" تلخ حقیقت "

ایم راقم

وفقہ اللہ
رکن
امید ہے احباب اس نظم کو پڑھ کر ضرور اپنی راۓ پیش کریں گے !!!

" تلخ حقیقت "

بغض و حسد کی بھیر میں کیوں کھو گئے جواں.
اغیار کے ستم میں ہے آلودہ گلستاں۔

افلاس و بھوک چھائی ہے گلشن میں چارسو۔
خوشبو چُراۓ بیٹھا ہے گلشن کا باغباں۔

میں نے سمجھ لیا تھا جسے رازدانِ دل۔
کم قیمتی میں بِک گیا میرا وہ رازداں۔

ہاۓ خدارا لٹ گئی گلشن کی آبرو۔
آتی ہے گلستان سے پھولوں کی یہ فغاں۔

اخلاص اٹھ چکا ہے بغاوت کا زور ہے۔
ہر کوئی کر رہا ہے ریاکاری نیکیاں۔

ظلم و تشدد اور اہانت ہے عام عام۔
مظلوم رورہا ہے تو حاکم ہے بے زباں۔

غربت کا راج عام ہے میرے وطن میں آہ۔
مظلوم و مفلسوں کی بھی آتی ہیں ہچکیاں۔

یارب مرے وطن پہ کرم کی ہے التجا۔
غیروں نے شفقتوں کا چُرایا ہے سائباں۔

مولاۓ کل تو بیٹیوں کی آبرو بچا۔
رسمِ خلافِ دین ہیں درگور بیٹیاں۔

پنجابی اردو عربی ہو یا فارسی ہو سن ۔
سب کی خدا سمجھتا ہے سنتا ہے بولیاں۔

یہ سختیاں یہ دوریاں یہ ظلم کی ہوا۔
اعمالِ باطلہ کے سبب ہیں یہ حکمراں۔

مفلس غریب زادوں کی آہ و بکا تو سن
کہتے ہیں ایک وقت کی روٹی نہیں یہاں۔

ہے مِلّتِ عظیم کی بنیاد لا الہ۔
لیکن یہاں تو ظلم کی چلتی ہیں آندھیاں۔

اے نوجوانِ ملّتِ اسلامیہ بتا۔
وہ جذبۂِ بلالی و حیدر ہے اب کہاں۔

اغیار لٹ رہے ہیں وطن کی جو آبرو۔
تم کو بلا رہی ہیں وطن کی یہ بیٹاں۔

یکجان تم کو ہونا پڑے گا پھر ایک بار۔
اغیار کر نہ لیں کہیں مقبوض آشیاں۔

طاغوتی سرکشی کو تو شمشیر سے مٹا۔
وہ بدر اور حنین و اُحد کا دکھا سماں ۔

نصرت کو تیری اتریں گے رب کے ملائکہ۔
شمشیر سے مٹا دے تو اغیار کا نشاں۔

یہ دین کا ہے قَلْعَہ جو تحفہ ہمیں ملا۔
علّامہ اور جناح کی مت بھول نیکیاں۔

یا رب مرے وطن پہ تو فصلِ بہار رکھ۔
اس گلشنِ بہار پہ آۓ نہ پھر خزاں۔

ملکِ عظیم کے لیے راقم کی ہے دعا۔
یہ مرکزِ توحید کا دائم رہے نشاں۔

ایـــᷟـــــم راقـــᷟــͥــᷭــⷽــᷢــــم نقشـــͥــᷘــᷡــⷽــⷡــⷩــᷤــᷭــⷽــᷡـــــبندی !!!!
 
Top