نکاح اور ہمارے رویے

مفتی ناصرمظاہری

کامیابی توکام سے ہوگی نہ کہ حسن کلام سے ہوگی
رکن
سنوسنو

نکاح اور ہمارے رویے

(ناصرالدین مظاہری)
14/شوال المکرم 1444ھ

جیسے جیسے زمانہ آگے بڑھ رہاہے ویسے ہی ترقی کے نام پر فضولیات بھی اپنے پیر پسارتی جارہی ہیں، کس کس کو یاد کیا جائے کس کس کو چھوڑ دیا جائے، جب پورا جسم درد اور کرب سے بے قرار ہو تو بتانا مشکل ہوجاتا ہے کہ اصل درد کہاں اور کس جگہ ہورہا ہے، ہمارے معاشرے کا یہی حال ہے مانا کہ اسلام ایک صاف شفاف مذہب ہے لیکن یہ بھی جانا کہ اسی اسلام کے پیروکار منظر بدلنے کے ساتھ ہی اپنے سر بدلتے جارہے ہیں۔ علاقے اور موقعے پر وقوعے مشاہد ہیں، مسلمان وہی ہیں، تعلیمات وہی ہیں، دین اور قرآن وہی ہے لیکن منبر و محراب کی صدائیں اور نوائیں نقارخانے میں کوئی انقلاب بپا نہیں کرپا رہی ہے۔ "جتنے کنکر اتنے شنکر "والی کہاوت صادق آرہی ہے ، شیطانی رسوم کے پنجے انسانی حلقوم کو جکڑ چکے ہیں، بولنے والے بولتے بولتے تھک چکے ہیں ان کا گلا خشک ہوچکا ہے،ان کی پلکیں سوکھ چکی ہیں، ان کی آہیں اور کراہیں بے سود و بے اثر ہورہی ہیں، مصلحین معاشرہ کے گھر اور در بھی محفوظ نہیں رہے، البتہ وہاں رسموں نے خوشنما الفاظ اور پرکشش تعبیرات کا لباس فاخرہ زیب تن کرلیا ہے۔

اماموں کی امامت ایک باوقار منصب ہے لیکن مقتدیوں نے اپنے مقتداؤں کا ہی ناطقہ بند کردیا ہے، ان کے اسباب کا سدباب کردیا ہے،ان کی زندگیوں کو محدود ور ان کے پر پرواز کو محبوس کردیا ہے، مساجد جو سکون کی جگہیں ہیں ائمہ کا وہاں پر مقتدیوں کے سوتیلے رویہ کی وجہ سے دم گھٹتا ہے کیونکہ ان کے پس رو پیش رو بنے جارہے ہیں، جو لوگ نماز میں امام کی ایک ایک حرکت کے محتاج ہیں وہ ہی لوگ اپنے اماموں کا ناطقہ بند کرتے دکھائی دیتے ہیں۔

ایک صاحب کو متولی نے صرف اس جرم میں مسجد نکالا کردیا کیونکہ امام نے اس متولی کے کسی حریف سے سلام و ملاقات کرلی تھی۔

پنج وقتہ نمازوں کے علاؤہ مسجد کی دیکھ ریکھ، اذان، نماز جنازے، وضو خانے، پیشاب خانے، بیت الخلوں تک کی نگرانی ،مسئلے مسائل، ملی معاملات، قومی خدمات، آپسی نزاعات کے سلجھانے، صفوں کی درستی ، بجلی وپنکھوں، موٹر و میٹر کی بندشوں کے چکر میں امام صاحب گھن چکر بن جاتے ہیں ، نوبت یہاں تک پہنچ جاتی ہے کہ اپنے بال بچوں تک کی تعلیم و تربیت سے محروم ہوجاتے ہیں ادھر بچوں کی نظروں میں باپ کو لاپرواہ سمجھاتا یے، سو خصموں کو خوش رکھنے کی اس کوشش میں معاملہ بگڑتا چلاجاتاہے۔

اصل میں اماموں نے اپنے وقار اور مرتبے سے اترکر "مجرمانہ عاجزی" کا معاملہ کرکے ماحول کوبگاڑ کر رکھ دیاہے۔کس چیز نے مجبور کیا ہے کہ آپ سر تسلیم خم کریں، غلامی کا زریں پٹہ اور محکومی کا قلادہ اپنے گلے میں لٹکائیں،جی حضوری، چاپلوسی، شریعت کی تعلیمات سے بڑھ کر عزت اور احترام کرنے سے متکبرین کی گردنیں خشک لکڑی کی طرح تن جاتی ہیں انھیں اتنی ہی عزت دو جتنے کے وہ لائق ہیں،ان کی نااہلی آپ کی نظروں میں بھی نااہلی رہنی چاہیے،ان کی خامیاں آپ کو نظر اور محسوس وملحوظ رہنی ضروری ہیں۔انزلوا الناس منازلھم کا یہی مطلب ہے ۔ورنہ گھمنڈیوں کے سامنے عاجزی سے پیش آنا اور ان کی جی حضوری کرنا ان کو مزید گھمنڈی بنادیتا ہے یہ گھمنڈی گھمنڈ کے آتے ہی پاکھنڈی ہوجاتے ہیں اور اس طرح نااہلوں کو آگے بڑھنے کا موقع مل جاتا ہے پھر رفتہ رفتہ آہستہ آہستہ اپنی دولت کے زور اور چرب زبانی کے شور میں متولی اور ممبر کمیٹی بن کر اپنی دھونس بے چارے امام پر جماتے ہیں،موٹر چلانے میں دیرہوجائے تو جرم بروقت بند نہ ہوسکے تو جرم ،خود اپنی ذات کے لئے جماعت کے بعد مسجد پہنچ کر پنکھا چلاکر نماز پڑھ کر پنکھا بند کئے بغیر چلے جاتے ہیں تو امام صاحب صبر وتحمل سے کام لیتے ہیں اور مخالف سمت میں نرمی کا کوئی رویہ نہیں گرمی کا شعلہ جوالہ دکھائی دیتا ہے ۔

مجھے ایک مسجد کے لوگوں نے بتایا کہ نکاح کے معاوضہ سے بچنے کے لئے بعض کوا صفت اور لومڑی نما چالاک افراد اپنے ساتھ اپنے گھریلو یا اپنے اہل تعلق مولوی بارات کے ساتھ لے آتے ہیں تاکہ اس مولوی سے نکاح پڑھوا کر نکاح کی رقم بچائی جاسکے یا وہاں کی مسجد کے امام کو نہ دینی پڑے۔ وہ مولوی یہ بھی نہیں سوچتا کہ اس کے اس عمل سے کسی مسجد کے پیش امام کا نقصان ہوگا۔

بعض لوگوں کو میں نے دیکھا ہے کہ نکاح کسی مشہور بزرگ، معروف شخصیت یا شناسا مولوی سے پڑھواتے ہیں یہاں تک تو ٹھیک ہے دوسرا پہلو بڑا افسوسناک ہے کہ اس عالم بے بدل کو مقام تقریب تک پہنچنے میں اتنی تاخیر ہوجاتی ہے کہ بہت سے مہمانان کھائے پئے بغیر ہی چلے جاتے ہیں کیونکہ اکثر جگہوں پر نکاح کے بعد ہی کھانا کھلایا جاتاہے۔
یہ تاخیر وجہ اذیت و تکلیف ہے اس تاخیر کا ذمہ دار کون ہے ؟ داعی، مدعو، یا مہمانان کرام؟

بے شک آپ کسی بھی بزرگ سے نکاح پڑھوائیں لیکن خود بھی وقت کا خیال رکھیں اور ان صاحب کو بھی وقت پر حاضر ہونے کی تاکید کریں ،ساتھ ہی آپ متبادل کا نظم بھی رکھیں تاکہ تاخیر کی صورت میں وعدہ خلافی سے بچا جاسکے اور بروقت نکاح کے اس عمل سے ان بزرگ کو بھی معلوم ہوسکے کہ ستاروں سے آگے جہاں اور بھی ہیں۔

میں تحدیث نعمت کے طور پر عرض کرتاہوں کہ مجھے کہیں بھی نکاح پڑھانے کے لئے بلایا جاتاہے تو نکاح پڑھادیتاہوں اور وہاں کی مسجدکے امام صاحب کو وہاں کے معمول سے زیادہ پیسے دلواتا ہوں،کسی کے حق کو مارنے کی عادت ہے نہ مزاج ہے فللہ الحمد۔
 
Top