لبیک یا اقصیٰ

محمدداؤدالرحمن علی

خادم
Staff member
منتظم اعلی
مسجد اقصیٰ:
مسجد اقصیٰ کو ”المسجد الأقصی“ اور ”الحرم القدسی الشریف“ وغیرہ سے جانا جاتا ہے۔مسجد اقصیٰ فلسطین کے شہر یروشلم (القدس) میں واقع ہے۔مسجد اقصیٰ روئے زمین پر تعمیر ہونے والی دوسری مسجد ہے۔
سألت رسول اللہ ﷺ عن أول مسجد وضع فی الأرض، قال المسجدالحرام، قلت ثم أی؟ قال المسجد الأقصی، قلت کم بینھما قال أربعون عاما (صحیح مسلم، کتاب المساجد ومواضع الصلاۃ)
’’میں نے کہا: اے اللہ کے رسولﷺ! اس روئے زمین پر سب سے پہلے کون سی مسجد تعمیر کی گئی؟ آپﷺ نے جواب دیا: مسجد حرام۔ میں نے پھر سوال کیا: اس کے بعد کون سی مسجد تعمیر کی گئی؟ آپ ﷺنے فرمایا: مسجد اقصیٰ۔ میں نے کہا: ان دونوں کی تعمیر کے دوران کل کتنا وقفہ ہے؟ آپﷺ نے فرمایا: چالیس سال ۔‘‘
اس حدیث مبارکہ سے تین باتیں معلوم ہوئیں
۱۔ اس زمین پر سب سے پہلی مسجد جو کہ اللہ کی عبادت کے لیے تعمیر کی گئی ‘مسجد حرام ہے ۔
۲۔ دوسری مسجد جو کہ اللہ کی عبادت کے لیے تعمیر کی گئی ‘مسجد أقصیٰ ہے ۔
۳۔ان دونوں مساجد کی تعمیرکے درمیان چالیس سا ل کا وقفہ ہے ۔
مسجد اقصیٰ کی فضیلت:
مسجد اقصیٰ کے ارد گرد کی زمین بابرکت ہے۔ارشاد باری تعالیٰ ہے۔

سبحن الذی أسری بعبدہ لیلا من المسجد الحرام الی المسجد الأقصی الذی بارکنا حولہ (الاسراء:۱)
’’پاک ہے وہ ذات جو لے گئی اپنے بندے کو ایک رات میں مسجدحرام سے مسجد اقصی تک کہ جس کے ارد گرد ہم نے برکت رکھ دی ہے ۔‘‘
اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ مسجد أقصی کے ساتھ ساتھ اس کے ارد گرد کی سرزمین یعنی فلسطین و شام کا علاقہ بھی بابرکت ہے۔
مسجد اقصیٰ مسلمانوں کا قبلہ اول ہے:
کعبہ شریف کی طرف رُخ کرکے نماز کے حکم سے قبل مسلمانوں نے مسجد اقصیٰ کی طرف رخ کرکے نماز ادا کی۔
حضرت براء بن عاذب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :

’’ہم نے نبی کریم ﷺ کے ہمراہ 16 یا 17 ماہ بیت المقدس کی طرف رخ کرکے نماز پڑھی۔پھر اللہ تعالیٰ نے ہمیں بیت اللہ کی طرف رُخ کرنے کا حکم دیا۔‘‘(صحیح بخاری:۴۴۹۲)
مسجد اقصیٰ سرزمین محشر:
مسجد اقصی کی ایک فضیلت یہ بھی ہے کہ یہ جس سرزمین پر واقع ہے وہ سرزمین حشر کی جگہ ہے۔
حضرت میمونہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ میں نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول(ﷺ)! ہمیں بیت المقدس کے بارے میں بتلائیے؟ تو آپﷺ نے فرمایا:

وہ سرزمین حشر کی جگہ ہے۔( ابن ماجہ: ۱٤٠٧)
مسجد اقصیٰ معراج رسولﷺ کی ایک منزل:
مسجد اقصیٰ کی ایک یہ فضیلت بھی قابل ذکرہے کہ جس وقت اللہ تعالی نے خاتم النبیینﷺ کو عظیم اعزاز معراج کی صورت میں عطاء فرمایا، جو ایک عظیم معجزہ ہے، سفر میں ایک اہم منزل وہ پڑاؤ تھاجو آپ نے مسجد اقصیٰ میں فرمایا، پھریہی وہ جگہ ہے جہاں سے آپ کو آسمان کی بلندیوں کی طرف لیجایا گیا۔
حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ کی روایت ہےکہ نبی کریمﷺ فرماتے ہیں:

’’میرے پاس براق لایا گیا، یہ ایک سفیدرنگت کی لمبی سواری تھی ، گدھے سے کچھ بڑی اورخچرسے کچھ چھوٹی، اس کا ایک قدم انتہائے نظر کی مسافت پر پڑتا تھا۔ نبی کریمﷺ فرماتے ہیں: میں اُس پر سوار ہوا، یہاں تک کہ میں بیت المقدس پہنچ گیا، وہاں پہنچ کر اس سواری کواس حلقے سے باندھ دیا جس حلقے سے دیگر انبیاء کرام علیہم السلام (اپنی سواریاں)باندھتے ہیں، پھر میں مسجد میں داخل ہوا، اس میں دورکعات ادا کیں، پھر باہر نکل آیا، حضرت جبرئیل علیہ السلام دودھ اورشراب کا ایک الگ الگ برتن میرے پاس لائے، میں نے ان میں سے دودھ والا برتن لے لیا،اس پر حضرت جبرئیل علیہ السلام نے فرمایا: آپ نے فطرت ( کے عین مطابق چیز کو) پسند فرمایا ہے۔ اس کے بعد وہ ہمیں آسمان کی طرف لے کر چل پڑے۔‘‘(مسلم:۱۶۲)
مسجد اقصیٰ سے حج کا عمرہ کا احرام باندھنا:
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ حضرت امّ سلمہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ انھوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا:

مَنْ أَھَلَّ بِحَجَّةٍ، أَوْ عُمْرَةٍ مِنَ الْمَسْجِدِ الْأَقْصَى إِلَى الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ غُفِرَ لَھُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِھِ، وَمَا تَأَخَّرَ۔ أَوْ۔ وَجَبَتْ لَھُ الْجَنَّةُ۔ (سنن ابی داؤد: ۱۷۴۱)
”جس نے مسجد اقصی سے مسجد حرام کے لیے حج یا عمرہ کا احرام باندھا، اس کے اگلے اور پچھلے گناہ معاف کردیے جائیں گے۔ یا۔ جنت اس کے لیے واجب ہوجائے گی“۔
مسجد اقصیٰ کی طرف سفر کرنا:
مسجد أقصیٰ ان تین مساجد میں شامل ہے کہ جن کا تبرک حاصل کرنے کے لیے یا ان میں نماز پڑھنے کے لیے یا ان کی زیارت کے لیے سفر کو مشروع قرار دیا گیا ہے ۔آپ کا رشاد ہے :

لا تشد الرحال الاالی ثلاثۃ مساجد مسجدی ھذا و مسجد الحرام و المسجد الأقصی (صحیح بخاری‘کتاب الجمعۃ‘باب فضل الصلاۃ فی مسجد مکۃ و المدینۃ )
’’تین مساجد کے علاوہ کسی جگہ کا قصد کر کے سفر کرنا جائز نہیں ہے میری اس مسجد کا یعنی مسجد نبوی کا ‘مسجد حرام کا اور مسجد أقصیٰ کا۔‘‘
مسجد اقصیٰ میں نماز کا ثواب:
حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:

صَلَاةُ الرَّجُلِ فِی بَیْتِھِ بِصَلَاةٍ، وَصَلَاتُھُ فِی مَسْجِدِ الْقَبَائِلِ بِخَمْسٍ وَعِشْرِینَ صَلَاةً، وَصَلَاتُھُ فِی الْمَسْجِدِ الَّذِی یُجَمَّعُ فِیھِ بِخَمْسِ مِائَةِ صَلَاةٍ، وَصَلَاتُھُ فِی الْمَسْجِدِ الْأَقْصَى بِخَمْسِینَ أَلْفِ صَلَاةٍ، وَصَلَاتُھُ فِی مَسْجِدِی بِخَمْسِینَ أَلْفِ صَلَاةٍ، وَصَلَاةٌ فِی الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ بِمِائَةِ أَلْفِ صَلَاةٍ۔(سنن ابن ماجہ: 1413 )
”ایک آدمی کی ایک نماز اپنے گھر میں، (ثواب میں ) ایک نماز کے برابر ہے، اس کی نمازمحلے کی مسجد میں، پچیس نمازوں کے برابر ہے، اس کی نماز جامع مسجد میں، پانچ سو نمازوں کے برابر ہے، اس کی نماز مسجد اقصی میں، پچاس ہزار نمازوں کے برابر ہے، (اسی طرح) اس کی نماز میری مسجد (مسجد نبوی) میں، پچاس ہزار نمازوں کے برابر ہے اور اسی شخص کی ایک نماز مسجد حرام میں، ایک لاکھ نمازوں کے برابر ہے“۔
مسجد اقصیٰ کی زیارت
حضرت ابو ذرغفاری رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ ہم نے رسول اللہﷺ کی موجودگی میں اس بات کا مذاکرہ کیا کہ آیا مسجد اقصی افضل ہے یا مسجد نبوی؟ تو رسول اللہﷺ نے فرمایا: میری اس مسجد میں ایک نماز ، مسجد اقصی میں چار نمازوں سے زیادہ فضیلت رکھتی ہے، اور سچ تو یہ ہے کہ وہ بھی بہت ہی اچھی نماز کی جگہ ہے۔ اوریہ بھی حقیقت ہے کہ کسی بندے کو اگر وہاں زمین کا فقط گھوڑے کی رسی کی جگہ جتنا ٹکڑا مل جائے کہ جس کی بدولت وہ وہاں رہ کر بیت المقدس کی زیارت سے مشرف ہوسکے تو یہ بات اس کے لیے پوری دنیا سے بہترہوگی‘‘۔ (مستدرکِ حاکم۔ وافقہ الذھبی)
مسجد اقصیٰ اور دجال سے حفاظت:
مسجد اقصیٰ کا یہ بھی امتیاز ہے کہ اس سرزمین کے اہل ایمان دجال سے حفاظت کے لیے اس میں پناہ لیں گے اور دجال اس میں داخل نہیںہوسکے گا۔
رسول کریمﷺ کا ارشادہے:

(دجال کی) ’’علامت یہ ہے کہ وہ چالیس دن زمین پر رہے گا، ہر پانی کے گھاٹ تک اس کی حکومت پھیل جائے گی، البتہ چار مسجدوں تک وہ نہیں آسکے گا: کعبہ، مسجد نبوی، مسجد اقصیٰ اور طور‘‘۔ (مسند احمد، مجمع الزوائد، رجالہ رجال الصحیح)
مسجد اقصیٰ اور حضرت سلیمان علیہ السلام کی دعا:
حضرت عمرو رضی اللہ تعالی عنہ نبی کریم ﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ: جس وقت حضرت سلیمان بن داؤد علیہما السلام بیت المقدس کی تعمیر سے فارغ ہوچکے تو حضرت سلیمان علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ سے تین دعائیں کیں:
۱۔ فیصلہ کرنے کی ایسی صلاحیت عطا فرمائیں کہ جو بھی فیصلہ کریں وہ اللہ تعالیٰ کے فیصلے کے مطابق ہو
۲۔الله تعالیٰ ایسی بادشاہت عطا فرمائیں کہ ان کے بعد ویسی بادشاہت کسی کو بھی نہ ملے
۳۔ جو شخص بھی اس مسجد کی طرف کسی بھی اور مقصد کے بجائے، صرف اس میں نماز پڑھنے کے لیے آئے تو وہ اپنے گناہوں سے ایسے پاک صاف کردیاجائے جیسا کہ وہ اس دن تھا جب اسے ماں نے جنا تھا۔

یہ فرما کر نبی کریمﷺ نے فرمایا: پہلی دو باتیں تو ان کی پوری کردی گئی ہیں اور مجھے امید ہے کہ تیسری بات بھی قبول کر لی گئی ہوگی۔(سنن النسائی۔ سنن ابن ماجہ)
مسجد اقصیٰ مسلمانوں کی سر زمین:
مسجد اقصیٰ ، بیت المقدس اور ہمارے نبیﷺ کے معراج و اسراء کی سرزمین تاریخ کے اکثر زمانوں میں اسلامی سرزمین کے طور پر جانی جاتی رہی سوائے اُن چند زمانوں کے جب اس پر کچھ قاتل اور ظالم لوگ مسلط ہوگئے۔ چنانچہ دورِ محمدی سے ایسی ہی ایک قوم تھی جس کا بادشاہ جالوت تھا اور پھر اللہ تعالیٰ نے حضرت داود علیہ السلام کے ہاتھوں اس جابر بادشاہ کو قتل کرایا ۔ اسی طرح بعد کے متعدد زمانوں میں رومی اور یورپ کے صلیبی اور اس دور میں یہودی ایسے ہی ظالم و قاتل لوگ ہیں جس عارضی طور پر اس مقدس مقام پر قابض و مسلط ہیں۔ اور ایک وقت آئے گا کہ ان کے ناپاک ہاتھوں سے اس مقدس مقام کو آزادی ملے گی۔ ان شاء اللہ
مسجداقصیٰ کے لیے اللہ تعالیٰ نے ہمیشہ یہی مقدر فرمایا کہ اسے مسلمان، ظالموں سے آزاد کرائیں۔ ایک وقت وہ تھا کہ حضرت موسی علیہ السلام کی وفات کے بعد اُن کے خلیفہ حضرت یوشع بن نون علیہ السلام کی قیادت میں اُس وقت کے اہل ایمان نے اس مبارک مسجد اور مبارک علاقے کو فتح کیا۔ چنانچہ سورۃ البقرۃ آیت نمبر۵۸ میں بیان ہوا ہے کہ:

’’اور جب کہا ہم نے : تم لوگ اس بستی میں داخل ہوجاؤ اور پھر وہاں جو چاہو مزے سے کھاؤ، اور اس کے دروازے سے سجدہ کرتے ہوئے داخل ہونا‘‘
امام قرطبی مفسر فرماتے ہیں کہ: اس بستی سے مراد بیت المقدس ہے اور اس کی آزادی میں جو اہل ایمان مجاہدین شریک تھے، اُن میں ایک حضرت داؤد علیہ السلام بھی تھے جنہوں نے جالوت نامی ظالم بادشاہ کو قتل کیا تھا اوراسی عمل کی بدولت جالوت اوراس کے لشکر کو شکست ہوئی تھی۔ پھر حضرت داؤد علیہ السلام کے بعد ان کے بیٹے حضرت سلیمان علیہ السلام آئے اور اللہ تعالی نے ارشاد فرمایا:
سلیمان، داؤد کا وارث بنا(سورۃ النمل:۱۶)
اس زمانے میں بھی یہ بیت المقدس اُس وقت کے اہل ایمان کا ہی دارالحکومت تھا۔ یہودیوں کا دارالحکومت نہیں تھا۔(نقش جمال،از مدثر جمال تونسوی)
مسجد اقصیٰ کے بارے میں چند معلومات:
۱۔مسجد اقصیٰ کا ایک اہم حصہ وہ ہے جسے آج کل ’’دیوارِ گریہ‘‘ کا نام دیا جاتا ہے۔ یاد رہے کہ یہ مسجد اقصیٰ کی جنوب مغرب جانب کی دیوار ہے اور یہ بھی اسلامی مملوکات میں سے ہے۔ اس اسرائیلی جارحیت و غاصبیت سے پہلے کبھی بھی اس کے بارے میں یہودیوں کا کوئی دعویٰ سامنے نہیں آیاتھا۔ اور پھر جب اس زمانے کے یہودیوں نے ایسا دعویٰ کھڑا کیاتو امت مسلمہ نے ان کے اس جھوٹے دعوے کو ردکیا حتی کہ 1930ء میں اقوام متحدہ نے بھی یہ فیصلہ دیا کہ ’’یہ دیوار صرف اور صرف مسلمانوں کی ہی ملکیت ہے اور یہ مسجد اقصیٰ کا ہی ایک حصہ ہے جسے اس سے جدا نہیں کیا جاسکتا اور یہ اسلامی اوقاف کی ملکیت میں ہی ہے۔‘‘
۲۔مسجد اقصیٰ: اسلامی تاریخ کے اکثر اَدوار میں اسلامی حکومت کے ماتحت ہی رہی ہے۔ حتی کہ اس شہر میں موجود کنیسے، اور دیگر یہودی و عیسائی ایک اسلامی ریاست کے ماتحت کے ذمی بن کر رہے اور اسلامی حکومت ہی ان کے جان و مال کی محافظ و ضامن رہی ہے اور اس شہر میں جس قدر امن و امان اور عدل وانصاف اسلامی اَدوار حکومت میں رہا ہے، وہ پوری تاریخ میں اپنی مثال آپ ہے۔ اور یہ سب ایسے حقائق ہیں جس پر علمائے تاریخ کا سب کا اتفاق ہے۔
۳۔مسجد اقصیٰ پر اسلامی تاریخ میں پہلی بار سنہ ۴۹۲ھ ، ماہ شعبان کی تئیس تاریخ جمعہ کے دن صلیبیوں نے قبضہ کیا ، کم و بیش ستر ہزار مسلمانوں کو قتل کیا اور ان میں مسلمانوں میں سے اکثر ایسے تھے جو اپنے وطن کو چھوڑ کر علم و عبادت وغیرہ کے لیے اس مقدس مقام پر آباد ہوئے تھے۔ پھر تقریباً 91سال تک صلیبی اس مقدس مقام پر قابض رہے اور اس قبضے کے دوران انہوں نے اس مقدس مقام کی بارہا بے حرمتی کی اور مسجد اقصیٰ کے تاریخی آثار و نقوش کو مٹانے اور تبدیل کرنے میں لگے رہے۔ چنانچہ اس مسجد اقصیٰ کے ایک طرف انہوں نے ایک کنیسہ بنایا اور ایک جانب اپنے گھڑ سواروں کے لیے رہائش گاہ اور ذخیرہ اندوزی کے لیے ایک گودام بنایا ، اور نماز پڑھنے والی جگہ خنزیر اور دیگر جانور بسا دیئے گئے اور قبہ الصخرہ کے اوپر انہوں نے اپنی سب سے بڑی صلیب نصب کردی تھی۔
مسجد اقصیٰ: اسلامی تاریخ کے اکثر اَدوار میں اسلامی حکومت کے ماتحت ہی رہی ہے۔ حتی کہ اس شہر میں موجود کنیسے، اور دیگر یہودی و عیسائی ایک اسلامی ریاست کے ماتحت کے ذمی بن کر رہے اور اسلامی حکومت ہی ان کے جان و مال کی محافظ و ضامن رہی ہے اور اس شہر میں جس قدر امن و امان اور عدل وانصاف اسلامی اَدوار حکومت میں رہا ہے، وہ پوری تاریخ میں اپنی مثال آپ ہے۔ اور یہ سب ایسے حقائق ہیں جس پر علمائے تاریخ کا سب کا اتفاق ہے۔
۴۔مسجد اقصیٰ پر اسلامی تاریخ میں پہلی بار سنہ ۴۹۲ھ ، ماہ شعبان کی تئیس تاریخ جمعہ کے دن صلیبیوں نے قبضہ کیا ، کم و بیش ستر ہزار مسلمانوں کو قتل کیا اور ان میںمسلمانوں میں سے اکثر ایسے تھے جو اپنے وطن کو چھوڑ کر علم و عبادت وغیرہ کے لیے اس مقدس مقام پر آباد ہوئے تھے۔ پھر تقریباً 91سال تک صلیبی اس مقدس مقام پر قابض رہے اور اس قبضے کے دوران انہوں نے اس مقدس مقام کی بارہا بے حرمتی کی اور مسجد اقصیٰ کے تاریخی آثار و نقوش کو مٹانے اور تبدیل کرنے میں لگے رہے۔ چنانچہ اس مسجد اقصیٰ کے ایک طرف انہوں نے ایک کنیسہ بنایا اور ایک جانب اپنے گھڑ سواروں کے لیے رہائش گاہ اور ذخیرہ اندوزی کے لیے ایک گودام بنایا ، اور نماز پڑھنے والی جگہ خنزیر اور دیگر جانور بسا دیئے گئے اور قبہ الصخرہ کے اوپر انہوں نے اپنی سب سے بڑی صلیب نصب کردی تھی۔
۵۔مسجد اقصیٰ کو جس وقت سلطان صلاح الدین ایوبی رحمہ اللہ تعالیٰ نے آزاد کرایا تو اس جامع مسجد کی اصلاح و تعمیر نو کا حکم دیا تاکہ یہ واپس اسی اصلی حالت پر آجائے جس حالت پر صلیبیوں کے قبضے سے پہلے تھی۔ پھر انہوں نے حلب سے ایک شاندار منبر منگوایا، جس کے بنانے کا حکم اس فتح سے بیس سال پہلے سلطان نورالدین زنگی رحمہ اللہ تعالیٰ نے دیا تھا۔ چنانچہ پھر وہ منبر مسجد اقصیٰ میں رکھ دیا گیا تاکہ خطیب اس پر کھڑے ہو کر جمعہ کے دن خطبہ دیا کرے ۔ پھر یہ منبر کئی صدیوں تک باقی رہا تاآناکہ سنہ 1969ء ، اگست کی اکیس تاریخ کو یہودیوں نے اس کو آگ لگائی اور اسی کے ساتھ انہوں نے نماز پڑھنے والی جگہ جسے المصلی الجامع کہتے ہیں، اسے بھی آگ لگائی۔
۶۔مسجد اقصیٰ کو جب سنہ ۱۳۸۷ھ مطابق۱۹۶۷ء میں یہودیوں نے ہتھیایا تو انہوں نے سب سے پہلے دیوارِ براق پر قبضہ جمایا اور وہاں کا نقشہ و نگار تبدیل کردیا اور وہاں کے رہنے والے سب مسلمانوں کو وہاں سے بھگا دیاگیا۔ دیواربراق اوراس کے آس پاس مسلمانوں کی جو یادگار چیزیں انہوں نے ختم کیں اس میں چار جا معات، ایک مدرسہ افضلیہ تھا اور بھی متعدد اسلامی اوقاف تھے اور اس سب کا مقصد یہ تھا کہ یہاں موجود تمام اسلامی اوقاف اور یادگاروں کا نام و نشان مٹا دیاجائے اور پھر اس پر اپنے حق کا جھوٹا دعویٰ کھڑا کیاجائے۔
۷۔مسجد اقصیٰ کو گرانے کے لیے یہودی قابضین وقتا فوقتا مختلف چھوٹے بڑے حربے اختیا ر کرتے رہتے ہیں۔ حتی کہ اسی کی پیش بندی کے لیے اب تک وہ فلسطین اور خاص کر بیت المقدس اور مسجد اقصیٰ کے آس پاس میں کئی سڑکوںاور گراؤنڈز وغیرہ کے اسلامی شناخت والے نام بھی تبدیل کرچکے ہیں۔ چنانچہ جس جگہ مسجد اقصیٰ قائم ہے اس جگہ کا نام انہوں نے ’’جبل ہیکل‘‘ یعنی ہیکل کا پہاڑ رکھ دیا ہے جب کہ اس سے پہلے یہ پہاڑی جگہ ’’جبل بیت المقد س یا جبل مسجد اقصی‘‘ کے نام سے جانی پہچانی جاتی رہی ہے۔ یہ سب اس لیے ہے تاکہ اس مبارک مسجد سے ہر قسم کی اسلامی شناخت ختم کی جائے۔ لیکن ان کی یہ مذموم کاوشیں بالآخرناکام ہوں گی۔ ان شاء اللہ(نقش جمال،از مدثر جمال تونسوی)
مسئلہ فلسطین:
مسجدِ اقصیٰ اور مسئلۂ فلسطین، فقط اہل فلسطین کا مسئلہ نہیں ہے، بلکہ یہ ایک اسلامی مسئلہ اور اسلامی قضیہ ہے اور جب سے اس کی چابیاں حضرت سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے سپرد کی گئیں تب سے دُنیا کے تمام مسلمانوں کا حق اِس سے جڑا ہوا ہے، اور یہ مسلمان ہی تھے جنہوں نے صلیبی یلغار کے وقت اپنے جان و مال کی قربانی دے کر اس کی حفاظت بھی کی اور اس کو آزاد بھی کرایا، چنانچہ ایک اسلامی اوقاف کا حصہ ہے اور مسلمانوں کے سپرد کی گئی امانت ہے۔
مسجد اقصیٰ مسلمانوں کی ہی ہے، چاہے اس پر اَغیار کا قبضہ تھوڑے وقت کے لیے رہے یا زیادہ وقت کے لیے۔ انجام کار یہ حق متقین و مسلمین کا ہی ہے، اور اگرچہ آج اس پریہودی قابض ہے مگر اللہ تعالیٰ کے حکم سے بہر حال یہ اہل اسلام اور اہل ایمان کے پاس ہی لوٹ کر آئے گی۔ اللہ تعالیٰ یہ سرزمین اس امت کا حق بنائی ہے جس کے سب سے مقدس دین اور اللہ تعالیٰ کے ہاں سب سے مقبول دین ہے، اور یہ امت محمدیہ ہی ہے جسے نبی آخر الزمان خاتم النبیینﷺ کی بدولت یہ نعمت نصیب ہوئی ہے۔ رومیوں اور صلیبیوں کی یلغار اور مسجد اقصی کی بے حرمتیوں کے وقت یہ مسلمان ہی تھے جنہوں نے اس کے لیے اپنے جان و مال کو فدا کیا، اگر یہ یہودیوں کا حق ہے توپھر تاریخ کے ہر مشکل دور میں یہ یہودی کہاں غائب ہوجاتے ہیں؟ اور کیوں کر ایسا ہوا کہ ہر مشکل وقت میں امت مسلمہ نے ہی اس مقدس مقام کی پہرے داری کی اوراس کے آداب و حرمات کو ملحوظ رکھا!!
مسجد اقصیٰ اہل اسلام کی ہے، اس پر تاریخ بھی گواہ ہے اور زمینی و آسمانی حقائق بھی۔ یہ سرزمین اسلامی امانت ہے اور کسی بھی صورت یہ جائز نہیں ہے کہ یہ مقدس سرزمین اس بدبخت قوم کے حوالے کردی جائے جو انبیاء کرام علیہم السلام کی قاتل ہے ۔ اس لیے مسلمانوں کا یہ عہد ہے کہ اس کا ایک چپے سے بھی اپنے سے دستبرداری نہیں کی جائے گی اور نہ ہی کوئی ایسا عہد و پیمان قبول کیاجائے گا کہ یہودی اس مقدس سرزمین کے رئیس اور اہل اسلام کے سردار قرار پائیں!!
مسجد اقصیٰ مسلمانوں کو دینی و مذہبی میراث ہے، اس لیے اس کی امامت بھی مسلمانوں کے ہاتھ میں ہونی چاہیے، نبی کریمﷺ کی ترغیبات بھی اس پر موجودہیں اور آپﷺ نے صحابہ کرام کے دلوں میں اس کی محبت پیوست کی اور انہیں بیت المقدس فتح ہونے کی بشارت بھی عنایت فرمائی ۔یہ سب کچھ اسی حقیقت کا اظہار ہے کہ یہ مسجد اور یہ مبارک سرزمین مسلمانوں کی دینی و مذہبی میراث ہے۔ اس لیے مسجد اقصی اور بیت المقدس کی محبت کے چراغ ہمیشہ اہل اسلام کے دلوں میں روشن رہیں گے۔ یہی ہمارا عقیدہ ہے۔ اور دشمن کبھی مسلمانوں کے دلوں سے اس کی محبت ختم نہیں کرسکتے اور ان شاء اللہ ، قیامت تک یہ محبت باقی رہے گی کیوں کہ یہ سرزمین مسلمانوں کا ایک اہم ٹھکانہ اور طائفہ منصورہ کا مرکز ہے اور دنیا ماضی میں بھی اس کے مناظر دیکھ چکی ہے اور مستقبل میں بھی یہ حقیقت پوری ہو کررہے گی اور دنیا اس کا مشاہدہ کرکے رہی گی۔ ان شاء اللہ(نقش جمال،از مدثر جمال تونسوی)
مسجد اقصیٰ اور سلطان صلاح الدین ایوبیؒ:
روایت ہے کہ سلطان صلاح الدین ایوبیؒ مسکراتے نہیں تھے۔ کسی نے پوچھا :سلطان معظم!آپ مسکراتے کیوں نہیں؟
سلطان صلاح الدین ایوبیؒ نے جواب دیا:

’’حضرت محمد ﷺ جہاں سے معراج پر گئے۔جس کو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فتح کیا۔ وہ القدس دشمنوں کے قبضہ میں ہے تو صلاح الدین ایوبیؒ کیسے ہنس سکتا ہے۔‘‘
القدس مسلمانوں کا تھا ،مسلمانوں کا ہے اور مسلمانوں کا ہی رہے گا۔القدس مسلمانوں کا قبلہ اول ہے اس کی حفاظت کے لیے ہم اپنی جی جان لگادینگے۔
ہماری دھڑکن القدس ہے۔ہماری رگوں میں دوڑنے والا خون القدس ہے۔ہماری سانسیں القدس ہیں۔ہماری پیشانیاں القدس میں ان شاءاللہ ضرور ایک دن مسجد اقصیٰ میں رب کے سامنے سر بسجود ہونگی۔
نوجوانوں کے لیے پیغام:
میں امت محمدﷺ سے کہنا چاہتاہوں کہ:
القدس صرف ارض حرم نہیں بلکہ نبیوں کا وطن ہے۔ یہ وہ مسجد ہے جہاں نبی اکرم ﷺ کو امام الانبیاء کا منصب ملا۔
تمہاری ہی جراتوں سے ارض القدس گونجا تھا۔
یاد رکھو!
ہمیں حضرت عمر کی للکار بننا ہے
صلاح الدین کی گویا تلوار ببنا ہے
ہمیں عثمانی سلطنت کا شاہکار بننا ہے
تمہیں لشکر سے اٹھ کر سپہ سالار بننا ہے
تمہیں القدس کی آواز بننا ہے
تمہیں القدس کی پکار بننا ہے
زبان کی للکار سے ہو،قلم کی گفتار سے ہو،دعا کی رفتار سے ہو
ہمیں بس القدس کا چوکیدار بننا ہے،القدس کی عظمت و حرمت کا پہریدار بننا ہے۔
لبیک یا اقصیٰ ،لبیک یا ارض مقدس
ہمارے دل القدس کے ساتھ دھڑکتے رہیں گے ہماری زبانے تا دم آخر کہتی رہیں گے
لبیک یا اقصیٰ
 
Last edited:
Top