعی حیثیت کے بارے میں بھی بات کی گئی ہے اور جمہوریت کے بارے میں بھی ۔۔۔ عبارت گو کہ کچھ لمبی ہے مگر مفید ہے اس لئے پوری پڑھیں

سورہ آل عمران کی آیت نمبر 159 میں مولانا عاشق الٰہی بلند شہری رحمہ اللہ اپنی تفسیر انوار البیان میں تحریر فرماتے ہیں :

پھر فرمایا (وَ شَاوِرْھُمْ فِی الْاَمْرِ ) اللہ جل شانہ نے آنحضرت سرور عالم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو صحابہ کرام سے مشورہ فرمانے کا حکم دیا۔ آنحضرت سرور عالم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس آیت کے نازل ہونے سے پہلے بھی اپنے صحابہ سے مشورہ فرماتے تھے۔ اور اس کے بعد بھی آپ نے مشورے فرمائے۔ آیت شریفہ میں مشورے کا حکم دے کر حضرات صحابہ کی اللہ تعالیٰ نے دلجوئی فرمائی اور ان کا اعزازو اکرام فرمایا یہ مشورہ ان امور میں نہیں تھا جہاں کوئی نص قطعی اور واضح حکم اللہ تعالیٰ کی طرف سے موجود ہو، جن امور کو آنحضرت سرور عالم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سپرد فرما دیا گیا ان میں مشورہ کرنے کا حکم فرمایا۔

مشورہ کی ضرورت اور اہمیت :


اس سے مشورے کی اہمیت اور ضرورت ظاہر ہوئی اور یہ بھی پتہ چلا کہ جب سید الاولین والآخرین (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مشورہ سے مستغنی نہیں تو آپ کے بعد ایسا کون ہوسکتا ہے جو مشورہ سے بےنیاز ہو، آئندہ آنے والے امراء اور اصحاب اقتدار اور امت کے کاموں کے ذمہ دار جو بھی آئیں سب کے لیے مشورہ کرنے کی ضرورت واضح ہوگئی۔ مشورہ میں بہت خیر ہے جو اصحاب رائے ہوں خواہ عمر یا مرتبہ میں چھوٹے ہی ہوں ان کو مشورہ میں شریک کرنا چاہیے اور وجہ اس کی یہ ہے کہ مشورہ کرنے کی صورت میں مختلف رائیں سامنے آجاتی ہیں۔ ان رایوں کے درمیان سے کسی مناسب ترین رائے کو اختیار کرلینا آسان ہوتا ہے۔ بعض مرتبہ بڑے کی نظر سے وہ گوشے اوجھل رہ جاتے ہیں جو چھوٹوں کی سمجھ میں آجاتے ہیں۔ تمام گوشے سامنے آنے سے کسی پہلو کو اختیار کرنے میں بصیرت حاصل ہوجاتی ہے۔ حضرت انس (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا مَا خَابَ مَنِ اسْتَخَارَ وَلاَ نَدِمَ مَنِ اسْتَشَارَ (یعنی جس نے استخارہ کیا وہ نا کام نہ ہوگا۔ اور جس نے مشورہ کیا اسے ندامت نہ ہوگی) ۔ (ذکرہ الہیثمی فی مجمع الزوائد) ۔۔۔۔ [ یہ حدیث موضوع ہے : عبد المعز ]

خانگی امور میں اور اداروں کے معاملات میں مشورے کرتے رہنا چاہیے جن لوگوں سے مشورہ کیا جائے ان کی ذمہ لازم ہے کہ وہ وہی رائے دیں جسے اپنی دیانت سے فیما بینھم و بین اللّٰہ صحیح سمجھتے ہوں۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد ہے ان المستشار مؤتمن (یعنی جس سے مشورہ طلب کیا جائے وہ امانت دار ہے) (اخرجہ الترمذی فی ابواب الزہدو ابن ماجہ فی کتاب الادب)

اگر کوئی شخص اپنے ذاتی معاملہ میں مشورہ کرے تب بھی اسے وہی مشورہ دے جو اس کے حق میں بہتر ہو۔ سنن ابو دواؤد میں ہے کہ آنحضرت سرورعالم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا کہ من اشار علی اخیہ بامر یعلم ان الرشد فی غیرہ فقد خانہ (جس نے اپنے بھائی کو کوئی ایسا مشورہ دیا جس کو وہ سمجھتا ہے کہ مشورہ لینے والے کی بہتری دوسری رائے میں تھی جو پیش نہیں کی گئی تو اس نے خیانت کی) (رواہ ابو داؤد فی کتاب العلم) اور حضرت علی (رض) سے اس کا قاعدہ کلیہ مروی ہے جسے علامہ سخاوی نے المقاصد الحسنہ صفحہ ٣٨٣ میں نقل کیا ہے اور وہ یہ کہ فاذا استشیر احد کم فلیشر بما ھو صانع لنفسہ (کہ جب کسی سے مشورہ طلب کیا جائے تو وہ مشورہ دے جسے وہ اپنے لیے اختیار کرتا اگر وہ خود اس حال میں مبتلا ہوتا جس میں مشورہ لینے والا مبتلا ہے) اور یہ مضمون اس حدیث کے مطابق ہے جس میں افضل الایمان بتاتے ہوئے ارشاد فرمایا۔ ان تحب للناس ماتحب لنفسک وتکرہ لھم ماتکرہ لنفسک (یعنی یہ کہ تو لوگوں کے لیے اسی کو پسند کرے جو اپنے لیے پسند کرتا ہے لوگوں کے لیے اس چیز کو ناپسند جانے جس کو اپنے لیے ناپسند جانتا ہے) (مشکوٰۃ المصابیح صفحہ ١٦)

مشورہ کی شرعی حیثیت :

مشورے کا حکم دینے کے بعد فرمایا ( فَاِذَا عَزَمْتَ فَتَوَکَّلْ عَلَی اللّٰہِ اِنَّ اللّٰہَ یُحِبُّ الْمُتَوَکِّلِیْنَ ) (پھر جب آپ پختہ عزم کرلیں تو اللہ پر تو کل کیجیے بیشک توکل کرنے والے اللہ کو محبوب ہیں) مطلب یہ ہے کہ مشورے کے بعد آپ جب کسی جانب کو طے فرما کر عزم کرلیں تو اللہ پر بھروسہ کیجیے اور اپنے عزم کے مطابق عمل کیجیے۔ اس میں یہ بات ظاہر ہے کہ مشورہ کرنے کے بعد آپ کو سب کے یا کسی ایک کے مشورے کا پابند ہونا ضروری نہیں۔ جس طرف آپ کا رحجان ہو اس پر عمل کرلیں اس

میں مشورہ دینے والوں کو بھی دلگیر ہونے کی ضرورت نہیں مشورہ دینا اور لینا ضائع نہیں ہے کیونکہ اس میں ہر شخص کو غور و خوض کرنے اور اپنی رائے پیش کرنے کا ثواب مل چکا ہے اب آپ جس رائے کو مناسب جانیں (اور رایوں میں اپنی ذاتی رائے بھی ہے) اس پر عمل فرمائیں۔

اپنا عزم فرمانے کے بعد اللہ پر بھروسہ کرنے کا حکم فرمایا اس سے یہ بات ظاہر ہے کہ تمام مشوروں اور تدبیروں کے بعد بھروسہ صرف اللہ ہی پر رہے بندوں کی رائیں اور تدبیریں صرف اسباب کی حیثیت رکھتی ہیں۔ اسباب پر بھروسہ کرنا مومن کا کام نہیں، مومن کا بھروسہ صرف اللہ پر ہوتا ہے۔

آنحضرت سرور عالم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بعد بھی مشورہ کی سنت جاری ہے لیکن اس کے ساتھ یہ بات سمجھ لینا چاہیے کہ مشورہ لینے والے کے لیے خواہ امیر المؤمنین ہی ہو یہ ضروری نہیں ہے کہ سب کا یا کسی ایک کا مشورہ مانے۔ باوجود مشورہ لینے کے اسے اپنی رائے پر عمل کرنے کا پورا پورا اختیار ہے۔ حق بات یہ ہے کہ جب مشورہ لینے والا بھی مخلص ہو اور مشورہ دینے والے بھی مخلص ہوں اور ہر ایک کو اللہ کی رضا مقصود ہو تو کسی وقت بھی بدمزگی پیدا ہونے کا موقعہ نہیں رہتا۔ آپس میں ضدا ضدی اور یہ اعتراض کہ میری رائے پر عمل کیوں نہ کیا اور امیر کی شکایت کہ وہ آمر مطلق ہے مشورہ کرکے بھی اپنی رائے پر عمل کرتا ہے۔ یہ سب باتیں جبھی ہوتی ہیں جب امیر اور مامور میں اخلاص نہ ہو اور آپس میں اعتماد نہ ہو اور امارت کے اصول پر امیر و مامور کو چلنے کا ارادہ نہ ہو، نفسانی اور دنیاوی چیزوں نے جگہ پکڑ رکھی ہو۔ اگر امیر کے انتخاب میں اللہ کی رضامندی کا دھیان رکھا ہو اور متقی آدمی کو امیر بنایا ہو جس کے علم و عمل اور اخلاص پر اعتماد ہو جو دنیا دار نہ ہو عہدہ کا طالب نہ ہو تو اس صورت میں امیر کا اپنی رائے پر عمل کرنا ناگوار نہ ہوگا۔ انتخاب تو غلط کریں اور پھر امیر کے خلاف احتجاج کرنے جلوس نکالنے کے جاہلانہ طریقوں سے امیر کو ہٹانے کی کوشش کریں۔ ان دونوں باتوں میں کوئی جوڑ نہیں ہے۔

موجودہ جمہوریت اور اس کا تعارف

زمانہ قدیم میں بادشاہتیں جاری تھیں ولی عہدی کے اصول پر بادشاہت ملتی تھی عرب و عجم میں بادشاہ تھے ان میں ظالم بھی تھے، رحم دل بھی تھے اور انصاف پسند بھی۔ لیکن بادشاہت کی تاریخ میں زیادہ تر مظالم ہی ملتے ہیں۔ ان مظالم سے تنگ آکر یورپ والوں نے جمہوریت کا طرز حکومت جاری کیا۔ اور اس کا نام عوامی حکومت رکھا۔ اس کے جو طریق کار ہیں انہیں عام طور سے سبھی جانتے ہیں۔ اس جمہوریت کا خلاصہ عوام کو دھوکہ دینا اور کسی ایک پارٹی کے چند افراد کے ملک پر مسلط ہونے کے سوا کچھ نہیں ہے۔ عنوان یہ ہے کہ اکثریت کی رائے انتخاب میں معتبر ہوگی۔ اور انتخاب بالغ رائے دہندگی کی بنیاد پر ہوگا اس میں امید وار کے لیے عالم ہونا، دیندار ہونا بلکہ مسلمان ہونا بھی شرط نہیں پڑھے لکھے اور بالکل جاہل، جپٹ مرد عورت امید وار بن کر کھڑے ہوجاتے ہیں۔ بعض پارٹی کے نمائندے ہوتے ہیں اور بعض آزاد ہوتے ہیں ان میں بعض وہ بھی ہوتے ہیں جو اسلام کے خلاف بولتے رہتے ہیں۔ اسلام کے نظام حدود و قصاص کو ظالمانہ کہتے ہیں جس کی وجہ سے حدودکفر میں داخل ہوجاتے ہیں اور انتخاب میں پارٹیوں کے زور پر اور سرداروں کے زور پر اور پیسوں کے زور پر ووٹ دینے والے بھی عموماً وہی لوگ ہوتے ہیں جو دین اسلام کے تقاضوں کو نہیں جانتے لہٰذا بےپڑھے اور ملحد اور زندیق بھی منتخب ہو کر پارلیمنٹ میں آجاتے ہیں۔ جس شخص کو زیادہ ووٹ مل گئے وہی ممبر منتخب ہوجاتا ہے اگر کسی سیٹ پر گیارہ آدمی کھڑے ہوں تو ان میں سے اگر دس آدمیوں کو ١٥۔ ١٥ ووٹ ملیں اور ایک شخص کو سولہ ووٹ مل جائیں تو یہ شخص سب کے مقابلہ میں کامیاب مانا جائے گا اور کہا یہ جائے گا کہ اکثریت سے منتخب ہوا حالانکہ اکثریت اس شخص کے مخالف ہے ڈیڑھ سو افراد نے اسے ووٹ نہیں دیئے۔ سولہ آدمیوں نے ووٹ دیئے ہیں ڈیڑھ سو کی رائے کی حیثیت نہیں یہ جمہوریت ہے جس میں ١٥٠ آدمیوں کی رائے کا خون کیا گیا اور سولہ افراد کی رائے کو مانا گیا۔ پھر پارلیمنٹ میں جس کسی پارٹی کے افراد زیادہ ہوجائیں اسی کی حکومت بن جاتی ہے اور وہ افراد اسی طریقہ پر پارلیمنٹ میں آئے ہیں جو ابھی ذکر ہوا اس طرح سے تھوڑے سے افراد کی پورے ملک پر حکومت ہوجاتی ہے اور پارٹی کے چند افراد اختیار سنبھال لیتے ہیں اور سیاہ وسفید کے مالک ہوجاتے ہیں خود پارٹی کے جو افراد کسی بات سے متفق نہ ہوں انہیں پارلیمنٹ میں پارٹی ہی کے موافق بولنا پڑتا ہے اپنی ذاتی رائے کا خون کردیتے ہیں۔ یہ جمہوریت اور اکثریت کی حقیقت ہے۔

پھر خدا کی پناہ مرکزی حکومت کے صدر اور وزیر اعظم اور دوسرے وزراء کے بےت کے اخراجات بنگلے اور ان کی سجاوٹیں گاڑیاں ڈرائیور، پٹرول کا خرچ، باورچی، مالی اور دوسرے خادموں کی تنخواہیں اور وزیروں کی بےجا کھپت پارٹی کے آدمی ہونے کی بنیاد پر خواہ مخواہ عہدے نکالنا اور حدیہ ہے کہ وزیر بےقلمدان بنانا اور کثیر تعداد میں مشیروں کو کھپانا ان سب کا بوجھ قوم کی گردن پر ہوتا ہے۔ پھر ہر صوبہ کا گورنر، وزیر اعلیٰ دوسرے وزراء اور نائب وزراء ان سب اخراجات سے ملک کا خزانہ خالی ہوجاتا ہے اور ملک چلانے کے لیے سودی قرضے لیتے ہیں۔ اور قوم پر ٹیکس لگاتے ہیں۔ انکم ٹیکس، برآمد ٹیکس، کسٹم ڈیوٹی۔ یہ سب مصیبت قوم پر سوار ہوتی ہے اور عوام کو دھوکہ دے رکھا ہے کہ تمہاری حکومت ہے عوام ان پارٹی بازوں اور سیاسی بازی گروں کی باتوں میں آجاتے ہیں اور سیدھا سادھا اسلامی نظام جس میں ایک امیر مرکزی حکومت میں ہو جس کا معمولی سا وظیفہ ہو۔ اور علاقوں میں چند امیر ہوں اور یہ سب لوگ سادگی کے ساتھ رہیں بقدر ضرورت واجبہ ان کو وظیفہ مل جائے معمولی سے گھر میں رہیں۔ اگر کسی کا اپنا گھر ہے تو اسی میں قیام پذیر ہو۔ اس نظام کو ماننے کے لیے لوگ تیار نہیں۔ انا للّٰہ و انا الیہ راجعون۔

کہا جاتا ہے کہ اسلام میں جمہوریت ہے اگر اس کا یہ مطلب ہے کہ اسلام میں شوریٰ کی بھی کوئی حیثیت ہے تو یہ بات ٹھیک ہے۔ مگر اس کی حیثیت وہی ہے جو اوپر ذکر کردی گئی ایسی حیثیت جس میں پورے ملک میں انتخاب ہو بالغ رائے دہی کی بنیاد پر ہر کس وناکس ووٹر ہو اور کثرت رائے پر فیصلہ رکھا جائے اسلام میں ایسی جمہوریت نہیں ہے۔ بعض اہل علم بھی دانستہ یا نا دانستہ طور پر اس غلط فہمی میں مبتلا ہیں وہ اسلام کی بات کو ماننے کے لیے تیار نہیں اور کہتے ہیں کہ ہم بڑی محنتوں سے جمہوریت کو لائے ہیں اب اس کے خلاف کیسے بولیں۔ اور ان کی لائی ہوئی جمہوریت بالکل جاہلانہ جمہوریت ہوتی ہے جس کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ انتخاب میں کوئی بھی کیسا ہی بےدین منتخب ہوجائے جمہوریت جاہلیہ کی وجہ سے اس کے عہدہ کو ماننے پر مجبور ہوتے ہیں کہ اب کیا کریں اب تو منتخب ہو ہی گیا عوام کی رائے کو کیسے ٹھکرائیں۔ قانون کے تابع ہیں اس کے خلاف چلنے بولنے کی کوشش کرنے کی کوئی اجازت نہیں۔

حضرات خلفائے اربعہ کا انتخاب :

یہ تو سب جانتے ہیں کہ حضرات ابوبکر و عمر و عثمان و علی (رض) خلفاء راشدین تھے ان حضرات کو منتخب کرتے وقت کوئی بالغ رائے دہندگی کی بنیاد پر انتخاب نہیں ہوا۔ نہ پورے ملک سے ووٹ لیے گئے تاریخ اور سیرت کے جاننے والے اس امر سے واقف ہیں کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی وفات کے بعد حضرات مہاجرین اور انصار سقیفہ بنی ساعدہ میں جمع ہوئے۔ وہاں اس بات کا مشورہ ہو رہا تھا کہ امیر کون ہو۔ انصار میں سے بعض حضرات یہ رائے دے رہے تھے کہ ایک امیر ہم میں سے ہو اور ایک مہاجرین میں سے ہو۔ حضرت ابوبکر و عمر (رض) بھی وہاں پہنچ گئے۔ حضرت عمر (رض) نے حضرت ابوبکر (رض) سے کہا کہ آپ اپنا ہاتھ لائیے میں بیعت کرتا ہوں انہوں نے ہاتھ بڑھا دیا۔ حضرت عمر (رض) نے بیعت کرلی اس کے بعد مہاجرین نے بیعت کرلی ان کے بعد انصار نے بیعت کی۔ یہ تو حضرت ابوبکر (رض) کا انتخاب تھا جو سب سے پہلے خلیفہ تھے۔ اس کی تفصیل البدایۃ والنہایۃ صفحہ ٢٤٦: ج ٥ میں مذکور ہے، اس کے بعد جب ابوبکر (رض) کی وفات ہونے لگی تو انہوں نے بغیر کسی مشورہ کے حضرت عمر (رض) کو خلیفہ بنا دیا۔ پھر جب حضرت عمر (رض) کو دشمن نے خنجر مار دیا اور انہوں نے سمجھ لیا کہ اب میں جانبر ہونے والا نہیں ہوں تو انہوں نے فرمایا کہ خلافت کا مستحق ان حضرات کے علاوہ کوئی نہیں جن سے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) راضی تھے اور اسی حالت رضا مندی میں آپ کی وفات ہوئی۔ پھر انہیں حضرات میں سے حضرت علی، حضرت عثمان، حضرت زبیر، حضرت طلحہ، حضرت سعد بن ابی وقاص اور حضرت عبدالرحمن بن عوف (رض) کے نام لیے اور فرمایا کہ ان میں سے کسی ایک کو منتخب کرلیا جائے ساتھ ہی یہ بھی فرمایا کہ میرا بیٹا عبداللہ بن عمر (رض) مشورے میں شریک ہوگا لیکن اسے خلافت سپرد نہ کی جائے اور فرمایا کہ اگر سعد کو منتخب کرلیا جائے تو وہ اس کے اہل ہیں۔ اور اگر ان کے علاوہ کسی دوسرے کو امیر بنا لیا جائے تو وہ ان سے مدد لیتا رہے جب حضرت عمر (رض) کی وفات ہوگئی اور ان کو دفن کردیا گیا تو وہ حضرات جمع ہوئے جن کو خلافت کے لیے نامزد فرمایا تھا کہ اپنے میں سے کسی ایک کو منتخب کرلیں۔ حضرت عبدالرحمن بن عوف (رض) نے فرمایا کہ تم سب اپنا معاملہ تین آدمیوں کے سپرد کرو حضرت زبیر (رض) نے فرمایا میں نے اپنا معاملہ حضرت علی (رض) کے سپرد کیا اور حضرت طلحہ (رض) نے فرمایا کہ میں نے اپنا معاملہ عثمان (رض) کے سپرد کیا۔ حضرت سعد (رض) نے فرمایا کہ میں نے اپنا معاملہ عبدالرحمن بن عوف (رض) کے سپرد کیا۔ اس کے بعد حضرت عبدالرحمن بن عوف (رض) نے حضرت علی (رض) اور حضرت عثمان (رض) سے کہا کہ تم دونوں میرے سپرد کرتے ہو تو میں تم میں جو افضل ترین ہوگا اس کے انتخاب میں کوتاہی نہیں کروں گا ان دونوں نے کہا کہ ہاں ہم تمہارے سپرد کرتے ہیں۔ اس کے بعد انہوں نے دونوں سے علیحدہ علیحدہ تنہائی میں بات کی اور دونوں نے اقرار کیا کہ اگر میرے علاوہ دوسرے کو تم نے امیر بنا دیا تو میں فرمانبر داری کروں گا

اس کے بعد انہوں نے حضرت عثمان (رض) سے کہا لاؤ ہاتھ بڑھاؤ یہ کہہ کر ان سے خود بیعت کرلی اور حضرت علی (رض) نے بھی ان سے بیعت کرلی۔ دوسرے حضرات جو باہر منتظر تھے وہ بھی اندر آئے اور انہوں نے حضرت عثمان (رض) سے بیعت کرلی۔ مفصل واقعہ صحیح بخاری صفحہ ٥٢٤: ج ١ میں مذکور ہے۔ یہ انتخاب خلیفہ ثالث کا تھا (اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ حضرت علی (رض) نے برضاء ورغبت حضرت عثمان (رض) سے بیعت کی تھی اور پہلے سے اقرار کرلیا تھا کہ اگر ان کو امیر بنا دیا گیا تو میں فرمانبر دار ہوں گا) ۔

جب حضرت عثمان (رض) کی شہادت ہوئی تو ان کی جگہ کسی امیر کے انتخاب کی ضرورت محسوس کی گئی اہل مصر جنہوں نے حضرت عثمان (رض) کو شہید کیا تھا وہ حضرت علی (رض) کو اصرار کرتے رہے کہ آپ خلافت کا بوجھ سنبھالیں لیکن وہ راضی نہ ہوئے اور باغوں کی طرف تشریف لے گئے۔ کوفہ والوں نے حضرت زبیر (رض) کو تلاش کیا وہ بھی نہ ملے۔ بصرہ والوں نے حضرت طلحہ (رض) سے عرض کیا انہوں نے انکار کردیا۔ پھر حضرت سعد بن ابی وقاص (رض) کی خدمت میں حاضر ہوئے اور معروض پیش کی انہوں نے بھی قبول نہ کیا۔ حضرت ابن عمر (رض) کے پاس گئے انہوں نے بھی نہ مانا ساری کوششیں کرکے پھر حضرت علی (رض) کی خدمت میں حاضر ہوئے اور خلافت قبول کرنے پر اصرار کرتے رہے آخر میں انہوں نے ذمہ داری قبول فرمائی۔ یہ تفصیل البدایۃ والنہایۃ صفحہ ٢٢٦: ج ٧ میں لکھی ہے۔

یہ چاروں خلفاء کا انتخاب تھا ان میں کبھی بھی پورے ملک میں الیکشن نہیں ہوا۔ بلکہ پورے صحابہ (رض) بھی شریک نہیں ہوئے نہ پورا مدینہ شریک ہوا چند افراد نے منتخب کرلیا سب نے مان لیا۔ ممکن ہے یورپ کی جمہوریت جاہلیہ سے مرعوب ہو کر بعض ناواقف یہ کہنے لگیں کہ صحیح طریقہ وہی ہے جو آج کل رواج پائے ہوئے ہے۔ ان حضرات نے انتخاب صحیح نہیں کیا۔ (العیاذ باللہ) اس جاہلانہ اپچ کا جواب دینے کی ضرورت تو نہیں لیکن پھر بھی ہم عرض کردیتے ہیں کہ یہ اعتراض اللہ تعالیٰ کی ذات پر پہنچتا ہے۔ اللہ جل شانہٗ نے سورة توبہ کی آیت نمبر ١٠٠ میں مہاجرین اور انصار اور جو خوبی کے ساتھ ان کا اتباع کریں ان کی تعریف فرمائی اور ان کے بارے میں رضی اللّٰہ عنھم و رضواعنہ فرمایا اگر انہیں حضرات نے اسلام کو نہیں سمجھا اور امیر کا انتخاب جس طرح ہونا چاہیے تھا اس طرح نہیں کیا تو ان کے بعد اسلام کو اور اسلام کے تقاضوں کو جاننے والا کون ہے ؟ پھر نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا علیکم بسنتی و سنۃ الخلفاء الراشدین المھدیین (رواہ ابو داؤد الترمذی) (کہ میرے طریقے کو اور خلفاء راشدین کے طریقے کو اختیار کرنا) اگر ان حضرات کا اپنا انتخاب صحیح نہیں اور انہوں نے دوسروں کا انتخاب صحیح نہیں کیا تو وہ خلفاء راشدین ہو ہی نہیں سکتے اگر آج کے جاہلوں کی بات مان لی جائے تو اس کا مطلب یہ نکلتا ہے کہ حضرات صحابہ (رض) میں سے کوئی بھی خلیفہ راشد نہیں ہوا (العیاذ باللہ) دشمنوں کے طریقہ کار سے مرعوب ہو کر اسلام کی تحریف اور تبدیل کرنے پر آمادہ ہو جاناایمانی تقاضوں کے سراسر خلاف ہے۔

اس سادہ سلیس اور دلنشین عبارت میں حضرت مولانا عاشق الہی بلند شہری رحمہ اللہ نے جمہوریت کی قلعی کھول دی ہے ۔۔۔ جو لوگ اکابر اکابر کی رٹ لگائے رکھتے ہیں انہیں چاہئے کہ اس عبارت کو بار بار دل کی آنکھوں سے پڑھیں ۔۔۔ حضرت نے اپنی اس عبارت میں جمہوریت کو کفر بھی کہا ہے کہ ان کی لائی ہوئی جمہوریت بالکل جاہلانہ جمہوریت ہوتی ہے جس سے اسلام کا کوئی تعلق نہیں ہوتا ۔۔۔

سورہ مائدہ کی آیت 100 کی تفسیر میں فرماتے ہیں

الیکشن کی قباحت

آیت کریمہ سے الیکشن کی قباحت بھی معلوم ہوگئی چونکہ الیکشن کی بنیاد اکثریت پر رکھی گئی ہے اس لئے الیکشن میں وہ آدمی جیت جاتا ہے جس کو ووٹ زیادہ مل جائیں بلکہ جس کے حق میں ووٹوں کی گنتی زیادہ ہوجائے وہ جیتنا ہے خواہ کسی طرح بھی ہو۔ دھاندلی بھی کی جاتی ہے ووٹ خریدے بھی جاتے ہیں فریق مخالف کے ووٹوں کے بکس بھی غائب کئے جاتے ہیں۔

قطع نظر ان سب باتوں کے اکثریت پر کامیابی کی بنیاد رکھنا یہ مستقل وبال ہے اور غیر کے دین پر نہ خود چلنا ہے نہ دوسروں کو چلنے دینا ہے ایسے لوگوں کی رائے کا شرعاً کچھ وزن نہیں۔ دنیا میں جب سے جمہوریت کا سلسلہ چلا ہے بہت سے لوگ جنہیں علم کا گمان بھی ہے وہ بھی جمہوریت کے لئے اپنی کوششیں خرچ کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہماری کوشش سے فلاں ملک میں جمہوریت گئی ہے گویا انہوں نے دین کا بہت بڑا کام کردیا۔ یہ لوگ جمہوریت کے دینی نقصانات جانتے ہوئے اس کے لئے اپنی کوششیں صرف کرتے ہیں پھر جمہوریت کے اصول پر جو بھی کوئی بد سے بدتر ملحد زنذیق منکر اسلام منتخب ہوجائے اسے مبارکباد دیتے ہیں ‘ کسی حلقے میں ووٹ ہوں اور اکیاون ووٹ کسی ملحد بےدین کو مل جائیں (جو اسی جیسے بےدینوں سے ملتے ہیں) تو فاسق فاجر الیکشن جیت لیتا ہے اور کامیاب سمجھا جاتا ہے۔ حالانکہ مسلمانوں کے کسی ملک کے چھوٹے بڑے عہدہ کے لئے کسی بھی فاسق فاجر کی رائے پر اعتماد کرنا درست نہیں جو لوگ اکثریت کے فیصلہ پر ایمان لاتے ہیں (اور اکثریت کا بےدین فاسق فاجر ہونا معلوم ہے) وہ (وَ لَوْ اَعْجَبَکَ کَثْرَۃُ الْخَبِیْثِ ) پر بار بار دھیان کریں۔ پھر فرمایا (فَاتَّقُوا اللّٰہَ یٰٓاُولِی الْاَلْبَابِ لَعَلَّکُمْ تُفْلِحُوْنَ ) کہ (اے عقل والو ! اللہ سے ڈرو تاکہ تم کامیاب ہوجاؤ) صاحب روح المعانی لکھتے ہیں ج ٧ ص ٣٧۔
” اں مدار الاعتبار ھوالخیر یۃ والرداء ۃ لا الکثرہ والقلۃ “ (ج)

یعنی خبیث کے بچنے میں اللہ تعالیٰ سے ڈرو اگرچہ زیادہ ہو اور طیب کو ترجیح دو اگرچہ کم ہو کیونکہ اچھا یا برا ہونے کا مدار اچھائی اور برائی اختیار کرنے پر ہے قلت یا کثرت پر نہیں۔ اھ

یہ پوری عبارت بھی بہت بصیرت افروز ہے ۔۔۔ اسے بار بار غور سے پڑھنا چاہئے ۔۔۔ پوسٹ لمبی ہوگئی حضرت کی دیگر عبارتیں ان شاء اللہ تعالی آئندہ قسط میں ۔۔۔
وقولوا للناس حسنا
أخوكم عبد المعز حقمل​
 
Last edited:

ابو داؤد

طالب علم
رکن
علماء ، جمہوریت کے تعاقب میں

جمع و ترتیب : مفتی عبد المعز حقمل

قسط : ۲

جمہوریت جاہلیہ کو ذریعہ انتخاب نہ بنائیں

مولانا عاشق الہی بلند شہری رحمہ اللہ اپنی تفسیر انوار البیان میں آیت واعتصموا بحبل اللہ کی تفسیر میں فرماتے ہیں :

" وحدت اسلامیہ کو قائم رکھنے کا ایک ہی راستہ ہے کہ باوجود یکہ زبانیں مختلف ہوں جغرافیائی اعتبار سے مختلف علاقوں کے رہنے والے ہوں لیکن سب اللہ کی رسی کو مضبوط پکڑے ہوئے ہوں۔ زبانوں کے اختلاف کو اور اختلاف رائے اور فروعی مسائل کو جنگ وجدال اور اختلاف کا ذریعہ نہ بنائیں اور پہلے سے دیکھ کر متقی آدمی کو امارت اور خلافت سونپیں، یورپ سے آئی ہوئی جمہوریت جاہلیہ کو ذریعہ انتخاب نہ بنائیں۔ جو فاسقوں بلکہ کفریہ عقائد رکھنے والوں کو بھی اقتدار اعلیٰ اور اقتدار ادنیٰ دلوا دیتی ہے۔ " اھ

اور ہماری اس جمہوریت کا جسے اسلامی جمہوریت کہا جاتا ہے بھی یہی حال ہے ۔۔۔۔

سورہ مائدہ آیت 2 کی تفسیر میں فرماتے ہیں
بہت سے لوگ دوسروں کی دنیا بنانے کے لیے اپنی آخرت تباہ کرتے ہیں یعنی ظلم اور گناہ پر مدد کرتے ہیں تاکہ کسی دوسرے کو نوکری یا عہدہ مل جائے یا قومی یا صوبائی اسمبلی کا ممبر ہوجائے الیکشن ہوتے ہیں ووٹر اور سپورٹر یہ جانتے ہوئے کہ جس امیدوار کے لیے ہم کوشش کر رہے ہیں یا جسے ہم ووٹ دے رہے ہیں یہ فاسق فاجر ممبر ہو کر اس کا فسق و فجور اور زیادہ بڑھ جائے گا پھر بھی اس کی مدد میں لگے ہوئے ہیں اس کو کامیاب کرنے کے لئے اس کے مقابل کی غیبتیں بھی کرتے ہیں اور اس پر تہمتیں بھی دھرتے ہیں حتیٰ کہ اس کی جماعت کے لوگوں کو قتل تک بھی کردیتے ہیں۔ یہ کتنی بڑی حماقت ہے کہ دنیا دوسرے کی بنے اور آخرت کی بربادی اپنے سر تھوپ لیں۔ اسی کو آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشارد فرمایا من شرالناس منزلۃ یوم القیامۃ عبداذھب اٰخرتہ بدنیا غیرہ (قیامت کے دن بدترین لوگوں میں سے وہ شخص بھی ہوگا جس نے دوسرے کی دنیا کی وجہ سے اپنی آخرت برباد کردی ) ۔ (رواہ ابن ماجہ باب اذالتقی المسلمان بسیفہما

سورہ انعام آیت 140 کی تفسیر میں فرماتے ہیں

فائدہ : آیت بالا سے واضح طور پر معلوم ہوا کہ تمام اشیاء و اجناس کی تحلیل و تحریم کا اختیار صرف اللہ تعالیٰ ہی کو ہے۔ اسی نے اپنے بندوں کو پیدا فرمایا اور ان کے لیے استمتاع اور انتفاع کے لیے مختلف اشیاء پیدا فرمائیں اسے اختیار ہے کہ جس چیز کو چاہے جس کے لیے حلال قرار دے اور جس کے لیے چاہے حرام قرار دے۔ بندوں کو کسی چیز کے حرام یا حلال قرار دینے کا اختیار نہیں جو لوگ ایسا کرتے ہیں وہ خدائی اختیارات کو اپنے لیے استعمال کرنا چاہتے ہیں اس لیے اسے مشرکانہ افعال میں شمار فرمایا اسمبلیوں میں قانون خداوندی کے خلاف جو لوگ قانون پاس کرتے ہیں وہ بھی مجرم ہیں۔

سورہ توبہ آیت 29 کی تفسیر میں فرماتے ہیں

" آج تو یہ حال ہے کہ مسلمان کسی ملک میں جزیہ لینے کا قانون جاری کرتے ہی نہیں۔ یہ لوگ کافروں سے ڈرتے ہیں جزیہ مقرر نہیں کرتے بلکہ ملک میں رہنے والے کافروں کو مسلمانوں سے زیادہ اہمیت دیتے ہیں اور ان کا اکرام کرتے ہیں۔ ان کو اسمبلی کا ممبر بھی بناتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ مسلمانوں کو ہمت اور حوصلہ دے اور کفر اور کافر کی قباحت اور شناعت اور نجاست اور بغض اور نفرت مسلمانوں کے دلوں میں ڈال دے تاکہ اہل کفر کو ذلیل سمجھیں اور ذلیل بنا کر رکھیں۔ فقہاء نے لکھا ہے کہ ذمی کافروں کو دار الاسلام میں کوئی عبادت خانہ نیا بنانے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ اسلام کے غلبہ ہونے سے پہلے جو ان کا کوئی عبادت خانہ ہو اور وہ منہدم ہوجائے تو اسے دو بارہ بنا سکتے ہیں اور یہ بھی لکھا ہے کہ ان کے لباس میں اور سواریوں میں اور ٹوپیوں میں اور مسلمانوں کے لباس اور سواریوں وغیرہ میں امتیاز رکھا جائے اور یہ بھی لکھا ہے کہ یہ لوگ گھوڑوں پر سوار نہیں ہوسکتے اور ہتھیار بند ہو کر نہیں چل پھر سکتے۔ مسلمان ان سب احکام کی خلاف ورزی بھی کرتے ہیں کیونکہ کفر اور کافر سے بغض نہیں ہے (العیاذ باللہ) "

سورہ ہود آیت 113 کی تفسیر میں فرماتے ہیں :
◀ کافروں فاسقوں جیسا لباس پہننا
◀ ان کی طرح شکل و صورت بنانا
◀ ان کی معاشرت اختیار کرنا
◀ سیاست میں ان کے طریق اپنانا
جمہوریت جاہلیہ کا معتقد ہونا
◀ کافروں کے وضع کردہ طور طریق اور ان کے بنائے ہوئے قوانین کے مطابق چلنا
اور ◀ ان کے مطابق حکومت کرنا
ان سب میں اللہ تعالیٰ کی نافرمانی ہے آیت شریفہ کی خلاف ورزی ہے اس قسم کے سب لوگ اپنی آخرت کی فکر کریں۔

آیت کے ختم پر فرمایا (وَمَا لَکُمْ مِّنْ دُوْنِ اللّٰہِ مِنْ اَوْلِیَاءَ ثُمَّ لَا تُنْصَرُوْنَ ) (اور تمہارے لیے اللہ کے سوا کوئی مددگار نہیں پھر تمہاری مدد نہ کی جائے گی) اس میں تنبیہ اور تھدید ہے کہ اللہ تعالیٰ کے عذاب سے بچنے کی فکر کرو اللہ کی گرفت سے کوئی بچانے والا نہیں۔"

سورہ نحل آیت 95 کی تفسیر میں فرماتے ہیں

آج کل عہد کو توڑ دینا معمولی سی بات بن کر رہ گئی ہے۔ سیاست کی دنیا میں تو عہد کرنا پھر مال اور کرسی کے لیے عہد توڑ دینا کوئی بات ہی نہیں ہے جدھر جاہ و مال کا فائدہ دیکھا ادھر ڈھل گئے۔ الیکشنوں سے پہلے اور اس کے بعد جو عہد ہوتے ہیں پھر جو ان کی مٹی خراب ہوتی ہے اخبارات کا مطالعہ کرنے والے ان سے ناواقف نہیں ہیں۔ رؤسا اور وزراء جو اللہ کا نام لے کر حلف اٹھاتے ہیں کہ ہم مسلمانوں کے لئے اور مسلمانوں کے ملک کے لئے ہمدردانہ طور پر کام کریں گے وہ اپنے حلف میں کس قدر پورے اترتے ہیں جاننے والے جانتے ہیں، ملک اور قوم کے مفاد کی بجائے صرف اپنی کرسی سنبھالنے کی فکر میں رہنا اور اپنی جماعت اور اپنے رشتہ داروں کا نوازنا ہی مقصد بن کر رہ جاتا ہے۔ یہ ان لوگوں کا حال ہے جو اسلام کے دعویدار ہیں ذرا اپنے حالات کو قرآن مجید کے احکام سامنے رکھ کر پرکھ لیں۔

عہد کو پورا کرنے کی شریعت اسلامیہ میں بہت بڑی اہمیت ہے اور جس کی جتنی بڑی ذمہ داری ہے اور جتنا بڑا عہدہ ہے اس سے اسی قدر آخرت میں اس کی باز پرس ہوگی اور رسوائی کا سامنا ہوگا حضرت سعد (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا کہ قیامت کے دن ہر دھوکہ دینے والے کا ایک جھنڈا ہوگا اور جتنا بڑا غدر تھا اسی قدر اونچا ہوگا جو اس کے پاخانہ کرنے کے مقام پر کھڑا کیا جائے گا مزید فرمایا کہ جو شخص عامتہ الناس کا امیر بنا کسی کا غدر اس کے غدر سے بڑھ کر نہیں ہے۔

حضرت معقل بن یسار (رض) سے روایت ہے کہ ارشاد فرمایا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کہ جو بھی کوئی شخص مسلمانوں میں سے کچھ لوگوں کا والی بنا (یعنی ان کی دیکھ بھال اس کے ذمہ کی گئی) پھر وہ اس حال میں مرگیا کہ وہ ان کے ساتھ خیانت کرنے والا تھا تو اللہ اس پر جنت حرام فرما دے گا۔ دوسری روایت میں اس طرح ہے کہ جس کسی بندہ کو اللہ نے چند افراد کا نگہبان بنایا پھر اس نے ان لوگوں کی اچھی طرح خیر خواہی نہ کی تو جنت کی خوشبو بھی نہ سونگھے گا۔ (مشکوٰۃ المصابیح ص ٣٢١)

سورہ الحاقۃ آیت 30 کی تفسیر میں فرماتے ہیں

دنیا میں جو عہدے ہیں وہ تو بڑی مصیبتوں سے ملتے ہیں اور ان میں بڑے بڑے مظالم کرنے پڑتے ہیں جب دنیا میں بادشاہت کا رواج تھا تو بادشاہت حاصل کرتے تھے اور اب جب سے دنیا میں جھوٹی جمہوریت آگئی ہے اس کی وجہ سے الیکشن لڑتے ہیں اور الیکشن کے بعد عہدہ مل جانے کی صورت میں پھر عہدہ کو باقی رکھنے کے لیے پھر الیکشن میں جو رقمیں خرچ کی گئیں ان کی جگہ مال جمع کرنے کے لیے جو جو مظالم ہوتے ہیں قتل و خون کی نوبت آتی ہے رشوتیں دی جاتی ہیں اور رشوتیں وصول کی جاتی ہیں اور طرح طرح سے انسانوں کو ووٹ دینے کے لیے مجبور کیا جاتا ہے اور ووٹوں کی خریداری ہوتی ہے ان سب باتوں کو الیکشن لڑنے لڑانے والے جانتے ہیں اتنی معصیتوں اور گناہوں کے ارتکاب کے بعد جو عہدہ ملا وہ لا محالہ وبال جان ہوگا پھر شریعت کا یہ مسئلہ بھی ہے کہ جو شخص عہدہ کا طالب ہو اسے عہدہ نہ دیاجائے۔ (کیونکہ وہ اسی لیے عہدہ طلب کرتا ہے کہ وہ اپنی دنیا سیدھی کرلے اور جائیداد جمع کرلے) یہ عہدے آخرت میں وبال جان بنیں گے، یہاں دنیا میں بڑے خوش ہوتے ہیں کہ کوئی عہدہ مل گیا، وزیر بن گئے وہاں زنجیر میں جکڑے جائیں گے۔

سورہ قریش کی پہلی آیت میں فرماتے ہیں
" رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے تو یہی فرما دیا تھا کہ خلافت برابر قریش میں رکھی جائے لیکن ملوکیت کا مزاج جب دنیا میں آگیا اور اس کے بعد جمہوریت کی جہالت نے جگہ پکڑ لی تو دوسرے لوگ اسلام کا دعویٰ کرتے ہوئے ملوک اور امراء بن گئے اور بنتے رہے"

اس عبارت میں مولانا عاشق الٰہی صاحب رحمہ اللہ نے اس نکتے کی طرف بھی اشارہ فرمایا کہ اسلام اور جمہوریت میں ایک تضاد یہ بھی ہے کہ اسلام کہتا ہے کہ خلیفہ قریشی ہو جبکہ جمہوریت اس کی نفی کرتے ہوئے کہتی ہے کہ جو بھی اکثریت لے اڑے وہی بادشاہ ہے ۔۔۔

اگر حضرت کی ان عبارات کو غور سے پڑھا جائے تو ان میں بہت قیمتی نکتے ہاتھ آ جائیں گے ان شاء اللہ تعالی ۔۔۔
أخوكم عبد المعز حقمل
 

ابو داؤد

طالب علم
رکن
علماء ، جمہوریت کے تعاقب میں

جمع و ترتیب : مفتی عبد المعز حقمل

قسط : ۳

مولانا ادریس کاندھلوی صاحب رحمہ اللہ

جمہوریت کا ایک اصول ہے : دین کی آزادی جس سے جمہوریت لادینیت اور ارتداد کے دروازے کھولتی ہے ۔۔۔ اسی سے ملتا جلتا ایک اور اصول آزادی اظہار رائے ہے ۔۔۔۔ جس کا خلاصہ یہ ہے کہ ہر شخص اپنی رائے کے اظہار میں آزاد ہے لیکن کوئی شخص اپنی رائے کسی دوسرے پر مسلط نہیں کر سکتا ۔۔۔ اگر کوئی شخص اپنی رائے کا اظہار کر رہا ہے تو آپ کو اس سے تعرض کا حق نہیں ۔۔۔ چاہے وہ رائے دین کے خلاف کیوں نہ ہو ۔۔۔ جمہوریت کے ان اصولوں کی تردید کرتے ہوئے مولانا ادریس کاندھلوی صاحب رحمہ اللہ اپنی تفسیر معارف القرآن میں سورۃ آل عمران کی آیت نمبر 102 کی تفسیر میں ارشاد فرماتے ہیں

" اور یہ طریقہ کہ کوئی کسی سے تعرض نہ کرے، موسیٰ بدین خود عیسیٰ بدین خود یہ راہ مسلمانی کی نہیں (منہ (رح) تعالی) کسی جمہوری اور متمدن حکومت میں یہ آزادی نہیں کہ لوگ قانون حکومت کے پابند اور مقید نہ رہیں اور جس کو جو چاہے وہ کرلیا کرے اسی طرح اللہ کے قانون میں یہ آزادی نہیں کہ جس حکم پر چاہے عمل کرو اور چاہے نہ کرو عجیب بات ہے کہ مجازی حکومت کے احکام کی پابندی تو لازم ہو اور بندہ پر اپنے خدا کے احکام کی پابندی اور ان کی تبلیغ ضروری نہ ہو۔" اھ

جمہوری حضرات جو دھوکہ دہی کے استاد ہوتے ہیں سادہ لوح مسلمانوں کو دھوکہ دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ جمہوریت تو ایک شورائی نظام ہے اور شوری کا حکم اللہ تعالی نے دیا ہے ۔۔۔۔ لیکن اتنی بات کہہ کر اپنے اندھے مقلدوں کو اندھیروں میں چھوڑ دیتے ہیں اور مزید تفصیلات نہیں بتاتے ۔۔۔۔ مشورہ کن امور میں کیا جائے ؟ کن لوگوں سے لیا جائے ؟ ۔۔۔۔ اس کی وضاحت کرتے ہوئے حضرت رحمہ اللہ سورہ آل عمران آیت 159 کی تفسیر میں فرماتے ہیں

" ۔۔۔۔ جو دینی اور دنیوی امر ایسا پیش آئے جس کے بارے میں کوئی حکم خداوندی منصوص نہ ہو تو اس کے بارے میں ایسے لوگوں سے مشورہ کیا جائے جو کہ مشورہ کے اہل ہوں اور جن کی رائے اور عقل لالہ کے نزدیک قابل وثوق اور اعتماد ہوں --

حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا گیا کہ آیت مشورہ میں فاذا عزمت سے کیا مراد ہے تو آپ نے فرمایا کہ اہل رائے سے مشورہ کرنا اور پھر ان کا اتباع کرنا مراد ہے
[ حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ نے اپنی تفسیر میں ابن مردویہ رحمہ اللہ کے حوالے سے یہ نقل کیا ہے لیکن محقق عبدالرزاق مہدی حفظہ اللہ فرماتے ہیں کہ مجھے اس کی کوئی سند نہیں ملی اور اس کا متن غریب ہے اور یہ بظاہر موضوع یعنی منگھڑت ہے : عبد المعز ]

اس حدیث سے معلوم ہوا کہ آیت میں مشورہ کا حکم مذکور ہے اس کا یہ مطلب نہیں کہ ہر کس و ناکس سے مشورہ کر لیا کریں بلکہ مطلب یہ ہے کہ جس امر کا حکم شریعت میں منصوص نہ ہو یا تعارض ادلہ کی وجہ سے اس میں کسی قسم کا اجمال اور خفاء پیدا ہو گیا ہو تو اہل رائے اور اصحاب رائے سے مشورہ کریں اور ان کا اتباع کریں "

کچھ آگے چل کر فرماتے ہیں

" اہلیت مشورہ یعنی کون لوگ مشورہ کے اہل ہیں جن سے مشورہ لیا جائے۔
قاضی ابوالحسن بصری ماوردی ادب الدنیا والدین ص ٢٠٧ میں فرماتے ہیں مشورہ کا اہل وہی شخص ہوسکتا ہے جس میں یہ پانچ خصلتیں اور پانچ صفتیں موجود ہوں۔

١۔ عقل کامل کے ساتھ تجربہ بھی رکھتا ہو کثرت تجارت سے عقل اور فکر درست ہوجاتا ہے۔ حدیث میں ہے رشد اور ہدایت اگر مطلوب ہے تو عاقل کامل سے مشورہ کرو صواب کو پہنچو گے اور عاقل کی نافرمانی نہ کرنا کہ پچتاؤ گے۔
شیخ عبدالروؤف منادی اس حدیث کی شرح میں لکھتے ہیں کہ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ عورت سے مشورہ نہ کرے اس لیے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا حکم یہ ہے کہ مشورہ کامل العاقل سے کرو اور حدیث میں ہے کہ عورتیں ناقصات العقل والدین ہیں یعنی عورتوں کی عقل بھی ناقص اور دین بھی ناقص ہے اور حضرت عمر کا فرمان ہے۔ عورتوں کا خلاف کرو ان کے خلاف میں برکت ہے۔ عورتوں کے پاس زیادہ بیٹھنے والے شخص سے بھی مشورہ مت کرو۔

٢۔ دوسری خصلت میں جس کا مشیر میں ہونا ضروری ہے وہ یہ کہ مشیر دین دار اور متقی اور پرہیزگار ہو اس لیے کہ جو شخص دین دار اور پرہیزگار نہ ہو اس کے مشورہ کا کیا اعتبار۔ حدیث میں ہے جو کسی کام کا ارادہ کرے اور پھر وہ کسی بچے اور پکے مسلمان یعنی متقی اور پرہیزگار سے مشورہ کرے تو توفیق خداوندی اس کو بہترین امور کی طرف لے جائے گی۔

٣۔ تیسری خصلت جو مشیر میں ہونی چاہیے وہ یہ کہ مشورہ دینے والا محب ناصح ہو یعنی خیرخواہ اور ہمدرد ہو اور اس کا دل حسد اور کینہ اور بغض اور عداوت سے پاک ہو محبت اور ہمدردی اور خیرخواہی ہی صحیح مشورہ کا باعث بن سکتی ہیں بخلاف حاسد اور کینہ ور کے اس کا مشورہ تو سم قاتل ہوگا اسی بنا پر بعض حکماء کا قول ہے۔

مت مشورہ کرنا مگر ایسے ذی رائے اور محتاط سے جو حاسد نہ ہو اور ایسے عاقل اور دانش مند سے جو کینہ ورنہ ہو اور عورتوں کے مشورہ سے پرہیز کرنا کیونکہ ان کی رائے کا میلان فساد کی طرف ہوتا ہے اور ان کا عزم سستی اور کمزوری کی جانب ہوتا ہے۔ اور علی ہذا اگر مشیر متعدد ہوں (جیسا کہ آج کل کی اسمبلی) تو ان میں یہ ضروری ہوگا کہ اسمبلی کے افراد باہمی حسد اور تنافس سے خالی ہوں ورنہ اسمبلی، مجلس مشاورت نہ ہوگی بلکہ مجلس منازعت اور مخاصمت ہوگی لوگ تماشہ دیکھ کر واپس ہوجائیں گے۔

٤۔ چوتھی خصلت یہ ہے کہ مشورہ دینے والا کسی فکر اور پریشانی میں مبتلا نہ ہو اس لیے کہ جو شخص ہموم وغموم کا شکار ہو اور پریشانیوں میں مبتلا ہو اس کا قلب اور دماغ صحیح نہ ہوگا اس لیے وہ صحیح مشورہ نہیں دے سکتا۔

٥۔ پانچویں خصلت یہ ہے کہ جس امر میں مشورہ لیا جارہا ہے اس سے مشیر کی کوئی نفسانی خواہش اور غرض مضمر متعلق نہ ہو خود غرض کا کوئی مشورہ قابل اعتبار نہیں چوں غرض آمد ہنر پوشیدہ شد یہی وجہ ہے کہ قرآن کریم میں ماں باپ کی شہادت اولاد کے حق میں اور زوجین کی شہادت ایک دوسرے کے حق میں اور غلام کی شہادت آقا کے حق میں معتبر نہیں مانی گئی کیونکہ اغراض اور منافع باہم مشترک ہیں یہ شہادت خود غرض کے شائبہ سے خالی نہیں اس لیے معتبر نہیں۔"

بعض جمہوری لوگ یہ کہتے ہیں کہ پارلیمنٹ کا فیصلہ ایک قسم کا اجماع ہے ۔۔۔ اس کی اور محض کثرت رائے کی بنیاد پر فیصلے کی تردید کرتے ہوئے سورہ نساء آیت 105 کی تفسیر میں فرماتے ہیں

" پھر اجماع میں اور کثرت رائے میں فرق یہ ہے کہ آج کل اسمبلیوں میں محض کثرت آراء اور اتفاق آراء سے فیصلہ ہوجاتا ہے اور اجماع شرعی میں یہ شرط ہے کہ رائے دینے والے علماء اور صلحاء اور اتقیاء ہوں ہر کس وناکس کی رائے کا اعتبار نہیں دنیا کا مسلمہ اصول ہے کہ علاج کے متعلق اطباء کا متفقہ فیصلہ اور تعمیر کے متعلق انجیئروں کا متفقہ فیصلہ حجت اور سند ہے تو علماء شریعت کا کسی امر پر اتفاق کیسے حجت نہ ہوگا۔

اسلامی حکومت کی تعریف

اپنی کتاب عقائد الاسلام میں مذکورہ بالا عنوان کے تحت لکھتے ہیں:

" اسلامی حکومت وہ حکومت ہے کہ جس حکومت کا نظام مملکت شریعت اسلامیہ کے ماتحت اور اس کے مطابق ہو اور حکومت کا مذہب من حیث الحکومت اسلام ہو اور اس حکومت کا دستور اور آئین قانون شریعت ہو اور حکومت من حیث الحکومت دل و جان سے دین اسلام کے اتباع کو فرض اور لازم سمجھتی ہو اور زبان سے بھی اس کا اقرار کرتی ہو اور خلیفہ اسلام اور بادشاہ اسلام وہ شخص ہے کہ جو نبی کا نائب ہونے کی حیثیت سے شریعت اسلامیہ کے مطابق ملک میں ملکی اور ملی نظام جاری اور نافذ کرے ۔۔۔۔ "
عقائد اسلام ص 194 ادارہ اسلامیات

اس سے اگلے صفحے یعنی صفحہ نمبر 195 پر فرماتے ہیں
" سو ایسی حکومت اسلامی حکومت نہیں کہلا سکتی جو حکومت اللہ کی حاکمیت اور قانون شریعت کی برتری اور بالادستی کو نہ مانتی ہو بلکہ یہ کہتی ہو کہ حکومت عوام کی اور مزدوروں کی ہے اور ملک کا قانون وہ ہے کہ جو عوام اور مزدور مل کر بنائیں سو ایسی حکومت بلاشبہ حکومت کافرہ ہے
ان الحكم الا لله ... ومن لم يحكم بما انزل الله فاولئك هم الكافرون ... افحكم الجاهليه يبغون ومن احسن من الله حكما لقوم يوقنون
جو فرد یا جماعت قانون شریعت کے اتباع کو لازم نہ سمجھے اس کے کفر میں کیا شبہ ہے ایمان نام ماننے کا ہے اور کفر نام نہ ماننے کا ہے
ایضاً ص 195
أخوكم عبد المعز حقمل
 

زنیرہ عقیل

منتظم اعلی۔ أیدہ اللہ
Staff member
منتظم اعلی
ان الحكم الا لله ... ومن لم يحكم بما انزل الله فاولئك هم الكافرون ... افحكم الجاهليه يبغون ومن احسن من الله حكما لقوم يوقنون
جو فرد یا جماعت قانون شریعت کے اتباع کو لازم نہ سمجھے اس کے کفر میں کیا شبہ ہے ایمان نام ماننے کا ہے اور کفر نام نہ ماننے کا ہے
ایضاً ص 195
جو فرد یا جماعت قانون شریعت کے اتباع کو لازم سمجھتا ہے مگر عملی طور پر جمہوریت کا حصہ ہے کیوں کہ قانون بدلنا اس کے اختیار میں نہیں اس کے بارے میں کیا رائے ہے؟
کیا وہ بے ایمان اور کافر ہیں؟
 

مولانانورالحسن انور

رکن مجلس العلماء
رکن مجلس العلماء
علماء ، جمہوریت کے تعاقب میں

جمع و ترتیب : مفتی عبد المعز حقمل

قسط : ۱

مولانا عاشق الٰہی بلند شہری رحمہ اللہ

چونکہ جمہوری دفاع جمہوریت میں کہتے ہیں کہ جمہوریت شوری ہے اور اس کے لئے " وشاورهم في الأمر " اور " وأمرهم شورى بينهم " پیش کرتے ہیں اس لئے ہم مولانا عاشق الٰہی صاحب رحمہ اللہ کی پوری عبارت پیش کر رہے ہیں کیونکہ اس میں مشورے کی شرعی حیثیت کے بارے میں بھی بات کی گئی ہے اور جمہوریت کے بارے میں بھی ۔۔۔ عبارت گو کہ کچھ لمبی ہے مگر مفید ہے اس لئے پوری پڑھیں

سورہ آل عمران کی آیت نمبر 159 میں مولانا عاشق الٰہی بلند شہری رحمہ اللہ اپنی تفسیر انوار البیان میں تحریر فرماتے ہیں :

پھر فرمایا (وَ شَاوِرْھُمْ فِی الْاَمْرِ ) اللہ جل شانہ نے آنحضرت سرور عالم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو صحابہ کرام سے مشورہ فرمانے کا حکم دیا۔ آنحضرت سرور عالم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس آیت کے نازل ہونے سے پہلے بھی اپنے صحابہ سے مشورہ فرماتے تھے۔ اور اس کے بعد بھی آپ نے مشورے فرمائے۔ آیت شریفہ میں مشورے کا حکم دے کر حضرات صحابہ کی اللہ تعالیٰ نے دلجوئی فرمائی اور ان کا اعزازو اکرام فرمایا یہ مشورہ ان امور میں نہیں تھا جہاں کوئی نص قطعی اور واضح حکم اللہ تعالیٰ کی طرف سے موجود ہو، جن امور کو آنحضرت سرور عالم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سپرد فرما دیا گیا ان میں مشورہ کرنے کا حکم فرمایا۔

مشورہ کی ضرورت اور اہمیت :


اس سے مشورے کی اہمیت اور ضرورت ظاہر ہوئی اور یہ بھی پتہ چلا کہ جب سید الاولین والآخرین (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مشورہ سے مستغنی نہیں تو آپ کے بعد ایسا کون ہوسکتا ہے جو مشورہ سے بےنیاز ہو، آئندہ آنے والے امراء اور اصحاب اقتدار اور امت کے کاموں کے ذمہ دار جو بھی آئیں سب کے لیے مشورہ کرنے کی ضرورت واضح ہوگئی۔ مشورہ میں بہت خیر ہے جو اصحاب رائے ہوں خواہ عمر یا مرتبہ میں چھوٹے ہی ہوں ان کو مشورہ میں شریک کرنا چاہیے اور وجہ اس کی یہ ہے کہ مشورہ کرنے کی صورت میں مختلف رائیں سامنے آجاتی ہیں۔ ان رایوں کے درمیان سے کسی مناسب ترین رائے کو اختیار کرلینا آسان ہوتا ہے۔ بعض مرتبہ بڑے کی نظر سے وہ گوشے اوجھل رہ جاتے ہیں جو چھوٹوں کی سمجھ میں آجاتے ہیں۔ تمام گوشے سامنے آنے سے کسی پہلو کو اختیار کرنے میں بصیرت حاصل ہوجاتی ہے۔ حضرت انس (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا مَا خَابَ مَنِ اسْتَخَارَ وَلاَ نَدِمَ مَنِ اسْتَشَارَ (یعنی جس نے استخارہ کیا وہ نا کام نہ ہوگا۔ اور جس نے مشورہ کیا اسے ندامت نہ ہوگی) ۔ (ذکرہ الہیثمی فی مجمع الزوائد) ۔۔۔۔ [ یہ حدیث موضوع ہے : عبد المعز ]

خانگی امور میں اور اداروں کے معاملات میں مشورے کرتے رہنا چاہیے جن لوگوں سے مشورہ کیا جائے ان کی ذمہ لازم ہے کہ وہ وہی رائے دیں جسے اپنی دیانت سے فیما بینھم و بین اللّٰہ صحیح سمجھتے ہوں۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد ہے ان المستشار مؤتمن (یعنی جس سے مشورہ طلب کیا جائے وہ امانت دار ہے) (اخرجہ الترمذی فی ابواب الزہدو ابن ماجہ فی کتاب الادب)

اگر کوئی شخص اپنے ذاتی معاملہ میں مشورہ کرے تب بھی اسے وہی مشورہ دے جو اس کے حق میں بہتر ہو۔ سنن ابو دواؤد میں ہے کہ آنحضرت سرورعالم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا کہ من اشار علی اخیہ بامر یعلم ان الرشد فی غیرہ فقد خانہ (جس نے اپنے بھائی کو کوئی ایسا مشورہ دیا جس کو وہ سمجھتا ہے کہ مشورہ لینے والے کی بہتری دوسری رائے میں تھی جو پیش نہیں کی گئی تو اس نے خیانت کی) (رواہ ابو داؤد فی کتاب العلم) اور حضرت علی (رض) سے اس کا قاعدہ کلیہ مروی ہے جسے علامہ سخاوی نے المقاصد الحسنہ صفحہ ٣٨٣ میں نقل کیا ہے اور وہ یہ کہ فاذا استشیر احد کم فلیشر بما ھو صانع لنفسہ (کہ جب کسی سے مشورہ طلب کیا جائے تو وہ مشورہ دے جسے وہ اپنے لیے اختیار کرتا اگر وہ خود اس حال میں مبتلا ہوتا جس میں مشورہ لینے والا مبتلا ہے) اور یہ مضمون اس حدیث کے مطابق ہے جس میں افضل الایمان بتاتے ہوئے ارشاد فرمایا۔ ان تحب للناس ماتحب لنفسک وتکرہ لھم ماتکرہ لنفسک (یعنی یہ کہ تو لوگوں کے لیے اسی کو پسند کرے جو اپنے لیے پسند کرتا ہے لوگوں کے لیے اس چیز کو ناپسند جانے جس کو اپنے لیے ناپسند جانتا ہے) (مشکوٰۃ المصابیح صفحہ ١٦)

مشورہ کی شرعی حیثیت :

مشورے کا حکم دینے کے بعد فرمایا ( فَاِذَا عَزَمْتَ فَتَوَکَّلْ عَلَی اللّٰہِ اِنَّ اللّٰہَ یُحِبُّ الْمُتَوَکِّلِیْنَ ) (پھر جب آپ پختہ عزم کرلیں تو اللہ پر تو کل کیجیے بیشک توکل کرنے والے اللہ کو محبوب ہیں) مطلب یہ ہے کہ مشورے کے بعد آپ جب کسی جانب کو طے فرما کر عزم کرلیں تو اللہ پر بھروسہ کیجیے اور اپنے عزم کے مطابق عمل کیجیے۔ اس میں یہ بات ظاہر ہے کہ مشورہ کرنے کے بعد آپ کو سب کے یا کسی ایک کے مشورے کا پابند ہونا ضروری نہیں۔ جس طرف آپ کا رحجان ہو اس پر عمل کرلیں اس

میں مشورہ دینے والوں کو بھی دلگیر ہونے کی ضرورت نہیں مشورہ دینا اور لینا ضائع نہیں ہے کیونکہ اس میں ہر شخص کو غور و خوض کرنے اور اپنی رائے پیش کرنے کا ثواب مل چکا ہے اب آپ جس رائے کو مناسب جانیں (اور رایوں میں اپنی ذاتی رائے بھی ہے) اس پر عمل فرمائیں۔

اپنا عزم فرمانے کے بعد اللہ پر بھروسہ کرنے کا حکم فرمایا اس سے یہ بات ظاہر ہے کہ تمام مشوروں اور تدبیروں کے بعد بھروسہ صرف اللہ ہی پر رہے بندوں کی رائیں اور تدبیریں صرف اسباب کی حیثیت رکھتی ہیں۔ اسباب پر بھروسہ کرنا مومن کا کام نہیں، مومن کا بھروسہ صرف اللہ پر ہوتا ہے۔

آنحضرت سرور عالم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بعد بھی مشورہ کی سنت جاری ہے لیکن اس کے ساتھ یہ بات سمجھ لینا چاہیے کہ مشورہ لینے والے کے لیے خواہ امیر المؤمنین ہی ہو یہ ضروری نہیں ہے کہ سب کا یا کسی ایک کا مشورہ مانے۔ باوجود مشورہ لینے کے اسے اپنی رائے پر عمل کرنے کا پورا پورا اختیار ہے۔ حق بات یہ ہے کہ جب مشورہ لینے والا بھی مخلص ہو اور مشورہ دینے والے بھی مخلص ہوں اور ہر ایک کو اللہ کی رضا مقصود ہو تو کسی وقت بھی بدمزگی پیدا ہونے کا موقعہ نہیں رہتا۔ آپس میں ضدا ضدی اور یہ اعتراض کہ میری رائے پر عمل کیوں نہ کیا اور امیر کی شکایت کہ وہ آمر مطلق ہے مشورہ کرکے بھی اپنی رائے پر عمل کرتا ہے۔ یہ سب باتیں جبھی ہوتی ہیں جب امیر اور مامور میں اخلاص نہ ہو اور آپس میں اعتماد نہ ہو اور امارت کے اصول پر امیر و مامور کو چلنے کا ارادہ نہ ہو، نفسانی اور دنیاوی چیزوں نے جگہ پکڑ رکھی ہو۔ اگر امیر کے انتخاب میں اللہ کی رضامندی کا دھیان رکھا ہو اور متقی آدمی کو امیر بنایا ہو جس کے علم و عمل اور اخلاص پر اعتماد ہو جو دنیا دار نہ ہو عہدہ کا طالب نہ ہو تو اس صورت میں امیر کا اپنی رائے پر عمل کرنا ناگوار نہ ہوگا۔ انتخاب تو غلط کریں اور پھر امیر کے خلاف احتجاج کرنے جلوس نکالنے کے جاہلانہ طریقوں سے امیر کو ہٹانے کی کوشش کریں۔ ان دونوں باتوں میں کوئی جوڑ نہیں ہے۔

موجودہ جمہوریت اور اس کا تعارف

زمانہ قدیم میں بادشاہتیں جاری تھیں ولی عہدی کے اصول پر بادشاہت ملتی تھی عرب و عجم میں بادشاہ تھے ان میں ظالم بھی تھے، رحم دل بھی تھے اور انصاف پسند بھی۔ لیکن بادشاہت کی تاریخ میں زیادہ تر مظالم ہی ملتے ہیں۔ ان مظالم سے تنگ آکر یورپ والوں نے جمہوریت کا طرز حکومت جاری کیا۔ اور اس کا نام عوامی حکومت رکھا۔ اس کے جو طریق کار ہیں انہیں عام طور سے سبھی جانتے ہیں۔ اس جمہوریت کا خلاصہ عوام کو دھوکہ دینا اور کسی ایک پارٹی کے چند افراد کے ملک پر مسلط ہونے کے سوا کچھ نہیں ہے۔ عنوان یہ ہے کہ اکثریت کی رائے انتخاب میں معتبر ہوگی۔ اور انتخاب بالغ رائے دہندگی کی بنیاد پر ہوگا اس میں امید وار کے لیے عالم ہونا، دیندار ہونا بلکہ مسلمان ہونا بھی شرط نہیں پڑھے لکھے اور بالکل جاہل، جپٹ مرد عورت امید وار بن کر کھڑے ہوجاتے ہیں۔ بعض پارٹی کے نمائندے ہوتے ہیں اور بعض آزاد ہوتے ہیں ان میں بعض وہ بھی ہوتے ہیں جو اسلام کے خلاف بولتے رہتے ہیں۔ اسلام کے نظام حدود و قصاص کو ظالمانہ کہتے ہیں جس کی وجہ سے حدودکفر میں داخل ہوجاتے ہیں اور انتخاب میں پارٹیوں کے زور پر اور سرداروں کے زور پر اور پیسوں کے زور پر ووٹ دینے والے بھی عموماً وہی لوگ ہوتے ہیں جو دین اسلام کے تقاضوں کو نہیں جانتے لہٰذا بےپڑھے اور ملحد اور زندیق بھی منتخب ہو کر پارلیمنٹ میں آجاتے ہیں۔ جس شخص کو زیادہ ووٹ مل گئے وہی ممبر منتخب ہوجاتا ہے اگر کسی سیٹ پر گیارہ آدمی کھڑے ہوں تو ان میں سے اگر دس آدمیوں کو ١٥۔ ١٥ ووٹ ملیں اور ایک شخص کو سولہ ووٹ مل جائیں تو یہ شخص سب کے مقابلہ میں کامیاب مانا جائے گا اور کہا یہ جائے گا کہ اکثریت سے منتخب ہوا حالانکہ اکثریت اس شخص کے مخالف ہے ڈیڑھ سو افراد نے اسے ووٹ نہیں دیئے۔ سولہ آدمیوں نے ووٹ دیئے ہیں ڈیڑھ سو کی رائے کی حیثیت نہیں یہ جمہوریت ہے جس میں ١٥٠ آدمیوں کی رائے کا خون کیا گیا اور سولہ افراد کی رائے کو مانا گیا۔ پھر پارلیمنٹ میں جس کسی پارٹی کے افراد زیادہ ہوجائیں اسی کی حکومت بن جاتی ہے اور وہ افراد اسی طریقہ پر پارلیمنٹ میں آئے ہیں جو ابھی ذکر ہوا اس طرح سے تھوڑے سے افراد کی پورے ملک پر حکومت ہوجاتی ہے اور پارٹی کے چند افراد اختیار سنبھال لیتے ہیں اور سیاہ وسفید کے مالک ہوجاتے ہیں خود پارٹی کے جو افراد کسی بات سے متفق نہ ہوں انہیں پارلیمنٹ میں پارٹی ہی کے موافق بولنا پڑتا ہے اپنی ذاتی رائے کا خون کردیتے ہیں۔ یہ جمہوریت اور اکثریت کی حقیقت ہے۔

پھر خدا کی پناہ مرکزی حکومت کے صدر اور وزیر اعظم اور دوسرے وزراء کے بےت کے اخراجات بنگلے اور ان کی سجاوٹیں گاڑیاں ڈرائیور، پٹرول کا خرچ، باورچی، مالی اور دوسرے خادموں کی تنخواہیں اور وزیروں کی بےجا کھپت پارٹی کے آدمی ہونے کی بنیاد پر خواہ مخواہ عہدے نکالنا اور حدیہ ہے کہ وزیر بےقلمدان بنانا اور کثیر تعداد میں مشیروں کو کھپانا ان سب کا بوجھ قوم کی گردن پر ہوتا ہے۔ پھر ہر صوبہ کا گورنر، وزیر اعلیٰ دوسرے وزراء اور نائب وزراء ان سب اخراجات سے ملک کا خزانہ خالی ہوجاتا ہے اور ملک چلانے کے لیے سودی قرضے لیتے ہیں۔ اور قوم پر ٹیکس لگاتے ہیں۔ انکم ٹیکس، برآمد ٹیکس، کسٹم ڈیوٹی۔ یہ سب مصیبت قوم پر سوار ہوتی ہے اور عوام کو دھوکہ دے رکھا ہے کہ تمہاری حکومت ہے عوام ان پارٹی بازوں اور سیاسی بازی گروں کی باتوں میں آجاتے ہیں اور سیدھا سادھا اسلامی نظام جس میں ایک امیر مرکزی حکومت میں ہو جس کا معمولی سا وظیفہ ہو۔ اور علاقوں میں چند امیر ہوں اور یہ سب لوگ سادگی کے ساتھ رہیں بقدر ضرورت واجبہ ان کو وظیفہ مل جائے معمولی سے گھر میں رہیں۔ اگر کسی کا اپنا گھر ہے تو اسی میں قیام پذیر ہو۔ اس نظام کو ماننے کے لیے لوگ تیار نہیں۔ انا للّٰہ و انا الیہ راجعون۔

کہا جاتا ہے کہ اسلام میں جمہوریت ہے اگر اس کا یہ مطلب ہے کہ اسلام میں شوریٰ کی بھی کوئی حیثیت ہے تو یہ بات ٹھیک ہے۔ مگر اس کی حیثیت وہی ہے جو اوپر ذکر کردی گئی ایسی حیثیت جس میں پورے ملک میں انتخاب ہو بالغ رائے دہی کی بنیاد پر ہر کس وناکس ووٹر ہو اور کثرت رائے پر فیصلہ رکھا جائے اسلام میں ایسی جمہوریت نہیں ہے۔ بعض اہل علم بھی دانستہ یا نا دانستہ طور پر اس غلط فہمی میں مبتلا ہیں وہ اسلام کی بات کو ماننے کے لیے تیار نہیں اور کہتے ہیں کہ ہم بڑی محنتوں سے جمہوریت کو لائے ہیں اب اس کے خلاف کیسے بولیں۔ اور ان کی لائی ہوئی جمہوریت بالکل جاہلانہ جمہوریت ہوتی ہے جس کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ انتخاب میں کوئی بھی کیسا ہی بےدین منتخب ہوجائے جمہوریت جاہلیہ کی وجہ سے اس کے عہدہ کو ماننے پر مجبور ہوتے ہیں کہ اب کیا کریں اب تو منتخب ہو ہی گیا عوام کی رائے کو کیسے ٹھکرائیں۔ قانون کے تابع ہیں اس کے خلاف چلنے بولنے کی کوشش کرنے کی کوئی اجازت نہیں۔

حضرات خلفائے اربعہ کا انتخاب :

یہ تو سب جانتے ہیں کہ حضرات ابوبکر و عمر و عثمان و علی (رض) خلفاء راشدین تھے ان حضرات کو منتخب کرتے وقت کوئی بالغ رائے دہندگی کی بنیاد پر انتخاب نہیں ہوا۔ نہ پورے ملک سے ووٹ لیے گئے تاریخ اور سیرت کے جاننے والے اس امر سے واقف ہیں کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی وفات کے بعد حضرات مہاجرین اور انصار سقیفہ بنی ساعدہ میں جمع ہوئے۔ وہاں اس بات کا مشورہ ہو رہا تھا کہ امیر کون ہو۔ انصار میں سے بعض حضرات یہ رائے دے رہے تھے کہ ایک امیر ہم میں سے ہو اور ایک مہاجرین میں سے ہو۔ حضرت ابوبکر و عمر (رض) بھی وہاں پہنچ گئے۔ حضرت عمر (رض) نے حضرت ابوبکر (رض) سے کہا کہ آپ اپنا ہاتھ لائیے میں بیعت کرتا ہوں انہوں نے ہاتھ بڑھا دیا۔ حضرت عمر (رض) نے بیعت کرلی اس کے بعد مہاجرین نے بیعت کرلی ان کے بعد انصار نے بیعت کی۔ یہ تو حضرت ابوبکر (رض) کا انتخاب تھا جو سب سے پہلے خلیفہ تھے۔ اس کی تفصیل البدایۃ والنہایۃ صفحہ ٢٤٦: ج ٥ میں مذکور ہے، اس کے بعد جب ابوبکر (رض) کی وفات ہونے لگی تو انہوں نے بغیر کسی مشورہ کے حضرت عمر (رض) کو خلیفہ بنا دیا۔ پھر جب حضرت عمر (رض) کو دشمن نے خنجر مار دیا اور انہوں نے سمجھ لیا کہ اب میں جانبر ہونے والا نہیں ہوں تو انہوں نے فرمایا کہ خلافت کا مستحق ان حضرات کے علاوہ کوئی نہیں جن سے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) راضی تھے اور اسی حالت رضا مندی میں آپ کی وفات ہوئی۔ پھر انہیں حضرات میں سے حضرت علی، حضرت عثمان، حضرت زبیر، حضرت طلحہ، حضرت سعد بن ابی وقاص اور حضرت عبدالرحمن بن عوف (رض) کے نام لیے اور فرمایا کہ ان میں سے کسی ایک کو منتخب کرلیا جائے ساتھ ہی یہ بھی فرمایا کہ میرا بیٹا عبداللہ بن عمر (رض) مشورے میں شریک ہوگا لیکن اسے خلافت سپرد نہ کی جائے اور فرمایا کہ اگر سعد کو منتخب کرلیا جائے تو وہ اس کے اہل ہیں۔ اور اگر ان کے علاوہ کسی دوسرے کو امیر بنا لیا جائے تو وہ ان سے مدد لیتا رہے جب حضرت عمر (رض) کی وفات ہوگئی اور ان کو دفن کردیا گیا تو وہ حضرات جمع ہوئے جن کو خلافت کے لیے نامزد فرمایا تھا کہ اپنے میں سے کسی ایک کو منتخب کرلیں۔ حضرت عبدالرحمن بن عوف (رض) نے فرمایا کہ تم سب اپنا معاملہ تین آدمیوں کے سپرد کرو حضرت زبیر (رض) نے فرمایا میں نے اپنا معاملہ حضرت علی (رض) کے سپرد کیا اور حضرت طلحہ (رض) نے فرمایا کہ میں نے اپنا معاملہ عثمان (رض) کے سپرد کیا۔ حضرت سعد (رض) نے فرمایا کہ میں نے اپنا معاملہ عبدالرحمن بن عوف (رض) کے سپرد کیا۔ اس کے بعد حضرت عبدالرحمن بن عوف (رض) نے حضرت علی (رض) اور حضرت عثمان (رض) سے کہا کہ تم دونوں میرے سپرد کرتے ہو تو میں تم میں جو افضل ترین ہوگا اس کے انتخاب میں کوتاہی نہیں کروں گا ان دونوں نے کہا کہ ہاں ہم تمہارے سپرد کرتے ہیں۔ اس کے بعد انہوں نے دونوں سے علیحدہ علیحدہ تنہائی میں بات کی اور دونوں نے اقرار کیا کہ اگر میرے علاوہ دوسرے کو تم نے امیر بنا دیا تو میں فرمانبر داری کروں گا

اس کے بعد انہوں نے حضرت عثمان (رض) سے کہا لاؤ ہاتھ بڑھاؤ یہ کہہ کر ان سے خود بیعت کرلی اور حضرت علی (رض) نے بھی ان سے بیعت کرلی۔ دوسرے حضرات جو باہر منتظر تھے وہ بھی اندر آئے اور انہوں نے حضرت عثمان (رض) سے بیعت کرلی۔ مفصل واقعہ صحیح بخاری صفحہ ٥٢٤: ج ١ میں مذکور ہے۔ یہ انتخاب خلیفہ ثالث کا تھا (اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ حضرت علی (رض) نے برضاء ورغبت حضرت عثمان (رض) سے بیعت کی تھی اور پہلے سے اقرار کرلیا تھا کہ اگر ان کو امیر بنا دیا گیا تو میں فرمانبر دار ہوں گا) ۔

جب حضرت عثمان (رض) کی شہادت ہوئی تو ان کی جگہ کسی امیر کے انتخاب کی ضرورت محسوس کی گئی اہل مصر جنہوں نے حضرت عثمان (رض) کو شہید کیا تھا وہ حضرت علی (رض) کو اصرار کرتے رہے کہ آپ خلافت کا بوجھ سنبھالیں لیکن وہ راضی نہ ہوئے اور باغوں کی طرف تشریف لے گئے۔ کوفہ والوں نے حضرت زبیر (رض) کو تلاش کیا وہ بھی نہ ملے۔ بصرہ والوں نے حضرت طلحہ (رض) سے عرض کیا انہوں نے انکار کردیا۔ پھر حضرت سعد بن ابی وقاص (رض) کی خدمت میں حاضر ہوئے اور معروض پیش کی انہوں نے بھی قبول نہ کیا۔ حضرت ابن عمر (رض) کے پاس گئے انہوں نے بھی نہ مانا ساری کوششیں کرکے پھر حضرت علی (رض) کی خدمت میں حاضر ہوئے اور خلافت قبول کرنے پر اصرار کرتے رہے آخر میں انہوں نے ذمہ داری قبول فرمائی۔ یہ تفصیل البدایۃ والنہایۃ صفحہ ٢٢٦: ج ٧ میں لکھی ہے۔

یہ چاروں خلفاء کا انتخاب تھا ان میں کبھی بھی پورے ملک میں الیکشن نہیں ہوا۔ بلکہ پورے صحابہ (رض) بھی شریک نہیں ہوئے نہ پورا مدینہ شریک ہوا چند افراد نے منتخب کرلیا سب نے مان لیا۔ ممکن ہے یورپ کی جمہوریت جاہلیہ سے مرعوب ہو کر بعض ناواقف یہ کہنے لگیں کہ صحیح طریقہ وہی ہے جو آج کل رواج پائے ہوئے ہے۔ ان حضرات نے انتخاب صحیح نہیں کیا۔ (العیاذ باللہ) اس جاہلانہ اپچ کا جواب دینے کی ضرورت تو نہیں لیکن پھر بھی ہم عرض کردیتے ہیں کہ یہ اعتراض اللہ تعالیٰ کی ذات پر پہنچتا ہے۔ اللہ جل شانہٗ نے سورة توبہ کی آیت نمبر ١٠٠ میں مہاجرین اور انصار اور جو خوبی کے ساتھ ان کا اتباع کریں ان کی تعریف فرمائی اور ان کے بارے میں رضی اللّٰہ عنھم و رضواعنہ فرمایا اگر انہیں حضرات نے اسلام کو نہیں سمجھا اور امیر کا انتخاب جس طرح ہونا چاہیے تھا اس طرح نہیں کیا تو ان کے بعد اسلام کو اور اسلام کے تقاضوں کو جاننے والا کون ہے ؟ پھر نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا علیکم بسنتی و سنۃ الخلفاء الراشدین المھدیین (رواہ ابو داؤد الترمذی) (کہ میرے طریقے کو اور خلفاء راشدین کے طریقے کو اختیار کرنا) اگر ان حضرات کا اپنا انتخاب صحیح نہیں اور انہوں نے دوسروں کا انتخاب صحیح نہیں کیا تو وہ خلفاء راشدین ہو ہی نہیں سکتے اگر آج کے جاہلوں کی بات مان لی جائے تو اس کا مطلب یہ نکلتا ہے کہ حضرات صحابہ (رض) میں سے کوئی بھی خلیفہ راشد نہیں ہوا (العیاذ باللہ) دشمنوں کے طریقہ کار سے مرعوب ہو کر اسلام کی تحریف اور تبدیل کرنے پر آمادہ ہو جاناایمانی تقاضوں کے سراسر خلاف ہے۔

اس سادہ سلیس اور دلنشین عبارت میں حضرت مولانا عاشق الہی بلند شہری رحمہ اللہ نے جمہوریت کی قلعی کھول دی ہے ۔۔۔ جو لوگ اکابر اکابر کی رٹ لگائے رکھتے ہیں انہیں چاہئے کہ اس عبارت کو بار بار دل کی آنکھوں سے پڑھیں ۔۔۔ حضرت نے اپنی اس عبارت میں جمہوریت کو کفر بھی کہا ہے کہ ان کی لائی ہوئی جمہوریت بالکل جاہلانہ جمہوریت ہوتی ہے جس سے اسلام کا کوئی تعلق نہیں ہوتا ۔۔۔

سورہ مائدہ کی آیت 100 کی تفسیر میں فرماتے ہیں

الیکشن کی قباحت

آیت کریمہ سے الیکشن کی قباحت بھی معلوم ہوگئی چونکہ الیکشن کی بنیاد اکثریت پر رکھی گئی ہے اس لئے الیکشن میں وہ آدمی جیت جاتا ہے جس کو ووٹ زیادہ مل جائیں بلکہ جس کے حق میں ووٹوں کی گنتی زیادہ ہوجائے وہ جیتنا ہے خواہ کسی طرح بھی ہو۔ دھاندلی بھی کی جاتی ہے ووٹ خریدے بھی جاتے ہیں فریق مخالف کے ووٹوں کے بکس بھی غائب کئے جاتے ہیں۔

قطع نظر ان سب باتوں کے اکثریت پر کامیابی کی بنیاد رکھنا یہ مستقل وبال ہے اور غیر کے دین پر نہ خود چلنا ہے نہ دوسروں کو چلنے دینا ہے ایسے لوگوں کی رائے کا شرعاً کچھ وزن نہیں۔ دنیا میں جب سے جمہوریت کا سلسلہ چلا ہے بہت سے لوگ جنہیں علم کا گمان بھی ہے وہ بھی جمہوریت کے لئے اپنی کوششیں خرچ کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہماری کوشش سے فلاں ملک میں جمہوریت گئی ہے گویا انہوں نے دین کا بہت بڑا کام کردیا۔ یہ لوگ جمہوریت کے دینی نقصانات جانتے ہوئے اس کے لئے اپنی کوششیں صرف کرتے ہیں پھر جمہوریت کے اصول پر جو بھی کوئی بد سے بدتر ملحد زنذیق منکر اسلام منتخب ہوجائے اسے مبارکباد دیتے ہیں ‘ کسی حلقے میں ووٹ ہوں اور اکیاون ووٹ کسی ملحد بےدین کو مل جائیں (جو اسی جیسے بےدینوں سے ملتے ہیں) تو فاسق فاجر الیکشن جیت لیتا ہے اور کامیاب سمجھا جاتا ہے۔ حالانکہ مسلمانوں کے کسی ملک کے چھوٹے بڑے عہدہ کے لئے کسی بھی فاسق فاجر کی رائے پر اعتماد کرنا درست نہیں جو لوگ اکثریت کے فیصلہ پر ایمان لاتے ہیں (اور اکثریت کا بےدین فاسق فاجر ہونا معلوم ہے) وہ (وَ لَوْ اَعْجَبَکَ کَثْرَۃُ الْخَبِیْثِ ) پر بار بار دھیان کریں۔ پھر فرمایا (فَاتَّقُوا اللّٰہَ یٰٓاُولِی الْاَلْبَابِ لَعَلَّکُمْ تُفْلِحُوْنَ ) کہ (اے عقل والو ! اللہ سے ڈرو تاکہ تم کامیاب ہوجاؤ) صاحب روح المعانی لکھتے ہیں ج ٧ ص ٣٧۔
” اں مدار الاعتبار ھوالخیر یۃ والرداء ۃ لا الکثرہ والقلۃ “ (ج)

یعنی خبیث کے بچنے میں اللہ تعالیٰ سے ڈرو اگرچہ زیادہ ہو اور طیب کو ترجیح دو اگرچہ کم ہو کیونکہ اچھا یا برا ہونے کا مدار اچھائی اور برائی اختیار کرنے پر ہے قلت یا کثرت پر نہیں۔ اھ

یہ پوری عبارت بھی بہت بصیرت افروز ہے ۔۔۔ اسے بار بار غور سے پڑھنا چاہئے ۔۔۔ پوسٹ لمبی ہوگئی حضرت کی دیگر عبارتیں ان شاء اللہ تعالی آئندہ قسط میں ۔۔۔
وقولوا للناس حسنا
أخوكم عبد المعز حقمل​
ماشاءاللہ بہت خوب جزاک اللہ
 

ابو داؤد

طالب علم
رکن
علماء ، جمہوریت کے تعاقب میں

جمع و ترتیب : مفتی عبد المعز حقمل

قسط : ۴

جمہوریت مرد اور عورت کو برابر قرار دیتی ہے اس پر رد کرتے ہوئے مولانا ادریس کاندہلوی صاحب رحمہ اللہ سورہ بقرہ آیت نمبر 228 کی تفسیر میں فرماتے ہیں
ف ٣) ۔ وللرجال علیھن درجہ۔ سے صاف ظاہر ہے کہ مردوں کا درجہ عورتوں سے بڑھا ہوا ہے اور جو لوگ مرد اور عورت کی مساوات پر تقریریں کرتے ہیں وہ بےعلم ہیں اور بےعقل بھی، اور جن پر نفسانی شہوتوں کا غلبہ ہے ان کے نزدیک عورت کا درجہ مرد سے بڑھا ہوا ہے اور اللہ تعالیٰ عقل اور ہدایت دے۔ آمین۔ اھ

جمہوریت میں کافر کو بھی اسمبلی کا رکن بنایا جاتا ہے ۔۔۔۔ اس طرح مسلمین کے اہم معاملات کے راز ان تک پہنچ جاتے ہیں ۔۔۔ یقینا یہ چیز خطرے سے خالی نہیں ۔۔۔ یہ قرآن کریم کی صریح مخالفت ہے ۔۔۔ نام نہاد اسلامی جمہوریت میں بھی یہ ہو رہا ہے ۔۔۔ یعنی کفار کو دوست اور راز دار بنایا جا رہا ہے ۔۔۔۔ ذیل میں ہم مولانا ادریس کاندھلوی رحمہ اللہ کی مکمل عبارت نقل کرتے ہیں ۔۔۔۔ اس میں خاص جگہ تو وہ ہے جو حضرت نے فائدہ کے عنوان سے ذکر کی ہے لیکن چونکہ پوری عبارت میں بہت فوائد ہیں اس لئے ہم پوری عبارت نقل کر دیتے ہیں

يٰۤـاَيُّهَا الَّذِيۡنَ اٰمَنُوۡا لَا تَتَّخِذُوۡا بِطَانَةً مِّنۡ دُوۡنِكُمۡ لَا يَاۡلُوۡنَكُمۡ خَبَالًا ؕ وَدُّوۡا مَا عَنِتُّمۡ‌ۚ قَدۡ بَدَتِ الۡبَغۡضَآءُ مِنۡ اَفۡوَاهِهِمۡ  ۖۚ وَمَا تُخۡفِىۡ صُدُوۡرُهُمۡ اَكۡبَرُ‌ؕ قَدۡ بَيَّنَّا لَـكُمُ الۡاٰيٰتِ‌ اِنۡ كُنۡتُمۡ تَعۡقِلُوۡنَ
آل عمران آیت 118

ترجمہ: مومنو ! کسی غیر (مذہب کے آدمی) کو اپنا رازدار نہ بنانا یہ لوگ تمہاری خرابی (اور فتنہ انگیزی کرنے میں) کسی طرح کوتاہی نہیں کرتے اور چاہتے ہیں کہ (جس طرح ہو) تمہیں تکلیف پہنچے ان کی زبانوں سے تو دشمنی ظاہر ہو ہی چکی ہے اور جو (کینے) ان کے سینوں میں مخفی ہیں وہ کہیں زیادہ ہیں اگر تم عقل رکھتے ہو تو ہم نے تم کو اپنی آیتیں کھول کھول کر سنادی ہیں


تفسیر:
تحذیر مومنین از اختصاص وارتباط بادشمنان دین۔
قال تعالی۔ یا ایھا الذین۔۔۔۔۔۔ الی۔۔۔۔ محیط۔ آیت۔
ربط) گزشتہ آیات میں مسلمانوں کے صفات اور کافروں کے ذمائم اور قبائح کا ذکر تھا اب ان آیات میں مسلمانوں کو ہدایت ہے کہ کافروں کے ساتھ خلاملا نہ رکھو اور نہ ان کو اپنا راز دار بناؤ کافر تمہارے دین اور دنیا دونوں کے دشمن ہیں۔

یا یوں کہو کہ جب گزشتہ آیات میں یہ بیان کیا کہ کفر اور ظلم کی سرد ہوا نے ظالموں کے اعمال کی کھیتیوں کو تباہ برباد کیا تو اب آئندہ آیت میں اہل ایمان کو نصیحت فرماتے ہیں کہ تم ان ظالموں سے خلط ملط نہ رکھنا مبادا ان کے کفر اور ظلم کی سرد ہوا کا اثر تمہارے اعمال کی کھیتیوں کو کوئی نقصان نہ پہنچا دے چناچہ فرماتے ہیں اے ایمان والو ایمان کا مقتضی یہ ہے کہ اپنے غیروں کو اپنا راداد اور بھیدی نہ بناؤ یعنی غیرمسلموں کو اپنا ہمدم اور رفیق اور راز دار نہ بناؤ اور اس ممانعت کی متعدد وجوہ ہیں

اول تو یہ کہ یہ لوگ فتنہ انگیزی اور تمہارے تباہ کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑتے اور ہر وقت اسی کی کوشش میں لگے رہتے ہیں کہ مسلمانوں میں باہمی کوئی خرابی اور فساد پیدا ہو،

دوم یہ کہ ہر وقت اس کی تمنا کرتے ہیں کہ تم کسی تکلیف اور ضرر میں مبتلا ہوجاؤ ہر وقت تمہاری مصیبت کے خواہش مند رہتے ہیں یہ خواہش کبھی ان کے دل سے زائل نہیں ہوتی

سوم یہ کہ ان کے دل تمہاری عداوت سے لبریز ہیں کہ بعض مرتبہ دلی بغض اور اندرونی عداوت بلااختیار ان کے منہ سے ظاہر ہوجاتی ہے بغض اور عداوت اس درجہ پہنچا ہوا ہے کہ اس کو ضبط نہیں کرسکتے اور نہ وہ ان کے چھپانے سے چھپ سکتا ہے اندر سے اچھل کر اور ابل کر منہ پر آگیا ہے اور کھل گیا ہے

چہارم یہ کہ وہ بغض اور عداوت ہے جو ان کے سینوں نے اپنے اندر چھپا رکھا ہے وہ اس سے کہیں زیادہ ہے کہ جو عداوت ان سے ظاہر ہوجاتی ہے تمہیں معلوم نہیں کہ ان کے سینوں کے اندر عداوت کتنی چھپی ہوئی ہے تحقیق ہم نے تمہارے لئے صاف صاف نشانیاں بیان کیں اگر تم کو عقل ہے تو سمجھ جاؤ کہ یہ تمہارے خیرخواہ نہیں بلکہ سخت دشمن ہیں ہرگز اس قابل نہیں کہ ان کو اپنا بطانہ یعنی دوست اور رازد دار بناؤ۔

پنجم یہ کہ تم ایسے نادان اور غفلت شعار کیوں ہو کہ تم ان کو دوست رکھتے ہو اور وہ تمہیں دوست نہیں رکھتے پس اگر وہ تم سے بغض اور عداوت ہی نہ رکھتے تو فقط ان کا تم سے محبت نہ رکھنا یہ کافی تھا کہ ان کو بطانہ (راز دار) نہ بنایاجائے اس لئے کہ جس کو تم سے محبت نہ ہو اور نہ وہ تمہارا خیرخواہ تو اس کو اپنا راز دار بنانا نادانی ہے

اور چھٹی وجہ یہ ہے کہ تم اللہ کی سب کتابوں پر ایمان رکھتے ہو اور ان لوگوں کا حال یہ ہے کہ وہ تمہاری کتاب پر باوجود حقانیت ظاہر ہوجانے کے تمہاری ضد میں اس پر ایمان نہیں لاتے ان کو چاہیے تھا کہ وہ تم سے محبت رکھتے تم اللہ کی تمام کتابوں پر ایمان رکھتے ہو اور ان کی کتاب کا انکار نہیں کرتے مگر معاملہ برعکس ہوگیا کہ وہ تم سے بغض اور عداوت رکھتے ہیں پس ایسے لوگوں کو کیا اپنا دوست اور راز دار بناتے ہو ضدی اور پیچی آدمی کو راز دار بنانا سخت غلطی ہے

اور ساتویں وجہ یہ ہے کہ ان کا برتاؤ اور معاملہ تم سے منافقانہ ہے مخلصانہ نہیں اس لیے کہ یہ لوگ جب تم سے ملتے ہیں تو یہ کہتے ہیں کہ ہم مسلمان ہیں اور جب اکیلے ہوتے ہیں تو غیظ وغضب سے تم پر انگلیاں کاٹتے ہیں مطلب یہ ہے کہ جب اپنے مجمع میں اکیلے ہوتے ہیں اور کوئی مسلمان وہاں نہیں ہوتا تو مسلمانوں کے جوش عداوت میں غصہ ہو کر دانتوں سے انگلیاں کاٹتے ہیں مسلمانوں کی دن دونی رات چوگنی قوت و شوکت اور باہمی اتحاد اور الفت ان سے برداشت نہیں ہوتی اس لیے اپنے مجمع میں اس دلی عداوت کا اظہار کرتے ہیں اے نبی آپ ان سے کہہ دیجئے کہ تم اپنے اس غصے میں گلا گھونٹ کر اسی طرح جلتے اور مرتے رہو اور یوں ہی عمر بسر کرتے رہو یہ غصہ مرتے دم تک تمہارے ساتھ رہے گا اور اس غیظ سے تم اسلام اور مسلمانوں کا کچھ نہیں بگاڑ سکتے اللہ نے اپنے دوستوں پر نعمتیں پوری کرے گا تمہا اغصہ اور حسد بیکار ہے۔
بمیر اے از حسد پیوستہ غمگین
کہ جز مرگت نخواہد داد تسکین

تحقیق اللہ سینوں کی باتوں کو خوب جانتا ہے اور دشمنوں کے دلوں کی پوشیدہ باتیں اپنے دوستوں کو بتلا دیتا ہے

اور آٹھویں وجہ یہ ہے کہ ان کی عداوت اور حسد کا یہ حال ہے کہ اے مسلمانو! اگر تم کو ذرا سی بھلائی چھو بھی جائے تو انہیں بہت ہی بری لگتی ہے سمجھ لو کہ ان کا حسد اس درجہ پہنچا ہوا ہے

اور نویں وجہ یہ ہے کہ اگر تمہیں کوئی برائی یا تکلیف پہنچے تو اس سے وہ خوش ہوتے ہیں یہ ان کی شماتت کا حال ہے

اور دسویں وجہ یہ ہے کہ وہ اندرونی طور پر تمہارے خلاف سازشوں میں سرگرم ہیں جس کا علاج یہ ہے کہ اگر تم صبر اور تقوی پر قائم رہو یعنی ان کی ایذاؤں پر صبر کرو اور ان کی موالات اور بطانہ بنانے سے پرہیز کرو تو تم کو ان کا فریب کچھ نقصان نہ دے گا اللہ نے ان کے اعمال کا احاطہ کیا ہوا ہے ان کے مکر کا ضرر اور اثر تم پر کچھ نہیں پڑے گا اور اگر کسی جگہ کافروں سے تم کو کوئی ضرر پہنچے تو سمجھ لو کہ یہ صبر اور تقوی کی کمی کی وجہ سے پہنچا ہے اللہ سے معاملہ درست رکھو تو پھر کافروں نے جو راستہ میں کانٹے بچھائے ہیں وہ سب کے سب خود بخود صاف ہوجائیں گے

خلاصہ کلام یہ کہ جس قوم کی عداوت کا یہ حال ہو اس سے کیا خیرخواہی کی توقع ہوسکتی ہے کہ جو اس سے دوستی کی جائے اور اس کو اپنا راز دار بنایا جائے۔

فائدہ: فقہاء کرام نے اس آیت سے استدلال کیا ہے کہ مسلمان حاکم کے لیے یہ جائز نہیں کہ اہل ذمہ میں سے کسی کافر کو اپنا منشی اور پیشہ کار بنائے اس لیے کہ وہ کافر مسلمانوں کا خیرخواہ نہ ہوگا اور اسلامی حکومت کے راز اور امور مملکت سے اپنی ہم قوم حکومت کو مطلع کرے گا بلکہ جن مسلمانوں وزیروں اور امیروں نے کسی غیر مسلم عورت سے نکاح کرلیا یا اس کو اپنے گھر میں رکھ لیا تو پھر اسلامی حکومت کے راز غیر مسلموں پر ظاہر ہوئے اور اسلامی حکومت کو شدید نقصان پہنچا اور ان غیر مسلم عورتوں نے مسلمان شوہر سے زائد اپنے ہم مذہب کافروں کی مصلحت کا لحاظ رکھا جیسا کہ تجربہ اور تاریخ اس کی شاہد ہے اور فاروق اعظم کا بھی یہی مسلک تھا کہ وہ غیر مسلم منشی اور پیش کار بنانے کو ناپسند فرماتے تھے اور اسی آیت سے استدلال فرماتے تھے۔

تنبیہ: شریعت اسلامی کا یہ حکم کہ غیر مسلم کو اپنا دوست اور راز دار نہ بنایاجائے اور امور مملک میں اس کو دخیل نہ بنایا جائے عین حق اور عین حقیقت ہے یہ امر بالکل بدیہی ہے کہ غیر مذہب والا اپنے مذہب اور اپنے اہل مذہب ہی کی خیرخواہی کرتا ہے اور دوسرے اہل مذہب کی خیرخواہی نہیں کرتا تمام مغربی ممالک کو دیکھ لیجئے کہ وہ کبھی بھی کسی مسلمان کو وزارت اور سفارت کا منصب سپر نہیں کرتے مگر افسو کہ آج کل کے نام نہاد مسلمان جب اس قسم کا حکم سنتے ہیں تو اس کو تعصب اور تنگ نظری سمجھتے ہیں حالانکہ اگر ان کو اپنے حقیقی بھائی کی خیرخواہی پر اطمینان نہ ہو تو اس کو بھی اپنا بطانہ بنانا گوارا نہیں کرتے مگر جب اللہ یہ فرماتا ہے کہ اے مسلمانوں جو شخص اسلام کا اور مسلمانوں کا خیرخواہ نہ ہو بلکہ ان کا دشمن اور حاسد ہو اس کو اسلامی حکومت میں کوئی عہدہ اور منصب نہ دو تو یہی لوگ اللہ کے اس قانون پر نکتہ چینی کرنے لگتے ہیں۔

تمام دنیا کی حکومتوں کا یہ مسلّم قانون ہے کہ حکومت میں حکومت کے باغی کا کوئی عہدہ اور منصب نہیں دیا جاسکتا باغی کو عہدہ دینا سیاسیات ملکیہ میں بالاجماع حرام ہے پس اگر اسلام یہ کہتا کہ اسلامی حکومت میں ایسے شخص کو کہ جو اسلام سے باغی ہو یعنی کافر ہو اس کو کوئی عہدہ اور منصب نہ دو تو اس پر کیوں ناک منہ چڑھاتے ہو اپنے باغی کے لیے عہدہ دینا تو ناجائز اور حرام ہو اور اللہ کے باغی اور سرکشی کے لیے عہدہ دینا جائز ہو جس کا مطلب یہ ہے کہ آپ کا باغی تو مجرم ہے اور اللہ کا باغی بےقصور ہے تو اس کا مطلب یہ نکلا کہ معاذ اللہ آپ کی شان اللہ سے بڑھ کر ہے اگر کوئی شخص آپ کی فانی اور مجازی حکومت سے انحراف کرے تو وہ قتل اور حبس دوام کا مستحق بنے اور احکم الحاکمین سے اگر کوئی بغاوت کرے تو اس کو وزیر بنانے میں کوئی مضائقہ نہیں یہ وسعت قلب نہیں بلکہ بےغیرتی ہے۔ اھ

اللہ تعالی ہمیں ہر قسم کے فتنے سے بچائے ۔۔۔ اللہ تعالی ہمیں عافیت نصیب فرمائے ۔۔۔
أخوكم عبد المعز حقمل
 

ابو داؤد

طالب علم
رکن
علماء ، جمہوریت کے تعاقب میں

جمع و ترتیب : مفتی عبد المعز حقمل

قسط : ۵

مولانا عبد الحمید سواتی رحمہ اللہ

صوفی عبد الحمید سواتی رحمہ اللہ مولانا سرفراز خان صفدر صاحب رحمہ اللہ کے بھائی ہیں ۔۔۔ آپ نے اپنی مشہور تفسیر معالم العرفان نے جابجا جمہوریت کی خبر لی ہے ۔۔۔۔ ہم چند مقامات پیش کر رہے ہیں ۔۔۔

اس سلسلے سے ہمارا مقصد فی الحال اتنا ہے کہ ساتھیوں تک کیفما اتفق حسب عنوان معلومات پہنچ جائیں ۔۔۔۔ اس لئے ھم زمانی ترتیب کا لحاظ نہیں رکھ پا رہے ۔۔۔ اگر ہم فی الحال بھی ان ترتیبات کا لحاظ رکھیں تو یہ کام التواء کا شکار ہو جائے گا ۔۔۔ فی الحال تو کسی طرح کسی حد تک کام ہو جائے۔۔۔ بعد میں ترتیب دینے والے ترتیب دیتے رہیں گے ۔۔۔۔

بہرحال ہم معالم العرفان سے چند مقامات پیش کر رہے ہیں

جمہوریت مساوات مرد و زن کا بہت ڈنکا بجاتی ہے ۔۔۔ اس سلسلے میں حضرت صوفی صاحب رحمہ اللہ سورہ آل عمران آیت نمبر 14 کی تفسیر میں فرماتے ہیں

عورت کی نمائندگی :

اب جمہوریت نے نیا گل کھلایا ہے۔ ہر سطح پر عورتوں کی نمائندگی بھی ضروری ہے۔ کہتے ہیں کہ مرد و زن ایک گاڑی کے دو پہیے ہیں۔ دونوں پہیوں کو برابر چلنا چاہئے ، ورنہ زندگی کی گاڑی جام ہو کر رہ جائے گی۔ لہذا مردوں کے ساتھ ساتھ عورتوں کو میونسپل کمیٹیوں کے ممبر بناؤ۔ صوبائی اور قومی اسمبلی میں نمائندگی۔ وزاررت و مشاورت کے قلمدان ان کے سپرد کرو۔ ان کے بغیر کام نہیں چل سکتا کس قدر گمراہی کی بات ہے۔ عورت سے مشورہ کرنے کی ممانعت نہیں۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) خود عورتوں کے مسائل میں اپنی عورتوں سے بات پوچھ لیتے تھے ، حضرت عمر (رض) مشورہ کرلیتے تھے ، مگر گھر میں ، اپنے مقام پر۔

مشورہ کے لئے اسمبلی اور مجلس مشاورت میں کھینچ لانا کہاں سے نکال لیا۔؟ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا النساء حبالۃ الشیطن۔ یعنی عورتیں شیطان کا جال ہیں۔ [ لا يصح عن النبي صلى الله عليه وسلم : عبد المعز ] انہی کے ذریعے شیطان لوگوں کو پھانستا ہے۔ اور پھر بڑے بڑے قبیح واقعات پیش آتے ہیں۔ بڑے بڑے سکینڈل بنتے ہیں۔ حتی کہ تاریخ کا رخ مڑ جاتا ہے۔

ترمذی شریف میں حضور خاتم النبیین (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد گرامی ہے۔ اذا کان امراء کم خیارکم۔ جب تمہارے حکام پسندیدہ قسم کے لوگ ہوں۔ واغنیاء کم سمحاء کم۔ اور تمہارے دولت مندلوگ سخی ہوں۔ وامورکم شوری بینکم۔ اور تمہارے کام آپس میں مشورہ سے طے ہوں۔ فظہرالارض خیر لکم من بطنھا تو ایسی حالت میں تمہارا زمین کے اوپر رہنا زمین کے اندر چلے جانے سے بہتر ہے۔ نیز فرمایا اگر اس کا الٹ ہوجائے یعنی اذا کان امراء کم شرار کم۔ جب تمہارے حاکم شریر قسم کے لوگ ہوں۔ واغنیاء کم بخلاء کم اور تمہارے مالدار لوگ بخیل ہوجائیں و امورکم الی نساء کم۔ اور تمہارے معاملات عورتوں کے ذریعہ طے پائیں۔ تو پھر سمجھ لو۔ بطن الارض خیر الکم من ظھرہا ، تمہارے لیے زمین کے اندر چلے جانا زمین کے اوپر رہنے سے بہتر ہے۔ یعنی تمہارا مر جانا ہی بہتر ہے۔ اس لئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ لوگوں کے لئے خواہشات (مرغوب چیزوں) کی محبت کو مزین کیا گیا ہے۔ اور ان خواہشات یا مرغوب چیزوں میں اول نمبر عورت کا ہے۔

جمہوریت عہدہ دینے میں دین کا کوئی لحاظ نہیں کرتی ۔۔۔ یہاں تک کہ نام نہاد اسلامی جمہوریت میں بھی کافر، اسمبلی کا ممبر بن سکتا ہے جو کہ کفار کو راز دار بنانے کی اعلی صورت ہے ۔۔۔۔ اس بارے میں صوفی صاحب اپنی تفسیر میں سورۃ آل عمران کی آیت نمبر 118 کی تفسیر میں فرماتے ہیں

کلیدی آسامیوں پر تقرری :

غیر مسلموں سے دوستی اور رازداری کرنے سے اس لئے منع فرمایا گیا کہ یہ لوگ اہل اسلام کو نقصان پہنچانے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتے۔ لہذا کوئی راز کی بات ان تک نہیں پہنچنی چاہئے۔ ایسا کرنے سے مسلمانوں کی ترقی اور تبلیغ میں رکاوٹ پیدا ہونے کا احتمال ہے۔ اسی لئے امام ابو بکر جصاص (رح) فرماتے ہیں کسی غیر مسلم کو اسلامی ملک میں کسی کلیدی عہدے پر فائز نہیں کرنا چاہئے۔ انہیں نہ وزیر بنانا چاہئے ، نہ مشیر اور نہ ہی پارلیمنٹ کا ممبر منتخب کرنا چاہئے۔ جمہوریت میں تو ایسا درست ہے مگر اسلامی نقطہ نظر سے ایسا ناجائز ہے ، کسی عیسائی ، یہودی ، ہندو یا قادیانی کو وزیر یا مشیر یا افواج کا کمانڈر بنا دیا جائے ، تو معاملہ بگڑ جائے گا۔

جب کارنیلس کو وزیر قانون بنایا گیا تھا تو ہم نے اسی وقت کہا تھا کہ جو شخص اسلامی قانون پر ایمان ہی نہیں رکھتا اس کو وزیر قانون کیسے بنایا گیا ہے ، پارلیمنٹ کا غیر مسلم ممبر اسلامی قانون کی قانون سازی میں کیسے حصہ لے سکتا ہے۔ مگر یہ بات حکومت کی سمجھ میں نہیں آرہی ہے۔

حضرت عمر (رض) کے دور میں حضرت حذیفہ (رض) نے اپنا کاتب ایک غیر مسلم کو مقرر کرنا چاہا تھا ، مگر آپ نے انکار کردیا تھا اور فرمایا جسے خدا نے دور کیا تم اسے کیوں قریب کرنا چاہتے ہو۔ شاہ ولی اللہ محدث دہلوی (رح) نے ازالۃ الخفاء میں لکھا ہے اور تفسیر احکام القرآن میں بھی یہ روایت موجود ہے۔ کہ وثیق نامی روم کا عیسائی حضرت عمر (رض) کا غلام تھا۔ بڑا ذہین اور اعلی درجے کا حساب دان تھا۔ آپ نے فرمایا اگر تم ایمان لے آؤ تو میں تمہیں کوئی ذمہ داری کا کام سونپ دوں۔ مگر وہ شخص ایمان نہ لایا۔ اور آپ نے اسے کوئی عہدہ نہ دیا۔ جب آپ زخمی ہوگے تو اسے پھر بلا کر ایمان اور عہدہ کی پیشکش کی مگر وہ رضامند نہ ہوا۔ آپ نے اسے آزاد کردیا مگر کوئی عہدہ نہ دیا۔ اس رویت سے دو چیزیں ثابت ہوتی ہیں۔ پہلی یہ کی اسلام میں جبر نہیں ہے۔ " لا اکراہ فی الدین " کسی کو زبردستی مسلمان نہیں بنایا جاسکتا اور دوسری بات یہ کہ کسی غیر مسلم کو اسلامی حکومت میں کوئی کلیدی آسامی پیش نہیں کی جاسکتی۔ اگر ایسا ہوگا تو اسلامی حکومت کے لیے لازما نقصان کا باعث ہوگا۔

مسلمانون کے ساتھ بد خواہی :

غیر مسلموں کی خصلت بیان فرماتے ہوئے فرمایا ودوا ماعنتم وہ تمہاری مشقت کو پسند کرتے ہیں۔ دوسرے مقام پر ہے " ولوشاء اللہ لا عنتکم " اگر اللہ چاہتا تو تمہیں مشقت یں مبتلا کردیتا۔ ان کی دلی خواہش یہ ہوتی ہے کہ مسلمان مصیبت میں گرفتار ہوں۔ اور دیکھو قد بدت البغضاء من افواھہم ان کی اسلام دشمنی کی بات بعض اوقات ان کی زبانوں پر بھی آجاتی ہے۔ وہ لاکھ کوشش کریں کہ ان کی اسلام دشمنی مخفی رہے مگر پھر بھی منہ سے کوئی نہ کوئی بات ایسی نکل جاتی ہے جو ان کی اندرونی خباثت کا مظہر ہوتی ہے۔

جمہوریت میں کامیابی کا معیار اکثریت ہے ۔۔۔ نام نہاد اسلامی جمہوریت میں بھی یہی معیار ہے۔۔۔ اس بارے میں صوفی صاحب سورہ مائدہ کی آیت نمبر سو میں فرماتے ہیں :

کثرت تعداد معیار حق نہیں

قلت و کثرت کا مسئلہ اکثر انسانی اذہان میں کھٹکتا رہتا ہے۔ یہاں پر اللہ تعالیٰ نے اس کی حقیقت کو بھی واضح کردیا ہے۔ ارشاد ہے قل اے پیغمبر ! آپ کہہ دیجیے لایستوی الخبیث والطیب جنیث اور طیب چیز برابر نہیں ہو سکتی۔ یعنی یہ ایک بڑی حقیقت ہے کہ پاک اور ناپاک چیز یکساں نہیں ولو ا عجبک کثرۃ الخبیث ۔ اگرچہ خبث کی کثرت تمہیں تعجب میں کیوں نہ ڈالے۔ اگر دنیا میں کفر ، شرک ، معاصی اور گندے نظام کا غلبہ ہو ، دنیا میں ملوکیت اور ڈکٹیٹر شپ کا دور دورہ ہو تو یہ نہ سمجھ لینا چاہئے کہ یہ اچھی اور خدا کی پسندیدہ چیزیں ہیں۔ بلکہ حقیقت یہ ہے کہ کلمہ حق ہی اچھا ہے اگرچہ دنیا میں اس کی تعداد کتنی ہی قلیل کیوں نہ ہو مثال کے طور پر اگر دنیا کا بیشتر حصہ حرام سے بھرا ہوا ہے اور حلال کا حصہ بالکل کم ہے تو حرام کی کثرت اس کے جواز کی دلیل نہیں ہے۔ بلکہ اللہ کے نزدیک حلال ہی پسندیدہ ہے خواہ وہ کتنی قلت میں ہو۔ اگر ایک مومن آدمی اپنی محنت کے ذریعے پانچ روپے رزق حلال کماتا ہے تو وہ اس سو روپے سے زیادہ بہتر ہیں جو رشوت کے ذریعے حاصل کئے گئے ہوں۔ اسی طرح جائز کمائی کے دس روپے سود کے ایک لاکھ روپے سے اچھے ہیں اور اللہ تعالیٰ کو یہ دس روپے ہی محبوب ہیں۔ اس طرح اگر دنیا میں اچھے اخلاق والے قلیل تعداد میں ہیں تو اکثریت کے مقابلے میں وہی کامیاب ہیں عقلمندوں کی قلیل تعداد بیوقوفوں کے جم غفیر سے بدرجہا بہتر ہے۔
یورپ کی جمہوریت کا بھی یہی حال ہے۔ اس میں انسانوں کی قابلیت کی بجائے ان کی تعداد کو معیار بنایا گیا ہے۔ جو زیادہ ووٹ حاصل کرے وہی کامیاب ہے اگرچہ خود ووٹر معیار سے گرے ہوئے لوگ کیوں نہ ہوں۔ علامہ اقبال مرحوم نے یہی تو کہا تھا۔
از مغز دو صد خو فکر انسانے نمی آید
یعنی دو سو گدھے ایک انسانی دماغ کا مقابلہ نہیں کرسکتے۔ اگرچہ وہ غائب اکثریت میں ہیں۔ ہاں اگر طیب اور پاک چیز کی کثرت ہے تو وہ نور علی نور ہے ۔ اور اگر گندگی چیز یا گندہ نظام اکثریت میں ہے تو اس سے گھبرانا نہیں چاہئے ، بری چیز بہرحال بری ہے ، محض اکثریت کی بناء پر اسے اچھائی کا سرٹیفکیٹ نہیں دیا جاسکتا۔ اس وقت پوری دنیا کی پانچ ارب آبادی میں سے سوا چار ارب کفر ، شرک اور معاصی میں مبتلا ہے۔ ہر طرف مبریلزم ، ملوکیت ، اور ڈکٹیٹر شپ کا دور دورہ ہے مگر کلمہ جامع نہیں ہے۔ ترکوں میں خلافت کے زمانے تک مسلمانوں میں کسی قدر اجتماعیت موجود تھی۔ مگر انگریز نے بالآخر اسے ختم کر کے چھوڑا۔ اب مسلمانوں کا اجتماعی نظام بالکل ناپید ہے ، حق مغلوب ہوچکا ہے اور باطل غالب ہے مگر یہ اس کی صداقت کی دلیل نہیں ہے۔ یاد رکھو ! اللہ تعالیٰ کے ہاں کلمہ حق ، ایمان ، اسلام اور پاکیزہ اخلاق ہی صداقت کا معیار ہیں ، اسی لئے فرمایا کہ ناپاک چیز بہرحال ناپسندیدہ ہے اگرچہ وہ تمہیں کتنا بھی تعجب میں ڈال دے انجام انہی لوگوں کا اچھا ہوگا جو حق پر ہیں خواہ وہ کس قدر قلیل تعداد میں ہوں۔

معیار شرافت

صحیحین کی حدیث میں آتا ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ایک مجلس میں تشریف فرما تھے قریب سے ایک اعلیٰ حیثیت کا آدمی گزرا۔ آپ نے صحابہ سے دریافت کیا ، یہ کیسا آدمی ہے۔ آپ کو بتایا گیا کہ یہ اشراف میں سے ہے۔ جہاں جائیگا ، ہر شخص اس کے لئے گھر کا دروازہ کھولے گا ، اگر کہیں نکاح کا پیغام دے گا تو فوراً قبول کیا جائے گا۔ لوگ اس کے رشتہ پر فخر کریں گے اگر یہ شخص کسی کی سفارش کرے گا تو قبول کی جائیگی۔ اسکے تھوڑی دیر بعد ایک دوسرے شخص کا گزر ہوا۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کے متعلق بھی دریافت فرمایا تو لوگوں نے عرض کیا کہ یہ فقراء میں سے ہے ، اس کو کوئی پوچھتا نہیں اور نہ کوئی اس کا احترام کرتا ہے۔ اگر کہیں جاتا ہے تو لوگ گھر کا دروازہ نہیں کھولتے۔ اگر یہ کسی کو نکاح کا پیغام دے تو کوئی قبول نہیں کرے گا۔ کسی کی سفارش کرے تو کوئی پرواہ نہیں کرتا۔ حضور نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ، یاد رکھو ! پہلے آدمی جیسے لوگوں سے اگر پوری زمین بھری ہوئی ہو تو اللہ کے نزدیک یہ دوسرا آدمی ان سب سے بہتر ہے ، کیونکہ اس کے ہاں عزت و شرف کا معیار دنیاوی جاہ و جلال اور کثرت نہیں بلکہ ایمان اور تقویٰ ہے۔

بہر حال فرمایا کہ آپ کہہ دیجیے کہ خبیث اور طیب برابر نہیں اگرچہ کثرت کتنی ہی خوش کن کیوں نہ ہو۔ ایک چلو بھر پاک پانی مٹکا بھر پیشاب سے بہتر ہے۔ حلال و حرام کا بھی یہی اصول ہے۔ حلال اور طیب کی قلیل مقدار حرام کی کثیر مقدار سے بہر صورت بہتر ہے۔ اللہ کے ہاں پسندیدگی کا معیار حق و صداقت ہے نہ کہ کثرت تعداد یا کثرت مقدار فرمایا فاتقوا اللہ یا ولی الالباب اسے صاحب عقل و خرد لوگو ! اللہ سے ڈر جائو۔ اس کی وحدانیت کے خلاف کوئی بات نہ کرو۔ اس کے بتلائے ہوئے پاکیزہ اصولوں پر عمل کرو لعلکم تفلحون تاکہ تمہیں فلاح و کامیابی نصیب ہوجائے۔ ان اصولوں پر عمل کرنے سے دنیا میں بھی کامیابی حاصل ہوگی اور آخرت میں بھی نجات کا دار و مدار اسی پر ہے۔

موجودہ جمہوریت جسے اسلامی جمہوریت بھی کہا جاتا ہے کو صوفی صاحب نے وہ جمہوریت قرار دیا ہے جس میں اللہ تعالی کے قانون کے خلاف فیصلے ہوتے ہیں ۔۔۔ سورہ انعام آیت نمبر 148 کی تفسیر میں جمہوریت کو حق کے مقابلے میں نری خواہش پرستی قرار دیتے ہوئے فرماتے ہیں :

خواہشات کا اتباع :

آگے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو مزید ہدایت جاری کی جارہی ہے ولا تتبع اھواء الذین کذبوا بایتنا ، آپ ان لوگوں کی خواہشات کا اتباع نہ کریں جنہوں نے ہماری آیتوں کو جھٹلایا۔ ظاہر ہے کہ حق اور خواہشات کی اتباع دو مختلف اور متضاد چیزیں ہیں۔ حق کو تسلیم کرنے والا خواہشات کے پیچھے نہیں جاسکتا ، اسی طرح جو نفسانی خواہشات کا پجاری ہے وہ حق کو قبول نہیں کرتا۔ جو لوگ اللہ کی آیات کو جھٹلانے والے ہیں ، انہوں نے حق کا انکار کردیا ہے اور ظاہر ہے کہ اب وہ خواہشات کے پیچھے لگے ہوئے ہیں انہوں نے اپنی خواہشات ہی کو اپنا معبود بنا لیا ہے ، جب کہ حق کی تلاش کے لیے اللہ کے فرمان اور نبی کی تعلیم کو پیش نظر رکھنا ضروری ہے ، مگر اس دور میں حق کو کون پوچھتا ہے ، نام نہاد جمہوریت کے اس دور میں تو عوام کی مرضیات اور نامرضیات پر چلنا پڑتا ہے ، جو کچھ ممبران کہہ دیں وہ قانون بن جاتا ہے ، اگرچہ وہ خدائی قانون سے متصادم ہی کیوں نہ ہو۔ اور پھر لطف کی بات یہ ہے کہ اس معاملہ میں عوام کو بھی دھوکا دیا جاتا ہے۔ منصب اقتدار پر قابض لوگ عوام کے نام پر عوام کو بیوقوف بنا کر اپنا الو سیدھا کرتے ہیں ، یہ سب خواہشات کے اتباع کا نتیجہ ہے۔ اللہ تعالیٰ نے تو بار بار فرمایا ولا تتبعوا خطوات الشیطان ، شیطان کے نقش قدم پر مت چلو۔ وہ تمہیں گمراہی کی طرف لے جانا چاہتا ہے۔ شیطان کے پیچھے چلنا یا خواہشات نفسانیہ کی اتباع ایک ہی چیز ہے ، اسی لیے فرمایا کہ آپ لوگوں کی خواہشات کی پیروی نہ کریں جنہوں نے ہماری آیات کو جھٹلایا۔

جمہوریت کو مسلمین کو بانٹنے والا اللہ تعالی کا عذاب قرار دیتے ہوئے سورۃ الاعراف کی آیت نمبر 168 میں فرماتے ہیں

" اکٹھا ہونا خدا تعالیٰ کی رحمت ہے جب کہ گروہوں میں بٹ جانا عذاب الٰہی ہے اپنے گردوپیش میں نظر اٹھا کر دیکھ لیں کوئی سیاسی پارٹی ہو یا مذہبی فرقہ ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کے لئے قطعاً تیار نہیں ہوتے سارے فساد کی جڑ خود یہ پارٹیاں ہیں جو دوسروں کو زیر کرنے کے لئے کا سہارا تو لیتے ہیں مگر اپنی اصلاح کرنے کی طرف توجہ نہیں دیتے ہر جماعت کو صرف اور صرف اقتدار کی ہوس ہے ہر وقت ایک دوسرے کی ٹانگ کھینچتے نظر آتے ہیں آج تک اسلام کے لیے کیا گیا ہے ؟ جب بھی ہوا احکام الٰہی سے اعراض ہی ہوا ہے انہوں نے غیر مسلم اقوام کے نظریات تو تسلیم کئے ہیں مگر دین کو اپنا نظریہ حیات کبھی تسلیم نہیں کیا۔

اب دن رات جمہوریت کے گیت گائے جا رہے ہیں حالانکہ یہ بھی مغرب کا لعنتی نظام ہے جس طرح ڈکٹیٹر شپ لعنت ہے اسی طرح مغربی جمہوریت بھی فتنہ ہے

بھائی ! اگر دنیا میں امن وامان چاہتے ہو تو اسلام کی طرف آو اس کا پیش کردہ نظام اپناو تمہارے دکھوں کا مداوا نہ کسی سوشلزم میں ہے اور نہ کیپٹلزم میں ہے اگر نجات چاہتے ہو تو اسلام کا سیاسی ، معاشرتی اور معاشی نظام اپنالو اور واعتصموا بحبل اللہ جمیعاً پر عمل پیرا ہوجاو اگر اس اصول کو ترک کردو گے تو یہودیوں کی طرح فرقہ بندی کی لعنت میں گرفتار ہو کر عذاب الٰہی میں مبتلا ہوگے۔"

سورۃ النمل کی آیت نمبر 32 میں جمہوریت کے خلاف اپنے بغض کا اظہار کچھ یوں کرتے ہیں

" آج کل دنیا میں جمہوریت (Democracy) کا بڑا چرجا ہے مگر یہ بھی اسلامی نظام حکومت سے مطابقت نہیں رکھتی ۔ یورپ کی ایجاد کردہ اس لعنت میں آدمیوں کو گنا تو جاتا ہے مگر تولا نہیں جاتا ۔ یعنی ہر عالم ، جاہل ، ہنر مند اور مزدور ایک ہی پلڑے میں ڈال دیئے جاتے ہیں اور پھر فیصلے کثرت رائے سے ہوتے ہیں ۔ اس نظام میں اہل اور نااہل میں کوئی امتیاز نہیں رکھا جاتا ، اور یہی اس نظام کی سب سے بڑی خرابی ہے۔ یہ کثرت رائے کا نتیجہ تھا کہ برطانوی پارلیمنٹ نے دو مردوں کے آپس میں لواطت [ اس لفظ کی بجائے عمل قوم لوط کے الفاظ کرنے چاہئیں : عبد المعز] کے فعل کو جرائم کی فہرست سے خارج کردیا ۔ کسی زمانے میں امریکہ والوں نے کثرت رائے سے یہ قانون منظور کیا تھا کہ شراب کی کشید ، فروخت اور خرید کوئی جرم نہیں ۔ مغربی جمہوریت کی اسی خرابی کے متعلق علامہ اقبال (رح) نے کہا تھا ؎
بترس از طرز جمہوری غلام پختہ کار ے شو
کہ از مغز دو صد خر فکر انسان نمی آید

ایسی جمہوریت سے دور بھاگو اور کسی اچھے اور پختہ کار آدمی کے تابعدار بن جائو کیونکہ دو سو گدھے مل کر بھی ایک انسانی دماغ کا مقابلہ نہیں کرسکتے۔

اسلامی شورانی نظام

ان دو مذکور نظاموں کے بر خلاف اسلامی نظام حکومت شورانی بھی ہے اور اس میں جمہوری قدریں بھی پائی جاتی ہیں ۔ مسلمانوں کا خلیفہ یا حاکم مستبد نہیں ہوتا ، نہ وہ اپنی من مانی کرتا ہے بلکہ ہر انتظامی معاملہ میں اپنی شوریٰ کے سامنے جوابدہ ہوتا ہے اسلام میں ارباب حل و عقد سے مشاورت اس قدر ضروری ہے کہ اللہ نے اپنے نبی کو بھی اس کا پابند بنا دیا ہے وشاورھم فی الامر فاذا عزمت فتوکل علی اللہ ( آل عمران : ٩٥١) ایسا معاملہ جس کے متعلق وحی نہ آئی ہو ۔ اپنے ساتھیوں سے مشورہ کرلیا کریں ، پھر جب باہمی مشاورت سے کسی نتیجے پر پہنچ جائیں تو اللہ تعالیٰ پر بھروسہ کرتے ہوئے وہ کام کر گزریں ۔ فقہائے کرام اس مسئلہ میں بحث کرتے ہیں کہ اسلامی نظام حکومت میں مشورہ لینا واجب ہے یا محض مستحب جس سے عمائدین کی دلجوئی ہو ۔ مفسر قرآن امام ابوبکر جصاص (رح) فرماتے ہیں کہ اس آیت کے تحت حاکم کے لیے مشورہ لینا واجب ہے۔ ظاہر ہے کہ خود پیغمبر اسلام کے لیے ضروری ہے ، تو دوسرے لوگ کس شمار میں ہیں البتہ کسی ایسے معاملہ میں مشورہ کی ضرورت نہیں ہے جس کو اللہ نے اپنی کتاب میں یا پیغمبر نے اپنی زبان سے حل فرما دیا ہو ، مثلاً شراب اور جوئے ، چوری اور ڈکیتی ، جھوٹ اور غیبت و زنا اور لواطت وغیرہ معاملات کے جواز یا عدم جواز کے لئے کسی مشورے کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ ان کا فیصلہ تو خود اللہ تعالیٰ نے کردیا ہے ، لہٰذا ایسے معاملات میں اگر ساری دنیا بھی مل کر کسی حلال کو حرام یا حرام کو حلال کرنا چاہے تو نہیں کرسکتی ، یہاں مشاورت نہیں چل سکتی۔ اسی طرح کرنی چاہئے کہ اس بات پر رائے شماری کرالی جائے کہ نماز پڑھنی چاہئے یا نہیں ، روزہ ضروری ہے یا نہیں ۔ حج ساقط ہو سکتا ہے یا نہیں یا زکوٰۃ کی ادائیگی ہونی چاہئے یا نہیں ۔ یہ طے شدہ معاملات ہیں اور ان پر کوئی سودے بازی نہیں ہو سکتی مشاورت ایسے معاملات میں ہوگی جہاں وحی الہی خاموش ہوگی یا پیغمبر کا فرمان موجو نہیں ہوگا ۔ یہی اسلامی نظام حکومت کی اصل روح ہے۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا فرمان مبارک ہے کہ آپس میں مشورہ کرلیا کرو کہ اس میں نقصان نہیں ہوتا بلکہ فائدہ ہی ہوتا ہے جب بہت سے لوگ مل کر اپنی اپنی رائے کا اظہار کرتے ہیں تو صحیح بات کھل کر سامنے آجاتی ہے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا یہ فرمان بھی ہے کہ جس نے مشورہ کیا ۔ وہ کبھی پشیمان نہیں ہوگا ۔ حضور نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) خود خلفائے راشدین اور اصحاب حل و عقد سے مشورہ طلب کیا کرتے تھے اور فیصلہ شدہ معاملات پر بھی عمل پیرا ہونے کا حکم ہے۔ وہاں مشورے کی ضرورت نہیں ۔ مشورہ کرنا سے تو موقع محل کی طوالت کے مطابق صلح و جنگ کے معاملات میں مشورہ کرو ۔ دوسری اقوام سے تعلقات کے قیام کے لئے آپس میں مشورہ کرو۔ اللہ نے قرآن میں اہل ایمان کی یہ تعریف فرمائی ہے وامر ھم شوریٰ بینھم ( الشوریٰ : ٨٣) ان کے معاملات آپس میں مشاورت سے طے پاتے ہیں۔

بس آج اتنا کافی ہے ان شاء اللہ ۔۔۔
اپنی دعاؤں میں یاد رکھیں
آپ کی دعاؤں کا طالب
أخوكم عبد المعز حقمل
 
Top