(75)معطوف

فاطمہ طاہرہ

وفقہ اللہ
رکن
بسم اللہ الرحمن الرحیم
اَلْحَمْدُ لِلہِ الَّذِیْ ہَدَانَا لِہٰذَا وَ مَا کُنَّا لِنَہْتَدِیَ لَوْلاَ اَنْ ہَدَانَا اللّٰہُ
رَبِّ اشۡرَحۡ لِىۡ صَدۡرِىۙ‏ وَيَسِّرۡ لِىۡۤ اَمۡرِىۙ‏ وَاحۡلُلۡ عُقۡدَةً مِّنۡ لِّسَانِىۙ‏ يَفۡقَهُوۡا قَوۡلِى
رَبِّ يَسِّرْ وَ لَا تُعَسِّرْ وَ تَمِّمْ بِالْخَيْرِ

معطوف:
وہ تابع ہے جو متبوع کے بعد بواسطہ حرف عطف آئے۔ متبوع معطوف علیہ جبکہ تابع معطوف کہلاتا ہے۔ مثلا:
اللہ خالق السماوات و الارض
ان الصّفا والمروۃ من شعائر اللہ

حرف عطف نو(9) ہیں۔
و، ف، ثمّ، او، حتی، ام، لا، لکن، بل
  • الواؤ: یہ صرف اپنے سے پہلے اور بعد والے کو شریک کرنے اور جمع کرنے کا کام دیتا ہے۔ جیسے: جاء زید و علی۔
اس میں ترتیب کا لحاظ نہیں کہ کون پہلے آیا اور کون بعد میں۔
  • الفاء: یہ ترتیب اور تعقیب کے لیے ہے یعنی پہلے نے پہلے اور دوسرے نے فورا ہی اس کے بعد کام کیا ہے، جیسے جاء زید فعلیّ
  • ثم: یہ ترتیب اور تراخی دونوں کو بیان کرتا ہے یعنی پہلے نے پہلے کام کیا اور دوسرے نے اس کے بعد مگر تاخیر سے، جیسے، جاء زید ثم علی۔
  • او: مختلف معنوں میں استعمال ہوتا ہے، مثلا
اختیار دینے کے معنی میں، جیسے اقرا صفحۃ او صفحتین
شک کے معنی میں، جیسے، قالو لبثنا یوما او بعض یوم
  • حتی: غایت اور انتہاء بیان کرنے کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ جیسے خرج المدرّسون حتی المدیر
  • ام: اس کی دو قسمیں ہیں۔ پہلا ام متصلہ ہے جس کا ما قبل اور ما بعد آپس میں متصل ہوتے ہیں اور اس سے پہلے ہمزہ تسویہ یا ہمزہ استفہام ہوتا ہے جس کے ذریعے سے دو چیزوں میں سے ایک کی تعیین کے بارے میں سوال کرنا مقصود ہوتا ہے۔ جیسے ا مسافر زید ام حامد (کیا مسافر زید ہے یا حامد)
جبکہ دوسرا ام منقطعہ ہے جو دو مستقل جملوں کے درمیان واقع ہوتا ہے اور ان میں سے ہر ایک جملہ معنی کے اعتبار سے مختلف ہوتا ہے۔ لہذا یہ بل کے معنی ادا کرتا ہے۔
وَاِذَا تُتۡلٰى عَلَيۡهِمۡ اٰيٰتُنَا بَيِّنٰتٍ قَالَ الَّذِيۡنَ كَفَرُوۡا لِلۡحَقِّ لَـمَّا جَآءَهُمۡۙ هٰذَا سِحۡرٌ مُّبِيۡنٌؕ‏۔ اَمۡ يَقُوۡلُوۡنَ افۡتَرٰٮهُ‌ؕ قُلۡ اِنِ افۡتَرَيۡتُهٗ فَلَا تَمۡلِكُوۡنَ لِىۡ مِنَ اللّٰهِ شَيـــًٔا‌ؕ هُوَ اَعۡلَمُ بِمَا تُفِيۡضُوۡنَ فِيۡهِ‌ؕ كَفٰى بِهٖ شَهِيۡدًاۢ بَيۡنِىۡ وَبَيۡنَكُمۡ‌ ؕ وَهُوَ الۡغَفُوۡرُ الرَّحِيۡمُ‏ (سورۃ الاحقاف آیت 7، 8)
  • لا: اس حرف کے ذریعے سے معطوف سے حکم کی نفی ہوتی ہے۔ جیسے، جاء زید لا حامد۔ قرءت کتابا لا جریدۃ۔
یہ چند شرائط کے ساتھ عطف کے معنی ادا کرتا ہے۔ مثلا معطوف مفرد ہو جملہ نہ ہو۔ اس سے ما قبل کلام منفی نہ ہو۔ اس کے ساتھ دوسرا حرف عطف نہ ہو۔
  • لکن: یہ ماقبل سے وہم دور کرنے کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ جیسے ما جاءنی زید لکن حامد۔
اس سے پہلے بھی معطوف مفرد ہونا چاہیے، ما قبل کلام منفی ہو، اور لکن واؤ کے فورا بعد واقع نہ ہو۔
  • بل: اس کا استعمال دو طرح ہوتا ہے۔
مثبت کلام اور فعل امر کے بعد معطوف علیہ سے حکم سلب کر کے وہی حکم معطوف کے لیے ثابت کرنے کا فائدہ دیتا ہے۔ جسے اضراب کہتے ہیں۔ جیسے
دخل البیت زید بل حامد
اکتب رسالۃ بل برقیۃ

اور اگر بل نفی یا نہی کے بعد واقع ہو تو مکمل طور پر لکن کی طرح ہوتا ہے۔
ما جاء زید بل حامد


و آخر دعوانا أن الحمد لله رب العالمين والصلاة والسلام على أشرف الانبیاء و المرسلين سيدنا محمد و على آله وصحبه أجمعين


والسلام
29-04-2023
 
Top